image_pdfimage_print

Shazia Lewis کی تمام پوسٹیں

یوناہ 1 باب (دوسرا حصہ)

یوناہ کے پچھلے مطالعہ کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ یوناہ نینوہ جانے کی بجائے خدا سے دور ترسیس کو بھاگ رہا
سمندر کے جہاز کے تھا۔ میرے خیال سے یوناہ کو بھی میری طرح پتہ نہیں تھا کہ خدا سے دور بھاگنے کے لئے ساری دنیا بھی چھوٹی ہے۔ جہاں بھی بھاگنے کی کوشش کرو ، خدا کو نظر آ جاتا ہے۔ داؤد بادشاہ نے زبور 139:7 سے 10 میں ایسے کہا ہے؛

میں تیری روح سے بچکر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جاؤں توتو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاؤں تو دیکھ! تو وہاں بھی ہے۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں جابسوں تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کریگا اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھالیگا۔ یوناہ 1 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

یوناہ 1 باب اور مختصر تعارف

ہم یوناہ کی کتاب کا مطالعہ شروع کر رہے ہیں۔ یوناہ خداوند یہوواہ کی طرف سے بھیجا گیا نبی تھا جو کہ پہلی ہیکل کے دور میں تھا۔ یوناہ کے نام کا مطلب "فاختہ یا کبوتر” ہے ۔ 2 سلاطین 14:23 سے 25 کے حوالے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یوناہ ، شاہ اسرائیل یُربعام کے دور کا نبی تھا اور زبولون کے قبیلے سے تھا۔اس کتاب کو قلمبند یوناہ نبی نے ہی کیا ہے اور اس سے پہلے جو یوناہ نے یربعام کے بارے میں جو پیشن گوئی کی تھی وہ پوری ہوئی۔

یہودی اور میسیانک یہودی ، یوناہ کی کتاب کو یوم کیپور والے دن پڑھتے ہیں۔ میں نے روت کے مطالعہ میں مختصراً عبرانی لفظ "ایت، אֶת” کا ذکر کیا تھا۔ یوناہ کی کتاب میں "ایت، אֶת־” 12 دفعہ استعمال ہوا ہے اور 2 دفعہ "وے-ایت، ואת־Wa’et, ” کا استعمال ہوا ہے اس میں ” واو، ו” کے حرف کے معنی "اور” ہے جبکہ ایت کا کوئی معنی نہیں ہے۔ یشوعا سے جب فریسیوں اور فقیہوں نے نشان مانگا تھا کہ اگر تو وہ مسیحا ہے تو وہ انھیں کوئی نشان دے۔ یشوعا نے انکے کہنے پر صرف ایک نشان دیا جو کہ یوناہ نبی کا نشان ہے۔ متی 12:38 سے 40 میں اس طرح سے یہ آیات درج ہیں؛ یوناہ 1 باب اور مختصر تعارف پڑھنا جاری رکھیں

سبّت کے متعلق مختلف قیاس آرائی

خروج ۲۰ : ۸
یاد کرکے تو سبت کا دِن پاک ماننا۔

کتابِ مقدس میں ہم جگہ با جگہ خُداوند باری تعالی کے اِنسان کو دئیے گئے احکامات کا مجموعہ دیکھتے ہیں اِن احکامات کو دینے کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ اِنسان گناہ سے بچا رہے اور خُدوند کی ذات سے پختہ رشتہ قائم رکھ سکے چنانچہ کتاب ِ مقدس میں ہم خروج کی کتاب میں دئیے گئے سبّت کے اِس واحد حکم دیکھتے ہیں جس کے ساتھ خُداوند کی ذات لفظ “یاد “استعمال کرتی ہے جس سے کسی بھی متلاشانِ حق کیلئے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خُداوند کی ذات دیگر احکام کے ساتھ ساتھ اِس سبت کے اِس واحد خاص زور دیتی ہے کہ اُسکا بندہ اِس حکم کی پاسداری کرنے میں کسی طرح کی کاہلی یا سستی کا مظاہرہ نہ کرے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں قیام پذیر ہو علاوہ ازیں سبت کا حکم اِس بات کی بھی نشاندہی بهی کرتا ہے کہ سبّت خدوند کی طرف سے اپنے لوگوں کو دیا گیا ایک ابدی نشان ہے (خروج ۳۱ : ۱۳ ۔ حزقی ایل ۲۰ : ۱۲) کہ ہم اُس کے لوگ اور وہ ہمارا خالق ہے عہدِ تجدید میں مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ابنِ آدم سبّت کا ملک ہے (متّی ۱۲ : ۸) میرا خیال ہے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابنِ آدم کون ہے اگر آج ہی ابنِ آدم آپ کے دروازے پر دستک دے اور آپ سے پوچھے کہ آپ میرے سبّت کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟

عہدِ تجدید میں مسیح کے ساتھ ساتھ پولس رسول بھی سبّت کی پاسداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں (اعمال ۱۷ : ۲) علاوہ ازیں پولس رسول اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ خُداوند کی اُمت کیلئے سبّت کا آرام باقی ہے (عِبرانیوں ۴ : ۹) اور خُداوند کی امّت کو سبّت اِسی لئے دیا گیا ہے ک وہ سبّت کی پاسداری کریں اور اِس نشان پر تا قیامت قائم رہ سکیں جو خُداوند کیطرف سے دیا گیا ہے مسیحی علما سبّت کے اِس حکم کو لیکر مختلف طرح کی قیاس آرائیاں رکهتے ہیں جن میں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں اول کہ مسیح نے شریعت کو پورا کیا ہے لہٰذا ہم پر شریعت کا حکم صادر نہیں ہوتا چلیں کچھ دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ مسیح نے شریعت کو پورا کیا ہے اور ہم پر یہ حکم صادرنہیں ہوتا جب اِس کے برعکس مسیح فرماتے ہیں اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میرے دوست کہلاؤ گے (یوحنا ۱۵ : ۱۴) اگر تم تم مجھ سے محبت رکهتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو جیسے میں نے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے (یوحنا ۱۵ : ۱۰) اِس قیاس آرائی کے متعلق مزید لکھنا فضول ہوگا کیوں کہ مسیح کے یہ قول اِس قیاس آرائی کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔

دوسری قیاس آرائی جو سبّت کے متعلق مسیحی علما پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیح ہفتے کے پہلے دِن مسیح جی اٹھا ہے لہٰذا اب ہم ہفتے کے پہلے دِن ہی خُداوند کیلئے جمع ہونگے نہ کہ ہفتے کے ساتویں دن اگر ہم تمام اناجیل کا بغور مطالعہ کریں تو اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ہفتے کے پہلے دن قبر پر گئی نہ کہ مسیح ہفتے کے پہلے دِن جی اٹھے حوالے جات ملاخطہ کیجیئے۔
متّی ۲۸ : ۱
اور سبت کے بعد (ہفتہ کے پہلے دِن) پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دُوسری مریم قبر کو دیکھنے آئِیں۔
مرقس ۱۶ : ۱ تا ۲ آیت۔
جب سبت کا دِن گُزر گیا تو مریم مگدلینی اور یعقوب کی ماں مریم اور سلومی نے خوشبودار چیزیں مول لِیں تاکہ آکر اُس پر ملیں۔ وہ (ہفتہ کے پہلے دِن) بُہت سویرے جب سورج نِکلا ہی تھا قبر پر آئیں۔

لُوقا ۲۴ : ۱
سبت کے دِن تو اُنہوں نے حُکم کے مُطابِق آرام کِیا۔ لیکِن( ہفتہ کے پہلے دِن ) وہ صُبح سویرے ہی اُن خُوشبُودار چِیزوں کو جو تیّار کی تھِیں لے کر قبر پر آئیں۔

یُوحنّا ۲۰ : ۱
(ہفتہ کے پہلے دِن) مریم مگدلینی اَیسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھّر کو قبر سے ہٹا ہئوا دیکھا۔

مزید یہ کہ مسیح کی صلیبی موت سے پہلے اور بعد میں بھی مسیح کے حواری سبّت پاسداری کرتے نظر آتے ہیں جیسا مسیح کے زمینی ایام میں کرتے تهے اگر کچھ دیر کیلئے ہم اِس قیاس آرائی کو بھی سچ مان لیں تو اِس سے خداوند باری کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ جهوٹے پڑ جائینگے کہ میں خُداوند لا تبدیل خُدا ہوں (ملاکی ۳ : ۶) میں ابد تک لا تبدیل ہو یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ ہاں گھاس مُرجھاتی ہے پُھول کُملاتا ہے پر ہمارے خُدا کا کلام ابد تک قائِم ہے۔ (یسعیاہ ۴۰ : ۸) میرا خیال ہے اِس قیاس آرائی کے متعلق خداوند کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہی کافی ہیں۔

بعض علما یہ بھی قیاس آرائی رکهتے ہیں کہ مسیح نے سبّت کو بدل دیا ہے لیکن اِس قیاس آرائی کو سچ ماننے میں سب سے بڑا عذر یہ ہے کہ مسیح کو جو احتیار خُدا کی طرف سے دیا گیا ہے (متّی ۲۸ :۱۸) اورمسیح اِس اختیار میں کسی طرح کی ردوبدل یا ترمیم نہیں کر سکتے کیونکہ استثنا اور مکاشفہ میں لکھا ہے (استثنا ۴ : ۲۔ جِس بات کا مَیں تُم کو حُکم دیتا ہُوں اُس میں نہ تو کچُھ بڑھانا اور نہ کچُھ گھٹانا کہ تُم خُداوند اپنے خُدا کے احکام کو جو مَیں تُم کو بتاتا ہُوں مان سکو۔ مکاشفہ ۲۱ : ۱۸۔مَیں ہر ایک آدمی کے آگے جو اِس کِتاب کی نُبُوّت کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہُوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کُچھ بڑھائے تو خُدا اِس کِتاب میں لِکھی ہُوئی آفتیں اُس پر نازِل کرے گا۔)دوسرا جو علما یہ قیاس آرائی بیان کرتے ہیں وه تکنیکی طور پرمسیح کی ذاتِ اقدس پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ مسیح نے خُدا کے کلام میں ردوبدل یا ترمیم کی ہے اِس صورت میں مسیح کا فدیہ اور کفارہ بهی قبول نہیں ہوتا کیونکہ مسیح نے خُدا کے کلام میں ردوبدل یا ترمیم کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسیح نے اِس اختیار میں کسی طرح کی ردوبدل یا ترمیم نہیں کی لہذا علما کی یہ قیاس آرائی بهی غلط ثابت ہوئی۔

اِس کے علاوہ اگر ہم احکامِ عشرہ پر نظر ڈالیں تو احکامِ عشرہ کے چوتھے حکم میں سبّت کا دِن پاک ماننے کی تلقین کی گئی ہے کیا اب ایک مسیحی پر احکامِ عشرہ بهی صادر نہیں ہوتا؟

چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خُدا ، خُدا کا کلمہ کلام و احکام لا تبدیل ہیں اور وہ ہر اُس بندہِ مومن پر صادر ہوتے ہیں جو کتاب ِمقدس پر ایمان رکھتا ہے اور مسیح کو بطور نجات دہندہ قبول کرتا ہے مقدس یوحنا اپنے خط میں بہت واضح اور خوبصورتی سے لکھتے ہیں
۱ یُوحنّا ۲ باب ۳ تا ۴ آیات۔
اگر ہم اُس کے حُکموں پر عمل کریں گے تو اِس سے ہمیں معلُوم ہوگا کہ ہم اُسے جان گئے ہیں۔
جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں اُسے جان گیا ہُوں اور اُس کے حُکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھُوٹا ہے اور اُس میں سچّائی نہیں۔

