آپ غزل الغزلات کا 1 باب پورا خود کلام میں سے پڑھیں۔ میں اس کتاب کا بہت زیادہ تفصیلی مطالعہ نہیں کروا رہی کیونکہ آپ میں سے زیادہ تر کو یہ باتیں بھی نہیں پتہ ہونگی جو میں درج کرنے لگی ہوں۔ ورنہ تمام کتابوں کی طرح اس کتاب میں سے بھی سیکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔
اگر آپ نے اپنے اس مطالعے میں خدا کی حقیقی محبت کو جاننا ہے تو اس نیچے دی ہوئی آیت کو عید پینتکوست کے دن تک روز دھرائیں یا پھر تب تک جب تک کہ ہم اپنا یہ مطالعہ ختم نہیں کر دیتے۔ غزل الغزلات 8:6
نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانن اپنے بازو پر کیونکہ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور غیرت پاتال سی بے مروت ہے۔ اسکے شعلے آگ کے شلعے ہیں اور خداوند کے شعلے کی مانند۔
اردو کی بائبل میں "خداوند کے شعلے کی مانند” لکھا ہے مگر عبرانی کلام میں "یہوواہ یا خدا ” نہیں لکھا۔ میں اسکی تفصیل میں آٹھویں باب کے مطالعے میں جاؤنگی۔
غزل الغزلات کے تعارف میں ، میں نے آپ کو مختصراً بتایا تھا کہ یہ کتاب پڑھنے میں محبوب اور محبوبہ کے درمیان ڈائیلاگ دکھاتی ہے مگر اس میں چھپا روحانی پیغام خدا کی اور اسکے لوگوں کی بے انتہا محبت کا ہے۔ میں نے اس کتاب کی عام مسیحی تعلیم بھی پڑھی ہے اور میسیانک یہودیوں اور یہودیوں کی تعلیم بھی۔ میں نے ایک امریکی مسیحی پادری کو غزل الغزلات کی تعلیم کے بارے میں کہتے سنا تھا کہ یہ کتاب مسیحا کی دوسری آمد سے پہلے بہت پڑھائی جائے گی ساتھ ہی میں وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ جب خدا نے مجھے اس کتاب کی تعلیم دینے کو کہا تو میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ کوئی عورت اسکی تعلیم دے کیونکہ عورتوں کو ہی رومنٹک باتوں اور پھولوں اور خوشبوں کی باتیں کرنے کا شوق ہے 🙂 شاید وہ صحیح کہہ رہے تھے۔
ایک میسیانک یہودیوں کی عبادت میں جب غزل الغزلات کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا تو ایک عورت رو پڑی اور کہنے لگی کہ غزل الغزلات سلیمان "بادشاہ” نے نہیں اسکی محبوبہ نے سلیمان "بادشاہ ” کے لئے لکھی ہے۔ یہودیوں کی غزل الغزلات کی کمنٹری بھی کہتی ہے یہ غزل یا تو سلیمان کی ہے یا پھر سلیمان کے بارے میں ہے کیونکہ عبرانی الفاظ سے ایسا ہی لگتا ہے۔ میں نے اسکے تعارف میں ذکر کیا تھا کہ چونکہ سلیمان بادشاہ کی دوسری کتابوں کی طرح اس میں اسکے باپ کا نام موجود نہیں لہذا یہ خدا جو”بادشاہ” ہے اسکی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
مجھے علم ہے کہ میرے یہ مطالعہ نوجوان /غیر شادی شدہ بھی شوق سے پڑھنا چاہیں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ خدا آپ کو آپ کے شادی کے بستر تک پاک رکھے اور میری دعا شادی شدہ لوگوں کے لئے یہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپ کے جذبات صرف اور صرف اپنے خدا اور اپنے جیون ساتھی کے لئے ابھریں ۔ غزل الغزلات ایک عام انسان کی سوچ اور سمجھ سے باہر ہے کیونکہ یہ غزل انکے لئے نہیں لکھی گئی یہ غزل خدا سے محبت رکھنے والے کے لئے لکھی گئی ہے تبھی اسکو پاک کہا گیا ہے۔ میاں اور بیوی کے پاک رشتے میں بھید چھپا ہے کیونکہ افسیوں 5:32 میں پولس میاں اور بیوی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے؛
یہ بھید تو بڑا ہے لیکن میں مسیح اور کلیسیا کی بابت کہتا ہوں۔
یہی وہ بھید ہے جو ہم اس کتاب میں دیکھیں گے۔ کلام میں سے ایک اور آیت کا حوالہ دیتی چلوں ۔ 1 کرنتھیوں 6:18
حرامکاری سے بھاگو۔ جتنے گناہ آدمی کرتا ہے وہ بدن سے باہر ہیں مگر حرامکار اپنے بدن کا بھی گنہگار ہے۔
ان آیات سے متعلق مختصراً میں یہ بتاتی چلوں کہ میاں اور بیوی شادی کے بعد جسمانی مباشرت کی بنا پر ایک بن جاتے ہیں اور اسی لئے حرامکار کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بدن سے بھی گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ پتہ نہیں کن کن کو اپنے بدن کا حصہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ روح میں نجات کے بعد انسان خدا کے ساتھ ایک بن جاتا ہے۔ امید ہے آپ اس کو غلط انداز سے نہیں سوچیں گے تبھی پولس نے اسکو بڑا بھید کہا ہے۔ اب میرے ساتھ افسیوں 5:22 سے 33 کو پڑھیں؛
ائے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی۔ کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کا سر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے۔ لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔ ائے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔ تاکہ اسکو کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر اور صاف کرکے مقدس بنائے۔ اور ایک جیسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جسکے بدن میں داغ یا جھری یا کوئی اور ایسی چیز نہ ہوبلکہ پاک اور بے عیب ہو۔ اسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی بلکہ اسکو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔ اسلئے کہ ہم اسکے بدن کے عضو ہیں۔ اسی سبب سے آدمی باپ اور ماں سے جدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہیگا اور وہ دونوں ایک جسم ہونگے۔ یہ بھید تو بڑا ہے لیکن میں مسیح اور کلیسیا کی بابت کہتا ہوں۔ بہرحال تم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی اس بات کا خیال رکھے کہ اپنے شوہر سے ڈرتی رہے۔
یہ وہ آیات ہیں جو میاں اور بیوی اپنے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی شوہر میرے سے بات کر رہا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ بیوی کو شوہر کے تابع رہنے اور ڈرتے رہنے کا کہا گیا ہے اسلئے ہم جو بھی حکم دیں وہ ان کو ماننا فرض بنتا ہے۔۔۔ صحیح، مگر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کہے کہ واحد خدا کی پرستش چھوڑ کر اسکی پرستش کرے تو کیا بیویوں کا اس بات کو ماننا فرض ہے؟ اور ایسے ہی جہاں ڈرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسکے معنی صحیح عزت دینے کے ہیں نہ کہ ڈر کے باعث کچھ نہ کہنے کے۔ بیویوں کی بات کریں تو انکا بھی گلہ ہوتا ہے کہ شوہروں کو حکم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں تو اسلئے انکی خواہشات کو پورا کرنا ان پر فرض ہے۔ اگر بیویاں بھی اس حکم کو پورا نہیں کر رہیں جس میں انکو شوہر کے تابع رہنے کا حکم دیا گیا ہے تو انکو اپنے شوہر سے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ بیویوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا نے مرد کو ان پر اختیار دیا ہے اسلئے انہیں اس اختیار کے دائرے میں رہنے کی ضرورت ہے۔ میں ان تمام باتوں کی تفصیل میں نہیں جا سکتی کچھ باتوں کو ہم ضرور اس مطالعے میں سیکھنے کی کوشش کریں گے اور باقی باتیں کلام کی دوسری کتابوں سے۔ کیونکہ ہمیں بائبل میں صرف یہی احکامات نہیں دئے گئے اسلئے میرےکہے کو صرف ایک پہلو سے دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔
پولس نے مسیح اور کلیسیا کے رشتے کو میاں اور بیوی کے رشتے سے ملایا ہے۔ جب میاں اور بیوی اپنے دئے ہوئے کردار کے مطابق ایک دوسرے سے محبت سے پیش آتے ہیں تو انکی اس محبت سے مسیح اور کلیسیا کی محبت کا بھید بھی کھلتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ میں اپنی اس بات کو صفائی سے پیش کر بھی پا رہی ہوں یا نہیں مگر مجھے پوری امید ے کہ جیسے جیسے ہم اس کتاب کا مطالعہ گہرائی میں کریں گے آپ پر بہت سی باتیں واضع ہوتی جائیں گی۔
کچھ عرصہ پہلے میری کسی پاکستانی مسیحی سے بات ہو رہی تھی جو کہ اردو پڑھنا لکھنا تو جانتے ہیں مگر بہت پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ مجھ سے بات کرتے وقت وہ مجھے پنجابی میں کہنے لگے "سسٹر جی آپ کو پتہ ہے کہ جب روح القدس آپ پر آتا ہے تو وہ آپ کو کیسے چھوتا ہے؟” میں نے کہا نہیں مجھے نہیں پتہ۔ وہ کہنے لگے "روح القدس آپ کو اپنے ہونٹوں سے چومتا ہے۔” میں نے انکی بات کی تردید کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میرے ذہن میں یہ آیت گھوم رہی تھی جو کہ غزل الغزلات کے 1 باب میں ہے۔غزل الغزلات 1:2 میں ایسے لکھا ہے؛
وہ اپنے منہ کے چوموں سے مجھے چومے کیونکہ تیرا عشق مے سے بہتر ہے۔
کلام کی یہ بات تو میرے کلام کو پڑھنے کی وجہ سے علم میں تھی ہی سہی مگر میرے سے کم پڑھے لکھے روحانی انسان نے یہ بات اپنے روحانی تجربے کی بنا پر سادگی سے مجھے سمجھا دی اور اگر مجھے اس بات کا علم نہ ہوتا کہ غزل الغزلات خدا کا اپنے بندے کے ساتھ رشتے کو دکھاتا ہے تو میں نے انکو جھوٹا سمجھنا تھا۔ میں نے انہیں کلام میں سے یہ آیت بتا ئی کیونکہ میں تمام روحانی باتوں کو کلام کے دائرے میں رہ کر دیکھتی اور سمجھتی ہوں ۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ آپ کو اور مجھے اس کتاب کو روحانیت میں رہ کر مطالعہ کرنا ہے۔ ہمیشہ کی طرح میں اس بات پر بھی زور دونگی کہ کلام میں سے خود بھی ان باتوں کی تصدیق کریں جو میں بیان کرتی ہوں۔
پہلے باب کا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ محبوبہ اپنے عاشق کے بارے میں سوچ رہی ہے۔اسکو اسکی محبت تمام چیزوں سے زیادہ پیاری لگ رہی ہے(1:2 سے4)۔ مگر ساتھ ہی میں وہ احساس کمتری کا شکار ہے کہ وہ دھوپ کے باعث سیاہ فام ہے ورنہ وہ خوبصورت ہے۔ اور اسکی ماں کے بیٹے اس سے بہت زیادہ خوش نہیں۔ اسکی ماں کے بیٹوں نے اس سے اپنے تاکستانوں کی نگہبانی کروائی ہے مگر خود اس نے اپنے آپ پر کبھی توجہ نہیں دی(1:5سے6)۔ وہ اپنے محبوب کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتی ہے(1:7)۔ اسکی تمام سہیلیاں اسکو کچھ ایسے کہنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ جو کہ تمام عورتوں میں خوبصورت ہے اگروہ بادشاہ اور چرواہے کا فرق نہیں پہچان سکتی تو وہ جہاں کی ہے وہیں واپس جائے(1:8)۔ایک میسیانک یہودی کی تشریح کے مطابق ان آیات سے ایسے لگتا ہے جیسے کہ یہ سب محل کی ضیافت کا حصہ ہیں اور پہلے محبوبہ ان عورتوں کے ساتھ اکیلی وہاں تھی جہاں بادشاہ منظر میں نہیں مگر پھر بادشاہ منظر میں آتا ہے اور اپنی محبوبہ سے ہمکلام ہوتا ہے وہ جو کہہ رہا ہے وہ دوسری عورتوں کو سنائی نہیں دے رہا۔ جب سلیمان نے "ائے میری پیاری ” کہا تو جو عبرانی لفظ ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ابھی تک اسکی دلہن نہیں بنی ہے۔ سلیمان بادشاہ کے پاس بہت سے گھوڑے/رتھ تھے آپ اپنے حوالے کے لئے 2 تواریخ 9:28 اور 1 سلاطین 10:26 بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی حوالے کی بنا پر کچھ علما کہتے ہیں کہ یہ سلیمان بادشاہ کی غزل ہے کیونکہ اس نے اپنی محبت کا اظہار کرتے وقت اپنی محبوبہ کو اس سے تشبیہ دی ہے جو اسکی پسندیدہ چیزوں میں سے ہیں۔ اور ساتھ ہی میں علما یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر چرواہا اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہوتا تو وہ ان چیزوں سے اپنی محبوبہ کو کیوں تشبیہ دیتا جو اسکی پہنچ سے باہر ہیں(1:9 سے 10)۔ محبوبہ جو کہ اب بادشاہ کے سامنے ہے وہ رومانس کی ان باتوں کا تصور کر رہی ہے کہ بادشاہ کو اپنی طرف کھینچ سکے (1:12 سے14)۔ بادشاہ کی نظر میں بھی اسکی محبوبہ سب سے پیاری ہے (1:15) اور اسکے جواب میں ایک بار پھر سے محبوبہ اپنے محبوب کے ساتھ پیار محبت کی زبان میں ہم کلام ہوتی ہے(1:16 سے 17)۔