آپ کلام میں سے نحمیاہ 11 اور 12 باب پورا خود پڑھیں۔
گیارہواں باب یروشلیم شہر کی آبادی کی حالت بیان کرتا ہے۔ یروشلیم شہر میں بسنے والو ں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انھیں وہاں پر آدمیوں کو بسانے کی ضرورت تھی۔جب تک کوئی شہر لوگوں سے مکمل آباد نہ ہو اسکے لئے خوشحال ہونا مشکل ہوتا ہے۔ یروشلیم شہر میں اگر آدمیوں کی تعداد نہیں بڑھتی تو کسی کے لئے بھی ان پر حملہ کرنا آسان ہونا تھا۔ انکو اپنے آپ کو مضبوط کرنا تھا۔ خداوند کی اپنے لوگوں کے لئے برکت اور خواہش یہی تھی کہ وہ بڑھیں، پھلیں اور پھولیں اور زمین کو معمور کریں۔
ہمیں نحمیاہ 11 باب میں ان لوگوں کے نام ملتے ہیں جنہوں نے یروشلیم میں بسنے کا ارادہ کیا۔ عموماً لوگ کسی جگہ پر بسنے سے پہلے نفع نقصان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ یروشلیم شہر کی کاروباری حالت کوئی اتنی خاص نہیں تھی کہ لوگ کھنچے چلے آتے۔ کسی بھی کاروباری شخص کے لئے یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا مگر صوبے کے سرداروں نے یروشلیم میں آ بسنے کا فیصلہ کیا۔ انکے لئے یہ انکے "عظیم بادشاہ” کا شہر تھا (زبور 48:2 اور متی 5:35)۔ زبور 137:5 سے 6 میں لکھا ہے؛
ائے یروشلیم! اگر میں تجھے بھولوں تو میرا دہنا ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے۔ اگر میں تجھے یاد نہ رکھوں اگر میں یروشلیم کو اپنی بڑی سے بڑی خوشی پر ترجیح نہ دوں تو میری زبان تالو سے چپک جائے۔
اپنے آپ کو پھر سے آباد کرنا آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں خاص طور پر تب جب خداوند کی اس میں مرضی ہو۔ خداوند کی اپنے لوگوں کے لئے یہی مرضی تھی کہ وہ آباد ہوں اسی وعدے کی سر زمین میں، جسکا عہد خداوند نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ نحمیاہ 12:27 میں لکھا ہے؛
اور یروشلیم کی شہر پناہ کی تقدیس کے وقت انھوں نے لاویوں کو انکی سب جگہوں سے ڈھونڈ نکالا کہ ان کو یروشلیم میں لائیں تاکہ وہ خوشی خوشی جھانجھ اور ستار اور بربط کے ساتھ شکر گذاری کرکے اور گا کر تقدیس کریں۔
انھوں نے اس پرانے طریقہ کار کو اپنانے کی کی جو کہ داؤد اور سلیمان بادشاہ کے زمانے سے چلتا آیا تھا۔ میں ان تمام باتوں کی تفصیل میں نہیں جا رہی کیونکہ میں خود ابھی بھی خداوند کے گھر میں خدمت کے متعلق قانون و ضوابط کو سیکھ رہی ہوں۔ مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ یشوعا کے زمانے میں خداوند کےگھر میں خدمت کے جو اصول ، قواعد و ضوابط تھے ان میں تمام کے تمام کا حوالہ ہمیں کلام مقدس میں نہیں ملتا مگر زبانی توریت میں ملتا ہے۔ نحمیاہ 12:45 میں لکھا ہے؛
سو وہ اپنے خدا کے انتظام اور طہارت کے انتظام کی نگرانی کرتے رہے اور گانے والوں اور دربانوں نے بھی داؤد اور اسکے بیٹے سلیمان کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا۔
خدا کے انتظام اور طہارت کے انتظام کی نگرانی سے آخر کیا مراد ہو سکتی ہے؟ خداوند نے آدم کو بنایا اور باغِ عدن میں رکھا کہ اسکی باغبانی اور نگہبانی کرے (پیدایش 2:15)۔ عبرانی کلام کے مطابق خدا کے لوگوں کو توریت کی نگرانی کرنی تھی۔ عبرانی کلام میں لفظ "שמר،شامار Shamar” کا مطلب "نگرانی کرنا، حفاظت کرنا یا عمل کرنا ” ہے۔ بنی اسرائیل نے خداوند کے کلام کی نگرانی کرنا چھوڑ دی تھی اور اب ایک بار پھر سے انھوں نے خداوند کے انتظام اور طہارت کے انتظام کی نگرانی کا کام شروع کیا۔ آپ کو یہ عبرانی لفظ توریت میں بہت دفعہ نظر آئے گا کیونکہ خداوند نے بارہا اپنے لوگوں کو اپنے احکامات کے مطابق چلنے اور انکی نگرانی کرنے کی تاکید کی۔ کچھ ایسا ہی یشوعا نے بھی کہا (یوحنا 14:15) میں کہا؛
اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔
میں نے اس آیت کو عبرانی کلام میں چیک کیا اور وہی "שמר،شامار Shamar” کا لفظ دیکھا۔ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ یشوعا نے نئے عہد نامے میں کوئی نئی تعلیم نہیں دی تھی وہ پرانی تعلیم ہی تھی مگر سننے والوں کے لئے نئی تھی۔
طہارت کے موضوع پر میں زیادہ بات نہیں کرونگی مگر میں یہ ضرور بیان کرنا چاہتی ہوں کہ بپتسمہ یہودیوں کے لئے کوئی نیا تصور نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو فریسی یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ نہ لیتے۔ حزقی ایل 44:23 میں کاہنوں کے لئے لکھا ہے؛
اور وہ میرے لوگوں کو مُقدس اورعام میں فرق بتائینگے اور انکو نجس اور طاہر میں امتیاز کرنا سکھائینگے۔
اگر کسی کو خود ہی نہیں پتہ کہ مقدس کیا ہے اور عام کیا ہے تو وہ کسی اور کو کیا سکھا پائے گا؟ بائبل کہنے کو مقدس ہے مگر جس جس مسیحی گھر میں بھی نظر آتی ہے شایدکبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ میں اسکے اوپر سے دھول جھاڑنے کے لئے جو کپڑا استعمال کر رہا/رہی ہوں کیا اسکو میں نے کسی اور چیز کو صاف کرنے کے لئے بھی استعمال کیا ہے جو شاید پاک نہ ہو؟ کیا میں نے اپنے آپ کو بائبل پکڑنے سے پہلے صاف کیا تھا؟ کیا میرے ہاتھ دھلے ہوئے ہیں؟ ویسے تو اگر آپ روز بائبل کو استعمال کرتے ہیں تو اس پر گرد نہیں بیٹھے گی۔
اگر آپ کے خیال میں میں نے "طہارت” کو بیان کیا ہے تو نہیں خداوند کے کلام کے مطابق صرف یہ "طہارت” ہر گز نہیں۔ اسکے لئے آپ کو توریت کی بنیادی باتیں سیکھنی ہیں ۔ میں خود بھی ابھی بہت سی باتیں سیکھ رہی ہوں اور کوشش کر رہی ہوں کہ انکو اپنی زندگی میں اپنا سکوں۔ امید ہے کہ آپ بھی ضرور ان باتوں کی کھوج لگائیں گے کہ کیسے آپ خداوند کے کلام کی”نگرانی” کر سکتے ہیں۔
میں نحمیاہ کے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ خداوند سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنے حکموں کو نگرانی کرنا سکھائیں کہ ہم اپنی جان سے بھی زیادہ اسے عزیز رکھیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین