پچھلی دفعہ ہم نے پڑھا تھا کہ خداوند نے بنی اسرائیل کو کہا کہ پہلوٹھے خداوند کے ہیں۔ آج ہم اسکا مزید مطالعہ کریں گے۔
ہم نے پڑھا تھا کہ خداوند نے موسیٰ کو ہدایت دی تھی کہ جب وہ لوگ وعدے کی سرزمین میں داخل ہوں تو وہاں عید فسح اور عید فطیر کو منائیں اور اپنے بیٹے کو یہ بتائیں کہ وہ اس دن کو اسلئے مناتے ہیں کہ خداوند انھیں ملک مصر سے نکال لایا۔ خداوند نے کہا (خروج13:9سے 10):
اور یہی تیرے پاس گویا تیرے ہاتھ میں ایک نشان اور تیری دونوں آنکھوں کے سامنے ایک یادگار ٹھہرے تاکہ خداوند کی شریعت تیری زبان پر ہو کیونکہ خداوند نے تجھ کو اپنے زورِ بازو سے ملکِ مصر سے نکالا۔ پس تو اسی رسم کو اسی وقتِ معین میں سال بسال مانا کرنا۔
خداوند کے اس حکم پر بہت سے یہودی /میسیانک یہودی سختی سے چلتے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ وہ یہ عیدیں مناتے ہیں بلکہ ساتھ ہی میں اپنے ہاتھوں اور ماتھے پر نشانی کے طور پر چمڑے سے بنا ہوا پٹا اور اس پر بنا ہوا ایک چھوٹھا سا ڈبا نما( تفیلا) دعا کے وقت پہنتے ہیں جس میں خروج 13:1 سے 10 اور 11 سے 16 آیات بمعہ استثنا 6:4 سے 9 اور 11:13 سے 21 کی آیات درج ہوتی ہیں۔ اسکو عبرانی میں "تفلین ، תפילין ، Tefillin” کہا جاتا ہے۔ یہ کافی مہنگا بنتا ہے اور کافی مہنگا بکتا ہے۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ یہ خالص چمڑے کا بنا ہوا ہوتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس میں درج آیات توریت سے ہوبہو ایک خاص قسم کے کاغذ پر ہاتھ سے درج کی گئی ہوتی ہیں۔ یہودی مرد پہلی مرتبہ اسے اپنے "بار متزوا، Bar Mitvah ” پر پہنتے ہیں۔ بار متزوا کے بارے میں پھر کبھی بات ہوگی۔ یشوعا کے زمانے میں بھی تمام یہودی مرد صبح کی عبادت کے وقت اسکو پہنتے تھے کیونکہ ہمیں متی 23:5 میں حوالہ نظر آتا ہے جس میں لکھا ہے۔
وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کو کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تعویذ بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔
اس آیت میں جہاں تعویذ درج ہے وہ عبرانی زبان میں لفظ "تفلین” ہے اور پوشاک کے کنارے سے مراد دعائیہ چادر ہے جسکو عبرانی میں "تلیت، Tallit” کہا جاتا ہے جسکے کنارے پر لمبے دھاگے بندھے ہوتے ہیں ان کو عبرانی میں "ضیضیت، Tzitzit” کہا جاتا ہے۔ یشوعا نے تلیت اوڑھی اور اسکی پوشاک کے کناروں پر "ضیضیت ” تھی اسکو ہم کلام میں درج متی 9:20 اور چند اور آیات سے بھی جان سکتے ہیں۔ گو کہ ہمیں یہ نہیں علم کہ آیا یشوعا نے کبھی "تفلین” کا استعمال کیا یا نہیں مگر اوپر درج آیت سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان کے خلاف تھے کیونکہ اگر وہ انکے خلاف ہوتے تو خود بھی دعائیہ چادر "تلیت” کا استعمال نہ کرتے۔ یشوعا، فریسیوں کی روحانی خستہ حالت کو بیان کر رہے تھے جو کہ تمام رسموں پر سختی سے عمل کرتے تھے مگر انکے دل خداوند سے دور تھے۔ یہ تعویذ عورتیں نہیں باندھتی بلکہ صرف مرد روزانہ صبح دعا کے وقت باندھتے ہیں یا پھر کچھ اور خاص موقعوں پر بھی مگر سبت والے دن نہیں باندھتے۔اسکو موسویٰ شریعت کا حصہ کہا جاتا ہے مگر مت بھولیں کہ یہ شریعت موسیٰ کی دی ہوئی نہیں بلکہ خداوند کی دی ہوئی ہے جو کہ موسیٰ کے ذریعے بنی اسرائیل کو بیان کی گئی۔
خداوند نے چوپایوں کے پہلوٹھوں کو فدیہ میں دینے کو کہا یعنی کہ قربان کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ گدھے قربانی کے لئے ناپاک جانوروں میں ہیں اسلئے اسکے بدلے میں برہ کو قربان کرنے کا کہا گیا یا پھر اسکی گردن توڑ دینے کا حکم ہے۔ گردن توڑنے کا حکم اسلئے دیا گیا تھا کہ اگر گدھے کے پہلوٹھے میں کسی قسم کا پیدائشی جسمانی نقص تھا تو وہ بجائے اسکا فدیہ دینے کے اسکو مار سکتے تھے۔ برہ انکے لئے ہر لحاظ سے قیمتی ہی تھا کیونکہ خداوند کی حضوری میں صرف اور صرف بے عیب برہ ہی قربانی کے لئے پیش کیا جا سکتا تھا۔ خداوند نے یہ حکم دے کر کسی قسم کا ظلم نہیں ڈھایا تھا بلکہ اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے ایسا کہا تھا۔ بنی اسرائیل کے پہلوٹھوں کے فدیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ خداوند کے کام کے لئے مقدس ٹھہرائے جائیں ۔ میں نے پچھلے حصے میں ذکر کیا تھا کہ ہم آگے پڑھیں گے کہ بعد میں خداوند نے اسکے لئے صرف اور صرف لاوی قبیلے کو چن لیا تھا اور پہلوٹھوں کے فدیہ کے بدلے میں 5 چاندی کے شقال (1 شقال 25 گرام ہے) دے کر چھڑوایا جاسکتا ہے (گنتی 3 اور 18)۔ ہم یشوعا کے بارے میں جان سکتے ہیں کہ چونکہ وہ لاویوں کے قبیلے میں سے نہیں تھے اسلئے وہ مریم اور یوسف کے ساتھ جب ہیکل کو گئے (لوقا 2:23 اور 27) تو اسکا مقصد پہلوٹھے کا فدیہ دینا تھا۔ مریم نے شریعت کے مطابق اپنے پاک ہونے کے33 دن پورے ہونے کے بعد یشوعا کو خداوند کی ہیکل میں پیش کیا تھا۔ اگر تو ہم یشوعا کے پیچھے چلنے والوں میں سے ہیں تو ہم پر آج بھی شریعت کی باتیں لاگو ہوتی ہیں۔ ہم ان باتوں کو آگے بھی کچھ تفصیل میں پڑھیں گے ۔ اس آرٹیکل میں آپ کے لئے فی الحال اتنا ہی علم کافی ہے۔
خداوند نے اس حکم کو نشانی کے طور پر یاد کرکے رکھنے کا حکم اس باب میں ایک بار نہیں دو بار دیا ہے۔ اسکے بعد ہم پڑھتے ہیں کہ کہنے کو تو کنعان کی سر زمین میں داخل ہونے کا ایک نزدیکی راستہ بھی تھا مگر خداوند نے بنی اسرائیل کو اس راستے سے فلستیوں کے سبب سے لے کر جانا مناسب نہیں سمجھا تاکہ بنی اسرائیل لڑائی بھڑائی دیکھ کر واپس ملکِ مصر کو لوٹ نہ جائیں۔ بیابان میں کونسا راستہ اختیار کرنا تھا اسکے بارے میں صرف خداوند کو علم تھا ۔ انھیں خداوند پر بھروسہ رکھ کر چلنا تھا۔
آپ کو شاید یشوعا کی بتائی ہوئی بیج بونے والے کی تمثیل یاد ہو (متی 13 باب)۔ اسکو کلام میں سے خود بھی پڑھیں تاکہ آپ اسکو خروج کی اس کہانی میں جان سکیں کہ کیوں ایسا راستہ خداوند نے اپنے لوگوں کے لئے چنا۔
موسیٰ نے یوسف کی دی ہوئی قسم کو یاد رکھا (پیدایش 50:25) اور وہ اسکی ہڈیوں کو اپنے ساتھ لے کر ملک مصر سے نکلے۔ خداوند انکو دن کو راستہ دکھانے کو بادل کے ستون میں اور رات کو روشنی دینے کے لئے آگ کے ستون میں انکے آگے آگے چلے تاکہ وہ لوگ دن اور رات دونوں میں چل سکیں۔ ستون جو کہ نہ صرف دن کی روشنی میں نمایاں تھا بلکہ رات کے اندھیرے میں بھی روشن تھا۔ ہم اگلی دفعہ خروج 14 باب کا مطالعہ کریں گے۔
میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ دن رات میری اور آپ کی زندگی میں نمایاں نظر آئیں تاکہ ہم صرف اور صرف انکی قیادت میں چل سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین