آپ کلام مقدس سے احبار کا 12 باب مکمل خود پڑھیں۔
احبار 12 باب مختصر ہے اور خاص ان عورتوں کی رسمی پاکیزگی کے احکامات پر مشتمل ہے جن پر انکا اولاد پیدا کرنے کے بعد عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے مسیحیوں کی نظر میں یہ احکامات اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ پرانے عہد نامے کے دور میں عورتوں کی اتنی اہمیت نہیں تھی اور عموماً عورتوں کی اپنی سوچ بھی یہی ہے کہ شاید خداوند نے انہیں سزا دی ہوئی ہے اور اسکی وجہ حوا کا وہ گناہ کرنا تھا جس کی بدولت آدم اور حوا کو باغ عدن سے نکال دیا گیا۔ ہم پیدایش 1:27 اور 28 میں ہم یوں پڑھتے ہیں؛
اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اسکو پیدا کیا۔ نر و ناری انکو پیدا کیا۔ اور خدا نے انکو برکت دی اور کہا پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور ومحکوم کرو۔۔۔۔۔۔
اولاد کو جنم دینا توریت کے حکموں کے مطابق مثبت حکموں میں سے ایک ہے۔ اولاد پیدا کرنا خداوند کی دی ہوئی برکتوں میں سے ایک برکت ہے۔احبار 12:2 میں جہاں لکھا ہے ۔۔جب عورت حاملہ ہو۔۔۔۔ ، عبرانی کلام میں اسکا لفظی معنی یوں بنے گا ” وہ (عورت) بیج بوئے”۔ عبرانی میں "بیج بوئے” کے لئے لفظ "تزریاہ، תזריע , Tazria ہے۔ عبرانی لفظ زیرا، זרע , Zera کا استعمال ہمیں پیدایش 3:15 میں بھی دکھائی دیتا ہے جہاں عورت کی "نسل” کا ذکر ہے۔ مشناہ کے مطابق اگر ماں باپ میں سے ماں یہودی ہو اور باپ غیر یہودی، تو بچے یہودی ہیں ۔مگر اگر باپ یہودی ہو اور ماں غیر یہودی، تو بچے غیر یہودی ہیں۔ (نحمیاہ 13 باب کو پڑھ کر سوچیں)۔ آرتھوڈکس یہودی ان تمام کو جو کہ خاندانی یہودی نہ ہوں (یعنی جن کے ماں اور باپ دونوں یہودی نہ ہوں یا جن کی ماں یہودی نہ ہو )، غیر یہودی تصور کرتے ہیں چاہے وہ یہودی طور طریقے پر ہی ایمان کیوں نہ رکھتے ہوں۔ کلام مقدس سے ایک بہت بڑی مثال داؤد بادشاہ کی ہے اور کہنے کو داؤد بادشاہ یہودی ہی تھے مگر اسکے باوجود یہودی دانشور انکو مکمل یہودی تصور نہیں کرتے۔ میں بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگی۔
اگر عورت کے بیج کی بات کی گئی ہے تو غور کریں کہ یشوعا نے بھی بیج کی تمثیل سنائی تھی۔ پیدائش 3:15 میں سانپ کی نسل کے لئے بھی "بیج” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عورت کا بیج اور سانپ کا بیج۔ نئے عہد نامے کو پرانے عہد نامے سے ہٹ کر بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جو کوئی بنیادی تعلیم سے ہٹ کر بیان کرتا ہے وہ خود بھی ٹھوکر کھاتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا سبب ہے۔
اگر عورت کے بیٹا پیدا ہو تو وہ چالیس دن تک ناپاک تصور کی جاتی ہے اور اس دوران میں کسی مقدس چیز کو چھونا یا مقدس یعنی خداوند کی ہیکل میں داخل ہونا منع ہے۔ بے شک اب ہیکل نہیں ہےاسلئے یہ حکم عائد نہیں ہوتا۔ ہم اسکے بارے میں مزید آگے بھی پڑھیں گے۔ بیٹے کے لئے اگر چالیس دن ناپا کیزگی کے ہیں تو بیٹی کے پیدا ہونے کی صورت میں ایام دُگنے ہیں۔ شاید آپ نے بھی سوچا ہو کہ ایسا کیوں ہے۔ یوبلی کے طومار کے مطابق تخلیق کے پہلے ہفتے کے چھٹے دن خدواند نے آدم کو بنایا اور اسکے دوسرے ہفتے عورت کو بنایا اور یہی وجہ ہے کہ بیٹے کے پیدا ہونے پر ناپاکی کے سات دن اور بیٹی کے پیدا ہونے پر چودہ دن ہیں۔ سات اور تینتیس دن ملا کر چالیس بنے۔ اور بیٹی کے لئے چودہ اور چھیاسٹھ دن ملا کر 80 دن بنے۔ سات اور چودہ ناپاکیزگی کے ایام اور تینتیس اور چھیاسٹھ طہارت کے ایام۔ آپ اگر انگلش میں یوبلی کے سکرول یعنی طومار کو پڑھا نا چاہیں تو اسکا انگلش میں ترجمہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
کلام مقدس میں ہمیں احبار 17:11میں لکھا ملتا ہے کہ جسم کی جان خون میں ہے۔ جب تک خون جسم میں ہے زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ مگر حیض کے ایام میں جسم سے خون کا نکلنا، وہ خون، زندگی بخش خون نہیں بلکہ میلا خون ہے۔ طہارت کے ان ایام کو پورا کرنا بے شک ایک مثبت حکم ہے ۔عورت کو جسمانی طور پر پھر سے مضبوط ہونے کا وقت مل جاتا ہے جو کہ نومولود کے لئے بھی اچھا ہے ۔ بیٹے کے ختنہ کا آٹھوین دن کروائے جانے کا حکم بھی ایک بار پھر سے ہم پڑھتے ہیں۔ اسی دن بیٹے کو نام دیا جاتا ہے۔ طہارت کے ایام پر مختصر سی بات کر دوں۔ لفظ طہارت کے معنی ہیں "پاک کرنا، پاکیزگی”۔ عبرانی میں یہ لفظ یاد رکھنا مشکل نہیں ۔ اسکو عبرانی میں "طاہور، טהר , Tahor کہتے ہیں۔ عورت کے یہ ایام پاکیزگی کے اس مقام کو حاصل کرنے کے ہیں جنکا حکم خداوند کی طرف سے ہے۔ بیٹی پیدا ہونے کی صورت میں طہارت کے یہ ایام تینتس نہیں بلکہ چھیاسٹھ ہیں۔ بیٹی کے لئے زیادہ اسلئے کہ وہ آگے چل کر خود مرد سے مل کر زندگی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اسلئے اسکے لئے پاکیزگی کے ایام یعنی معیار اونچا ہے۔
عورت کو ان ایام کے پورے ہونے کے بعد سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی چڑھانے کا حکم ہے۔ یاد ہے کہ میں نے سوختنی قربانی کے لئے کیا بیان کیا تھا کہ یہ سوختنی قربانی یعنی عولا، سے مراد "چڑھنا” ہے۔ اگر آپ کو نہیں یاد تو پھر سے احبار 1 باب کا مطالعہ پڑھیں۔ پاکیزگی کے اونچے مقام کے بعد سوختنی قربا نی چڑھانا۔۔ سمجھ میں آتا ہے۔ مگر پھر خطا کی قربانی کیوں؟ ایک خاص سوال ، کیا آپ کو علم ہے کہ سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی کس سمت میں چڑھائی جاتی تھی؟ خیر اسکو فی الحال کے لئے چھوڑیں۔ خطا کی قربانی اسلئے چڑھائی جاتی تھی کہ شاید عورت نے اولاد کو درد سے جنم دیتے ہوئے کچھ ایسا بول دیا ہو جو کہ خداوند کے کلام کے خلاف جاتا ہو یا پھر شاید وہ درد کا سوچ کر دوبارہ اولاد نہ پیدا کرنے کا لفظی عہد کر لے۔ یہ بات مرد نہیں مگر عورت ضرور سمجھ سکتی ہے اسلئے خطا کی قربانی کا حکم ہے۔ یہ سوچنا کہ خطا کی قربانی کا تعلق اولاد سے ہے تو وہ غلط ہے۔ امید ہے کہ آپ کو اس باب کی پہلے سے بہتر سمجھ آ گئی ہوگی۔
اگلی دفعہ ہم مختصر سا جائزہ احبار کے 13 باب کا لیں گے۔ خداوند آپ کے دلوں میں ڈالے اپنے کلام کے بیج کو بڑھائیں کہ آ پ اسکے موافق پھل پیدا کریں، یشوعا کے نام میں۔ آمین