سبت کیا ہے ؟

image_pdfimage_print

سبت کیا ہے ؟

سبت عبرانی لفظ شابات کی عربی شکل ہے ۔ لفظ شابات یا سبت یوں تو نہایت گہرے معانی رکھتا ہے تاہم عام طور پر اس سے مراد ’’خاص آرام کا دن ‘‘لی جاتی ہے ۔عبرانی لغت کے مطابق اس سے مراد ٹھہرنا ،روکنا، دستبراد ہونا فارغ ہونا وغیرہ ہیں (دیکھو اسٹرائنگز H7673) کتابِ مقدس میں یہ لفظ سب سے پہلے پیدائش 2:2 میں نظر آتا ہے جہاں ااسکا ترجمہ فارغ ہوا کیا گیا ہے ۔کتاب مقدس میں سبت کا اہتمام کرنے کا حکم ہمیں خروج۱۶باب سے پہلے نظر نہیں آتا ہے تاہم یہودی روایات کے مطابق بنی اسرائیل قدیم ہی سے شابات کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ تالمودی روایات کے مطابق جس زمانہ میں بزرگ موسیٰ فرعون کے محل میں شاہانہ زندگی گُذارا کرتے تھے، ان ایام میں انہونے فرعون کے سامنے یہ تجوئز رکھی کہ عبرانیوں کو ہفتہ میں ایک مکمل دن آرام کرنے کیلئے دیا جائے ۔( دیکھو: تالمودسے اقتباسات ،مولف: ایچ پیلانو، مترجم: اسٹیفن بشیر، ناشرین مکتوبہ عناویم صفحہ نمبر ۹۰)

سبت کا مقصد

سبت سے متعلق ربِ جلیل یہوواہ باریٰ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اسکو یاد کرکے پاک مانا جائے ، اس میں کام کاج نہ کیا جائے نہ ہی اپنے ملازمین یا نوکر چاکر سے کام لیا جایا (دیکھو خروج 8:20-11) اور اسکی وجہ ربِ جلیل توریت شریف میں یہ بتاتے ہیں کہ انہونے چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق کی اور ساتوں دن وہ تخلیقِ کائنات سے فارغ ہوئے اور انہونے آرام کیا (دیکھو خروج 11:20) بہت سے نقادین بائبل اعتراض کرتے ہیں کہ ربِ جلیل جو تھکتا نہیں وہ کیسے آرام کرسکتا ہے ؟ یہودی مفسر راشی کے مطابق یہاں آرام سے مراد نمونہ ہے : توراہ کے دے جانے کے وقت بنی نوع انسان کو یہ نمونہ دیا گیا کہ اس مقدس اور بابرکت دن باریٰ تعالیٰ اپنے تمام کام سے فارغ ہوئے اورانہوں نے اپنے کام سے ٹھہرکر اس پر نظر کی لہٰذا مومن ایمانداروں کو بھی اس روز اپنے معمولاتِ زندگی میں سے ٹھہر کر کائنات پر نظر کرنی چاہے اور اس میں موجود تخلیقات پر نظر دھوڑانی چاہے اور سوچنا چاہے کہ باریٰ تعالیٰ نے اسکو زمین پر کیوں بھیجا ۔ (دیکھو راشی کی تفسیر برائے خروج 11:20)

سبت پر چند اعتراضات اور غلط فہمیاں:

مروجہ کرسچنٹی میں سبت کو لیکر کئی غلط طرح کی تعلیمات رائج ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ’’ سبت ہفتہ کا دن ہے ‘‘ مروجہ گیگورین کلینڈر میں دن رات 12 بجے سے شروع ہوتا ہے یعنی کرسچنٹی کہ مطابق سبت جمعہ کی رات 12 بجے سے لیکر ہفتہ کہ رات 12 بجے تک ہے ۔ جب کہ یہ سبت کو ناپنے کا یہ غیر بائبلی طریقہ ہے ، کتابِ مقدس میں ایک دن غروبِ آفتاب سے لیکر دوسرے غروبِ آفتاب تک شمار کیا جاتا ہے ( دیکھو پیدائش 4:1) یعنی درحقیقت سبت کا دن جمعہ کی شام غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور اگلے روز یعنی ہفتہ کے غروبِ آفتاب کے وقت ختم ہوتا ہے ۔

المسیح (سلام علینا ) اور سبت مقدس:

دوسری طرف کرسچنٹی میں یہ تعلیم گھر کر گئی ہے کہ تجسمِ باریٰ تعالیٰ جناب یہوشوعا المسیح (سلام علینا) نے سبت کے دن کو منسوخ کردیا یا مومن ایمانداروں کوباریٰ تعالیٰ کی طرف سے دے جانے والے حکم کو ختم کرکے غالباً اُس میں کسی قسم کی آسانی پیدا کردی ہے۔ اناجیلِ جلیل میں مندرج جناب المسیح (سلام علینا) کی زندگی کے واقعات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت مسیح (سلام علینا) کا دستور تھا ۔(دیکھو متی 8:12-10/مرقس 12:1/مرقس 2:1-3 /مرقس 4:6/لوقا 16:4/لوقا 31:4-38/لوقا 6:6/لوقا 13:10) آپ (سلام علینا) اپنے دستور کے مطابق یہودی عبادت خانہ جایا کرتے اور وہاں تعلیم و تربیت کیا کرتے تھے ، ایسے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایک شخص جسکا سبت دستور ہو سبت کو منسوخ یا موقوف کرتا ہے عقل مندی ہرگیز نہیں ۔ بہت سے ایسے لوگ جو سبت کے دن سے بغض رکھتے ہیں اناجیلِ جلیل سے ایسے حوالاجات تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے پائے جاتے ہیں جن میں کسی بھی طرح المسیح (سلام علینا) سبت کی خلاف ورزی کرتے نظر آئیں اس مد میں یہ حضرات اناجیل میں سے ایسے حوالاجات پیش کرتے ہیں جن میں فقیہ فریسی آپ (سلام علینا) پر سبت کی خلاف ورزی کا الزام لگائے پائے جاتے ہیں ۔ مثلا سبت کے روز شفا دینا (متی 12:9-14/مرقس 1:3-6/ لوقا 6:6-11/لوقا10:13-17)سبت کے روز گندم کی ڈالیاں توڑ کر کھانا (متی 8:1-12/مرقس 23:2-28/لوقا 6:1-5)سبت کے دن چارپائی اُٹھانے کا حکم دینا (یوحنا 1:5-18) وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

کتابِ مقدس کے باقائدہ قاری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کتابِ مقدس میں کسی بھی ایک جگہ یہ ذکر نہیں ملتا ہے کہ سبت کے دن شفا نہیں دی جاسکتی ہے ، اہل یہود کے فقہ شرع نے شریعت خداوندی کی مختلف تفاسیر کرکے شرعِ خداوندی کو اس قدر سخت بنادیا تھا کہ ایک عام انسان اسکو بوجھ سمجھنے لگا، یہودی علما ء نے سبت کی تفسیر کرتے ہوئے کچھ قوانین بنائے جنکو یہودی فقہ کی زُبان میں’’ میلاخیوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھو قاموس الکتاب صفحہ نمبر ۵۰۰) اِن میلاخوت کیمطابق ایک عام یہودی سبت کے دن دو ٹانکے نہیں لگا سکتا ، گانٹھ نہیں لگاسکتا نہ ہی گانٹھ کھول سکتا ہے اور تو اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لئے جاسکتا ہے ۔ (مذید دیکھو تالمود ٹریک شابات) سبت کے روز گندم کی ڈالیاں توڑ کر مسل کر کھانا ایسا کام نہیں جو معمولاتِ زندگی کا حصہ ہو تالمودی حلاکہ (یہودی علماء کی وضح کردہ نمونہ زندگی) کے مطابق کوئی شخص اگر کھیت سے گُذرتے ہوئے ایسا کرتا ہے تو وہ سبت کی حکم عدولی کرتا ہے، جیسا کہ متی 12، مرقس 2 اور لوقا 6 میں فقی فریسی مسیح (سلام علینا) کے حواریوں پر الزام لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ باریٰ تعالیٰ کا حکم نہیں کہ اگر آپ کسی کھیت سے گذر رہے ہیں اور اچانک آپ گندم کی بالی توڑ کر کھالیں تو آپ نے سبت کی روح کو مسخ کردیا ہے یا آپ نے سبت کا حکم توڑ ڈالا ہے ،یہ تو یہودی علماء کی تفسیر ہے جو انہونے سبت کے حوالہ سے کررکھی ہے۔ اور اس واقعہ میں بھی وہ اپنی تفسیر کے مطابق مسیح (سلام علینا) اور انکے حواریوں کو خود ساختہ سبت کی خلاف ورزی کا مرتکب پاتے ہیں۔ ایسے ہی سبت کے روز شفا کے حوالہ سے ہے مروجہ یہودیت میں بھی کئی مکتبہ فکر ایک دوسرے سے بحث کرتے پائے جاتے ہیں، ایسے ہی المسیح (سلام علینا) کے زمانہ میں اسکول آف ہلل (مدرسہِ ہلیل) اور اسکول آف شیمائی (مدرسہ شمائی) کے درمیان تنازعہ تھا ، ایک اسکو ل سبت کے روز شفا کو معیوب سمجھتا تھا تو دوسرا اسکو نیکی سے تشبیہ دیتا تھا ۔ (دیکھو جوئش انسائیکلوپیڈیا برائے بیت ہلل بیت شیمائی) اناجیلِ جلیل میں جناب المسیح (سلام علینا) نے بھی سبت کے روز شفا کو نیکی ٹھہرایا ہے اور المسیح (سلام علینا) کے مخالفین کے پاس سبت کے دن شفا کو برائی یا سبت کی حکم عدولی ثابت کرنے لائق دلائل نہ تھے اسلئے ہر بار وہ اپنا سا منہ لیکر رہ جاتے۔ باقی رہا سوال ’’چارپائی اُٹھانے کا ‘‘ تو اس حوالہ میں پاکستانی پنجابی چار پاؤں والے پائی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہاں جو یونانی زُبان کا لفظ کیرابتوس استعمال ہوا ہے اسکے معنی گدا ، رِلی ،یا بیچھونی کے ہیں۔ (دیکھیو اسٹرائنگزG2895) یہاں بھی یہودی علما ء نے مسیح (سلام علینا ) پر سبت کے روز شفا دینے کے حوالہ سے سبت کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگانے کی کوشش کی ۔ سو ثابت ہوا کہ تجسم باریٰ تعالیٰ یہوشوعا المسیح (سلام علینا) توریت شریف میں دے جانے والے حکم کو پوری طرح بجالاتے تھے اور یہ انکی زمینی زندگی کا دستور تھا (دیکھو لوقا 16:4) وہ کسی بھی طرح سبت توڑ کر خلاف شرع کام نہیں کرسکتے بائبل مقدس کے مطابق خلافِ شرع کام گناہ ہے (مقابلہ کرو استثنا 2:4 / 1 یوحنا 3:4)

جنابِ پولوس (رضی الہٰ تعالیٰ عنہ ) اور سبت:

سبت سے بغض رکھنے والے مسیح (سلام علینا) پر یہودی فقہ کی طرح مخالف شرع اور شریعت توڑنے کا الزام لگانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں، بلکہ غیر اقوام میں باریٰ تعالیٰ کے ایلچی جنابِ شاؤل (پولوس) رضی الہٰ تعالیٰ عنہ پر بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہونے باریٰ تعالیٰ کی شریعت اور سبت کے خلاف تعلیم دی اور وہ عہد تجدید میں شامل جناب پولوس کے خطوط میں سے ایسی آیات تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس میں انہونے سبت کے خلاف تعلیم دی ہو مثلا: کسی دن کو دوسرے دن پر فوقیت دینا یا اٖفضل جانا (رومیوں5:14) مقرر دنوں کو ماننا (گلتیوں 10:4) سبت کا الزام لگانا کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا عکس ہے (کلسیوں 16:2-17) وغیرہ وغیرہ ایسے حوالاجات ہیں جنکو سبت اور شرعِ خداوندی سے بغض رکھنے والے بنا سوچے سمجھے دلیل بناکر پیش کرتے رہتے ہیں ۔مذکورہ حوالاجات پر میشاخ تھیولاجیکل ویو کے پلٹ فارم سے جناب حنین وقاص خان تحقیق مقالے رقم کرچکے ہیں(رجوع کریں) ہم یہاں انکو اختصار کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ رومیوں 14:5 کا حوالہ دینے والے حضرات نے محض رومیوں 14 میں لفظ ’’دن کو افضل جانتا ‘‘پڑھا اور سمجھ لیا کہ یہاں سبت مقدس کی بابت بات ہورہی ہے جب کہ اگر رومیوں 14 کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں جنابِ پولوس ایسے حضرات سے مخاطب ہیں جو کسی مخصوص دن میں کھانے پر پابندی لگاتے ہیں مثلا مروجہ کرسچنٹی میں عام تاثر ہے کہ 40 روزوں کے دوران سن+ڈے (سنڈے) کو روزہ نہیں رکھاجاسکتا ہے ۔ پولوس رسول رومیوں کی کلیسیا میں گھر کرتی جارہی ایسی ہی کسی تعلیم کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’کوئی تو ایک دن کو دوسرے سے افضل جانتا ہے اور کوئی سب دنوں کو برابرجانتا ہے ہر ایک اپنے دل میں پورا اعتقاد رکھے ۔جو کسی دن کیلئے جانتا ہے وہ خداوند کیلئے مانتا ہے اور جو کچھ کھاتا ہے خداوند کیلئے کھاتا ہے کیونکہ وہ خداوند کا شکر کرتا ہے اور جو نہیں کھاتا ہے وہ بھی خداوند کے واسطے نہیں کھاتا ہے اور خداوند کا شکر کرتا ہے (رومیوں 5:14-6)یعنی یہاں سبت کی بابت بات ہی نہیں کی گئی ہے ۔ دوسرا حوالہ ہے گلتیوں 10:4 یہاں پولوس رسول لکھتے ہیں ’’ تم دنوں اور مہینوں اور مقرر وقتوں اور برسوں کو مانتے ہو‘‘ مخالفینِ سبت و شرع یہ سمجھتے ہیں کہ پولوس رسول نے یہاں باریٰ تعالیٰ کی مقرر کردیا عیدوں بشمول سبت کے حوالہ سے بات کی ہے تاہم اگر اس آیت کو بھی سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات غیر اقوام کے مقررہ دنوں، مہینوں مقررہ اوقات اور برسوں کے حوالہ سے پولوس رسول فکر مند نظر آتے ہیں آیت 8 اور 9 کے مطابق :لیکن اس وقت خدا سے ناواقف ہوکر تم ان معبودوں کی غلامی میں تھے جو اپنی ذات میں خدا نہیں ۔ مگر اب تم نے خدا کو پہچانا بلکہ خدا نے تم کو پہچانا تو اُن ضعیف اور نکمی اور ابتدائی باتوں کی طرف کس طرح پھر رجوع ہوتے ہوجن کی غلامی کرنا چاہتے ہو ؟ ‘‘ کیا باریٰ تعالیٰ کے منہ سے برائے راست نکلی باتیں ضعیف ہیں ؟ کیا یہ باتیں نکمی ہیں ؟کیا باریٰ تعالیٰ غیر معبود ہیں یا اپنی ذات میں خدا نہیں اگر تو کوئی ایسا سوچتا ہے کہ پولوس رسول نے باریٰ تعالیٰ کا اورانکے زندہ و جاوید کلام کا یوں تمسخر اُڑایا ہے تو اسکو علاج کی ضرورت ہے ۔ ۔(مذید دیکھو عیدوں کی غلامی از حُنین وقاص خان) اسکے بعد کلسیوں 16:2-17 کا حوالہ پیش کرکے یہ ثابت کرکے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمیں دوسروں کو سبت مقدس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا عکس ہے سو ہمیں اسکا اہتمام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ۔ راقم الحروف کے سامنے جب بھی کسی نے بطور دلیل اس آیت کو پیش کیا بخدا ایسے شخص کی علمی و الہامی قابلیت پر راقم کے پاس ر شک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔ جناب پولوس یہاں بانگ دہل کلیسیا کو بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ : پس کھانے پینے یا عیدنئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے (کلسیوں 16:2) اول تو یہ سمجھ لینا چاہے کہ کسی پر الزام کس صورت میں لگتا ہے ؟ اگر میں نے آپ سے کچھ رقم ادھار لے رکھی اور آپکے بار بار طلب کرنے پر بھی اسکو واپس ادا نہیں کرتا ہوں تو آپ مجھ پر الزام لگانے پر حق بجانب ہیں ، اگر آپ مجھے کوئی ایسی چیز کھاتے دیکھتے ہیں جس کو الہامِ خداوندی نے ممنوعہ قرار دے رکھا ہے تو آپ مجھ پر الزام لگانے پر حق بجانب ہیں ، اسہی طرح اگر آپ مجھے الہامِ خداوندی میں مرقوم عیدوں اور سبت کی پاسداری کرتے نہ پائیں تو اس صورت میں آپ مجھ پر الزام لگاسکتے ہیں ۔ اس آیت میں پولوس رسول آپکو کسی پر کھانے پینے عیدوں اور سبت کے حوالہ سے الزام لگانے سے منع نہیں کرتے بلکہ ان معاملات میں بے الزام رہنے کی تاکید کرتے ہیں کہ انکی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے (مذید دیکھو کلسیوں 16:2-17 پر تحقیقی مقالہ از حنین وقاص خان) سوثابت ہوا کہ سبت مقدس سے بغض کرنے والے افراد نہ تو کتابِ مقدس کے سیاق و سباق کو جانتے ہیں اور نہ اس پر سمجھ کر عمل کرنا چاہتے ہیں یہ محض لفاظی تکرار کرنے اور اپنے ذاتی نظریات کو دوسروں پر مسلط کرکے انکو گمراہ کرنے میں سرگرم ہیں ۔ ایک اور غلط فہمی کہ سبت محض یہودیوں کیلئے ہے کرسچنٹی میں گردش کرتی ہے اس غلط فہمی کی وجہ کتابِ مقدس سے ناواقفیت کے سوا اور کچھ نہیں شرعِ مقدس کے نزول کے وقت باری تعالیٰ نے دیسی اور پردیسی دونوں پر شرع مقدس کو واجب اور لازم قرار دیا (دیکھو گنتی 15:15) اولاً یہوواہؔ باریٰ تعالیٰ اور انکے اکلوتے بیٹے تجسمِ باریٰ تعالیٰ یہوشوعا ہامیشاخ پر ایمان لانے والے غیر اقوام نہیں بلکہ اسرائیل میں پیوست ہوکر ایک ہی مقدس قوم بنتے ہیں (مقابلہ کرو خروج 6:19 ، 1 پطرس 10:2-11 اور رومیوں 11 ) اگر کوئی خود کو ابھی بھی غیر قوم جانتا ہے تو بھی کتابِ مقدس کی تعلیمات سے ابھی تک پوری طرح واقف نہیں دوئم مسیح پر ایمان لانے والے غیر یہودیوں پر بھی شرعِ خداوندی اس ہی طرح واجب ہے جیسے دوسرے یہودیوں پر (دیکھو گنتی 15:15) نیز المسیح (سلام علینا) نے فرمایا سبت آدمی کیلئے بنا ہے (دیکھو مرقس 28:2) ناکہ یہودیوں کیلئے جو مومن ایمان دار ایمان لاچکے وہ سبت اور خدا باریٰ تعالیٰ کے احکام کو ماننے کی پابند ٹھہرتے ہیں ۔نیز المسیح (سلام علینا) نے فرمایا ہے :’’اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے‘‘(دیکھو یوحنا15:14 ) راقم کے نزدیک المسیح(سلام علینا ) کے اس قول کی درست وضاحت یہ ہی ہے کہ ہم اپنے اعمال سے اپنی محبت اُس سے ثابت کریں ۔

سبت اور برکات:

پہلے پہل خداوند باریٰ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خروج 16 میں سبت کو قائم کرنے کا حکم فرمایا ۔ باریٰ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بیابان میں ہر طرح کی نعمت سے نوازا یہاں تک کیاانکے لئے آسمان سے من تک برسا تاہم یہ آسمانی خوارک جسکے بارے میں الہامی روایت ہے کہ یہ فرشتوں کی غذا ہے بروز سبت موقوف ہوجاتا یعنی سبت کے روز اسکا نزول نہ ہوتا (خروج 33:16-35)سبت کے اہتمام کے بارے میں باریٰ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ : اگر تو سبت کے روز اپنا پاؤں روکے رکھے اور میرے مقدس دن میں اپنی خوشی کا طالب نہ ہو سبت کو رحت اور خداوند کا مقدس معظم کہے اور اسکی تعظیم کرے، اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دستبردار رہے ۔ تب یہوواہؔ میں مسرور ہوں گااور میں تجھے دنیا کی بلندوں پر لے جاؤنگا اور تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاونگا کیونکہ یہوواہؔ کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے ۔ (یسعیاہ 13:58-14) سبت کو قائم رکھنے والا مبارک ہے (یسعیاہ 2:56) سبت کے قائم رکھنے والے باریٰ تعالی کے عہد میں شریک ،باریٰ تعالی کے کوہِ مقدس میں اسکی عبادت گاہ میں شادمان ہوں گے (یسعیاہ 4:56-8)

نئے آسمان اور زمین میں سبت:

کتابِ مقدس میں باریٰ تعالیٰ یہوواہ کا فرمان یوں مندرج ہے کہ : اور یہوواہؔ فرماتا ہے جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جو میں بناؤنگا میرے حضور قائم رہیں گے اُسہی طرح تمہاری نسل اورتمہارا نام باقی رہے گا ۔اور یوں ہوگا یہوواہؔ فرماتا ہے کہ ایک چاند سے دوسرے چاند تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشرعبادت کیلئے میرے پاس آئے گا (یسعیاہ 23:66-24)

تحریر: اعجاز رحمت