خروج 4 باب – پہلا حصہ

image_pdfimage_print

آپ کلام میں سے 4 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔

پچھلے حصے کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ خدا نے  موسیٰ کو کہا تھا کہ جب وہ مصر میں اپنے عجائب دکھائے گا تب فرعون انکو جانے دیگا۔ خدا نے موسیٰ کو بنی اسرائیل کے بزرگوں سے بات کرنے کو کہا تھا۔ موسیٰ کو  یاد تھا کہ اسکے اپنوں نے اسے رد کر دیا تھا تبھی اسکے دل میں خداوند کا اسکو یہ یقین دلانے کے بعد  بھی ،  کہ وہ اسکے ساتھ رہیگا (خروج 3:12)،    شک تھا کہ  کوئی اسکا یقین نہیں کریگا۔ اس نے کہا کہ وہ کہینگے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا۔   یعقوب کے مرنے کے بعد سے اب تک تقریباً 430 سال گذر چکے تھے۔ خدا تب سے  اسرائیلیوں میں سے  کسی کو نظر نہیں آیا تھا  مگر موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ایمان اپنے خداوند پر ضرور تھا تبھی وہ جانتے تھے کہ انکا خدا مصریوں کا خدا نہیں ہے۔ مگر اس بات کا دوسرے بنی اسرائیلیوں کو یقین دلانا کہ خدا موسیٰ کو نظر آیا تھا، موسیٰ کے اپنے دل میں بیٹھے خدشوں کو بیان کرتا ہے کہ شاید وہ اسکا یقین نہ کریں۔  شاید اسے ڈر تھا کہ بنی اسرائیل پھر سے کہینگے کہ اسے کس نے ان پر حاکم بنایا ہے۔  موسیٰ نے خود تو اپنی زبان سے خداوند سے نشان نہیں مانگا کیونکہ خداوند  جانتا تھا کہ اسے موسیٰ کو اس قابل دکھانا ہے کہ وہ خداوند کا نمائندہ  ہے۔  خدا نے موسیٰ کے اس خدشے کو جھٹلایا نہیں بلکہ اس سے پوچھا کہ اس کے ہاتھ میں کیا ہے؟ نظر تو خداوند کو بھی آ رہا ہوگا کہ موسیٰ نے لاٹھی پکڑی ہوئی ہے مگر خداوند موسیٰ کے منہ سے سننا چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ لاٹھی ، موسیٰ کے چرواہا بننے کی بلاہٹ کی نشانی تھی کہ خدا نے اسے اپنے لوگوں کا ملک مصر سے نکال کر بحفاظت کنعان کی سرزمین تک پہنچانے کا چرواہا یعنی لیڈر چنا ہے۔

 لاٹھی، وہ لکڑی جس میں کوئی زندگی نہیں تھی۔ خدا نے موسیٰ کو وہ لاٹھی زمین پر ڈال دینے کو کہا۔ زمین پر لاٹھی سانپ بن گئی۔لاٹھی نے زندگی پائی بھی تو دشمن کی صورت میں، مگر کیوں؟   اس لاٹھی کو سانپ کی شکل میں زندگی دینے والا خدا تھا۔ خدا زندگی دیتا ہے تو لے بھی سکتا ہے۔ موسیٰ اس سانپ کے سامنے سے بھاگا۔ سانپ، کلام کے مطابق شیطان یعنی عورت کی نسل کے دشمن کو ظاہر کرتا ہے۔  موسیٰ  عام انسان تھا، جو اپنے دل میں دشمن کا خوف رکھتا تھا تبھی وہ سانپ کے سامنے سے بھاگا مگر خدا نے اسے کہا کہ ہاتھ بڑھا کر اسے دم سے پکڑ لے اس نے ہاتھ بڑھایا اور دم سے پکڑا اور  موسیٰ کے ہاتھ میں وہ پھر سے لاٹھی بن گئی۔موسیٰ کو خدا پر بھروسا تھا تبھی سانپ سے دور بھاگنے کے باوجود اس نے سانپ کو اسکی دم سے پکڑ لیا۔ اگر موسیٰ کو خدا پر بھروسہ نہیں ہوتا تو وہ یہ قدم نہ اٹھاتا۔  کسی  دانشور کا کہا مجھے یاد آ رہا ہے کہ موسیٰ کی عام لاٹھی، "خدا کی لاٹھی” بن گئی ، ہم آگے پڑھیں گے کہ کیسے موسیٰ کی اس لاٹھی  کے ذریعے سے  خدا نے ملک مصر پر وبائیں نازل کیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ شاید  خدا موسیٰ کو یقین دلا رہا تھا کہ اسکا دشمن بھی اسکے سامنے تب تک مردہ ہے جب تک خدا نہ چاہے اور یہ کہ موسیٰ اس پر قابو آ سکتا ہے۔ خدا نے یہ اس لئے کیا تاکہ بنی اسرائیل یقین کریں کہ خداوند انکے باپ دادا کا خدا ابرہام کا خدا اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا موسیٰ کو دکھائی دیا۔

