پیدائش 40 باب

image_pdfimage_print

آپ کلام میں سے پیدائش 40 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات درج کرونگی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

یوسف 17 سال کا تھا جب اسکو غلامی میں بیچ دیا گیا تھا  اور اب وہ کچھ ہی سال بعد قید میں بند تھا۔  اس نے اپنے ماضی میں دیکھے ہوئے خوابوں کو دیکھ کر یہی سوچا ہوگا کہ اگر خدا نے ان خوابوں کو سچ کر دکھایا  تو وہ ضرور اسرائیل کی تمام جائداد کا مالک بن جائے گا اور ان پر اسکا اختیار ہوگا۔ پر ابھی تو وہ  فوطیفار کی بیوی کے لگائے ہوئے الزام کی بنا پر بے قصور قید میں بند تھا۔   کتنے عرصہ میں  قید خانے کا درواغہ اس پر بھروسہ کرنے لگ گیا تھا اس بات کا ہمیں علم نہیں ہے مگر ہمیں یہ ضرور علم ہے کہ خدا اسکے ساتھ تھا اور اسی نے  یوسف کو ایک بار پھر سے اقبالمندی بخشی تھی۔ درواغے نے قید خانے کے سب قیدیوں کو یوسف کے ہاتھ میں سونپ دیا تھا اور وہ جو کچھ  کرتے تھے اسکے حکم کے مطابق کرتے تھے۔

 شاید آپ نے بھی میری طرح یہ بات نوٹ کی ہو کہ جب یوسف باپ کے گھر میں تھا تو وہ اپنے بھائیوں کا بھی ایک طرح سے انچارج تھا، غلامی میں بکنے کے بعد بھی فوطیفار نے اسے اپنے گھرانے کا انچارج بنا دیا تھا اور اب قید خانہ میں قیدی ہونے کے باوجود وہ قیدیوں کا انچارج تھا۔ خدا اسکو حاکم بنانے سے پہلے کتنے مرحلوں سے گذار کر لایا تاکہ وہ جب حاکم بنے تو اچھا حاکم بن سکے۔ کیا آپ کو اپنی زندگی میں یوسف کی طرح کا کوئی پیٹرین (نمونہ/مثال) نظر آتا ہے کہ  آپ کہہ سکیں کہ یہ برکت مجھ میں خدا کی طرف سے ہے؟

ایک دن فرعون اپنے ساقی اور نان پز سے ناراض ہوا اور اس نے انھیں وہاں قید میں بھیجا جہاں یوسف قید تھا۔ درواغے نے  انکو بھی یوسف کے حوالے کر دیا اور یوسف انکی خدمت کرنے لگا ۔  ایک رات ساقی اور نان پیز دونوں ہی نے ایک ایک خواب دیکھا۔ صبح جب یوسف انکے پاس آیا تو انکے اداس چہرے دیکھ کر اس نے پوچھا  کہ وہ کیوں اداس ہیں۔  انھوں نے کہا کہ (پیدائش 40:8)

انہوں نے اس سے کہا ہم نے ایک خواب دیکھا ہے جسکی تعبیر کرنے والا کوئی نہیں۔ یوسف نے ان سے کہا کیا تعبیر کی قدرت خدا کو نہیں؟ مجھے ذرا وہ خواب بتاؤ۔

یوسف  نے کہا "کیا تعبیر کی قدرت خد ا کو نہیں؟” ، یوسف اچھی طرح سے جانتا تھا کہ خدا ہی خواب دکھاتا ہے اور ساتھ میں اسکا مطلب بھی وہی سمجھا سکتا ہے۔ اور اسکی اسی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قید میں وہ خدا سے ناراض نہیں تھا کہ کیوں خدا نے اسکے ساتھ ایسا کیا۔  یوسف غیروں میں خدا کی قدرت کی بڑائی کر رہا تھا۔ اس نے ان سے انکے خواب پوچھے۔ پہلے ساقی نے اپنا خواب بیان کیا۔  اس نے بتایا کہ اس نے  انگور کی بیل دیکھی جسکی تین شاخیں تھیں اور اس پر پھل نکلا اور وہ فرعون کے پیالہ کو ہاتھ میں لیے ان انگوروں  کو پیالہ میں نچوڑ رہا تھا اور پھر اس نے وہ پیالہ فرعون کے ہاتھ میں دیا۔  یوسف نے اسکو اسکے خواب کی تعبیر بتائی کہ تین دن میں فرعون اسکو اسکے منصب پر بحال کر دے گا۔ اس نے ساقی سے کہا کہ وہ اسے یاد رکھے  اور فرعون سے اسکا ذکر کرے کیونکہ وہ بے گناہ قید میں ہے۔

نان پز کو ساقی کے خواب کی اچھی تعبیر سے حوصلہ ہوا اور اس نے بھی اپنا خواب یوسف کو بتایا  کہ اسکے سر پر سفید روٹی کی تین ٹوکریاں ہیں اور اوپر کی ٹوکری میں فرعون کے لیے ہر قسم کا کھانا ہے اور پرندے اسکے سر پر کی ٹوکری میں سے کھارہے تھے۔  یوسف نے نان پز کو بھی اسکے خواب کی تعبیر بتائی کہ تین دن بعد فرعون نان پز کو سر تن سے جدا کرکے درخت پر ٹنگوا دے گا اور پرندے اسکا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یوسف کو ساقی کو اسکے خواب کا مطلب بتانے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی ہوگی مگر نان پز کو اسکے خواب کا مطلب بتاتے ہوئے اسے ضرور ہچکچاہٹ ہوئی ہوگی۔ خواب کا مطلب نان پز کے لئے اچھا نہ تھا مگر یوسف کو یہ  کام بھی کرنا پڑا۔ انسان کو کتنی دفعہ ناپسندیدہ کام مجبوری میں کرنے پڑتے ہیں ۔ خوشی کی خبر دینا یا پھر بُری خبر دینا۔ مجھے نہیں علم کہ نان پز کی یہ جان کر کیا حالت ہوئی ہو گی۔ ویسے تو مجھے اندازہ ہے کہ وہ ان تین دنوں تک لگاتار اپنے دیوتاؤں سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہوگا ۔ موت تو ہمیں بھی ایک دن آنی ہی ہے مگر انسان اگر جانتا ہو کہ اسکی موت کچھ دن بعد لازمی ہے تو  رویے میں کتنی تبدیلی آ جاتی ہے۔  ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر آپ کی موت کچھ دن کے بعد لازمی ہو جانی ہے تو آپ ان دنوں کو کس طرح سے مختلف گذاریں  گے؟ کیا آپروحانی طور پر  خدا کے زیادہ قریب ہونگے یا کہ پھر خدا سے ناراض ہو کر دور چلے جائیں گے؟ کیا آپ لوگوں کے لئے کچھ اچھا کریں گے یا کہ پھر ان سے بات کرنا چھوڑ دیں گے؟ اگر آپ کے خیال میں آپ خدا کے زیادہ قریب ہونگے اور لوگوں کے لئے اچھا سوچیں گے تو  یہ جانتے بوجھتے کہ موت کا دن تو کسی بھی وقت آ سکتا ہے  ، آپ آج سے ایسا قدم کیوں نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

جیسا یوسف نے انکو بتایا تھا انکے ساتھ ویسے ہی ہوا۔ فرعون کی تیسرے دن سالگرہ تھی اور اس نے تما م نوکروں کی ضیافت کی اور اسے ساقی اور نان پز بھی یاد آئے۔ ساقی کو تو اس نے بحال کر دیا مگر نان پز کو ویسے ہی سزا دلوائی جیسا یوسف نے بتایا تھا۔  ساقی نے بحال ہونے کے بعد یوسف کو یاد نہ رکھا بلکہ وہ اسکو بھول گیا۔ ایک بار پھر سے یوسف کی امید جو بنی تھی،  جو خواب تھا قید سے نکلنے کا وہ فی الحال کے لئے ادھورا رہ گیا- انسان کے اپنے بنائے  ہوئے خواب  اگر خدا کے دکھلائے ہوئے نہیں تو وہ ادھورے رہ سکتے ہیں  مگر جو خواب خدا دکھاتا ہے وہ انکو پورا کرنا بھی جانتا ہے۔

ہم پیدائش 41 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہوا کہ وہ آپ کے خوابوں کو ٹوٹنے نہ دے بلکہ انھیں اپنی مرضی کے مطابق پورا کرے۔ آمین