بہت عرصے سے میں سوچ رہی تھی کہ ایک مختصر سا آرٹیکل "مخالف مسیح کی پہچان” پر بھی لکھوں کیونکہ میرے نزدیک یہ ایک وہ موضوع ہے جسکے بارے میں زیادہ تر مسیحی رہنما بات نہیں کرتے اور اسکو خود بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جیسے کہ یشوعا (یسوع) کی پیدائش سے پہلے ہی ہمیں پرانے عہد نامے (تناخ) میں "مسیح” ، جسے عبرانی میں "مشیاخ، מָשִׁיחַ Mashiach” کہتے ہیں، کے بارے میں پیشن گوئیاں ملتی ہیں ویسے ہی خدا نے "مخالف ِمسیح” کے بارے میں بھی پہلے سے ہی خبردار کیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں علم ہے کہ مسیحا (مشیاخ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ؛
• مسیحا(مشیاخ) نے عورت سے پیدا ہونا تھا (پیدائش 3:15) اور ہمیں متی 1:20 یا گلتیوں 4:4 میں اس پیشن گوئی کا ثبوت ملتا ہے۔
• مسیحا (مشیاخ) نے بیت لحم میں پیدا ہونا تھا (میکاہ 5:2) اور ہمیں متی 2:1 اور 6 میں اورلوقا 2:4سے 6 میں اسکا ثبوت نظر آتا ہے۔
• مشیاخ نے کنواری عورت سے پیدا ہونا تھا (یسعیاہ 7:14) اور آپ کو نئے عہد نامے میں متی 1:22سے 23 اور لوقا 1:26 سے 31 میں یہ حوالہ ملتا ہے۔
• مشیاخ نے ابرہام کی نسل سے ہونا تھا (پیدائش 22:18 اور 12:3) اور نئے عہد نامے میں اسکا ثبوت متی 1:1 اور رومیوں 9:5 میں ملتا ہے۔
• مشیاخ نے اضحاق (پیدائش 17:19 اور 21:12) اور یعقوب (گنتی 24:17) کی نسل سے ہونا تھا اور یہوداہ کے قبیلے سے نکلنا تھا (پیدایش 49:10) آپ کو اسکا ثبوت نئے عہد نامے میں متی 1 اور لوقا 3 میں ملے گا۔
• مشیاخ کو عمانوائیل (یسعیاہ 7:14) پکارا جانا تھا مطلب "خدا ہمارے ساتھ” جو کہ ہم کہتے ہیں اور متی 1:23 اس بات کا ثبوت ہے۔
• مشیاخ نے مصر سے نکلنا تھا اور اسکی پیدایش پر بچوں کا قتلِ عام ہونا تھا (یرمیاہ 31:15) ان باتوں کا ثبوت آپ کو متی 2 باب میں ملے گا۔
• مشیاخ نے موسیٰ کی مانند نبی ہونا تھا جو کہ بنی اسرائیل سے پیدا ہونا تھا (استثنا 18:15) اور اسکا ثبوت اعمال 3:20 سے 22 میں ہے۔
• مشیاخ ناصری کہیلائیگا ( یسعیاہ 11:1 آپ کو اسے سمجھنے کے لئے عبرانی کلام دیکھنا پڑنا ہے) اور ثبوت کے لئے متی 2:23 دیکھیں۔
• مشیاخ تمثیل بیان کریگا (زبور 78:2 سے 4 اور یسعیاہ 6:9 سے 10) اور ثبوت متی 13:10 سے 15 اور 34سے 35 آیات ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں کہ مسیحا کی پیدایش کہاں اور کیسے ہوگی۔ اسی طرح سے اگر آپ اسکے مصلوب ہونے کے بارے میں پیشن گوئیاں دیکھیں گے تو آپ کو بہت سی آیات ملیں گی۔ اگر آپ اس کے بارے میں میرا زبور 22 پر لکھا آرٹیکل پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ اسے میری ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ، میں نے یشوعا کے پکڑوائے جانے سے لے کر صلیب پر جان دینے کے بارے میں زبور 22 میں درج پیشن گوئیوں کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح سے اگر آپ میرے خداوند کی عیدوں پر آرٹیکلز کو پڑھیں گے تو میں نے ان میں بھی بیان کیا ہے کہ یشوعا نے کیسے اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دیا ہے اور کون سی وہ عیدیں ہیں جو کہ اسکی دوسری آمد پر پوری ہونگی۔ یہ تمام مختصر سے حوالے ہیں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ کلام کی کن باتوں سے بنی اسرائیل مسیحا کو پہچان سکتے تھے۔ ہم اب کچھ ان آیات کا مطالعہ کریں گے جس سے ہمیں کلام ، مخالف ِمسیح کی پہچان کروانا چاہتا ہے۔
اب اگر آپ کو میری باتوں کی کچھ سمجھ آگئی ہے تو ہم آگے بڑھتے ہیں۔ کلام میں مخالفِ مسیح کا ذکر صرف 4 بار (5 بار اگر آپ 1 یوحنا 2:18 میں درج لفظ کو 2 بار گنیں ) ہوا ہے اور وہ بھی یوحنا نبی کے پہلے اور دوسرے خط میں، مطلب کہ صرف اور صرف نئے عہد نامے میں۔ میرے ساتھ ان آیات کو کلام میں سے دیکھیں۔ میں آپ کی آسانی کے لئے انہیں یہاں لکھ رہی ہوں مگر برائے مہربانی کلام میں سے خود بھی ان پر نظر ڈالیں۔
1یوحنا 2:18
ائے لڑکو! یہ اخیر وقت ہےاور جیسا تم نے سنا ہے کہ مخالفِ مسیح آنے والا ہے۔ اسکے موافق اب بھی بہت سے مخالفِ مسیح پیدا ہوگئے ہیں۔ اس سے ہم جانتے ہیں کہ یہ اخیر وقت ہے۔
1 یوحنا 2:22
کون جھوٹا ہے سوا اسکے جو یسوع کے مسیح ہونے کا انکار کرتا ہے؟مخالفِ مسیح وہی ہے جو باپ اور بیٹے کا انکار کرتا ہے۔
1 یوحنا4:3
اور جو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں اور یہی مخالفِ مسیح کی روح ہے جسکی خبر تم سن چکے ہو کہ وہ آنے والی ہے بلکہ اب بھی دنیا میں موجود ہے۔
2 یوحنا 1:7
کیونکہ بہت سے ایسے گمراہ کرنے والے دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جو یسوع مسیح کے مجسم ہو کر آنے کا اقرار نہیں کرتے۔ گمراہ کرنے والا اور مخالفِ مسیح یہی ہے۔
ہمیں مخالفِ مسیح کے بارے میں جتنی بھی پہلی تعلیمات دی گئی ہیں وہ کافی زیادہ حد تک غلط ہیں کیونکہ مخالفِ مسیح کو اور جن آیات سے ملایا گیا ہے وہ کچھ اور تفصیل بیان کرتی ہیں اور یہی ہم اپنے اس آرٹیکل سے پہچاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر مخالف مسیحا کون ہے۔ ہم نئے عہد نامے سے یشوعا کی تعلیم پر نظر کریں گے اور پھر ساتھ میں ہی چند آیات پرانے عہد نامے سے دیکھیں گے۔ یشوعا نے متی 24 باب میں اپنے پھر سے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کے نشان کے بارے میں اپنے شاگردوں کو کچھ خاص باتیں بتائیں تھی۔ آپ کو کچھ اسی قسم کے حوالے مرقس 13 باب اور لوقا 21 باب میں بھی ملیں گے۔ میں متی 24 سے چندآیات لکھ کر بیان کرنے لگی ہوں۔ یشوعا نے تنبیہ کی ؛
متی 24:4 سے5
یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار! کوئی تمکو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئینگے اور کہینگے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کرینگے۔
"میں مسیح ہوں” اس کا مطلب یہ ہےکہ یسوع ، مسیح ہے۔ آپ نے ان آیات کی بہت سی تشریحات پڑھی یا سنی ہونگی مگر آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ آپ کے پادری بھی ہوسکتے ہیں جو کہ یسوع کے نام میں آپ کے پاس آئینگے اور آپ کو مسیح یعنی یسوع کا بتا کر یا پھر اسکے نام میں کلام کے خلاف تعلیم دے کر، کلام کی سچائی سے دور کردیں گے۔ میں نے بہت سے آرٹیکلز میں پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اگر یشوعا کے دور میں یشوعا اور انکے شاگردوں کے پاس کلام موجود تھا تو وہ صرف اور صرف "تناخ” یعنی ہماری بائبل کا پرانا عہد نامہ تھا۔ جس سے انھیں معلوم تھا کہ مسیح کو کیسے پہچاننا ہے اور اسی سے وہ پہچان سکتے تھے کہ کون مخالف مسیحا ہے۔ وہ تمام باتیں جو کہ مشیاخ کے بارے میں درج تھیں اگر انکو کوئی وہ جو کہ اپنے آپ کو مسیحا بتاتا ہو پوری کرتا ہوا نہ نظر آئے تو انھیں اسی سے علم ہو جاتا تھا کہ یہ کلام کے مطابق درج ” مسیحا ” نہیں ہے۔ گو کہ یشوعا کے بعد بھی چند ایک اور لوگ اٹھے تھے جن کو ان یہودیوں نے ، جنہوں نے یشوعا کو مسیحا ماننے سے انکار کیا تھا ، مسیحا سمجھا مگر کچھ ہی عرصے کے بعد انھیں علم ہوگیا کہ وہ مسیحا نہیں تھے کیونکہ انھوں نے کلام میں درج "مسیحا” کے بارے میں درج تمام آیات کو پورا نہیں کیا تھا جن کو یہودی سمجھتے اور جانتے تھے۔ ایک بار پھر سے متی 24:4 سے 5 پر غور کریں ۔ اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ یشوعا کے نام میں آئینگے۔ یشوعا کے بعد جو چند لوگ اٹھے تھے انکا نام "یشوعا” نہیں تھا۔ آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہودیوں کی نظر میں جتنے بھی جھوٹے مسیحا اٹھے تھے ان میں سے سوائے یشوعا کے اور کسی کا بھی نام یشوعا نہیں تھا۔ یشوعا کو یہودیوں نے کن باتوں کی وجہ سے رد کیا اس پر میں نے اپنے چند آرٹیکل میں مختصر ذکر کیا ہے۔ ہم اس آرٹیکل میں اس بات کو زیرِبحث نہیں لائیں گے۔
یشوعا کے نام میں اگر بہتیرے آئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسیحی خود ہیں جو کہ رومن کیتھولک چرچ کی تعلیم کی بنا پر گمراہ ہوگئے اور پھر اسکے بعد ان رومن کیتھولک چرچ سے جتنے بھی آگے اور یا اب کے موجودہ چرچز ہیں تو وہ یسوع کے نام میں ابھی تک لوگوں کو گمراہ ہی کر رہے ہیں۔ وہ تمام جو کہ توریت /تناخ کی سچائی کو رد کرتے ہیں، خداوند کے دشمن ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میری اس بات سے ابھی متفق نہیں ہونگے۔ مگر چلیں آئیں آگے بڑھتے ہیں ، ابھی تو ہم نے یشوعا کی تنبیہ کے مطابق تمام آیات پر غور ہی نہیں کیا۔
متی 24:11 سے 12
اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہونگے اور بہتیروں کو گمراہ کرینگے۔ اور بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائیگی۔
یشوعا چونکہ اپنے شاگردوں سے مخاطب تھے اور جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں بلکہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ موجود تھا لہذا اگر وہ یشوعا کی اس بات کو سمجھ رہے تھے تو وہ صرف اور صرف پرانے عہد نامے میں درج کلام کی آیات کی رو سے سمجھ رہے ہونگے۔ استثنا 13 باب میں خداوند نے بیان کیا ہے کہ خداوند کے لوگ یعنی بنی اسرائیل کیسے جھوٹے نبی کو پہچان سکتے تھے۔ خداوند نے انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی کہ جھوٹا نبی شریعت پر چلنے والا نہ ہو کیونکہ اگر کوئی نبی، بنی اسرائیلیوں میں سے ہی ہے تو اسکے لیے لازم تھا کہ وہ خداوند کی شریعت پر عمل کرتا۔ اگر وہ شریعت کے مطابق نہیں عمل کرنے والوں میں سے تھا تو بنی اسرائیل اسکو اسی وقت نبی ماننے سے انکار کر سکتے تھے۔ اور اگر کوئی نبی جو خداوند کے نام میں کچھ کہتا اور وہ پورا نہ ہوتا کیونکہ وہ بات نبی نے خود سے بنا کر کہی تھی تو وہ جھوٹا نبی ٹھہرتا (استثنا 18:20 سے 22)۔
لیکن جو نبی گستاخ بنکر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اسکو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اسکے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بنکر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔
میں جب مسیحیوں سے یشوعا کے نام کا ذکر کرتی ہوں تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ یسوع یا جیزز یا عیسا نام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ ہماری دعا تو سنتا ہے۔ انھیں اس بات کا ذرا سا بھی علم نہیں کہ وہ یشوعا کا نہیں بلکہ جھوٹے نبیوں کے ذریعےسے سکھائے گئے غیر معبود کا نام اپنی زبان پر لیتے ہیں اور اپنے خداوند کا اصل نام کا جلال غیر معبود کے نام کر دیتے ہیں۔ میں تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں۔ میں اپنوں کو اوران مسیحیوں کو صرف اور صرف تعلیم دینے کے لئے یسوع کا لفظ استعمال کرتی ہوں یا پھر اردو کلام کی آیات کو لکھتے ہوئے درج کرتی ہوں، جو کہ کلام کی ان سچائیوں سے واقف نہیں ہیں مگر میری اپنی ہر دعا میں اسکا اصل نام ہی زبان پر ہوتا ہے۔ میں یشوعا کے اصل نام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہی ہوں یہاں تک کہ اب اگر کوئی یسوع یا جیزز نام میں دعا بھی مانگے تو میرا دل نہیں مانتا کہ میں اس پر آمین کہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی کبھی میرے منہ سے آمین نکل جاتا ہے کیونکہ ابھی بھی بہت سی عادتیں پکی نہیں ہوئی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ سال ہا سال کی تعلیم اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ہے مگر اگر ہم ابھی اسکی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے تو ہم کبھی بھی سیکھ نہیں پائیں گے۔ یہ میرا اپنا ایک طریقہ ہے اس بات کی طرف ایک قدم بڑھانے کا۔ ایک بار غور سے متی 24 باب پڑھیں۔ میرے خیال میں یشوعا کا اصل نام استعمال کرنے سے بھی آپ سے عداوت رکھنے والے بہت سے ہیں۔
ہمارے پرانے عہد نامے کے استثنا کے حوالے میں بے دینی کا ذکر نہیں کیا گیا مگر یشوعا نے اپنے شاگردوں کو اپنی بات سمجھانے کے لئے بے دینی کا لفظ استعمال کیا ہے (متی 24:12)۔ آپ کے خیال میں یشوعا اور یشوعا کے شاگرد جو کہ خود یہودی تھے، انکے لئے بے دینی سے کیا مراد ہوسکتی ہے؟ ان پر یہ بات واضح تھی کہ بے دینی سے مراد یہ ہے کہ جو شریعت یعنی توریت پر عمل نہ کرتا ہو کیونکہ توریت کو ماننا اور اسکی باتوں پر عمل کرنا ہی ان یہودیوں یہاں تک کہ یشوعا کا دین ایمان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یوحنا نبی نے گناہ کی بابت لوگوں کو سمجھاتے ہوئے لکھا ہے (1 یوحنا 3:4):
جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔
اس آیت میں شرع سے مراد شریعت ہے جو کہ توریت ہے۔ محبت کو بیان کرتے ہوئے یوحنا نبی نے کہا ہے (1 یوحنا 2:5):
ہاں جو کوئی اسکے کلام پر عمل کرے ا س میں یقیناً خدا کی محبت کامل ہوگئی ہے۔ ہمیں اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس میں ہیں۔
"اسکے کلام” سے یہا ں مراد "پرانا عہد نامہ یعنی تناخ” ہے کیونکہ جب نئے عہد نامے کے صحیفے لکھے گئے تھے تب تک ہمارا نیا عہد نامہ اس صورت میں نہیں تھا جس طرح سے ہم اسکو آج دیکھتے ہیں۔ ایک بار پھر سے یاد دلا دوں کہ اگر اس وقت تک ان کے پاس کوئی کلام تھا تو وہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ تھا۔ خیر اب ہم یشوعا کی دی ہوئی ایک اور وارننگ کو دیکھتے ہیں۔ یشوعا نے متی 24:15 میں اجاڑنے والی مکروہ چیز کا ذکر کیا؛
پس جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو جسکا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا۔ مقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے)۔۔۔
کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ "اجاڑنے والی مکروہ چیز ” کیا ہے؟ یشوعا نے یہ تو صاف بتایا ہے کہ اسکا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا ہے۔ اس کے لئے آپ کو دانی ایل 12:11 دیکھنا ہے؛
اور جس وقت دائمی قربانی موقوف کی جائیگی اور وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائیگی ایک ہزار دو سو نوے دن ہونگے۔
آپ ساتھ میں دانی ایل 9:27 بھی پڑھ سکتے ہیں جس میں لکھا ہے؛
اور وہ ایک ہفتہ کے لئے بہتوں سے عہد قائم کریگا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کریگا اور فصیلوں پر اجاڑنے والی مکروہات رکھی جائینگی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائیگی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اس اجاڑنے والے پر واقع ہوگی۔
ہم اس آرٹیکل میں دانی ایل نبی کی تمام پیشن گوئیوں کی گہرائی میں نہیں جائینگے مگر صرف اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے۔ دانی ایل 12:11 کی اس آیت میں دو باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ایک یہ کہ دائمی قربانی موقوف کی جائیگی اور دوسرا یہ کہ "وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائیگی۔” اگر آپ نے کبھی میرا حنوکاہ پر لکھا آرٹیکل پڑھا ہے تو شاید آپ کو اس بات کا علم ہو کہ میں نے مکابیوں کی کتاب سے اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کا ذکر کیا ہے۔ مکابیوں کی کتاب رومن کیتھولک بائبل کا حصہ ہے اور میں ہر بات میں رومن کیتھولک کو غلط نہیں کہتی ۔ حنوکاہ کا تہوار یشوعا نے منایا تھا (یوحنا 10:22)۔ اردو کلام میں حنوکاہ کو عید تجدید پکارا گیا ہے۔ مکابیوں کی کتاب سے ہمیں کچھ تفصیل ملتی ہے کہ اجاڑنے والی مکروہ چیز کیا ہے۔ آپ برائے مہربانی میرے حنوکاہ والے آرٹیکل کو بھی پڑھیں۔
انطاکس ایپفینس نے جب مصر اور اسرائیل سے اپنی حکومت جمانے کے لئے جنگ کی تو وہ بڑے تکبر سے خداوند کے مقدس میں داخل ہوا اور ہیکل کی تمام چیزوں کو لے گیا۔ اس نے فرمان جاری کیا تھا کہ سب لوگ ایک قوم بن جائیں اور اپنے دستور چھوڑ کر انکے دستوروں کو اپنائیں۔ اس نے حکم دیا تھا کہ لوگ مقدس میں قربانیاں گذراننے سے باز آئیں اور خداوند کی عیدوں کو منانا بند کر دیں۔ اس نے دیگر تمام حرام جانوروں کی قربانیاں چڑھانے کو کہا اور شریعت کے تمام طوماروں کو پھاڑنے یا جلا دینا کا حکم دیا۔ اگر کوئی بھی اسکے ان حکموں کی خلاف ورزی کرتا تو وہ قتل کر دیا جاتا۔ اس نے خداوند کے مقدس میں یونان کے دیوتا "زیوس، Zeus” کا مجسمہ کھڑا کیا۔ اگر آپ کو توریت کے احکامات کا علم نہیں تو آپ کو شاید نہ پتہ ہو کہ یہ چیزیں خداوند کی نظر میں مکروہ ہیں۔ خداوند نے بنی اسرائیل کو اپنے احکامات دئے تھے جو کہ غیر قوموں کی روشوں سے ہٹ کر تھے۔یہ احکامات موسیٰ نبی کے نہیں تھے۔
دانی ایل نبی کی کتاب کے ساتویں باب میں ہمیں مخالف مسیحا کا ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکی ہوں کہ لفظ "مخالفِ مسیحا ” کا استعمال صرف اور صرف نئے عہد نامے میں ہوا ہے مگر دانی ایل نبی کی کتاب میں ہمیں اس کا ذکر ملتا ہے جسے ہمیں "خدا کا دشمن” پکارا سکتے ہیں۔ یہی ہمارا نئے عہد نامے کا "مخالفِ مسیحا” بھی ہے۔ دانی ایل 7:25 میں اسکے بارے میں یوں لکھا ہے؛
اور وہ حق تعالیٰ کے خلاف باتیں کریگا اور حق تعالیٰ کے مقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا اور وہ ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور تک اسکے حوالہ کئے جائینگے۔
جیسا میں نے بیان کیا کہ دانی نبی کے ساتویں باب میں خداوند کے دشمن کی بات ہو رہی ہے لہذا اسکے مطابق اس آیت میں ہمیں خاص اطلاع دی گئی ہے کہ وہ خداوند کے خلاف باتیں کریگا اور اسکے مقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا۔ اس وقت تک صرف بنی اسرائیل (یہودی) قوم خداوند کے مقدسوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب وہ جو کہ یشوعا پر ایمان رکھتے ہیں اور اسکے نام سے جانے جاتے ہیں وہ بھی خداوند کے مقدسوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یشوعا کی وجہ سے وہ ابرہام کی نسل یعنی بنی اسرائیل کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یوحنا 14:24 میں یشوعا نے کہا؛
جو مجھ سے محبت نہیں رکھتا وہ میرے کلام پر عمل نہیں کرتا اور جو کلام تم سنتے ہو وہ میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا۔
ایسے ہی 1 یوحنا 2:4 میں لکھا ہے؛
جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اسے جان گیا ہوں اور اسکے حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اس میں سچائی نہیں۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکی ہوں کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس اس وقت اگر خدا کا کلام تھا تو وہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ تھا نہ کہ نیا عہد نامہ۔ اسلئے جب انھوں نے کلیسیاؤں کو خط لکھا تھا تو اس میں ذکر کئے گئے، خدا کے احکامات یا کلام سے مراد پرانا عہد نامہ یعنی شریعت تھی۔ مسیحی راہنماؤں نے خداوند کے خلاف باتیں کی ہیں۔ آپ کہیں گے وہ کیسے؟ ہم نے ابھی یوحنا 14:24 اور 1 یوحنا 2:4 کی آیات پڑھی ہیں۔ کوئی بھی جو کہ نہ تو خود خداوند کے حکموں پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو بھی منع کرتا ہو وہ خداوند کے کلام کے خلاف یعنی مخالفت میں ہی بات کر رہا ہوتا ہے۔ دانی ایل نبی کی اس آیت میں ایک اور بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ "وہ مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا” ۔ مسیحیوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ خداوند کی عیدوں کو منانے کی ضرورت نہیں، خداوند کے سبت کے دن کو پاک ماننے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنے چند دوسرے آرٹیکل میں سوال کیا تھا کہ نئے عہد نامے میں کہاں پر لکھا ہے کہ ہمیں اب کرسمس اور ایسٹر منانا ہے اور خداوند کی عیدوں کو نہیں منانا؟
کچھ غیر مسیحی دانی ایل نبی کی اس آیت کو لے کر یہ کہتے ہیں کہ دیکھا بائبل تک یہی کہتی ہے کہ شریعت بدل دی جائیگی اسلئے وہ جو کہتے ہیں کہ بائبل بدل دی گئی ہے، صحیح کہتے ہیں؟ دانی ایل نبی کی لکھی اس آیت کو پھر سے پڑھیں۔ لکھا ہے کہ "وہ مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا”۔ اس آیت میں عبرانی کلام میں "مقررہ اوقات و شریعت” کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ وہ نہیں جو کہ خداوند کی عیدوں اور خداوند کی شریعت (توریت) کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ اگر آپ نے میرے ان آرٹیکلز کو پڑھا ہے جہاں میں نے خداوند کی عیدوں اور شریعت کے الفاظ کو عبرانی کلام میں دکھایا ہے تو شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے بتایا تھا کہ خداوند کی مقرر کردہ عیدوں کے لئے عبرانی لفظ "مویدیم, מוֹעֲדִים Moedim ” ہے اور شریعت کے لئے لفظ "توراہ תּוֹרָה Torah,” ہے۔ اس آیت میں "اوقات” کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "زیمنین، זִמְנִ֣ין، "Zamnin اور شریعت کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "دات۔ וְדָ֔ת،We-dat”۔ خداوند کے دشمن کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ خداوند کی مقرر کردہ عیدوں اور خداوند کی شریعت کو بدل سکے کیونکہ یہ خداوند کے اختیار میں ہے۔ خداوند کی عیدیں اور توریت خداوند کی ہیں اسلئے کوئی اس لکھے ہوئے کلام کو نہیں بدل سکتا۔ عبرانی توریت غلطیوں سے پاک ہے ۔ اگر کہیں پر کوئی غلطی ہے تو وہ اسکے کئے ہوئے دوسری زبانوں کے ترجموں میں ہے مگر توریت میں نہیں۔
لہذا خداوند کے دشمن کی کوشش یہی ہے کہ وہ ان مقرر کردہ اوقات اور شریعت کو بدل سکے جو کہ انسانی احکامات پر مبنی ہیں۔ اسکی ایک بہت ہی سادہ سی مثال سبت کے دن کی ہے۔ ہر کوئی جو کہ کلام پڑھتا ہے، جانتا ہے کہ کلام کے مطابق ساتواں دن سبت ٹھہرایا گیا ہے مگر پھر بھی مسیحیوں کو یہی بتایا جاتا ہے کہ اب سبت کا دن اتوار ہے کیونکہ یسوع ہفتے کے پہلے دن جی اٹھا۔ زیادہ تر مسیحی خود تو کلام پڑھتے نہیں اسلئے کلام میں سے بنا تفتیش کئے وہ انسان کی سکھائی ہوئی باتوں کو مان لیتے ہیں۔ نئے عہد نامے میں یہ کہیں پر بھی نہیں لکھا گیا ہے کہ اب ہفتے کا آخری دن نہیں بلکہ پہلا دن سبت کا دن پاک مانا جائے گا۔ تبھی خداوند کی توریت (شریعت) اور خداوند کی عیدیں، آج بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے کہ یشوعا اور اسکے شاگردوں کے دور میں تھے۔ سبت کا دن نہیں بدلا ہے اگر کچھ بدلا ہے تو وہ انسان کی اپنی عقل کے مطابق انکی تشریح بدل گئی ہے۔ خداوند کا کلام زندہ کلام ہے ، جب یشوعا نے متی 15:9 میں یسعیاہ نبی کی اس آیت کو ریاکاروں کے لئے کہا تو وہی بات مجھے آج بھی بہت سے مسیحیوں کی زندگی میں پورا اترتے دکھائی دیتی ہے۔ متی 15:7 سے 9 میں یشوعا نے کہا؛
ائے ریاکارو یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔
میں نے صرف سبت کے دن کی مثال ہے مگر اگر آپ نے میرے ان آرٹیکلز کو پڑھا ہو جو کہ میں نے خداوند کی عیدوں پر لکھے ہیں تو آپ کو خود بھی اندازہ ہو جائیگا کہ خداوند کے دشمن شریعت کو "لعنت” قرار دیتے ہیں اور ان عیدوں کو منانے سے روکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں ان عیدوں کو منانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یسوع نے اپنی آمد سے ان عیدوں کو پورا کر دیا ہے۔ اب ہم شریعت کے ماتحت نہیں۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے آرٹیکلز خداوند کی عیدوں کے بارے میں کچھ وہ تفصیلات بیان کرتے ہیں جن سے شاید آپ پہلے واقف نہ ہوں۔ افسوس کہ جھوٹے مسیحی راہنما خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا سبب ہیں۔ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ انھوں نے خداوند کے دشمن کی جھوٹی تعلیم کو اپنا لیا ہے اور اپنے آپ کو خداوند کا دشمن بنا لیا ہے۔ وہ یشوعا کی اس بات کو اپنے ناقص علم کی بنا پر جھٹلاتے ہیں۔ یشوعا نے متی 5:17 سے 18 میں کہا؛
یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلیگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔
میں نے اپنے بہت سے آرٹیکلز میں ذکر کیا ہے کہ خداوند کی کونسی عیدوں کا پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ میرا ابھی بھی یہی سوال ہے کہ "اگر سب کچھ پورا نہیں ہوا تو کیااسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ابھی بھی شریعت یعنی توریت پر عمل کرنا چاہیے؟” اور اگر آپ کو نہیں علم کہ کیا یشوعا کی پہلی آمد میں پورا ہوا ہے اور کیا یشوعا کی دوسری آمد میں پورا ہونا ہے، تو پہلے کلام سے ان باتوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر بحث و مباحثات میں پڑیں۔
میں نے مختصراً خداوند کے دشمن/مخالف مسیحا کی پہچان کی بات کی ہے۔ میں اپنے اس آرٹیکل کو 2 تھسلنیکیوں 2:1 سے 12 کی آیات سے جو میں نیچے درج کر رہی ہوں، ختم کرتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ خداوند اپنے کلام کی رو سے آپ کی راہنمائی کریں تاکہ آپ مخالف مسیحا کے چنگل میں پھنس کر اپنی زندگی ہمیشہ کے لئے نہ گنوا بیٹھیں۔
میں نے جو مخالف مسیحا کے بارے میں بتایا ہے اسکی روشنی میں ، خداوند کے روح کی مدد سے ان آیات کو خود سمجھنے کی کوشش کریں؛
ائے بھائیو! ہم اپنے خداوند یسوع مسیح کے آنے اور اسکے پاس اپنے جمع ہونے کی بابت تم سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ کسی روح یا کلام یا خط سے جو گویا ہماری طرف سے ہو یہ سمجھ کر کہ خداوند کا دن آ پہنچا ہے تمہاری عقل دفتعہً پریشان نہ ہوجائے اور نہ تم گھبراؤ۔ کسی طرح سے فریب میں نہ آنا کیونکہ وہ دن نہیں آئیگا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہو۔ جو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا یا معبود کہلاتا ہے اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے مقدِس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ جب میں تمہارے پاس تھا تو تم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا؟ اب جو چیز اسے روک رہی ہے تاکہ وہ اپنے خاص وقت پر ظاہر ہو اسکو تم جانتے ہو۔ کیونکہ بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے مگر اب ایک روکنے والا ہے اور جب تک کہ وہ دور نہ کیا جائے روکے رہیگا۔ اس وقت وہ بے دین ظاہر ہوگا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کریگا۔ اور جسکی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کے ساتھ۔ اور ہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ ہوگی اس واسطے کہ انہوں نے حق کی محبت کو اختیار نہ کیا جس سے انکی نجات ہوتی۔ اسی سبب سے خدا انکے پاس گمراہ کرنے والی تاثیربھیجیگا تاکہ وہ جھوٹ کو سچ جانیں۔ اور جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں۔
شالوم میڈم شازیہ
کلام کا ترجمہ کرتے ہوئے جو غلطیاں ہوگئی ہیں کیا ہم ان کو صحیح نہیں کرسکتے اگر کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر رہے میں کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن میری خواہش ہے کے کوئی ایسا ترجمہ ہو کلام کا جس میں کوئی غلطی نہ ہو اور سمجھنے میں آسانی رہے مجھ جیسے کم پڑھے لکھے آدمی کے لئے اب جو ترجمہ کریں ان میں کوشش کریں کہ عبرانی کے زیادہ سے زیادہ لفظ استعمال کیے جائیں مجھے تو اتنا بنانی نہیں آتی آپ کی سرچ دیکھی ہے آپ اگر اس میں مدد کریں اگر ہم میں سب کو اکٹھا کریں تو شاید سبت کا دن ہم ادھر کہہ سکتے ہیں کہ بھائی اس اقلیت میں ہمارا مذہبی دن ہفتہ ہے ہمیں ہفتے کو چھٹی چاہیے تو گورنمنٹ مان بھی سکتی ہے اس میں کچھ برا بھی نہیں لیکن ہمارے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے ہم نے کیسے چلنا ہے یہ جب میں اسکول میں جاتا تھا تو اسکول میں اسلامیات پڑھنی تو اس میں یہودیوں کے بارے میں لکھا اور نہ کہو حصول لیتے تھے یہ کرتے تھے تو میں نے جب ان پر غور کیا تو دیکھا کہ وہ تھے تو سہی تھے لیکن یہ ہمیں ان کے خلاف کرنے کے لئے نہ ان کے نا ایسے پہلو دکھاتے تھے کہ ہم نہ یہودیوں کو برا سمجھے اسرائیل کو برا سمجھے لیکن میں تو اس وقت بھی نہیں برا نہیں سمجھتا تھا تو مجھے ایسے لگتا تھا کہ جیسا میرا ان سے کوئی تعلق ہے تو واقعی میرا شہد ان سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے پلیز اس کا مجھے جواب دیجیے گا
شلوم، آپ کے کمنٹ کا شکریہ۔ ترجمہ کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے خاص طور پر قدیم صحیفوں کا۔ میرا یہ کہنا کہ اگر کہیں کوئی غلطی ہے تو ترجمے میں ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک زبان منفرد ہے۔ ترجمان، ترجمہ کرتے وقت اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ غلطیوں سے پاک ہو مگر اسکے باوجود آپ بہت سے لفظوں کا صحیح مفہوم نہیں جان پاتے۔ میں کسی مسیحی ادارے کو نہیں کہہ سکتی کہ آپ کلام کا ترجمہ یوں کریں۔ میرے خیال سے ہمیں عبرانی زبان کو ضرور سیکھنا چاہیے تاکہ صحیح علم حاصل کر سکیں۔ میں جانتی ہوں کہ یہ سب اتنا جلدی نہیں ہوجائے گا مگر خداوند نے چاہا تو وہ وقت بھی جلد آئے گا جب مسیحی لوگ عبرانی زبان میں کلام کو پڑھنا شروع کریں گے۔ خداوند آپ کو برکت دیں اور آپ کے علم میں اضافہ کریں۔
شالوم ۔
آپ کا آرٹیکل پڑھا بہت ہی پیارا لکھا ہے ۔
مجھے مزید پولوس رسول کی ابتدائی خدمت پر کہ پولوس رسول کو اس ٹائم کون سی مشکلات کا سامنا
تھا ۔
اور وہ کس طرح شریعت کو سامنے رکھ کر فضل کو preechکر رہے تھے ۔
اس پر کچھ معلومات چاہیے ۔
اگر اس میں رہنمائی فرما دیں تو نوازش ہو گی ۔
شکریہ
خداوند نے چاہا تو اور کچھ عرصے کے بعد نئے عہد نامے پر مزید آڑتیکلز شئیر کرونگی۔ ویسے یہ بات میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوں کہ پولس رسول کی فضل پر تعلیم پرانے عہد نامے سے ہٹ کر نہیں تھی۔ جب ہم پر خداوند کا فضل نازل ہوتا ہے تو خداوند نے جو لعنتیں اپنے حکموں کی نافرمانی کے سبب سے انسان پر لانی ہوتی ہیں، استثنا 28 باب، وہ اپنے پیارے بیٹے یشوعا کے سبب سے معاف کر دیتے ہیں۔ جب تک انسان توبہ کر کے اپنے گناہوں کا اقرار نہ کرے تب تک فضل بھی نازل نہیں ہوتا۔ اور جب انسان نجات پا لیتا ہے تو پھر اس پر خداوند کی شریعت کو اپنانا فرض بن جاتا ہے ورنہ وہ واپس پہلے جیسی گناہ کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ تبھی پولس رسول فرماتے ہیں کہ شریعت تو پاک ہے اور حکم پاک اور حق اور خوب ہے (رومیوں 7:12)۔ پولس رسول کے خطوط کو سمجھنا بہت آسان بھی نہیں لیکن مشکل بھی نہیں اگر کوئی صحیح تشریح کرنے والا ہو۔ جب تک آپ قوانین کو پڑھتے یا جانتے نہیں آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اسی طرح سے شریعت جس میں خداوند کے احکامات درج ہیں ہمیں اس گناہ کی پہچان کرواتی ہے تاکہ ہم گناہ نہ کریں۔ یہ مختصر سا جواب ہے۔ جب بھی نئے عہد نامے کی سٹڈی شروع کرونگی تو ضرور یہ تمام باتیں واضح ہو جائیں گی۔