میری یہ کاوش ہے کہ ہر متلاشانِ حق خُداوند کے زندہ کلام کا خود مطالعہ کریں اور سچائی کو جاننے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کریں یہوواه جو کل کائنات کا خالق و مالک ہے جس کا ہر حکم راست اور سچا ہے ہمیں اپنے مسیح کے وسیلہ سے کلام کے گہرے بھیدوں سے روشناس کریں تا کہ ہم اُس کے کلام کی پیروی کرتے ہوئے اُس بادشاہت میں داخل ہو سکیں جس کا وعدہ اُس نے اپنے بیٹے کے خون کے وسیلہ سے کیا اےخُداوند ہمیں اپنے احکام کو سمجھنے اور اُن پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین ۔

تحریر: اعجاز رحمت

ویلنٹائین ڈے , Valentine’s Day :

فروری کے مہینے میں ویلنٹائین ڈے پڑتا ہے جو کہ 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہ کافی پھیل گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھ دوں۔

رومن کیتھولک، آرتھوڈکس اور اینگلیکن چرچ اسکو سینٹ ویلنٹائین سے جوڑتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی سی روم کے بتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ” لوپرکیلیا، Lupercalia ” کا تہوار فروری 13 سے 15 تک منایا جاتا تھا۔ لوپرکیلیا، فبروا سے جڑا ہے جو کہ رومن بت ہے اور اسکے معنی ہیں "طہارت” اسی سے فروری کے مہینے کا نام نکلا ہے۔ یہ تہوار فحاشی سے جڑا ہے اور کلام فحاشی سے منع کرتا ہے۔ اس دن رومن بادشاہ نے سینٹ ویلنٹائین کو قتل کیا تھا کیونکہ وہ اس دن چھپ کر مرد اور عورت کی شادی کروا دیتے تھے۔ ویلنٹائین ڈے , Valentine’s Day : پڑھنا جاری رکھیں

خروج 5 باب

آپ کلام میں سے خروج کا 5 باب مکمل خود پڑھیں۔

ہم نے پچھلے باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ موسیٰ اور ہارون بنی اسرائیل کے بزرگوں کے پاس گئے تھے اور انھیں بتایا تھا کہ خداوند نے انکے دکھوں پر نظر کی ہے ۔ میں ایک بار پھر سے ذکر کر دوں کہ اردو کلام میں جہاں جہاں خداوند لکھا ہے وہ عبرانی میں، یہوواہ ہے۔
موسیٰ اور ہارون نے خداوند کے کہنے پر عمل کیا اور وہ فرعون کے پاس یہوواہ کا یہ پیغام لے کر گئے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے لئے عید کریں۔ موسیٰ کا فرعون کی بیٹی کے اپنانے کے بعد سے لے کر کچھ عرصے پہلے تک، موسیٰ اور ہارون نے اتنا وقت اکٹھا نہیں گذارا تھا مگر خداوند انکے ان علیحدہ بیتے سالوں کو لوٹانے لگا تھا۔ اب انھوں نے موت تک ایک دوسرے سے نہیں بچھڑنا تھا۔ خروج 5 باب پڑھنا جاری رکھیں

مقدسہ مریم – آسمان کی ملکہ

مقدسہ مریم؛  آسمان کی ملکہ:

مقدسہ مریم کے بارے میں کونسا مسیحی نہیں جانتا ہوگا مگر بہت سے یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اسے آسمان کی ملکہ بھی پکارا گیا ہے۔ بائبل میں ایسا مریم کو نہیں پکارا گیا بلکہ رومن کیوتھولک چرچ کے مطابق  مقدسہ مریم "آسمان کی ملکہ ” ہے۔ بائبل کے مطابق آسمان کی ملکہ کون ہے یہ ہم کلام مقدس سے دیکھیں گے اور اس آرٹیکل سے یہی سیکھیں گے کہ کیا مریم آسمان کی ملکہ ہے یا نہیں۔ مقدسہ مریم – آسمان کی ملکہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 4 باب – دوسرا حصہ

خروج 4 باب کے پچھلے حصے کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ موسیٰ خدا کو اپنی ناقابلیت بیان کر رہا تھا۔ اسکی نظر میں اسکا رک رک کر بولنا اسکو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ فرعون کے سامنے خداوند کا نمائندہ ہو۔ خداوند نے موسیٰ کو اسطرح سے جواب دیا (خروج 4:11 سے 12):

تب خداوند نے اسے کہا کہ آدمی کا منہ کس نے بنایا ہے؟ اور کون گونگا یا بہرا یا بینا یا اندھا کرتا ہے؟ کیا میں ہی جو خداوند ہوں یہ نہیں کرتا؟ سو اب تو جا اور میں تیری زبان کا ذمہ لیتا ہوں اور تجھے سکھاتا رہونگا کہ تو کیا کیا کہے؟

خداوند موسیٰ کو زیادہ بہتر جانتا تھا کیونکہ وہی تھا جس نے اسکو بنایا تھا۔ خداوند موسیٰ کی زبان کا ذمہ لے رہا تھا کہ وہ اسے سکھائے گا کہ اس نے کیا کیا کہنا ہے۔ موسیٰ اس مشن کو جانے کے لئے تیار نہیں تھا اس نے خدا سے کہا کہ وہ کسی اور کے ہاتھ جسے وہ چاہے بھیجے۔ خدا موسیٰ کو بھیجنا چاہتا تھا اور کسی کو نہیں اسلئے خداوند کا قہر موسیٰ پر بھڑکا۔ خروج 4 باب – دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 4 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے 4 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔

پچھلے حصے کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ خدا نے  موسیٰ کو کہا تھا کہ جب وہ مصر میں اپنے عجائب دکھائے گا تب فرعون انکو جانے دیگا۔ خدا نے موسیٰ کو بنی اسرائیل کے بزرگوں سے بات کرنے کو کہا تھا۔ موسیٰ کو  یاد تھا کہ اسکے اپنوں نے اسے رد کر دیا تھا تبھی اسکے دل میں خداوند کا اسکو یہ یقین دلانے کے بعد  بھی ،  کہ وہ اسکے ساتھ رہیگا (خروج 3:12)،    شک تھا کہ  کوئی اسکا یقین نہیں کریگا۔ اس نے کہا کہ وہ کہینگے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا۔   یعقوب کے مرنے کے بعد سے اب تک تقریباً 430 سال گذر چکے تھے۔ خدا تب سے  اسرائیلیوں میں سے  کسی کو نظر نہیں آیا تھا  مگر موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ایمان اپنے خداوند پر ضرور تھا تبھی وہ جانتے تھے کہ انکا خدا مصریوں کا خدا نہیں ہے۔ مگر اس بات کا دوسرے بنی اسرائیلیوں کو یقین دلانا کہ خدا موسیٰ کو نظر آیا تھا، موسیٰ کے اپنے دل میں بیٹھے خدشوں کو بیان کرتا ہے کہ شاید وہ اسکا یقین نہ کریں۔  شاید اسے ڈر تھا کہ بنی اسرائیل پھر سے کہینگے کہ اسے کس نے ان پر حاکم بنایا ہے۔  موسیٰ نے خود تو اپنی زبان سے خداوند سے نشان نہیں مانگا کیونکہ خداوند  جانتا تھا کہ اسے موسیٰ کو اس قابل دکھانا ہے کہ وہ خداوند کا نمائندہ  ہے۔  خدا نے موسیٰ کے اس خدشے کو جھٹلایا نہیں بلکہ اس سے پوچھا کہ اس کے ہاتھ میں کیا ہے؟ نظر تو خداوند کو بھی آ رہا ہوگا کہ موسیٰ نے لاٹھی پکڑی ہوئی ہے مگر خداوند موسیٰ کے منہ سے سننا چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ لاٹھی ، موسیٰ کے چرواہا بننے کی بلاہٹ کی نشانی تھی کہ خدا نے اسے اپنے لوگوں کا ملک مصر سے نکال کر بحفاظت کنعان کی سرزمین تک پہنچانے کا چرواہا یعنی لیڈر چنا ہے۔ خروج 4 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 3 باب – دوسرا حصہ

