غزل الغزلات 8:6
نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانند اپنے بازو پر کیونکہ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور غیرت پاتال سی بے مروت ہے۔ اسکے شعلے آگ کے شعلے ہیں۔ اور خداوند کے شعلہ کی مانند۔
آپ کلام میں سے غزل الغزلات 8 باب پورا خود پڑھیں ۔
یہ ہمارا غزل الغزلات کا آخری مطالعہ ہوگا۔ ہم نے پچھلے باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ محبوبہ اپنے محبوب سے پیار و محبت کی باتیں کر رہی ہے۔ اس باب میں وہ اسکو کہہ رہی ہے کہ اگر وہ اسکے بھائی کی مانند ہوتا تو پھر تو اسکو اپنے پیار کا کھلم کھلا اظہار کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔ وہ اسکو اپنی ماں کے گھر لاتی اور اسکو سکھاتی۔ شولمیت کی خواہش ہے کہ سلیمان کی طرح وہ بھی اپنی حکمت دکھاتی۔ وہ اپنے محبوب کی محبت میں کھو جانا چاہتی ہے اسلئے وہ یروشلیم کی بیٹیو کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اسکے پیار کو تب تک نہ اٹھائیں جب تک وہ اٹھنا نہ چاہے۔ یہ ہم نے پہلے بھی غزل الغزلات کے 2:7 اور 3:5 میں بھی پڑھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی اس خوابوں کی دنیا سے تب تک باہر نہیں آنا چاہتی (اٹھنا نہیں چاہتی) جب تک کہ وہ نہ چاہے۔
غزل الغزلات 8:5 آیت سے یہ واضح نہیں کہ کس کو مخاطب کیا جا رہا ہے مگر یہ کہنا کہ "اپنے محبوب پر تکیہ کئے چلی آتی ہے؟” شایدیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کمزور ہے اور اسکو سہارے کی ضرورت ہے یا پھر یہ راستہ لمبا ہے اور اس لئے اسے سہارے کی ضرورت ہے اور شاید یہ کہ وہ جاننا چاہتی ہے کہ اسکا محبوب اسکا بوجھ اٹھانے کے اور اسے سہارا دینے کے قابل ہے۔محبت کے اس سفر سے گذرتے ہوئے وہ سیب کے اس درخت کے پاس آتے ہیں جہاں محبوبہ کی ولادت ہوئی۔ محبوب اسکو اسکا ماضی یاد دلاتا ہے۔ جس آیت کو ہم نے اس مطالعے میں یاد دہانی کے لئے ہر ہفتے پڑھا ہے کہ نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانن اپنے بازو پر، اس عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک عام عہد نہیں یہ وہ ہے جسکو آپ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ یہودی دانشوروں کے مطابق "تعویذ کی مانند اپنے بازو پر” نہیں بلکہ ہاتھ پر بنتا ہے اور بہت سے یہودی دعا کرتے ہوئے اپنے بازو پر اور ماتھے پر ایک تعویذ باندھ کر دعا کرتے ہیں۔ ہم اسکی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔کچھ علما کی نظر میں محبوب اپنی محبوبہ کو یہ کہہ رہا کہ نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ۔۔۔۔ نہ کہ محبوبہ اپنے محبوب کو۔ "عشق موت کی مانند زبردست ہے"، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح سے موت سے کوئی بچ نہیں سکتا اسی طرح سے عشق بھی ایسا مرحلہ ہے جس میں سے ہر کوئی گزرتا ہے۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے غزل الغزلات کے تعارف میں کہا تھا کہ غزل الغزلات کی کتاب میں خدا کا نام نہیں لکھا ہے مگر اردو کلام کی غزل الغزلات 8:6 میں ذکر ہے "خداوند کے شعلہ کی مانند”۔ عبرانی کلام میں ” שַׁלְהֶבֶת، سالہبیت، Salhebet” کے معنی ہیں "شعلہ” جسکا استعمال ایوب 15:30 اور حزقی ایل 21:3 میں ہوا ہے مگر غزل الغزلات 8:6 میں یہ لفظ ” שַׁלְהֶבֶתְיָה، سالہبیت-یاہ، SalhebetYah” لکھا گیا ہے۔ "یاہ، יָה، Yah” کبھی کبھی عبرانی کلام میں "یہوواہ” کے مخفف کے طور پر استعمال ہوا ہے جسکی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ”خداوند کے شعلہ کی مانند” ہے۔ یہودی دانشور رشی اور ابن عزرا اس لفظ کو ایسے ہی بیان کرتے ہیں کہ یہ شعلہ عام شعلے کو نہیں بیان کر رہا بلکہ خدا کے شعلے کو بیان کر رہا ہے۔ تبھی یہودیوں اور مسیحیوں کا اس کتاب کے لئے یہ کہنا ہے کہ خدا اس کتاب میں چھپا ہوا ہے۔
غزل الغزلات 8:7 کے بارے میں میں مختصر سا یہ کہہ سکتی ہوں کہ محبت خریدی نہیں جاسکتی ہے بلکہ محبت کی جاتی ہے۔ جو یہ سوچے کہ محبت خریدی جاسکتی ہے وہ حقارت کے لائق ٹھہرتا ہے۔ اس باب کی 8 سے 9 آیات میں محبوبہ کے بھائی اپنی بہن کے لئے بات کر رہے ہیں کہ انھیں شروع سے ہی اس بات کا احساس ہے کہ ان پر انکی بہن کی ذمہ داری ہے جسے انھوں نے پورا کرنا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ غزل الغزلات کی کتاب میں ہم محبوبہ کی ماں اور بھائیوں کا تو پڑھتے ہیں مگر ہمیں اس میں محبوبہ کے باپ کا ذکر نہیں ملتا۔ بھائیوں کو اپنی بہن کے لئے اس بات کی فکر ہے کہ جب تک اسکی شادی نہیں ہو جاتی وہ اسکے لئےکیا کیا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی بہن کے لئے منصوبے بناتے ہیں کہ اگر وہ دیوار ہے جو لٹیروں اور فائدہ اٹھانے والوں کو روکتی ہے تو اسکو صلہ دیں گے مگر اگر وہ دروازہ ہو جس سے کوئی بھی ایرغیرا اندر گھس سکتا ہے تو وہ اپنی بہن کی اچھائی کے لئے اسکی آزادی پر پابندی لگائیں گے۔ اپنے بھائیوں کی اس بات کے جواب میں محبوبہ کہتی ہے کہ وہ مظبوط ہے دیوار کی مانند، چھاتیاں اسکی جسمانی خوبصورتی کو نہیں بلکہ اس بات کو ظاہر کر تی ہیں کہ وہ قلعے کی دیوار پر برج کی مانند ہے ۔ برج قلعے کی دیوار سے جڑے ہوتے ہیں ۔ وہ سلیمان بادشاہ کی نظر میں سلامتی یافتہ کی مانند ہے ۔ اسکا ناطہ سلیمان بادشاہ سے ہوگیا ہے اور اسکی زندگی میں امن و سلامتی ہے۔ اپنے بھائیوں کے سامنے اپنی عزت کا دفاع کرنے کے بعد وہ سلیمان بادشاہ کو عزت دے رہی ہے۔ اس نے اپنا آپ بادشاہ کو دے دیا ۔
یہودی دانشور اس کی مختصر سی تشریح ایسے کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل اپنے خدا پر پکا ایمان اور یقین لا چکے ہیں اور وہ اسکے پیچھے پیچھے اس سرزمین میں داخل ہونے کو تیار ہیں جسکو انھوں نے خود کبھی نہیں دیکھا مگر انکو اپنے خدا پر بھروسہ ہے۔ بنی اسرائیل اور خدا کے گہرے تعلق کی بنا پر قومیں ان سے جلتی ہیں مگر وہ قومیں کبھی بھی بنی اسرائیل کو اپنے خدا سے محبت میں روک نہیں پائیں۔ آخری وقت میں بنی اسرائیل کھوئے ہوئے قبیلوں کے لئے اپنی فکر کا اظہار کریں گے وہ اپنے خدا کو "جلدی کرنے کو” کہیں گے تاکہ وہ پھر سے خدا میں ایک ہو سکیں۔
مسیحیوں اور میسیانک یہودیوں کی تشریح کے مطابق نئےنئے مسیحی بہت سی باتوں کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ کھلم کھلا خدا کی محبت کا اقرار دوسروں سے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں خدا کی محبت اتنا جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے کہ جب کوئی انکا اپنا انھیں روکنے کی کوشش کرے تو وہ رہ نہیں پاتے بلکہ کھل کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔وہ اب سب کچھ اپنے خدا کے کہنے کے مطابق کرنے کو تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ پھل پیدا کر سکیں اور اپنے خدا کی نذر کر سکیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انکے خدا نے پھر سے آنا ہے اسلئے وہ بیتابی سے اسکی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔
میں نے پچھلے حصے میں بات کی تھی کہ آپ شاید ان میں سے ہیں جو اب خدا کے لئے کام کرنے کو تیار ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ جیسے محبوبہ اپنی محبت کا اظہار کھل کر نہیں کرنا چاہتی تھی ویسے ہی ابھی آپ کی سوچ ہو۔ کہ اگر ایسا ہو پھر تو میں خدا سے اپنی محبت کا اظہار دوسروں کے سامنے کھل کر کر سکتا/سکتی ہوں یا پھر اسکا کام کر سکتا/سکتی ہوں ۔۔۔۔۔، میں نے بھی اپنی طرف سے خدا کا کام شروع کرنے سے پہلے خدا کے سامنے بہت سی شرائط رکھی تھیں مثال کے طور پر "خداوند خدا میں لوگوں کے لئے شفا یابی کی دعا نہیں کر سکتی جب تک کہ تو میری بیٹی کو شفا نہ دے دے،” یا پھر "خداوند خدا میرا خاندان ہے اور گھر کے کام مجھے ہی کرنے ہوتے ہیں میرے پاس اتنا وقت کہاں کہ میں لوگوں کو کلام کی باتیں سکھا سکوں”۔ اور جہاں تک بات ہے توریت پر چلنے کی تو میں نے بھی غزل الغزلات کی محبوبہ کی طرح کبھی خواہش رکھی ہے کہ خدا کو کچھ اپنی حکمت کے مطابق بھی سکھا دوں ، مثال کے طور پر "اگر میں کرسمس مناتی ہوں یا ایسٹر مناتی ہوں تو کونسی برائی ہے، جھوٹ ہی سہی مگر کچھ تو سچائی ہے نہ، میں کونسا کسی کا نقصان کر رہی ہوں یا تکلیف پہنچا رہی ہوں۔” یا پھر، اگر میں سبت کا دن اتوار کو رکھ لیتی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے سبت تو منا رہی ہوں نا، ۔۔۔۔۔” J نہیں ، یشوعا میں میرے بہن بھائیو ! اگر آپ کو کلام کی سچائی کا پتہ چل چکا ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ خدا سے حکمت میں بڑھ گئے ہیں۔ اسکی کلام کی سچائی پر چلنا اور اسکی حضوری میں جھکنا یہی انسانی حکمت اور اس سے محبت ہے۔ خداوند آپ کو اپنے کلام کے ذریعے ضرور سہارا دے گا اگر آپ اس سے اپنی محبت میں قائم رہیں۔
اگر آپ خدا سے محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر ڈرنا کیسے کیونکہ کلام میں لکھا ہے (1 یوحنا 4:18)؛
محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت خوف کو دور کر دیتی ہے کیونکہ خوف سے عذاب ہوتا ہےاور کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا۔
خدا سے اپنی محبت کا اظہار دوسروں کے سامنے کھل کر کریں اور اسکے اس کام کو انجام دینے سے دریغ نہ کریں جو اس نے آپ کو سونپا ہے۔آپ اگر ابھی بھی دوسروں سے چھپ کر کام کر رہے ہیں تو آپ اپنی محبت میں کامل نہیں ہوئے ہیں۔
اسکی دوسری آمد جلد ہی ہے۔ اگر آپ کو خدا سے محبت ہے تو اسکے کلام کی اس بات کو بار بار دہرائیں جیسا کہ رومیوں 8:38 سے 39 میں لکھا ہے؛
کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ مستقبل کی چیزیں۔ نہ قدرتیں نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔
غزل الغزلات 2:16؛
میرا محبوب میرا ہے اور میں اسکی ہوں۔۔۔۔
یہی غزل الغزلات کا پیغام ہے کہ آپ خدا کے ہیں اور خدا آپ کا۔
اسکے ساتھ ہی ہمارا غزل الغزلات کی کتاب کا مختصر سا مطالعہ ختم ہوا۔
اگر آپ شادی شدہ ہیں تو میری یہ آپ کو نصحیت ہے کہ اپنے جیون ساتھی سے اپنی محبت کا اظہار وقتاًفوقتاً ضرور کرتے رہیں اور کوشش کریں کہ جتنا وقت اکٹھا گذار سکتے ہیں وہ وقت اکٹھا گذار پائیں۔ ہر کوئی انسان جس کو پیار کرتا ہے اسکے ساتھ اکٹھا وقت گذارنے کی کوشش کرتا ہے۔ میاں بیوی کا پیار بھی ایسے ہی قائم رہتا ہے اگر وہ دونوں اپنا زیادہ وقت اکٹھے گذاریں۔
میری دعا ہے کہ آپ کھُل کر دوسروں کے سامنے خدا سے اپنی محبت کا اظہار کر سکیں اور کبھی اسکے کلام سے شرمائیں نہ بلکہ جانیں کہ یہ خداوند کی آپ میں اسکی قدرت ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین