آپ کلامِ مقدس سے احبار 8 باب کو مکمل خود پڑھیں۔
ہم نے احبار کے 6 باب میں پڑھا تھا کہ خداوند نے ہارون اور اسکے بیٹوں کو مختلف قربانیوں سے متعلق احکامات دئے تھے۔ احبار 6:8 میں "حکم” کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ "ضاو، צו
, Tzav” ہے۔ حکم کا یہ عبرانی لفظ ملٹری زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ خداوند لشکروں کے خدا ہیں یعنی کہ عبرانی زبان میں "יהוה צבאות،ادونائی ضواعوت، YHVH Tzva’ot”۔ ہارون اور انکے بیٹوں کو قربانیوں سے متعلق آرڈر جاری کرنے والے انکے کمانڈر تھے۔ اس حکم کو ملٹری زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں کہ انکے لئے یہ احکامات معمولی حکم نہیں تھے۔
احبار 8:6 میں ہمیں یوں لکھا ملتا ہے؛
پھر موسیٰ ہارون اور اسکے بیٹوں کو آگے لایا اور انکو پانی سے غسل دیا۔
گو کہ اس باب میں ہم غسل کے بارے میں تو خدا کےحکم کو نہیں پڑھتے مگر موسیٰ نبی کو خداوند کےحکم کا علم تھا۔ خداوند نے جب اپنی شریعت دینی تھی تو تب خداوند نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کواپنے جامے دھونے اور پاک صاف ہونے کا حکم دیا تھا۔ (جامے دھونے کا ذکر اور کلام میں کہاں ہے؟) نئے عہد نامے میں ہم بپتسمہ کا لفظ پڑھتے ہیں مگر پرانے عہدنامے میں ایک دفعہ بھی نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یشوعا نے اپنی زندگی شریعت کے مطابق گذاری اگر بپتسمہ کوئی نیا تصور ہوتا جسکا حکم توریت میں نہیں دیا گیا ہوتا تو یشوعا بپتسمہ نہ لیتے اور نہ ہی یہ کہتے کہ "ساری راستبازی کو پورا کرنا مناسب ہے۔” اوپر درج آیت میں جہاں "غسل” لکھا ہےوہ عبرانی میں لفظ "רחץ ، راختز ,Rachatz ” ہے۔ جسکا استعمال پرانے عہد نامے میں بارہا ہوا ہےاور جس سے مراد غسل ہی بنتا ہے۔ ہم نے خروج کی کتاب میں مشکان یعنی مسکن کی تعمیر کے وقت جو احکامات پڑھے تھے ان میں بھی ہاتھ اور پیر کو دھونے کا حوالہ پڑھا تھا۔ خداوند کے کاموں کو انجام دینے سےپہلے رسمی پاکیزگی لازمی ہے۔ ہارون اورانکے بیٹے تو گھر میں بھی غسل کر سکتے تھے جو کہ انھوں نے لیا بھی ہوگا اور پھر بعد میں خداوند کے حکم کےمطابق کاہن کے لباس کو پہن کر تیل سے مسح ہوتے۔ مگر نہیں انکو غسل دلانے والے موسیٰ نبی تھے۔ موسیٰ نبی ایک طرح سے اس بات کےگواہ تھے کہ ہارون اور انکے بیٹےکاہن کے لباس کو پہننے کے لئے رسمی طور پر پاک ہیں۔ رسمی طور پر۔۔۔ کبھی میں بھی توریت کے احکامات اور ربیوں کے احکامات کو لےکر بہت گڈ مڈا جاتی تھی کیونکہ نہ تو عبرانی زبان کی سمجھ تھی اورنہ ہی ربیوں کی تعلیم کی بنیاد پختہ تھی۔ اب نئے عہد نامے کی روشنی میں ربیوں کی تشریح اور کلام دونوں کی بہتر سمجھ آتی ہے۔
ربیوں کی تعلیم، توریت کی تعلیم سے جدا نہیں بلکہ ہمیشہ سے انکی تعلیم کا بیج توریت ہی رہا ہے۔ میں آپ کو دو عبرانی لفظوں کا معنی سمجھانے لگی ہوں ایک لفظ ہے ” حلاخا، הלכה , Halakha” جسکے لفظی معنی ہیں چال۔ یہ لفظ ان احکامات کو ظاہر کرتا ہے جو کہ توریت کے احکامات پر مبنی ہیں۔ یعنی کہ اگر سبت سے متعلق کلام میں جو آیات ہیں تو وہ کس قسم کے احکامات(چال) کو بیان کرتی ہیں۔ ربی عبرانی لفظوں کے معنی پر غور کرتے ہیں اور پھر اسکی بنیاد پر ان حکموں کو بیان کرتے ہیں۔ یہ تمام احکامات یشوعا کے زمانے سے بھی پہلے سے چلتے آ رہے ہیں۔ سبت سے متعلق عام حکم کے بارے میں تو ہم جانتےہیں کہ کلام میں درج ہے کہ کوئی کام نہیں کرنا اور بدقسمتی سے ہمارا اردو یاانگلش ترجمہ کام ہی بیان کرتا ہے مگر عبرانی میں جن چند الفاظ کا ذکر ہوا اسکی بنیاد پر ربی یا پھر پرانے وقت کے فریسی "حلاخا” کو بیان کر تے تھے۔ دوسرا لفظ "اگادہ/ہگادہ، אגדה/הגדה , Aggadah/Haggadah "ہے جس سے مراد بیان کرنا بنتا ہے۔ جو کہ حکموں کے معنی کو بیان کرتا ہے۔ اسکو بیان کرنے والے ربی/فریسی رہے ہیں۔
ہم نے اوپر عبرانی لفظ راختز کی بات کی اس سے مراد غسل کرنا یا دھونا بنتا ہے۔ ویسے تو بپتسمہ کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے مگر میں ابھی آپ کو نئے عہد نامے میں درج ایک بات کو صحیح طور پرسمجھانا چاہونگی۔ میرے ساتھ مرقس 7:1 سے 7آیات کو دیکھیں؛
پھر فریسی اور بعض فقیہ اسکے پاس جمع ہوئے۔ وہ یروشلیم سے آئے تھے۔ اور انھوں نے دیکھا کہ اسکے بعض شاگرد ناپاک یعنی بن دھوئے ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ کیونکہ فریسی اور سب یہودی بزرگوں کی روایت پر قائم رہنے کے سبب جب تک اپنے ہاتھ خوب دھو نہ لیں نہیں کھاتے۔ اور بازار سے آکر جب تک غسل نہ کر لیں نہیں کھاتے اور بہت سی اور باتیں ہیں جو قائم رکھنے کے لئے بزرگوں سے انکو پُہنچی ہیں جیسے پیالوں اور لوٹوں اور تانبے کے برتنوں کو دھونا۔ پس فریسیوں اور فقہیوں نے اس سے پوچھا کیا سبب ہے کہ تیرے شاگرد بُزرگوں کی روایت پر نہیں چلتے بلکہ ناپاک ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ اس نے ان سے کہا یسعیاہ نے تم ریاکاروں کے حق میں کیا خوب نبوت کی جیسا کہ لکھا ہے۔ یہ امت ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرتی ہے لیکن انکے دل مجھ سے دور ہیں۔ اور یہ بیفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔
یشوعا نے فریسیوں اور فقہیوں کے سوال کے جواب میں دو مسائل پیش کئے ایک تو یہ کہ "انکے دل مجھ سے دور ہیں” اور دوسرا "انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔” آج بھی روایتی یہودی ایسا ہی کرتے ہیں۔ انکا دھونا، عام دھونا نہیں بلکہ برکت کی دعا کے ساتھ دھونا ہے جو کہ عام صابن کے دھونے سے ہٹ کر ہے۔ صابن سے دھونے کے بعد خاص دھونا (آگے مطالعوں میں بیان کرونگی) انکی روایت ہے۔ یشوعا نے انکے دھونے کو غلط نہیں کہا بلکہ ان دلوں کی حالت اور نیت کو بیان کیا ہے۔ جو آیت یشوعا نے یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سے کہی اسکو میں عبرانی زبان میں پڑھ رہی تھی مجھے اس کے اردو اور انگلش ترجمے میں کچھ جھول نظر آیا۔ میں عبرانی آیت یہاں درج کر رہی ہوں اگر آپ کو سٹرانگ چیک کرنا آتا ہے تو برائے مہربانی خود بھی اس آیت کو لفظ بہ لفظ دیکھیں اور جس لفظ کو میں دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کرنے لگی ہوں اسکو بھی دیکھیں۔
ויאמר אדני יען כי נגש העם הזה בפיו ובשפתיו כבדוני ולבו רחק ממני ותהי יראתם אתי מצות אנשים מלמדה
اس عبرانی آیت میں لفظ "יראתם، یراتام، Yiratam” کا ترجمہ دیکھیں کہ کیا بنتا ہے۔ عبرانی لفظ "یرات” سے مراد خوف ہے۔ امثال 1:7 اور 9:10 میں بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے گو کہ وہاں خداوند کا خوف ہے مگر اوپر دئے لفظ میں اس سے مراد "انکا خوف” ہے۔ اگر آپ گوگل ٹرانسلیٹر استعمال کریں گے توصحیح ترجمہ نہیں ملے گا اسکے لئے آپ اسکے آخری حرف یعنی ם کو ہٹا دیں۔اب میں اس آیت کو اپنے لفظوں میں اردو میں بیان کرنے لگی ہوں؛
اور خداوند نے کہا کہ یہ امت اپنے منہ اور لبوں سے تو میری تعظیم کرتی ہے لیکن انکے دل مجھ سے دور ہیں "اور انکا میرا لئے خوف انسانی حکموں کی تعلیم پر ہے۔”
And the Lord said, For as much as this people draw near to me, and with their mouth and with their lips to honor me, but have removed their heart far from me, and their fear of me is a commandment of men which has been taught.
میں جانتی ہوں کہ میں ترجمہ کرنے میں بہت اچھی نہیں ہوں اسلئے میں نے انگلش کی آیت بھی شئیر کی ہے جو کہ عبرانی آیت کا ترجمہ ہے۔ مگر عبرانی کلام اس بات کا اشارہ کر رہا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خداوند کا خوف اتنا ڈال دیا گیا ہے جو کہ انسانی حکم پر ہے کہ وہ جب حکموں پر چلتے ہیں تو انکے منہ اور لب تو خداوند کی تعظیم کرتے ہیں مگر انکا دل خداوند کی طرف مائل نہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ ان حکموں پر عمل کر رہے ہیں تو وہ خداوند کے قریب ہیں۔ کہ اگر ایسا کریں گے تو خداوند قبول کریں گے۔ مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ خداوند کے حکموں پر تو عمل کرتے ہیں مگر انکے اعمال دکھا وئے کے لئے ہیں کیونکہ شاید باقی سب کر رہے ہیں۔ یہودیوں کو چھوڑیں اپنے مسیحیوں کو ہی دیکھ لیں کلام کی آیات کا علم نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہم کرسمس ، مسیح کی پیدایش کا دن مناتے ہیں اور ایسٹر مسیح کے جی اٹھنے کا دن ہے۔ اتوار کو چرچ ضرور جانا ہے کیونکہ اگر نہ گئے تو جان پہچان والے پوچھیں گے کہ آئے کیوں نہیں۔۔۔ اور کچھ لوگ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ کہیں خداوند کو نہ ناراض کر بیٹھیں۔ لبوں سے تعظیم تو ہم میں سے زیادہ تر آج بھی کرتے ہیں۔ فون کوعبادت میں مکمل بند نہیں کر پاتے کہ کہیں کسی کا میسج نہ آجائے۔ لب تو خداوند کی عبادت میں مصروف ہیں مگر دل و دماغ فون یا سوشل میڈیا یعنی فیس بک یا واٹس ایپ کے میسجز کی طرف ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت کو یشوعا بیان کر رہے تھے۔ میں روایتی یہودیوں کی روایات کے خلاف نہیں مگر لے دے کر بات وہی آ جاتی ہے کہ انکا دل ہو یا ہمارا دل، خداوند کے کتنا قریب ہے۔ کیا ہم خداوند کے حکموں پر اسلئے چلتے ہیں کہ ہم خداوند کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا کہ ہمارے دلوں میں خداوند کا اتنا خوف ہے کہ ہم ان حکموں پر عمل تو کرتے ہیں مگر بوجھ سمجھ کر اور صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے۔ کیا آج لوگ ہاتھ دھو کر کھانا نہیں کھاتے؟
آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے بتایا تھا کہ یہودیوں کے نزدیک کھانے کی میز، مذبح گاہ کی مانند ہے۔ یہودیوں کے نزدیک ان میں سے ہر کوئی خداوند کا کاہن ہے اور وہ اپنے گھر کے کاہن ہیں۔ اسلئے غسل /دھونے کے احکامات انہی حکموں سے نکلے ہیں جنکے بارے میں ہم آگے اور بھی پڑھیں گے۔ ہارون اور انکے بیٹوں کا خداوند کے کام شروع کرنے سے پہلے اور پاکیزگی کے لباس یعنی کاہنت کے لباس کو پہننے سے پہلے غسل کرنا لازم تھا۔
میں ابھی اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی دفعہ ہم مزید بات کریں گے۔ خداوند خدا مجھے اور آپ کو اپنے حکموں کے وسیلے سے پاک ٹھہرایں اور ہم ہمیشہ دل سے خداوند کی خدمت کرنے والے بنیں۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین