میرے آرٹیکل "مسیحیوں کو توریت پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟” پر کچھ لوگوں نے کلام میں سے پولس رسول کے خطوط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کچھ سوالات اٹھائے۔ میرا اپنا ارادہ تو یہ تھا کہ جب میں توریت کی سٹڈی مکمل کر لونگی تو پھر پولس (شاؤل ) کے خطوط پر سٹڈی شروع کروانگی تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو مگر چونکہ لوگوں کے خیال میں میرے پاس انکے سوالات کا جواب نہیں اسلئے میں نے انھیں آرٹیکل کی صورت میں لکھنا چاہا۔ مجھے بحث و مباحثہ پسند نہیں اسلئے کہ امثال کی کتاب میں بہت سے ایسے حوالے ہیں جو کہ اس بات کی تعلیم دیتی ہے پر مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ ان بحث و مباحثات سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ خاموشی سے کلام کو سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سوالات کریں مگر طنز اور بد زبانی سے پرہیز کریں۔ مجھے لوگوں کے سوالات کا جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر جو کلام کی بدگوئی اور بے ادبی کرتے ہیں مجھے ان سے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں۔
میں نے ایک خاص بات جو نوٹ کی وہ یہ ہے کہ ہمارے مسیحیوں کو علم نہیں کہ توریت جسکو عبرانی میں "تورہ، Torah” کہتے ہیں، کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوتی ہے۔ ویسے تو میں نے اپنے آرٹیکل "کلام مقدس سے متعلق کچھ معلومات کی باتیں” میں لکھا ہے کہ توریت کیا ہے مگر یہاں مختصراً بتاتی چلوں کہ توریت کو اردو کلام میں "شریعت” لکھا گیا ہے جسکے معنی ہیں "ہدایات یا تعلیم” ۔ کلام مقدس کی پہلی پانچ کتابوں یعنی "پیدایش، خروج، احبار ، گنتی اور استثنا” کو توریت کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کبھی کسی کو موسیٰ کی لکھی ہوئی کتابوں کا کہتے ہوئے سنیں تو اسکا یہی مطلب بنتا ہے کہ توریت کی بات ہو رہی ہے۔ توریت یعنی کہ شریعت میں جو احکامات ہیں انکو عبرانی میں میتزوات، Mitzvot ” کہا جاتا ہے جس کا معنی ہے "احکامات”۔ جب کلام میں شریعت کی بات ہو رہی ہے تو وہ پہلی تمام پانچ کتابوں کا حوالہ ہے مگر جب احکامات کا ذکر آئے تو وہ "میتزاوت” کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (یہ علیحدہ بات ہے کہ نئے عہد نامے میں تلمود کی تعلیم کو بھی کئی بار شریعت کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ )زبور 119 میں بار بار آپ "احکامات” اور "شریعت” (کچھ اور الفاظ بھی ہیں) کا پڑھیں گے۔ احکامات، شریعت یعنی توریت کا حصہ ہیں ۔ امید ہے کہ جب اگلی بار آپ کلام کو پڑھیں گے تو ان لفظوں کو پڑھتے ہوئے میری ان باتوں پر ضرور غور کریں گے۔
وہ سوالات جو کہ مجھ سے فیس بک کے ایک گروپ میں کسی ممبر نے کئے تھے میں ایک ایک کر کے بمہ اپنے جواب کے ساتھ حصوں کی صورت میں درج کر رہی ہوں۔ میں انکا فرضی نام یہاں نہیں لکھ رہی ہوں مگر انکے ان سوالات کا شکریہ ضرور کہنا چاہوں گی کیونکہ میرے خیال سے انکے یہ سوالات اور بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہونگے۔ میں کوشش کرونگی کہ اردو کلام کے حوالے جب لکھوں تو رومن کیتھولک بائبل کی کتاب کا نام بھی ساتھ میں دے سکوں کیونکہ مجھے احساس ہے کہ رومن کیتھولک بائبل اور پروٹسٹنٹ بائبل میں کتابوں کے نام اور کافی لوگوں کے نام ایک جیسے نہیں ہیں۔اسے سے یہ مراد نہیں ہے کہ کلام بدل گیا ہے۔بس ترجمان نے عبرانی کلام کی کتابوں کے نام کا ترجمہ اردو میں اپنے طور پر کیا ہے۔
سوالات اور انکے جوابات؛
انکا پہلا سوال یہ تھا؛
- توریت کس کو دی گئی اور کن کے لئے تھی، صرف اسرائیل کے لئے یا غیر قوموں کے لئے بھی تھی؟ اعمال 10:28
چونکہ انھوں نے اعمال 10:28 کا حوالہ دیا ہے اسلئے میں اردو کلام سے اعمال 10:28 کی آیت لکھ رہی ہوں؛
ان سے کہاتم تو جانتے ہوکہ یہودی کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنا یا اسکے ہاں جانا ناجائز ہےمگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیاکہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔
جب بھی کوئی میرے ساتھ کلام کی بات کرتے ہوئے کلام کی آیت کا حوالہ دیتا تھا تو میں اکثر ہی پورے باب کو پڑھ لیتی تھی تاکہ یہ جان کر جواب دے سکوں کہ اصل موضوع کیا تھا جس کا حصہ یہ آیت ہے۔ میں آپ کو بھی یہی مشورہ دونگی کہ جب بھی کلام کی بات ہو تو اگر ہوسکے تو پورا باب پڑھ لیں یا پھر یہ جان لیں کہ اس کتاب میں کس موضوع پر بات چل رہی ہے۔ اعمال کی کتاب کا یہ حوالہ پطرس کے اس قصے میں سے ہے جس میں خدا نے رویا میں پطرس کو پاک اور ناپاک کے بارے میں بتا کر کرنیلیس کے گھر بھیجا تھا۔ کرنیلیس غیر یہودی تھا۔ اور پطرس اسی کے گھرانے کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ "تم تو جانتے ہو کہ یہودی کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنا یا اسکے ہاں جانا ناجائز ہے مگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔” اس آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ پطرس اپنے آپ کو یہودی کہہ رہا تھا اور بیان کر رہا تھا کہ گو کہ وہ یہودی ہے مگر خدا نے اس پر ظاہر کیا کہ وہ کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہے۔
بہت سے مسیحیوں کو تناخ اور تلمود کی تعلیم کا علم نہیں ہے۔ میں نے اپنے آرٹیکل "تناخ اور تلمود https://backtotorah.com/?p=716” میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تناخ ، پرانے عہد نامے کو کہتے ہیں اور تلمود، یہودیوں کی نظر میں زبانی توریت ہے۔ برائے مہربانی میرے اس آرٹیکل کو پڑھیں تاکہ آپ کو بہتر پتہ چل سکے کہ تناخ اور تلمود میں کیا فرق ہے۔ میں نے لکھا "یہودیوں کی نظر میں۔۔” کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تناخ میں خدا کے دئے ہوئے احکامات درج ہیں مگر تلمود یہودی دانشوروں کی کلام پر تشریح اور روایات کی کتاب ہے۔ خدا کا پطرس پر یہ ظاہر کرنا کہ وہ کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہے ، سے یہ مراد نہیں تھی کہ پرانے عہد نامے یا عہد عتیق میں خدا فرق تھا اور نئے عہد نامے یعنی عہد جدید میں خدا فرق ہو گیا ہے۔ یہ یہودیوں کی کلام کی اپنی تشریح تھی جس کے مطابق وہ سوچتے تھے کہ خدا نے یہودیوں کو غیر قوموں سے صحبت یعنی اٹھنے بیٹھنے اور ساتھ کھانے پینے سے منع کیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کہ مسیحی اب سوچتے ہیں کہ خدا نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لئے رد کر دیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا نے اس بات کو ایسے نہیں بیان کیا۔ خدا نے پرانے عہد نامے میں یہودیوں کے درمیان موجود غیر یہودیوں سے متعلق احکامات دئے تھے۔ میں آپ کے لئے کچھ آیات نیچے درج کر رہی ہوں۔
خروج 12:47 سے 49
اسرائیل کی ساری جماعت اس پر عمل کرے۔ اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اور خداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اسکے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں۔ تب وہ پاس آکر فسح کرے۔ یوں وہ ایسا سمجھا جائیگا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے۔ وطنی اور اس اجنبی کے لئے جو تمہارے بیچ مقیم ہو ایک ہی شریعت ہوگی۔
احبار 16:29
اور یہ تمہارے لئے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن کوئی خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بود و باش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے۔
گنتی(عدد) 15:13 سے 16
جتنے دیسی خداوند کے حضور راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی گذرانیں وہ اس وقت یہ سب کام اسی طریقہ سے کریں۔ اور اگر کوئی پردیسی تمہارے ساتھ بودوباش کرتا ہو یا جو کوئی پشتوں سے تمہارے ساتھ رہتا آیا ہو اور وہ خداوند کے حضور راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی گذراننا چاہے تو جیسا تم کرتے ہو وہ بھی ویسا ہی کرے۔ مجمع کے لئے یعنی تمہارے لئے اور اس پردیسی کے لئے جو تم میں رہتا ہو نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہیگا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو۔ تمہارے لئے اور پردیسیوں کے لئے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو۔
استثنا (تثینہ ءشرع) 10:16 سے 19
اسلئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اور آگے کو گردن کش نہ رہو۔ کیونکہ خداوند تمہارا خدا الہوں کا الہٰ خداوندوں کا خداوند ہے وہ بزرگوار اور قادر اور مہیب خدا ہے جو رُو رعایت نہیں کرتا اور نہ رشوت لیتا ہے۔ وہ یتیموں اور بیواؤں کا انصاف کرتا ہے اور پردیسی سے ایسی محبت رکھتا ہے کہ اسے کھانا اور کپڑا دیتا ہے۔ سو تم پردیسیوں سے محبت رکھنا کیونکہ تم بھی ملک مصر میں پردیسی تھے۔
حزقی ایل(حزقیال) 47:21 سے 23
اسی طرح تم قبائل اسرائیل کے مطابق زمین کو آپس میں تقسیم کروگے۔ اور یوں ہوگا کہ تم اپنے اور ان بیگانوں کے درمیان جو تمہارے ساتھ بستے ہیں اور جنکی اولاد تمہارے درمیان پیدا ہوئی جو تمہارے لئے دیسی بنی اسرائیل کی مانند ہونگے میراث تقسیم کرنے کے لئے قرعہ ڈالو گے۔ وہ تمہارے ساتھ قبائل اسرائیل کے درمیان میراث پائیں گے۔
یہ چند آیات ہیں۔ پرانے عہد نامے میں اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر میرے خیال سے آپ کو انہی آیات سے پتہ چل چکا ہو گا کہ خداوند نے کبھی بھی بنی اسرائیل کو انکے ساتھ صحبت رکھنے سے منع نہیں کیا تھا ۔ اگر خدا نے کسی بات سے منع کیا تھا تو وہ انکی روشوں اور دستوروں کو اپنانے سے منع کیا تھا۔ یرمیاہ(ارمیاہ) 10:2 میں لکھا ہے؛
خداوند یوں فرماتا ہے تم دیگر اقوام کی روش کو نہ سیکھو اور آسمانی علامات سے ہراسان نہ ہو اگرچہ دیگر اقوام ان سے ہراسان ہوتی ہیں۔
اور احبار 20:23 میں ایسے لکھا ہے؛
تم ان قوموں کے دستوروں پر جنکو میں تمہارے آگے سے نکالتا ہوں مت چلنا کیونکہ انہوں نے یہ سب کام کئے۔ اسی لئے مجھے ان سے نفرت ہوگئی۔
بالکل ویسے ہی جیسے کہ ہمارے مسیحیوں نے اب کلام سے ہٹ کر اپنی روایتیں قائم کی ہوئی ہیں، یشوعا کے زمانے میں فریسی اور شریعت کے علما تھے جنہوں نے لوگوں پر ، کلام کی اپنی تشریح کے مطابق ، قوانین نافذ کئے ہوئے تھے۔ وہی تھے جو کہ یہودیوں کو غیر قوموں کے ساتھ صحبت رکھنے سے منع کرتے تھے۔گو کہ یشوعا (یسوع) کے بعد کے یہودی دانشور موسیٰ بن میمون جسکو رامبم، RaMBaM(Rabbeinu Moshe Ben Maimon) کہا گیا ہے اس نے مسیحیوں کو تورہ سیکھانے کی اجازت دی کیونکہ اس کے خیال میں مسیحی تناخ (پرانے عہد نامے) کو مانتے ہیں اسلئے انہیں یہودیت کی سچی تعلیم دینے میں کوئی ہرج نہیں مگر بابل کی تلمود (Sanhedrin 59a) میں یہودی ربی یوخنن نے کہا کہ
"کوئی بھی بیگانہ (غیر اہل کتاب) اگر تورہ کا مطالعہ کرتا ہو تو وہ موت کے لائق ہے کیونکہ بقول موسیٰ شریعت ہماری میراث ہے (استثنا 33:4) یہ ہماری میراث ہے انکی نہیں۔۔۔۔”
آپ اس بیان کو اوپر دی ہوئی آیات کی روشنی میں خود بھی پرکھ سکتے ہیں کہ خدا نے ایسا ہرگز حکم نہیں دیا تھا تبھی خدا نے پطرس کو رویا میں یہ کہا تھا کہ وہ غیر یہودیوں کو ناپاک قرار نہ دے۔
ویسے تو اوپر دی ہوئی آیات سے واضع ہوگیا ہے کہ شریعت یعنی توریت خدا نے صرف بنی اسرائیل کو ہی نہیں دی تھی جیسا کہ ہمیں عام طور پر سکھایا جاتا ہے مگر ان غیر یہودیوں کو بھی دی تھی جو انکے درمیان بودوباش کرتے تھے۔ مگر پھر بھی چند اورحوالے دیکھ لیتے ہیں شاید آپ کو تسلی ہوجائے۔ استثنا(تثینہ ء شرع) 33:4 کے مطابق یہ صحیح ہے کہ خدا نے شریعت بنی اسرائیل کو دی تھی کیونکہ لکھا ہے؛
موسیٰ نے ہمکو شریعت اور یعقوب کی جماعت کے لئے میراث دی۔
میں ابھی "میراث” کی زیادہ تفصیل میں جاونگی مگر اتنا ضرور کہونگی کہ جب خدا ، حزقی ایل 47 باب کے مطابق غیر قوم کو بنی اسرائیل کی سرزمین میں میراث دے سکتا ہے تو ، شریعت بھی انکی میراث بن سکتی ہے جو یہوواہ کو اپناتے ہیں۔
پیدائش (تکوین) 28:3میں یعقوب کو برکت دیتے ہوئے اضحاق نے اسے کہا تھا کہ اس سے قوموں کے جتھے پیدا ہونگے۔۔۔۔ میں نے پیدائش کے مطالعے میں بھی ذکر کیا تھا کہ ابرہام کو اسی قسم کی برکت دیتے ہوئے عبرانی کلام میں قوموں کے لئے جو لفظ (Goy/Goyimگوئے/گوئیم ) استعمال ہوا ہے اس سے مراد "غیر قومیں” ہے مگر یعقوب کو برکت دیتے ہوئے جو عبرانی کلام میں لفظ (Ami/Am/Amimامی/ام/امیم) استعمال کیا گیا ہے وہ "مقدس قوم” بنتا ہے۔ آپ نے حزقی ایل(حزقیال) 37:21 سے 28 یہ آیات شاید کلام میں پڑھی ہوں مگر پہلے کبھی دھیان نہ دیا ہو جس میں لکھا ہے؛
اور تو ان سے کہنا کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ میں بنی اسرائیل کو قوموں(گوئیم، Goyim) کے درمیان سے جہاں جہاں وہ گئے ہیں نکال لاؤنگا اور ہر طرف سے انکو فراہم کرونگا اور انکو اپنے ملک میں لاؤنگا ۔ اور میں انکو اس ملک میں اسرائیل کے پہاڑوں پر ایک ہی قوم ( گوئے، Goy) بناؤنگا اور ان سب پر ایک ہی بادشاہ ہوگا اور وہ آگے کو نہ دو قومیں(گوئیم، Goyim) ہونگے اور نہ دو مملکتوں میں تقسیم کئے جائینگے۔ اور وہ پھر اپنے بتوں سے اور اپنی نفرت انگیز چیزوں سے اور اپنی خطاکاری سے اپنے آپ کو ناپاک نہ کریں گے بلکہ میں انکو انکے تمام مسکنوں سے جہاں انہوں نے گناہ کیا ہے چھڑاونگا اور انکو پاک کرونگا اور وہ میرے لوگ (امAm, ) ہونگے اور میں انکا خدا ہونگا۔ اور میرا بندہ داؤد انکا بادشاہ ہوگا اور ان سب کا ایک ہی چرواہا ہوگا اور وہ میرے احکام پر چلینگے اور میرے آئین کو مان کر ان پر عمل کرینگے۔ اور وہ اس ملک میں جو میں نے اپنے بندہ یعقوب کو دیا جس میں تمہارے باپ دادا بستے تھے بسینگے اور وہ اور انکی اولاد کی اور انکی اولاد کی اولاد ہمیشہ تک اس میں سکونت کریں گے اور میرا بندہ داود ہمیشہ کے لئے انکا فرمانروا ہوگا۔ اور میں انکے ساتھ سلامتی کا عہد باندھونگا جو انکے ساتھ ابدی عہد ہوگا اور میں انکو بساونگا اور فراوانی بخشونگا اور انکے درمیان اپنے مقدس کو ہمیشہ کے لئے قائم کرونگا۔ میرا خیمہ بھی انکے ساتھ ہوگا۔ میں انکا خدا ہونگا اور وہ میرے لوگ(امAm, ) ہونگے۔ اور جب میرا مقدس ہمیشہ کے لئے انکے درمیان رہیگا تو قومیں(گوئیم، Goyim) جانیں گی کہ میں خداوند اسرائیل کو مقدس کرتا ہوں۔
بریکٹ میں درج الفاظ میرے اپنے ہیں عبرانی کلام کی رو سے، اردو کلام میں ایسے درج نہیں۔ میں مسیحیوں سے اکثر سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ کو علم ہے کہ پرانے عہد نامے میں سے کون کون سی باتوں کا پورا ہونا ابھی باقی ہے، افسوس کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شوق ہے کہ سیکھیں کہ کون سی باتیں ابھی پوری ہونا باقی ہیں جو کہ مسیحا کی دوسری آمد پر پوری ہونگی۔ امید ہے کہ حزقی ایل کے اس حوالے سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ ابھی یہ پیشن گوئی مکمل طور پر پوری نہیں ہوئی ہے۔ آپ کےخیال میں جب حزقی ایل کے اس حوالے سے کن احکام اور آئین کی طرف اشارہ ہے؟ انکے پاس نیا عہد نامہ نہیں تھا۔ یشوعا بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑ کے لئے آیا تھا اس نے آپ کو اپنے لوگوں کا حصہ بنایا ہے کیونکہ اس نے یوحنا 15:5 میں کہا؛
میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کو پرانے عہد نامے میں انگور کی ڈالی اورزیتون اور انجیر کا درخت پکارا گیاہے(یوایل/یوئیل 1:7، یسعیاہ/اشعیا 5:1 سے 7)۔ اگر آپ اپنے آپ کو اس انگور کے درخت کی ڈالی سمجھتے ہیں تو کیا آپ بنی اسرائیل کا حصہ نہ ٹھہرے؟ یشوعا اور اسکے شاگردوں نے بھی جب خدا کے حکموں پر چلنے کی بات کی تھی تو تب بھی انکے پاس نیا عہد نامہ اس طرح سے موجود نہیں تھا جس طرح سے ہمارے پاس موجود ہے۔ 1 یوحنا 3:4 سے 6 میں لکھا ہے؛
جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ وہ اسلئے ظاہر ہواتھا کہ گناہوں کو اٹھا لے جائے اور اسکی ذات میں گناہ نہیں۔ جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ اور جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اس نے اسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے۔
اس آیت سے یہ تو علم ہوگیا کہ گناہ کیا ہے کیونکہ یوحنانبی کے کہنے کے مطابق گناہ شرع یعنی شریعت کی مخالفت ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یشوعا کلام ہے جو کہ مجسم ہوا (یوحنا 1باب)۔۔۔ کلام یعنی پرانا عہد نامہ ! اسکی ذات میں گناہ نہیں اور جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا اور یہ بات تو ہم نے پہلے ہی پڑھ لی ہے کہ گناہ شریعت کی مخالفت ہے۔ اگر آپ شریعت پر نہیں عمل کر رہے تو گناہ کر رہے ہیں اور آپ اس میں قائم نہیں کیونکہ ہم سب ہی مانتے ہیں کہ یشوعا (یسوع) پاک ہے کیونکہ جب نئے عہد نامے میں کہا گیا 1 پطرس 1:16؛
کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اسلئے کہ میں پاک ہوں۔
تو پطرس نے احبارکی کتاب کا یہ حوالہ دیا تھا میں نے حزقی ایل کے حوالے میں بھی دکھایا کہ خداوند اپنے لوگوں کو پاک کرے گا۔ تبھی پولس نے بھی رومیوں 3:31 میں کہا؛
پس کیا ہم شریعت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔
مجھے علم ہے کہ پولس کے خطوط کے بہت سے حوالات اس قسم کے ہیں جو کہ عام مسیحی کی سمجھ سے باہر ہیں مگر ویسے ہی جیسے کہ میں نے عبرانی کلام کے الفاظ گوئے /گوئیم اور ام/امیم کا فرق بیان کیا ہے اسی طرح سے پولس نے بھی بہت سی جگہوں پر جس شریعت کو بیان کیا ہے وہ یہودیوں کی تلمود کی شریعت کے حوالے ہیں جو کہ یہودی دانشوروں کی کلام پر تشریح ہے نہ کہ خدا کی دی ہوئی شریعت/توریت۔ اعمال 15:21 میں بزرگوں نے کہا
کیونکہ قدیم زمانہ سے ہر شہر میں موسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ ہر سبت کو عبادتخانوں میں سنائی جاتی ہے۔
اگر آپ اعمال کا 15 باب پورا پڑھیں گے تو جانیں گے کہ پولس اور بزرگ جن میں پطرس، یعقوب اور یوحنا شمار تھے انھوں نے غور و فکر کے بعد یہی مناسب سمجھا کہ نئے ایمانداروں کو ہدایت کی جائے کہ کچھ بنیادی شریعت کی باتوں پر وہ لازمی عمل کریں اور جیسے جیسے وہ عبادتخانوں میں ہر سبت جائیں گے وہ باقی شریعت پر بھی عمل کرنا آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے۔ اسی باب میں جس "جؤا” کا ذکر ہے وہ تلمود یعنی فریسیوں کی تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ یہی وہ جؤا ہے جس کو اٹھانا بھاری ہے۔ اسکے بارے میں شاید چھٹے سوال کے جواب میں مزید لکھ پاؤں گی۔ میں پورے کلام کو چند چھوٹے چھوٹے آرٹیکلز میں واضح نہیں کر سکتی مگر امید ہے کہ یہ کچھ حوالے آپ کے لئے تسلی بخش ہونگے اور جیسے جیسے آپ کلام کا مطالعہ خود کریں گے آپ ان باتوں کو اور گہرائی میں دیکھ پائیں گے۔ یشوعا (یسوع) نے یوحنا 15:10 میں کہا؛
اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اسکی محبت میں قائم ہوں۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ باپ اور یسوع، الگ الگ ہیں تو پھر تو انکے احکامات الگ الگ ہوسکتے ہیں مگر اگر وہ ایک ہے تو پھر دئے گئے احکامات بھی ایک جیسے ہیں۔یاد رکھیں کہ آپ اسکے پیروکاروں میں سے ہے اگر اس نے توریت /شریعت پر عمل کیا تو ہمیں بھی لازم ہے کہ شریعت کے تحت چلیں کیونکہ ابھی شریعت کے مطابق سب کچھ پورا نہیں ہوا ہے۔
آپ اگر چاہیں تو دوسروں کے ساتھ اس آرٹیکل کو شئیر کر سکتے ہیں۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے کلام کو اس آرٹیکل کی رو سے سمجھنے میں مدد دے۔ آمین
سلام…
محترمہ.
میرا نام تبریز ہے میں إنڈیا سے ہوں میرےعسائ مذہب کے تعلق سے دو سوالات ہیں.
*بائبل مقدس میں صرف نبیوں کی تعلیم ہی ہیں یہ اسکے علاوہ تاریخی ریکارڈ (histrical record) بھی درج ہے.؟ جواب تفصیل سے دے
*خدا کا بیٹا (SON OF GOD) یہ لفظ مسیح کے لیے کس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے؟
کیونکہ مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے تھے
اور یہودی خدا کو لاشریک پکارتے ہیں.
تناخ میں جس طرح سے کتابوں کی ترتیب ہے اس میں تاریخی ریکارڈ بھی موجود ہے۔ "بائبل مقدس سے متعلق عام معلومات کی باتیں” آرٹیکل میں تھوڑا اس بات کو میں نے بیان کیا ہے۔ جہاں تک بات ہے مسیح کے خدا کا بیٹا ہونے کی تو آپ کو کلام مقدس میں ہی بنی اسرائیل کا ذکر ملے گا جس کو خداوند نے اپنا پہلوٹھا پکارا۔ مسیح کو خدا کا بیٹا کہنا، یہودیت کی تعلیم یعنی کلام مقدس سے ہٹ کر نہیں (زبور 82:6)