موسیٰ کے ہاتھ کی لاٹھی کو خدا نے اپنے جلال کے لئے استعمال کرنے کو چنا۔ اپنے ہاتھوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ خداوند نے آپ کو کیا وہ  چیز/قابلیت دی ہے جو آپ کی نظر میں  بظاہر تو مُردہ ہے مگر جب خدا اسے استعمال کرنا چاہے تو  وہ آپ کے ہاتھوں  آپ کی اس بظاہر مُردہ قابلیت کو اپنے نام کے جلال کے لئے  استعمال کر سکتا ہے۔  موسیٰ کے لئے اپنے دشمن کا خوف تو تھا مگر اسے دم سے پکڑ کر  خداوند کی قوت کواس طرح سے  دیکھنا اسکے لئے یقیناً حوصلے کا باعث ہوگا کیونکہ فرعون  کے سر پر ناگ کا سر تاج کی طرح ہوتا تھا اور انکی لاٹھی پر بھی ناگ کا پھن بنا ہوتا تھا۔

خدا نے موسیٰ کو ایک نشان نہیں دیا بلکہ اس نے اسکو دوسرا نشان یہ دیا کہ وہ اپنا ہاتھ سینہ پر رکھ کر اسکو ڈھانک لے۔  جب موسیٰ نے ایسا کیا تو اسکا ہاتھ  کوڑھ سے برف کی مانند سفید ہوگیا تھا۔  جب خدا نے اسے اپنے ہاتھ کو پھر سے سینے پر رکھ کر ڈھانکنے کو کہا تو وہ واپس اپنی اصل حالت میں آگیا۔ لاٹھی کا سانپ بننا، ہاتھ کا کوڑھ  ہو جانا، دونوں ہی اپنی اصل صورت بدل رہے تھے۔  دونوں ہی کام کی چیزیں تھیں جنھوں نے بری  صورت اختیار کی مگر پھر اصل حالت میں آ گئیں۔ کوڑھ کے بارے میں آپ  احبار 13:3 میں پڑھ سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کنعان سے ملک مصر میں اور پھر سے واپس ملک کنعان ، خدا کے وعدے کے تحت بنی اسرائیل کی سر زمین، ویسے ہی جیسے کہ لاٹھی یا ہاتھ اپنی اصل حالت سے دوسری حالت میں اور پھر واپس اپنی اصل حالت میں۔ اگر لاٹھی جو سانپ بن گئی ملک مصر کو ظاہر کر رہی تھی تو ہاتھ کا کوڑھ ، ناپاکی کو ظاہر کر رہا تھا۔ بنی اسرائیل، ملک مصر میں پاک حالت میں داخل ہوئے، ملک مصر میں رہتے رہتے ناپاک ہوگئے مگر اب خدا انکو واپس پاکیزگی میں لانا چاہتا تھا۔  انکی ناپاکی روحانی ناپاکی تھی نہ کہ جسمانی۔

خدا نے موسیٰ کو ایک اور آخری  اور تیسرا نشان دیا۔ ملک مصر میں جو دریا بہتا ہے وہ دریائے نیل ہے۔ خدا نے اسے کہا کہ اگر لوگ ان دونوں معجزوں کے سبب سے بھی یقین نہ کریں تو تو دریا کا پانی لیکر خشک زمین پر چھڑک دینا اور وہ پانی جو موسیٰ سے دریا سے لیگا خشک زمین پر خون ہوگا۔ ملک مصر کے لئے دریائے نیل زندگی کا پانی تھا ۔ مصریوں کے لئے نیل انکی دیوی تھی۔  خدا اس پانی پر،   ملک مصر کی دیوی پر  بھی اپنا اختیار دکھا رہا تھا۔ یہاں پر پانی کا خون بننا زندگی کو  نہیں بلکہ خداوند کے عدالتی فیصلے کو ظاہر کر رہا تھا۔ فرعون نے کتنے ہی  اسرائیلیوں کے مصوم بچوں کو نیل میں  گروا دیا تھا، وقت آگیا تھا کہ خداوند اپنے لوگوں پر ہوئے ظلموں کا انصاف کرتا۔ احبار 17:11 میں لکھا ہے؛

کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے اور میں مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اسے تم کو دیا ہے کہ اس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی  کے سبب سے  خون کفارہ دیتا ہے۔

نیل کے پانی کو خون میں بدل کر خدا بنی اسرائیل کو  ملک مصر کے مذہب پر اپنا مکمل اختیار دکھا رہا تھا۔ موسیٰ کو خدا نے نبی چنا تھا۔ نبی اپنے نام کے جلال کے لئے نہیں بلکہ خدا کے نام کے جلال کے لئے ہوتا ہے۔    موسیٰ کو  اپنے اندر کی کمی کا احساس تھا اس نے خداوند سے کہا (خروج4:10):

تب موسیٰ نے خداوند سے کہا ائے خداوند! میں فصیح نہیں۔ نہ تو پہلےہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کُند ہے۔

موسیٰ کی طرح شاید آپ بھی محسوس کرتے ہوں کہ "مجھ میں کمی ہے”؛ میں اور آپ  شاید بہت سی باتوں کے قابل نہ ہوں۔ خدا کو ہماری قابلیت نہیں چاہیے کیونکہ جب وہ ہم میں بستا ہے تو اسکی قابلیت ہم میں سما جاتی ہے۔ موسیٰ کو یقیناً اپنی قابلیت پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ خدا کا اچھا نمائندہ بن سکتا ہے مگر خدا جانتا تھا کہ وہی ہے جس کو اس نے اسی مقصد کے لئے بنایا ہے۔ 1 کرنتھیوں 1:27 میں لکھا ہے؛

بلکہ خدا نے دنیا کے بیوقوفوں کو چن لیا کہ حکیموں کو شرمندہ کرے اور خدا نے دنیا کے کمزوروں کو چن لیا کہ زور آوروں کو شرمندہ کرے۔

کوئی بھی انسان اپنی قابلیت پر فخر نہیں کر سکتا کیونکہ خداوند کی حکمت سب سے بڑھ کر ہے۔ اور سچا نبی وہی ہے جو کہ یوحنا نبی کی طرح کہہ سکے(یوحنا3:30):

ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں۔

مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے آرٹیکل بہت اچھے ہوتے ہیں۔ شاید آپ کو علم نہ ہو کہ میں کسی سیمنری میں نہیں پڑھی میں نے خداوند سے کلام کا علم حاصل کیا ہے اور ابھی بھی اس سے سیکھ رہی ہوں۔ اگر وہ مجھے استعمال کر سکتا ہے تو آپ کو بھی۔ اگر خداوند نے آپ کو اپنے کام کے لئے چنا ہے تو اپنی کمی اور کمزوریوں کو مت دیکھیں بلکہ اسکی قابلیت پر بھروسہ کریں۔ اپنے نام کے جلال کا مت سوچیں بلکہ خداوند کے نام کے جلال کا سوچیں۔ اسکے نام کو بلند کریں  اور اپنے نام کو روشن کرنے کا مت سوچیں۔  میں اکثر کہتی ہوں کہ آپ میرے آرٹیکل لوگوں میں شئیر کر سکتے ہیں یا پھر اپنی ذاتی بائبل سٹڈی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے اپنا نام روشن ہوتے نہیں دیکھنا بلکہ خداوند کا کلام پھیلتے دیکھنا ہے۔ مجھے اسکے نام کو جلال دینا ہے۔ وہی مجھے ان باتوں کا صلہ دیتا ہے  اور اسی میں میر ی خوشی ہے۔ ہم خروج کے 4 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔

میری خدا سے دعا ہے کہ  اس نے آپ کو اپنے جس  خاص مقصد کے لئے چنا ہے وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں آپ میں اپنی قابلیت بھرے کہ یہوواہ پاک کا نام تمام قوموں میں روشن ہو۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین