پیدائش 42 باب

image_pdfimage_print

کلام میں سے آپ پیدائش کا 42 باب پورا خود پڑھیں۔

پچھلے باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ ملک مصر اور آس پاس کے ملکوں میں سخت کال پڑا۔ یعقوب اور اسکا خاندا ن ملک کنعان کی سرزمین پر تھے اور وہاں بھی کال پڑا۔ جب یعقوب کو معلوم ہواکہ ملک مصر میں غلہ ہے تو اس نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ”تم کیوں ایک دوسرے کا منہ تاکتے ہو۔۔۔” یعقوب نے انھیں کہا کہ جاؤ اور اناج مول لے آو تاکہ وہ لوگ ہلاک نہ ہوں۔

زندہ رہنے کی جستجو میں انسان کو خود بھی ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں۔ خدا نے یوسف کے ذریعے غلے کا ذخیرہ تو ملک مصر میں اکٹھا کر ڈالا تھا مگر زندہ رہنے کے لئے ملک مصر کے آس پاس کے لوگوں کو سفر کر کے غلہ مول لینا تھا ۔ یعقوب اور اسکی اولاد تو خدا کے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے پھر کیوں انکو بھی اس اذیت سے گزرنا پڑا؟ کیا خدا اپنے بندوں کو خود مہیا نہیں کرتا؟ کیا مسیحی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اب آپ مصیبتوں سے آزاد ہیں؟

خدا کے بندوں میں شامل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پر اب برے حالات کبھی نہیں آئیں گے۔ آپ اپنے برے حالات کا سامنا کس طرح سے  خدا کے کلام کی مدد سے کرتے ہیں یہی خدا کے بندوں کا امتحان ہے۔ ویسے ہی جیسے کہ خدا نے اناج کا ذخیرہ ، سخت کال کے دوران میں بھی مہیا کیا ہوا تھا  تاکہ لوگ زندہ رہ سکیں ایسے ہی خدا  اپنے لوگوں کے لئے ذرائع ضرور مہیا کرتا ہے تاکہ وہ جو جستجو کریں اپنے برے حالات سے باہر نکل سکیں۔

یعقوب نے اپنے دس بیٹوں کو ملک مصر بھیجا مگر بنیمین کو انکے ساتھ نہیں بھیجا اس ڈر سے کہ کہیں اس پر بھی کوئی آفت نہ آجائے۔ یا تو یعقوب کو اپنے باقی دس بیٹوں پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ بنیمین کی حفاظت کر سکتے ہیں یا وہ اب اتنا ڈر گیا ہوا تھا کہ بنیمین کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے کہ راخل زندہ نہیں رہی تھی اور یوسف بھی یعقوب سے چھن گیا تھا، یعقوب کے لئے بنیمین ہی راخل کی ایک آخری نشانی بچی تھی۔

جب یوسف کے بھائی اسکے سامنے آئے تو انھوں نے یوسف کو نہ پہچانا وہ اسکے سامنے سر زمین پر ٹیک کر آداب بجا لائے۔ یوسف کو جب انھوں نے بیچا تھا تو وہ اتنی عمر کا نہیں تھا۔ اتنے برسوں بعد (20 سال) اس میں جسمانی تبدیلی آ گئی تھی اور پھر وہ مصریوں جیسے پہناوئے میں تھا۔ اسکا نام بھی یوسف نہیں بلکہ صفنات فعنیح تھا۔ یوسف نے انکو پہچان لیا تھا مگر وہ ان سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔ یوسف کو  انکے بارے میں اپنے دیکھے ہوئے خواب یاد آئے۔ یہ تو مجھے نہیں علم کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر یوسف کے ذہن میں اور کیا کیا گزرا ہو گا ۔شاید اسکے دل میں نفرت ابھری ہو اور اسکے دل میں بدلہ لینے کا خیال آیا ہو۔ اسکو انکے تمام نفرت انگیز الفاظ یاد آئے ہونگے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ صرف دس کو دیکھ کر اسے اپنے بھائی بنیمین کا خیال آیا ہوگا کہ کہیں اسکے بھائیوں نے اسکے ساتھ بھی تو کچھ برا نہیں کیا۔  صاف ظاہر ہے کہ اس کو اپنی  تمام تکلیفات پھر سے یاد آئیں ہونگی۔ کیا اسکے بھائی بدل گئے تھے؟ اس بات کا علم یوسف کو نہیں تھا۔ اس نے ان پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا۔ اسکے بھائیوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاسوس ہرگز نہیں۔ انھوں نے ذکر کیا کہ وہ بارہ بھائی ہیں ایک باپ کے پاس ہے اور دوسرے کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔

اپنے باپ کو بھی یوسف کی قبا دے کر انھوں نے اسے یوسف کی قبا کو پہچاننے کا کہا تھا باقی یعقوب نے خود ہی اخذ کر لیا تھا کہ شاید یوسف کو کوئی درندہ کھا گیا ہے۔ اور اب یوسف یعنی صفنات فعنیح سے بات کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے کہ انھیں یوسف کا کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ کیا مکمل جھوٹ کا نہ بولنا آپ کی نظر میں جھوٹ بولنے کے برابر ہی ہے۔ ابرہام نے بھی تو اپنی بیوی سارہ کو بہن بتایا تھا جو کہ مکمل سچ نہیں تھا۔ ابرہام کے بیان  میں اور یعقوب کے ان دس بیٹوں کے نامکمل  بیان کے بارے میں آپ کی اپنی کیا رائے ہے کیونکہ وہ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ جنگلی درندہ اسے کھا گیا تھا؟

یوسف نے اپنے سخت لہجے سے انکو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اسے پورا یقین ہے کہ وہ لوگ ملک مصر کی جاسوسی کرنے آئے ہیں۔  یوسف نے انھیں تین دن اکٹھے قید میں بند رکھا۔ تیسرے دن یوسف نے ان سے کہا کہ مجھے خدا کا خوف ہے۔ اگر تم سچے ہو تو ایک بھائی کو قید میں رہنے دو اور باقی بھائی اپنے گھر والوں کے لئے غلہ لے کر جاؤ اور اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو میرے پاس لاؤ ، یوں تمہاری باتوں کی تصدیق ہوجائیگی اور تم ہلاک نہ ہوگے۔ وہ ایسا کرنے کے لئے رضامند ہوگئے۔ انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یوسف انکی باتیں سمجھ سکتا ہے وہ آپس میں کہنے لگے کہ ان پر یہ مصیبت اس بنا پر آئی ہے کہ وہ یوسف کے گنہگار ہیں۔ کیونکہ ہم نے یہ دیکھ کر بھی کہ اسکی جان مصیبت میں ہے اسکی ایک نہ سنی تھی۔اس پر روبن نے کہا (پیدائش 42:22) ؛

تب  روبن بول اٹھا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ اس بچے پر ظلم نہ کرو اور تم نے نہ سنا۔ سو دیکھ لو۔ اب اسکے خون کا بدلہ لیا جاتا ہے۔

اس سے پہلے تک  یوسف کو نہیں پتہ تھا کہ روبن اسکی مصیبت کے وقت خیر خواہی چاہتا تھا کیونکہ روبن نے یہ بات اپنے بھائیوں کو یوسف کے ساتھ برا کرنے سے پہلے کہی تھی جب وہ اسکو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ رہے تھے۔ یوسف  شاید روبن کو قید میں بند کرتا مگر اس نے شمعون کو انکی آنکھوں کے سامنے بندھوا دیا۔ ربیوں کی تعلیم کے مطابق  شمعون تھا جس نے یوسف کو کھائی میں پھینکا تھا۔ انھوں نے یوسف کی نہ سنی۔   عبرانی میں سن کا لفظ "شیماع” ہے اور شمعون کے نام کا مطلب  بھی ایسا ہی ہے "خدا نے سنا یا سنی”۔    جیسا میں نے پہلے کسی آرٹیکل میں بتایا تھا کہ عبرانی کلام ملتے جلتے لفظوں پر  مشتمل ہے کیونکہ پرانے زمانے میں لوگوں کے پاس کلام  گھر گھر میں نہیں تھا وہ کلام کو پڑھتا سنتے تھے۔ ملتے جلتے الفاظ انکو کلام کو یاد رکھنے میں مدد دیتے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ  کہیں کہیں کلام کا گہرائی میں مطلب بھی بیان کرتے تھے۔   یوسف یہ نہیں بھول سکتا تھا کہ اگر اسکے تمام بھائیوں نے برا کیا تھا تو  وہ کون تھا جس نے اسے گڑھے میں پھینکا  تھا۔

یوسف  نے انکے ضمیر کو جانچنے کے لئے   انکی بوریوں میں اناج بھرنے کے ساتھ ساتھ انکی نقدی کو بھی  واپس  ڈلوا  دیا۔ اسکے بھائیوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ نقدی انکی بوریوں میں واپس رکھ دی گئی ہوئی ہے۔دس بھائی  گئے تھے ملک مصر غلہ خریدنے کو مگر نو واپس لوٹ رہے تھے۔  راستے میں جب ان میں سے ایک نے جب گدھے کو چارہ دینے کے لئے اناج کی بوری کھولی تو اپنی نقدی  بوری میں پائی۔ اس نے اپنے باقی بھائیوں کو بتایا۔ وہ سب کے سب حواس باختہ ہوگئے کہ انکے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ ملک کنعان  واپس اپنے باپ کے پاس پہنچ کر جب انھوں نے یعقوب کو سارا ماجرا بتایا تو یعقوب نے ان سے کہا  تم نے مجھے بے اولاد کر دیا۔ یوسف نہیں رہا اور شمعون بھی نہیں ہے اور اب بنیمین کو بھی لیجانا چاہتے ہو۔ یہ سب باتیں میرے خلاف ہیں۔”

اولاد پاس نہ ہو تو انکی زیادہ قدر و قمیت محسوس ہوتی ہے۔ خالی اولاد ہی نہیں کوئی بھی جو کہ خدا کی طرف سے ایک نعمت ہو، کھونے کے بعد ہی اپنی قدر و قمیت کا احساس دلواتی  ہے۔ روبن نے اپنے باپ کو کہا کہ اگر میں بنیمین کو واپس نہ لے آؤں تو میرے دونوں بیٹوں کو قتل کر ڈالنا۔ اسے میرے ہاتھ میں سونپ دے اور میں اسے پھر تیرے پاس پہنچا دونگا۔ مگر یعقوب نے اسکو انکار کر دیا۔

روبن اپنے آپ کو نہیں بلکہ اپنے بیٹوں کو ضمانت کے طور پر دے رہا تھا۔ اگر اسکو اپنی اولاد کی پرواہ نہیں تو کیا وہ کسی اور کی پرواہ کر سکتا ہے؟ کیا وہی نہیں تھا جو کہ یوسف کا بھلا  چاہتا تھا؟ پھر وہ کیوں اپنے بیٹوں کے لئے ایسی بات سوچ رہا تھا؟  آپ کے خیال میں روبن نے جو کہا، صحیح  تھا؟

ہم پیدائش 43 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ آپ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو  جان سکیں اور انکو اپنی زندگی میں خاص اہمیت دے سکیں یشوعا کے نام میں۔ آمین