آپ کلام میں سے یوناہ کا 3 باب پورا خود پڑھیں ۔
پچھلے باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ یوناہ نے مچھلی کے پیٹ سے خداوند سے دعا کی اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور مچھلی نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا۔ یوناہ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اگر وہ خداوند کے حضور سے بھاگے گا تو خداوند اسکو اپنے سے پاتال تک دور کر سکتا ہے۔ اسکا معجزانہ طور پر ایک بار پھر سے خشکی پر آنا اسی بات کا ثبوت ہے کہ خداوند یہوواہ کے لئے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔
ایک بار پھر سے خداوند کا کلام یوناہ پر نازل ہوا (یوناہ 3:2)
کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جسکا میں تجھے حکم دیتا ہوں۔
وہی کام جس کو کرنے سے پہلے یوناہ خداوند کے حضور سے بھاگ رہا تھا اب خداوند کے کلام کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو چلا گیا۔ نینوہ قدیم شہروں میں اتنا بڑا شہر تھا کہ خدا خود اسکو بڑا شہر کہہ رہا تھا۔ اردو کلام میں لکھا ہے کہ یوناہ کی مسافت تین دن کی راہ تھی۔ پرانے زمانے میں یہ شہر کو ناپنے کا طریقہ بھی تھا۔ الفاظ ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ اسکا سفر تین دن کا تھا مگر یہ شہر کے سائز کو بھی بیان کرتا ہے کہ پورے شہر میں پھرو تو تین دن لگ جائیں، جو کہ اس زمانے میں بہت بڑے شہر کو ظاہرکرتا ہے۔ تبھی یوناہ3:4 میں لکھا ہے کہ یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ یوناہ نے شہر میں مناسب جگہ ڈھونڈی ہوگی کہ نینوہ کے لوگوں کو خدا کا پیغام دے سکے۔ اس نے خدا کے کہنے کے مطابق منادی کی مگر توبہ کی نہیں بلکہ اس بات کی کہ نینوہ شہر چالیس روز کے بعد برباد ہوجائے گا۔
میں نے اپنے کسی پرانے آرٹیکل میں بیان کیا تھا کہ کلام میں "عدد/اعداد” خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ چالیس کلام میں آزمائش یا امتحان کو بیان کرتا ہے۔ یوناہ نے نینوہ کے لوگوں کو یہ نہیں کہا کہ توبہ کرو ورنہ خداوند خدا تمہیں تمہارے شہر کے ساتھ ساتھ برباد کر دیگا۔ اس نے بس یہ کہا کہ چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جائیگا۔ آپ کو شاید پیدائش 18:16 سے 32میں ابرہام کی کہانی یاد ہو جب خداوند نے سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے کا کہا تھا۔ ابرہام نے پھر بھی سدوم اور عمورہ کے لئے خداوند سے رحم مانگا تھا مگر یوناہ کی کتاب میں ہمیں ایسا نہیں ملتا کہ یوناہ نے خداوند سے ایک بار بھی کہا ہو کہ خداوند اگر نینوہ شہر میں چند راستباز لوگ ہوں تو کیا تو پھر بھی نینوہ کو برباد کردیگا۔
نینوہ کے لوگوں کا سب سے بڑا اور اہم دیوتا دجون تھا جسکا ذکر آپ کو پرانے عہد نامے میں نظر آئے گا۔ دجون کا آدھا جسم انسان نما اور دھڑ مچھلی نما تھا۔ یوناہ کو جب مچھلی نے خشکی پر اگلا تھا تو کلام میں یہ نہیں لکھا کہ وہ جگہ کونسی تھی۔ (علما ان تمام باتوں پر بہت بحث کرتے ہیں۔ ) کچھ کا کہنا ہے کہ بہت حد تک ممکن ہے کہ یوناہ نینوہ شہر کے پاس خشکی پر اگل دیا گیا تھا اور اگر نینوہ کے شہر کے لوگوں نے یوناہ کو مچھلی کے منہ سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا اور شہر میں منادی کرتے سنا تھا تو تبھی وہ خدا پر ایمان لائے اور ادنیٰ اور اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھ کر روزہ رکھا یہاں تک کہ بادشاہ نے بھی سن کر اپنے بادشاہی لباس کو اتار کر ٹاٹ اوڑھا اور راکھ پر بیٹھ گیا۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہو گا کہ یوناہ کو مچھلی کے منہ سے نکلتے ہوئے نینوہ کے لوگوں نے دیکھا ہوگا اور تبھی اسکی بات پر دھیان دیا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ساری کی ساری بڑائی/جلال دجون دیوتا کو ملتا نہ کے خدا کو کیونکہ کلام کہتا ہے (استثنا 4:24):
کیونکہ خداوند تیرا خدا بھسم کرنے والی آگ ہے۔ وہ غیور خدا ہے۔
یسعیاہ 42:8 میں لکھا ہے؛
یہوواہ میں ہوں یہی میرا نام ہے۔ میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لئے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لئے روا نہ رکھونگا۔
وہ اپنا جلال کسی دوسرے کو نہیں دیتا تو پھر کیا خداوند یوناہ کےذریعے اس طرح سے اپنا جلال دجون کو دیگا؟
یوناہ 3:1 سے 3 آیات میں جہاں اردو کلام میں خداوند لکھا ہے وہ عبرانی میں "یہوواہ” ہے۔ یوناہ3:5 سے 10 آیات میں جہاں اردو میں خدا لکھا ہے وہ عبرانی زبان میں لفظ "ایلوہیم” ہے۔ میں نے کسی آرٹیکل میں بیان کیا تھا کہ ایلوہیم خدا کے لئے جب استعمال ہوتا ہے تو وہ اسکی تخلیقی صفت کو بیان کرتا ہے۔ نینوہ کے بادشاہ اور تمام ادنیٰ اور اعلیٰ لوگوں نے خدا یعنی ایلوہیم پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی تھی۔ بادشاہ نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ انسان یا حیوان یا گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائےپئے۔ ان تمام نے اپنے آپ کو خداوند کے حضور میں عاجز کیا کیونکہ انھیں یوناہ کے پیغام کا یقین تھا۔ ہم نے یوناہ 1:2 میں پڑھا تھا کہ خداوند نے جب یوناہ کو نینوہ شہر کے خلاف منادی کرنے کا کہا تھا تو اسکی وجہ یہ تھی کہ "انکی شرارت” خداوند کے حضور پہنچی تھی۔ اور نینوہ کے بادشاہ نے جب انھیں عاجز ہونے کاکہا تھا تو اس نے یہ کہا (یوناہ3:8سے9)؛
لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں بلکہ ہر شخص اپنی بُری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔ شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہرِشدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔
انھوں نے اپنی بری روشوں کو چھوڑا اور ظلم وہ ستم کرنے سے باز آئے اس امید کے ساتھ کہ خداوند انھیں ہلاک نہیں کریگا۔ انھیں چالیس دن کا موقع دیا گیا تھا ۔ خدا نے انکی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو اس نے ان پر وہ عذاب نازل نہیں کیا جسکا اس نے کہا تھا۔
شاید آپ نے بھی اس باب کو پڑھ کر یہ بات خاص نوٹ کی ہو کہ نینوہ کے لوگ خدا پر ایمان لائے انھوں نے خدا کے حضور گریہ وزاری کی اور اپنی اپنی بری روش سے باز آئے۔ یسعیاہ 59:1 میں لکھا ہے؛
دیکھو خداوند کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہوگیا کہ بچا نہ سکے اور اسکا کان بھاری نہیں کہ سن نہ سکے۔
یرمیاہ 18:7 سے 8 میں خداوند کہتا ہے؛
اگر کسی وقت میں کسی قوم اور کسی سلطنت کے حق میں کہوں کہ اسے اکھاڑوں اور توڑ ڈالوں اور ویران کروں۔ اور اگر وہ قوم جسکے حق میں میں نے یہ کہااپنی برائی سے باز آئے تو میں بھی اس بدی سے جو میں نے اس پر لانے کا ارادہ کیا تھا باز آونگا۔
اور 1 یوحنا 1:9 میں لکھا ہے؛
اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔
نئے عہد نامے کا پیغام پرانے سے مختلف نہیں۔ یہی خدا کی یکسانیت کو بیان کرتا ہے کہ وہ کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔ نینوہ کے لوگ اسوری تھے۔ وہ خداوند کی چنی ہوئی قوم کا حصہ نہیں تھے مگر انکے توبہ کرنے پر خداوند نے اپنا فضل ان کو دکھایا اور انکو بخش دیا۔
ہم یوناہ کے آخری باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے فضل کا حقیقی معنی سمجھائے، یشوعا کے نام میں۔ آمین