ہم نے پچھلے حصے کے آخر میں پڑھا تھا کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ وہ  ملک مصر کو فرعون کے پاس جائے اور بنی اسرائیل کو نکال لائے مگر موسیٰ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھ رہا تھا کہ وہ ایسا کر پائے گا۔  اب ہم اس سے آگے کا حوالہ پڑھتے ہیں۔ خدا نے موسیٰ کو کہا (خروج 3:12):

اس نے کہا میں ضرور تیرے ساتھ رہونگا اور اسکا کہ میں نے تجھے بھیجا ہے تیرے لئے یہ نشان ہوگا کہ جب تو ان لوگوں کو مصر سے نکال لائیگا تو تم اس پہاڑ پر خدا کی عبادت کروگے۔

خدا نے موسیٰ کو کہا کہ وہ اسکے ساتھ ہوگا۔ موسیٰ کو یقین آگیا ہوگا کہ خدا اسکے ساتھ ہوگا تبھی اس نے پوچھا کہ جب میں بنی اسرائیل سے کہونگا کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ میرے سے پوچھیں کہ  اسکا نام کیا ہے ؟ تو میں کیا جواب دونگا۔ موسیٰ کو خدا کے بارے میں اتنا پتہ تھا کہ وہ انکے باپ دادا کا خدا ہے اور خداوند نے شروع میں اسکو اپنا تعارف بھی ایسے ہی کروایا تھا (خروج 3:6) مگر وہ جاننا چاہتا تھا کہ خدا کا نام کیا ہے۔ مصریوں کے کتنے ہی خدا تھے جو کہ اپنے ناموں سے جانے جاتے تھے  اور ان میں سے کچھ کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے۔ مجھے نہیں علم کہ شاید یہ وجہ ہو کہ موسیٰ خداوند کا نام جاننا چاہ رہا تھا مگر وجہ جو بھی تھی میرے خیال میں اچھی تھی کیونکہ موسیٰ کے اس سوال کی وجہ سے آج ہمیں بھی اپنے خدا کا نام پتہ ہے۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا  (خروج 3:14) خروج 3 باب – دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(خروج 3 باب (پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج 3 باب پورا خود پڑھیں۔

موسیٰ  ملک مصر کو چھوڑنے کے بعد چرواہا بن گیا تھا۔ وہ اپنے سُسر یترو کی جو کہ مدیان کا کاہن تھا بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس نےابھی تک  اپنے لئے بھیڑ بکریاں جمع نہیں کی تھیں  بلکہ اپنے سسر کے لئے ہی کام کررہا تھا۔   خروج کے 2 باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ مدیان کے کاہن ،  رعوایل تھا جس کی بیٹی  صفورہ سے موسیٰ کی شادی ہوئی۔   علما کا کہنا ہے کہ رعوایل ، سامی خدا "ایل” کا کاہن تھا  اور وہی یترو تھا جو کہ ہوسکتا ہے کہ اسکا خطاب ہو یا پھر اسکا نام۔ یوسیفس کی کتاب کے مطابق یترو، رعوایل کا ہی ایک اور نام تھا۔  آپ کو خروج 4 باب میں بھی نظر آئے گا کہ موسیٰ کا سسر یترو  ہے اور اسکی بیوی کا نام صفورہ درج ہے۔   (خروج 3 باب (پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں