آپ کلام میں سے احبار کے 17 باب کو مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔
اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے احبار کے مطالعے کے کسی آرٹیکل میں کہا تھا کہ دھیان دیں کہ کونسے احکامات بزرگ ہارون اور انکے بیٹوں کے لئے ہیں اور کون سےبنی اسرائیل کے لئے۔ اس باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ اب جو حکم خداوند دینے لگے تھے وہ ہارون اور اسکے بیٹوں اور سب بنی اسرائیل کے لئے تھے۔ احبار 17:3 سے 7 میں یوں لکھا ہے؛
اسرائیل کے گھرانے کا جو کوئی شخص بیل یا برہ یا بکرے کو خواہ لشکرگاہ میں یا لشکرگاہ کے باہر ذبح کرکے۔ اسے خیمہ اجتماع کے دروازہ پر خداوند کے مسکن کے آگے خداوند کے حضور چڑھانے کو نہ لے جائےاس شخص پر خون کا الزام ہوگا کہ اس نے خون کیا ہےاور وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنی قربانیاں جن کو وہ کھلے میدان میں ذبح کرتے ہیں انھیں خداوند کے حضور سلامتی کے ذبیحوں کے طور پر گذرانیں۔ اور کاہن اس خون کو خیمہ اجتماع کے دروازہ پر خداوند کے مذبح کے اوپر چھڑکے اور چربی کو جلائے تاکہ خداوند کے لئے راحت انگیز خوشبو ہو۔ اور آئندہ کبھی وہ ان بکروں کے لئے جن کے پیرو ہو کر وہ زناکار ٹھہرے ہیں اپنی قربانیاں نہ گذرانیں۔ انکے لئے نسل در نسل یہ دائمی قانون ہوگا۔
اگر آپ کو خروج کا مطالعہ یاد ہو یا پھر اگر بنی اسرائیل کی ملک مصر سے نکل آنے کی کہانی یاد ہو ، تو آپ کو علم ہوگا کہ ملک مصر سے بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ملی جلی بھیڑ بھی نکل آئی تھی۔ اس ملی جلی بھیڑ کا ایمان شروع سے ہی ایک خدا پر نہیں تھا۔ وہ بہت سے بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ خداوند کے ان حکموں کو سیکھ رہے تھے جو کہ صرف واحد خداوند کی پرستش کرنے کے بارے میں تھے۔ میں نے اوپر جو آیات درج کی ہیں انکو دینے کا خداوند کا ایک خاص مقصد تھا۔ خداوند نہیں چاہتے تھے کہ خداوند کے لوگ بت پرست قوموں کی طرح قربانیاں چڑھائیں اور انکی طرح کا ایمان اور معبودوں پر بھی رکھیں۔ خداوند کے ان احکامات دینے کا مقصد انکو باقی قوموں سے جدا کرنا تھا۔ کسی بھی شخص کو بیل، برہ یا بکرے کو لشکر گاہ یا لشکر گاہ سے باہر "ذبح کر کے” مسکن میں خداوند کے حضور چڑھانے سے منع کیا گیا تھا۔ ان آیات کو لیکر بہت سے یہودی دانشوروں میں بحث رہی ہے کیونکہ "ذبح ” کے لئے جو لفظ عبرانی میں استعمال ہوا ہے وہ "شخات، שׁחת , Shachat ” ہے جو کہ اردو میں جانور کو کاٹنے یعنی ذبح کرنے کا معنی ہی رکھتا ہے۔ مگر عبرانی میں ذبح کے لئے لفظ "ذبح” بھی ہے۔ عبرانی کلام میں "شخات (شخیتا)” اور "ذبیحا” دونوں کا استعمال ہوا ہے۔ میں نے پہلے بھی کافی دفعہ بتایا ہے کہ یہودیوں کے لئے دستر خوان خداوند کے مذبح گاہ کے برابر ہی ہے۔ اسلئے چاہے جانور کو قربانی کے لئے چڑھانے کے لئے ذبح کیا جاتا تھا یا پھر کھانے کے لئے، دونوں کے لئے ذبح کرنے کے بہت سے اصول ملتے جلتے تھے۔
ویسے تو جب ہم استثنا 12 کے مطالعے کو بھی دیکھیں گے تو مزید کچھ سیکھیں گے مگر جیسا میں غیر قوموں کے بارے میں اوپر بیان کر رہی تھی مختصراً ان آیات کا مفہوم سمجھا دوں۔ خداوند نے قربانی کو خاص اپنے مذبح گاہ پر چڑھانے کا حکم دیا تھا اور قربانی کے خون کو مذبح پر چھڑکنے کا حکم دیا تھا۔ کوئی بھی کھلے میدان میں قربانی نہ گذرانے بلکہ خداوند کے حضور میں چڑھائے اس جگہ جسے خداوند نے چنا ہے۔ اگر آپ غیر قوموں کے جانوروں کو ذبح کرنے کے طریقہ کار کو جانیں گے تو تب آپ کو علم ہو گا کہ وہ قربانی کے جانور کے خون کو کس طرح سے استعمال کرتے تھے۔ احبار 17:10 میں خداوند نے خاص کہا کہ وہ کسی طرح کا خون کھانے والوں کے خلاف ہونگے۔ شیاطین قومیں خون کو عہد کے طور پر پینے اور اپنے آپ کو رسمی طور پر نہانے/ڈھانپنے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ تبھی خداوند نے سختی سے خون کو کھانے سے منع کیا اور خون کو مذبح پر چھڑکنے کا حکم دیا۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں بہت سے یشوعا کی بات کو سن کر ان کو چھوڑ کر چلے کیونکہ یشوعا نے یوں کہا (یوحنا 6:52سے 56)؛
یسوع نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اسکا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے اور میں اسے آخری دن پھر سے زندہ کروں گا۔ کیونکہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے کی چیز اور میرا خون فی الحقیقت پینے کی چیز ہے، جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اس میں۔
وہ جو کہ خداوند کے حکموں سے واقف تھے کہ صرف پاک جانور کا گوشت کھایا جا سکتا ہے (اور ان پاک جانوروں میں ابن آدم کا گوشت شامل نہیں) جن کا ذکر توریت میں ہے اور خون کھانے/پینے کا انجام خداوند کے لوگوں میں سے کاٹ دیا جانا ہے ، وہ کیونکر یشوعا کی بات کو قبول کر سکتے تھے تبھی انکو یشوعا کی یہ باتیں ناگوار لگیں اور وہ یشوعا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یشوعا کے شاگرد، پولس رسول اور عبرانیوں کے خط کے مصنف ان باتوں کو سمجھ پائے جو عام لوگ نہ سمجھ سکے۔ وہ توریت سے سمجھتے تھے کہ "جسم کی جان خون میں ہے۔۔۔(احبار 17:11)” جسکو خداوند نے ہماری جانوں کے لئے کفارہ میں دیا ہے۔ روٹی کا توڑنا اور کھانا، مے کا پینا خداوند کی تمام عیدوں کا خاص حصہ ہے انھی عیدوں میں ہفتہ وار سبت بھی شامل ہے جسکے بارے میں ہم احبار کے 23 باب میں پڑھیں گے۔ روٹی کا توڑنا اور مے کا پینا خداوند کے ساتھ عہد میں شامل ہونا تھا۔ یشوعا نے حقیقتاً میں اپنا گوشت کھانے اور خون پینے کو نہیں کہا تھا بلکہ وہ اس عہد کی طرف اشارہ کر رہے تھے جسکے بارے میں انھوں نے کہا کہ میری یاد گاری میں ایسا ہی کیا کرو۔ پولس رسول نے ان کو یوں بیان کیا (1 کرنتھیوں 11:23 سے 27)
کیونکہ یہ بات مجھے خداوند سے پہنچی اور میں نے تم کو بھی پہنچا دی کہ خداوند یسوع نے جس رات وہ پکڑوایا گیا روٹی لی ۔ اور شکر کر کے توڑی اور کہا یہ میرا بدن ہے جو تمہارے لئے ہے۔ میری یادگاری کے واسطے یہی کیا کرو۔ اسی طرح اس نے کھانے کے بعد پیالہ بھی لیا اور کہا یہ پیالہ میرے خون میں نیا عہد ہے۔ جب کبھی پیو میری یادگاری کے لئے یہی کیا کرو۔ کیونکہ جب کبھی تم یہ روٹی کھاتے اور اس پیالے میں سے پیتے ہو تو خداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک وہ نہ آئے۔ اس واسطے جو کوئی نامناسب طور پر خداوند کی روٹی کھائے یا اسکے پیالے میں سے پئے وہ خداوند کے بدن اور خون کے بارے میں قصور وار ہوگا۔
پولس رسول یعنی ربی شاؤل فریسی تھے وہ شریعت کی باتوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر کوئی خداوند کے حکموں سے ہٹ کر حکم دے رہا ہے تو وہ خداوند کے حکموں میں یا تو اضافہ کر رہے ہیں یا گھٹا رہے ہیں۔ پولس رسول نے خداوند کی عیدوں کے حکموں کے دائرے میں رہ کر ہی یشوعا کے نئے عہد کے خون کو اور یشوعا کے بدن کی روٹی کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز "جس رات وہ پکڑوایا گیا۔۔” سے شروع کی ۔ موت کا اظہار صرف عید فسح سے جڑا ہے مگر روٹی اور مے خداوند کی تمام سبتوں سے جڑی ہیں عام اور خاص۔ کوئی بھی جو نا مناسب طور پر خداوند کی روٹی کھائے یا اسکے پیالے سے پئے وہ خداوند کا قصوروار ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خداوند کی سبتوں کے حکم سے ہٹ کر اس کی روٹی کھائی جا سکتی ہے اور مے پی جا سکتی ہے؟ کیا اتوار کے اتوار یوں کرنا پولس رسول کے کہنے کے مطابق "نامناسب” نہیں؟
ایک اور خاص بات جو میں نے کبھی پینٹیکوسٹل چرچ میں سیکھی تھی وہ ہے دعا میں اپنے آپ کو یسوع کے خون میں چھپانا یا یسوع کے خون کو مانگ لینا۔ میں چونکہ کلام کو خود بھی پڑھتی آئی ہوں تو میں جب بھی دعا میں یوں بولتی تھی تو مجھے ہمیشہ احساس رہتا تھا کہ جیسے مذبح پر خون کو چھڑکنا رسمی طور پر لازم تھا ہم دعا میں بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔ کلام ہمیں دوسروں کے لئے ٹھوکر کا سبب نہ بننے کو کہتا ہے۔ میں نے اوپر ذکر کیا کہ شیاطین قومیں خون کو کس طرح سے استعمال کرتی تھیں۔ میں نے نئے عہد نامے کو ایک بار پھر سے خاص پڑھنا شروع کیا کہ کیا ایسا کہنا کلام کے مطابق مناسب ہے۔ مجھے کوئی آیت نہیں ملی جو اس ریفرنس سے ہو۔ زیادہ تر آیات پاک کرنے یا کفارہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں ویسے ہی جیسے کہ توریت میں درج ہے۔ میرے خیال سے ہمیں اپنے الفاظ دعا میں بھی کلام کے مطابق چننے ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میں ماضی کی غلطیوں کو نہ دھراؤں اور آگے بہتر سے بہتر بن سکوں۔
میں نے احبار 16 باب میں بکروں کے حوالے سے بات کی تھی ۔ پرانے زمانے میں بکری نما بت کی پرستش کی جاتی تھی۔ احبار 17:7 میں عبرانی میں "سییریم، שְׂעִירִם , Se’irim ” کا ذکر کیا گیا ہے۔ اردو میں تو اسکا ترجمہ بکروں سے کیا گیا ہے اس عبرانی لفظ سے مراد "بال” ہیں جو کہ بھوت یا جنات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ غیر معبودوں کی پرستش خداوند کی نظر میں زناکاری کرنا ہے۔ تبھی خداوند کے حضور قربانی صرف اور صرف اس جگہ چڑھائی جائی سکتی تھی جسکو خداوند نے چنا۔ اب چونکہ ہیکل نہیں اسلئے قربانیوں کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہوا ہے۔
میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں خداوند نے چاہا تو اگلی دفعہ ہم احبار 18 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ ہم دعا میں اپنے لفظوں کا چناؤ خداوند کے کلام کے مطابق کر سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین