ہمارے پرشاہ شوفتیم کے بعد کا پرشاہ کا نام "کی تیتزے” ہے جسکے معنی ہیں "اور جب تم جاؤ یا پھر جب تم نکلو” کیونکہ ہمارا توراہ کا حوالہ عبرانی میں اس جملے سے شروع ہوتا ہے "جب تو اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے کو نکلے”۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ – استثنا 21:10 سے 25:19
ہاف تاراہ – یسعیاہ 54:1 سے 10
بریت خداشاہ – 1 کرنتھیوں 5:1 سے 5 کچھ میسیانک یہودی متی 5:27 سے 30 بھی پڑھتے ہیں۔
کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھ کر میری ان باتوں پر غور کریں جو میں نیچے درج کرنے لگی ہوں۔
- کلام عورتوں کی عزت اور حقوق کا خیال رکھنے کا کہتی ہے کیونکہ جب خدا وند نے حوا کو بنایا تھا تو انھوں نے آدم کے لئے اسکی مانند ایک مددگار بنانے کا سوچا تھا (پیدائش 2:18)۔ وہ جو کہ پیدائش 3:16 کی اپنی عقل و سمجھ کے مطابق تشریح کرتے ہیں وہ مرد کو عورت کا حاکم بیان کرتے ہیں کہ اس سے زور زبردستی کسی بھی قسم کا سلوک کیا جا سکتا ہے اور افسوس کی یہی بات ہے کہ ہمارے مسیحی خاندانوں میں زیادہ تر عورتوں کا کردار گھر کی لونڈی کی مانند ہے۔ افسوس کہ ہمارے زیادہ تر راہبر یہ بھی نہیں جانتے کہ کیا لعنت کی باتیں ہیں اور کیا برکت کی ؟ ہمارا یہ والا پرشاہ اسیر کی گئی عورت کے حق سے شروع ہوتا ہے۔ اگر خداوند ان عورتوں سے بدسلوکی کرنے سے منع کر تے ہیں تو وہ اپنی چنی ہوئی بیٹیوں کے حقوق کا کتنا خیال رکھتا ہوگا؟ اگر آپ شادی شدہ مرد ہیں تو کچھ وقت نکال کر ان باتوں پر ضرور غور کریں کہ کیا آپ کی نظر میں آپ کی بیوی آپ کی مددگار ہے یا کہ گھر کی لونڈی؟ کیا آپ کی بیوی آپ کی محبوبہ ہے یا بس گھر کا ایک حصہ؟ کیا آپ اپنی بیوی کے حقوق کا خیال رکھنے والوں میں سے ہیں؟ میں خداوند کی شکر گذار ہوں کہ میرے شوہر نہ صرف یہ کہ مجھ سے محبت رکھتے ہیں بلکہ وہ مجھے اپنا مددگار بھی جانتے ہیں۔ میں خود نہیں کماتی ہوں بلکہ وہ میری تمام نہ صرف ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ضروریات سے بڑھ کر میرے لئے محنت کرتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ خداوند نے میرے شوہر کو گھر کا سربراہ ٹھہرایا ہے اور انکی عزت کرنا مجھ پر فرض ہے اور انکی ضروریات کا خیال رکھنے کی ذمے داری میری ہے۔ اگر آپ شادی شدہ عورت ہیں تو آپ سوچیں کہ آپ اپنے شوہر کی کتنی عزت کرتی ہیں اور کن کن باتوں میں اپنے شوہر کے تابع ہیں؟
- آجکل ہم جنس پرستوں کے خلاف بہت بولا جا رہا ہے۔ اولاد کا ضدی اور گردن کش ہونا بھی خدا کی نظر میں گناہ ہے۔ بہت سوں کی نظر میں ضدی اور گردن کش ہونا معمولی گناہ ہے مگر ہم جنس پرست ہونا بہت بڑا گناہ ہے۔ آپ کے خیال میں خدا کی نظر میں کونسا گناہ بڑا اور چھوٹا ہے؟ یعقوب 2:10 کو دھیان میں رکھ کر سوچیں۔
- اس پرشاہ میں بہت سی باتیں غور و فکر کی ہیں۔ ہماری استثنا 22:5 کی یہ آیت خاص مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس پہننے سے منع کرتی ہے۔ سادہ معنی یہ ہے کہ ایک مرد، عورت کی طرح نہ بنے اور عورت، مرد کی طرح بننے کی کوشش نہ کرے۔ خداوند نے مرد کو مرد بنایا ہے اور عورت کو عورت۔ اگر مرد عورت کا لباس پہنے یا عورت مرد کا ، تو ایک طرح سے یہ خدا کو ایسا کہنا ہے کہ "ہمیں اپنے بارے میں تیرا فیصلہ پسند نہیں، میں مرد نہیں عورت بننا چاہتا ہوں یا پھر میں عورت نہیں مرد بننا چاہتی ہوں”۔ افسوس کہ آجکل جنس بدلنے کا بھی فیشن عام ہوگیا ہے۔ دوائیاں کھا کر آپ اپنی جنس بدل سکتے ہیں اور خدا کی مرضی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ظاہر کر سکتے ہیں۔ کلام عورتوں کو ایسا لباس پہننے سے منع کرتی ہے جس سے وہ مردوں میں اپنے لئے جنسی کشش پیدا کرنے کا سبب بنے۔ ویسے وہ جن کو اپنے اوپر قابو نہیں، برقعہ اوڑھی عورت کو بھی گھورنا بند نہیں کرتے ان سے تو اس موضوع پر بات کرنا ہی بے فائدہ ہے۔ مغربی معاشرہ ، مشرقی معاشرے سے بہت فرق ہے۔ کلام عورتوں پر پابندی نہیں لگا رہا ہے مگر عورت کو ظاہری خوبصورتی سے زیادہ روحانی خوبصورتی کی طرف دھیان دینے کو کہتا ہے (1 پطرس 3)۔
- استثنا 24:3 سے 4 کے مطابق کوئی طلاق یافتہ عورت اپنے پہلے شوہر سےطلاق حاصل کرنے کے بعد دوبارہ اسی سے بیاہ نہیں کر سکتی ہے۔ خدا وند نے اسرائیل قوم کو اپنی بیوی کہا جسکو خداوند نے طلاق نامہ دے دیا (یرمیاہ 3:8)۔ مگر پھر خداوند نے کہا کہ وہ انکا مالک ہے وہ انھیں واپس لائیں گے۔ خداوند کا شکر ہے کہ ہمارے پاس نیا عہد نامہ موجود ہے جو کہ ہمیں اس معمے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اب آپ رومیوں 7 کو پڑھ کر خود سوچیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔ خداوند کیسے چھوڑی ہوئی بیوی، اسرائیل کو دوبارہ اپناتے ہیں یہ ایک معمہ تھا جسکا جواب نئے عہد نامے میں ہے۔ اگر آپ کو کسی کو یہ معمہ سمجھانا ہو تو آپ اسے کیسے سمجھائیں گے؟
- ہاف تاراہ کا حوالہ پڑھیں۔ میں نے پہلے بھی بہت دفعہ کہا ہے کہ اگر خدا نے اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے تو پھر ہم خدا پر اعتبار نہیں کر سکتے کیونکہ پھر وہ اپنے کہنے کے مطابق "کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں” نہیں۔ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے وعدوں کو رد کر سکتے ہیں تو پھر وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ حقیقتاً میں ” کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہیں۔” اسلئے ہم ضرور خداوند پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ یسعیاہ 54:10 کو پڑھیں۔ خداوند نے اپنا چہرہ بنی اسرائیل سے قہر کی شدت میں چھپایا تھا (یسعیاہ 54:8) مگر انھوں نے ہمیشہ کے لئے ان کو نہیں چھوڑا تھا۔ خداوند کے وعدے اور صلح سلامتی کے تمام عہد اسرائیل قوم یعنی اپنے لوگوں کے ساتھ ہیں، غیر قوموں کے ساتھ نہیں۔ کیا آپ اسرائیل کی قوم کا حصہ ہیں؟
- بریت خداشاہ کا حوالہ پڑھیں اور خاص طور پر 1 کرنتھیوں 5:5 پر غور کریں۔ بدن کی ہلاکت اور روح کی ہلاکت میں کیا فرق ہے؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اپنے صلح کے عہد کو قائم رکھیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
موضوع: نفرت (آڈیو میسج 2018)
(Topic: Hatred (Audio Message 2018