روزے کلام کے مطابق

اس  (2018) سال ایسٹر  اپریل 1  کو منایا جائے گا۔ اور فروری 14 سے روزے شروع ہو جائیں گے۔ اگر آپ  فروری 14 سے ایسٹر تک دن گنیں گے تو معلوم پڑے گا کہ چالیس40 دن نہیں بنتے بلکہ چھیالیس 46 دن بنتے ہیں۔درمیان میں جو اتوار پڑتے ہیں ان کو روزوں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ مسیحی چرچوں  میں اس دن کو مقدس مان کر روزہ نہ رکھنے کے لیے کہا گیا ہے کہ یسوع مردوں میں سے اتوار کو جی اٹھا تھا اسلیے اتوار مقدس ہے۔ بھولیے مت کہ ہمیں کلام پر عمل کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ لوگوں کی بنائی ہوئی رسموں پر کیونکہ یشوعا  (یسوع) نے یسعیاہ  29:13  کو اپنے لفظوں میں ایسے کہا تھا  (متی 15:7 سے9)؛

ائے ریاکارویسعیاہ نے تمہارے حق میں کیاخوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

اگر آپ ریاکاروں میں سے نہیں تو لازم ہے کہ کلام سے اس بات کی تفتیش کریں اور دیکھیں کہ کلام ان چالیس روزوں کے بارے میں کیا کہتا ہے اور آیا کیا مسیحیوں کو ان روزوں کو لازمی رکھنا چاہیے۔ ان روزوں کو مسیح سے جوڑ کر خوامخواہ میں مسیحیوں کو مجبور نہ کریں کہ یہ روزے رکھیں۔

چالیس روزوں کا آغاز:

  لینٹ، Lent، جسکے معنی ہیں "چالیس” روزوں کے دنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے  یا پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینٹ، لینسٹن سے نکلا لفظ ہے جسکا مطلب ہے "چشمہ”۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے مطابق یسوع کے چالیس روزوں کی وجہ سے لینٹ   کو مقدس مانا جاتا ہے  اور اس وجہ سے روزے رکھے جاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بابل کے معبودوں کے تہوار ہیں جو کہ مسیحیت میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ آپ نے پرانے عہد نامے میں بار بار بعل اور عستارات کا ذکر پڑھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روزے بدھ کے دن سے ہی کیوں شروع ہوتے ہیں؟ رومن کیتھولک ماتھوں پر راکھ سے صلیب کا نشان کیوں بناتے ہیں؟  آخر اتوار کو روزہ کیوں  نہیں رکھا جاتا جبکہ یہ جواز کہ یشوعا پہلے  دن جی اٹھا اسلئے  وہ خوشی کا دن ہے، بھی کلام کے مطابق صحیح نہیں؟ کیا روزوں کے دنوں میں پڑنے والے اتوار کے دن باقی اتوار کے دنوں سے ہٹ کر ہیں؟ اگر آپ کو عید فسح کے بارے میں علم ہے تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر یشوعا  ، فسح کا برہ، فسح والےدن قربان ہوا تو پھر کیوں  جمعہ کے دن کو مبارک کہا گیا  کہ یسوع اس دن  صلیب پر قربان ہوا جبکہ کلام کی عید فسح تو ہر بار  مختلف دنوں پر  پڑتی ہے؟   کیا جمعے سے اتوار کی صبح تک یشوعا کا دیا ہوا  تین رات اور تین دن کا ایک نشان (متی  12:37 سے 40)  پورا اترتا ہے؟ ویسے تو مجھے علم ہے کہ اس  سوال کا روزے سے کوئی لینا دینا نہیں مگر سوچنے میں تو کوئی حرج نہیں 🙂

کلام میں بیان کیا گیا ہے کہ یسوع نے چالیس دن اور چالیس رات کچھ نہ کھایا (متی 4، مرقس 1، اور لوقا 4)۔ انھی آیات کو بنیاد بنا کر  رومن کیتھولک چرچ کی بنائی ہوئی رسم کے مطابق ایسٹر سے پہلے چالیس روزے رکھے جاتے ہیں۔ میں نے بھی اعمال سے لے کر مکاشفہ تک سب پڑھ لیا ہے مگر کہیں نظر نہیں آیا کہ کہاں پر یشوعا کے شاگردوں نے اتوار کو چھوڑ کر چالیس روزے رکھے تھے ۔ مجھے کلام میں کہیں یہ بھی نہیں نظر آیا کہ اتوار کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ چالیس روزے صرف یشوعا نے ہی نہیں رکھے تھے بلکہ ہمیں کلام میں سب سے پہلے موسیٰ نبی کا حوالہ ملتا ہے جس نے  ایک دفعہ نہیں بلکہ دوہ دفعہ چالیس روزے رکھے تھے(استثنا 9:9 اور 9:18)۔ پہلی بار تب  جب خداوند نے موسیٰ کو دس احکامات دئے تھے اور  دوسری بار تب جب موسیٰ نے   دوبارہ سے پتھر کی لوحوں پر دس احکامات لکھے تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے سونے کا بچھڑا  بنا کر خداوند کے خلاف گناہ کیا تھا اور  موسیٰ نے غصے میں پہلی والی لوحوں کو توڑ دیا تھا۔ اور پھرایلیاہ نبی نے بھی تو چالیس دن تک روزہ رکھا تھا (1 سلاطین 19:8)۔ کیا  موسیٰ اور ایلیاہ نبی نے انھی دنوں میں روزے  رکھے تھے  جب یشوعا نے روزہ رکھے تھے؟

 اگر آپ نے میرا "شعوعوت، عید پینتکوست” پر لکھا آرٹیکل پڑھا ہے تو شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے بتایا تھا کہ خداوند نے بنی اسرائیل کو توریت،  پینتکوست/شعوعوت والے دن دی تھی۔  اور پھر خداوند نے موسیٰ کا کہا کہ وہ پہاڑ پر خداوند کے پاس آئے تاکہ خداوند موسیٰ کو لکھی ہوئی پتھر کی لوحیں  اور شریعت دیں۔ موسیٰ کے پہلے چالیس دن اور چالیس رات کے روزے یہاں سے شروع ہوئے تھے (خروج 24)۔ عید پینتکوست ، عبرانی کیلنڈر کے مطابق سیوان کے مہینے میں پڑتی ہے جو کہ ہمارے رومن کیلنڈر کے مطابق مئی /جون  کا مہینہ بنتا ہے۔  برائے مہربانی  ایک نظر خود بھی وقار  بھائی کے بنائے ہوئے عبرانی کیلنڈر پر ڈالیں۔ یہ کیلنڈر آپ کو بائبل سٹڈی ان اردو گروپ کے “Photos”میں نظر آئیگا۔  ان چالیس دن اور چالیس رات کے بعد جب موسیٰ کو خداوند  نے  کہا کہ وہ نیچے جا کر دیکھے کہ کیسے بنی اسرائیل خداوند کے خلاف گناہ کر رہے ہیں تو تموز کا مہینہ شروع ہوچکا تھا جو کہ جون /جولائی  کا مہینہ بنتا ہے۔  یہودی/میسیانک یہودی مانتے ہیں کہ 17 تموز کو موسیٰ نبی نے پتھر کی وہ لوحیں غصے میں توڑ ڈالیں تھیں۔ موسیٰ خداوند سے ہارون اور بنی اسرائیل کے اس گناہ کی معافی مانگنے کے لئے  خداوند کے حضور میں  گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد ایک بار پھر سے موسیٰ  خداوند کے حکم سے انکےحضور میں تراشی ہوئی لوحیں لے کر گیا کہ دس احکامات  ایک بار پھر سے لکھے جائیں۔ موسیٰ نبی نے ایک بار پھر سے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا (خروج 34:28)۔ یہ الول کا مہینہ تھا  جوکہ اگست/ستمبر میں پڑتا ہے۔

جہاں تک بات ہے  کہ ایلیاہ نے کس مہینے میں 40 روزے رکھے تھے،  کلام کی آیات سے کچھ خاص واضح نہیں ہے اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ اس بات کی ہے کہ وہی حورب پہاڑ جہاں خداوند نے موسیٰ کو  پتھر کی لوحیں دیں تھی، ایلیاہ نبی کی ان چالیس دن اور رات کے روزوں  کی منزلِ تھی۔ ایلیاہ بھی اسی پہاڑ پر خداوند سے ملا۔

یشوعا نے بھی چالیس روزے رکھے تھے۔ ہم کلام کی آیات سے  اور توریت کے علم سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یشوعا نے کس مہینے میں روزے رکھے تھے۔ مرقس کی انجیل 1:4 سے 5 آیات میں لکھا ہوا ہے کہ ؛

یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کی منادی کرتا تھا۔ اور یہودیہ کے ملک کے سب لوگ اور یروشلیم کے سب رہنے والے نکل کر اسکے پاس گئے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے دریایِ یردن میں اس سے بپتسمہ لیا۔

بپتسمہ کے بارے میں مسیحیوں کی عام سوچ یہ ہے کہ پرانے عہد نامے میں اسکا وجود نہیں تھا مگر یہ غلط ہے۔ اس پر بھی میں کبھی ایک آرٹیکل لکھونگی مگر امید ہے کہ آپ میری اس بات پر ضرور غور کریں گے کہ یہودیہ اور یروشلیم کے رہنے والے یہ لوگ یہودی تھے اگر بپتسمہ کی تعلیم کوئی نئی تعلیم ہوتی تو وہ یوحنا نبی سے بپتسمہ لینے کی نہ سوچتے۔ ہمیں لوقا 3:1 سے22 آیات میں یوحنا نبی کی کچھ تعلیم کا حوالہ ملتا ہے اور ساتھ ہی میں اسکی مسیحا (مشیاخ) کی آمد کی دی ہوئی  گواہی بھی ملتی ہے۔ یوحنا نبی نے لوگوں کو کہا (لوقا 3:8):

پس توبہ کے موافق پھل لاؤ۔۔۔۔۔۔

ہم اوپر دی ہوئی مرقس  کی آیت میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ گناہوں کا اقرار کر کے بپتسمہ  حاصل کر رہے تھے۔ ہمیں متی 3:13 سے 15 میں یشوعا کا بھی پانی کا بپتسمہ لینے کا حوالہ ملتا ہے کہ یشوعا نے  یوحنا کو کہا   "کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔۔۔”   یشوعا  نے گناہوں کی معافی کا بپتسمہ لیا جبکہ وہ راستباز تھے۔ کوئی بھی جو کہ شریعت کی باتوں سے واقف ہو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے کہ یوم کفارہ سے  چالیس دن پہلے ہی یہودی لوگ اپنے گناہوں سے توبہ  مانگ کر اپنے آپ کو رسمی طور پر پانی سے صاف کرتے ہیں۔ عبرانی میں  "توبہ” کو  "تشِوا، תשובה , Teshuvah” کہتے ہیں۔ تشوا لفظ میں عبرانی لفظ "شوا” ہے جسکے معنی ہیں "پلٹنا یا لوٹنا”۔ یہی  اس  چھٹے عبرانی مہینے الول  کی اہمیت ہے کہ لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور خداوند کی طرف پلٹیں اور تشری جو کہ عبرانی کلام کے کیلنڈر کا  ساتواں مہینہ بنتا ہے ، اپنے آپ کو خداوند کی عیدوں، یوم تیروعہ ، یو م کفارہ اور سکوت  ، کے لئے تیار کر سکیں۔    کلام میں ہمیں کتنی ہی آیات ملتی ہیں جو کہ  توبہ کرنے اور خداوند کی طرف واپس لوٹنے کا پیغام دیتی ہیں۔  یوحنا بپتسمہ دینے والے کا پیغام بھی یہی تھا (متی 3:2):

توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔

یہ عبرانی مہینہ الول،  אלול  Elul, اصل میں عبرانی جملہ

انی  لدودی  ودودی لی, אני לדודי ודודי לי

Ani LeDodi VeDodi Le کے سرنامیہ پر مشتمل ہے۔   میں نے   אלול کے حروف کے نیچے لائن لگائی ہے۔   یہ عبرانی جملہ کلام میں غزل الغزلات 6:3 کی آیت ہے "میں اپنے محبوب کی ہوں اور میرا محبوب میرا ہے۔”     یہودی اور میسیانک یہودی استثنا 30:2 کو دھیان میں رکھ کر روزہ رکھتے ہیں؛

اور تو اور تیری اولا دونوں خداوند اپنے خدا کی طرف پھریں اور اسکی بات ان سب احکام کے مطابق جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے مانیں۔

یشوعا کے ان 40 روزوں کو رکھنے کا مقصد  بہت سوں کے کہنے کے مطابق اپنی منسٹری کے کام کو شروع کرنا تھا کیونکہ  لوقا 4:14 میں یشوعا کے روح کی قدرت سے بھرپور ہو کر تعلیم دینے کا بیان ہے۔  میرا اپنا ذاتی خیال   ہے کہ اسکا مفہوم کچھ اور ہے جس کے بارے میں پھر کبھی بات کرونگی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ  کیا آپ جو ان چالیس روزوں کو رکھتے ہیں انھی دنوں میں رکھتے ہیں جب یشوعا نے رکھے تھے؟ میں پہلے بھی بہت سے آرٹیکلز میں بیان کر چکی ہوں کہ جو کیلنڈر میں اور آپ استعمال کرتے ہیں وہ بائبل کے کیلنڈر کے مطابق نہیں ہے۔ کلام میں درج مہینے  ان مہینوں سے مختلف ہیں۔ اگر آپ کو کلام کے مطابق چلنا ہے تو پھر آپ کو اپنے دینی  کیلنڈر کو بھی اپنانا پڑے گا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کس دین کو آپ اپنا دین سمجھتے ہیں۔

اگر یہ 40 چالیس روزے جو آپ رکھتے ہیں کلام کے مہینے الول میں نہیں پڑ رہے اور نہ ہی کلام کے حکموں کے مطابق ہیں تو کیا آپ نے سوچا ہے کہ پھر یہ کونسے روزے ہیں؟ چلیں کلام میں دیکھتے ہیں۔ آپ حزقی ایل کا 8 باب پورا پڑھیں۔ میں اس میں سے صرف ایک دو آیتوں کو لکھوں گی۔

حزقی ایل 8 باب 14 اور 16 آیات

14: تب وہ مجھے خداوند کے گھر کے شمالی پھاٹک پر لایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں عورتیں بیٹھی تموز پر نوحہ کر رہی ہیں۔

16: پھر وہ مجھے خداوند کے گھر کے اندرونی صحن میں لے گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ خداوند کی ہیکل کے دروازہ پر آستانہ اور مذبح کے درمیان قریباً پچیس شخص ہیں جنکی پیٹھ خداوند کی ہیکل کی طرف ہے اور انکے منہ مشرق کی طرف ہیں اور مشرق کا رخ کرکے آفتاب کو سجدہ کر رہے ہیں۔

آخر یہ تموز کون ہے؟ اور کیوں اس پورے باب میں خداوند اپنے لوگوں سے اتنا ناراض سنائی دے رہا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تمام رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچوں  کا رخ مشرق کی طرف ہوتا ہے جس طرف لوگ صلیب کے سامنے دعا کے لیےجھکتے ہیں؟  تموز قدیم بابل کے دیوتاوں میں شمار ہوتا ہے۔ تموز یا پھر متھرا (جو مختلف خطوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے) کی پیدائش 25 دسمبر کو ہوئی تھی۔ تموز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نمرود  ہے جس نے دوبارہ سے جنم لیا۔ اسے سورج دیوتا بھی پکارا جاتا ہے۔ بابل کے مذہب میں تموز کے مرگ اور جی اٹھنے کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر تموز کی تصویریں دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے مسیحی گھرانوں اور چرچ میں اس کے کتنے روپ ہیں جو کہ تمام کے تمام یسوع سے جوڑ دیے گئے ہیں۔ مگر شاید آپ کو ابھی بھی صاف دکھائی نہ دے۔  یاد رکھیں کہ شیطان شروع سے ہی خداوند کے لوگوں کو بہکاتا  رہا ہے۔ تموز کی تصویریں تو آپ ینٹرنیٹ پر دیکھ ہی لیں گے مگر میں اسکی تھوڑی سی تفصیل بیان کرتی چلوں۔

پیدائش 10 اسکی 8 اور 9 آیات؛

اور کوش سے نمرود پیدا ہؤا۔ وہ روی زمین پر ایک سورما ہوا ہے۔ خداوند کے  سامنے وہ ایک شکاری سورما ہوا ہے اسلیے یہ مثل چلی کہ خداوند کے سامنے نمرود سا شکاری سورما۔

عبرانی میں جس طرح یہ آیتیں درج ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کے خلاف تھا۔ تلمود اور یوسیفس اسکے بیان میں ذکر کرتے ہیں کہ یہی نمرود تھا جسکی رہنمائی میں لوگوں نے بابل کا برج بنایا تھا۔ نمرود زمین پر بابل کے لوگوں کی نظر میں خدا تھا اور اسکی بیوی سمیریمس(سمیری)  جو کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے جانی جاتی ہے مثلاً، عستارات، یسیرت،  ایسس(ISIS) ،ایسٹر ، میڈونا ، آسمان کی ملکہ۔  یہ  صرف اسکے  چند نام ہیں۔ اگر آپ اسکی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھیں گے تو معلوم پڑے گا کہ کبھی کبھی اسکو ماں  جو اپنے ننھے  بیٹے کو گود میں پکڑے ہوئے ہے اسکے روپ  میں بھی دکھایا گیا ہے۔ جی آپ نے شاید اسے اپنے چرچ میں بھی دیکھا ہو فرق صرف یہ ہے کہ آپ اسے  مریم اور یسوع کا مجسمہ سمجھتے ہیں۔ نمرود اور سیمریمس سے جڑی مختلف کہانیاں  آپ کو بابل کی تاریخ کی کتابوں میں ملے گی۔

 نمرود کو سورج دیوتاکہا جاتا تھا تو سمیریمس، اسکی بیوی چاند کی دیوی تھی یا پھر آسمان کی ملکہ۔ جب نمرود کو اسکے دشمن نے مار دیا اور کچھ عرصے کے بعد جب عستارات، آسمان کی ملکہ کسی سے ناجائز طور پرحاملہ ہوئی تو اس نے سورج دیوتا کی شعاعوں  سے حاملہ ہونے کا دعویٰ کیا اور جو اسکا بیٹا پیدا ہوا اسکا نام اس نے تموز رکھا۔ اس نے مشہور کر دیا کہ نمرود کا پھر سے جنم ہوا ہے۔ آسمان کی ملکہ  کے اپنے بیٹے تموز کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ہی ماں سے شادی کر لی تھی۔ ویلنٹائین ڈے پر جو کیوپڈ، پروں کے ساتھ ہاتھ میں تیر کمان پکڑے   بچہ دکھایا جاتا ہے وہ کوئی اور نہیں تموز ہی ہے۔ تموز کو سورج دیوتا کا بیٹا مانا جاتا تھا اور اپنے باپ کی طرح وہ بھی شکاری تھا مگر اسکو ایک جنگلی سور نے تب  مار دیا جب وہ ابھی چالیس سال کا تھا۔  اسکی ماں نے تموز کی پرستش کرنے والوں کو بتایا کہ جب تموز کا خون سدابہار درخت کے کٹے تنے پر گرا تو اس سے راتوں رات میں ایک نیا درخت اگ آیا جس کی وجہ سے سدابہار درخت مقدس ہے۔ وہی سدا بہار  درخت جسکو مسیحی ہر کرسمس اپنے اپنے گھروں میں سجاتے ہیں ۔اسکی ماں نے ہر سال تموز کی مرگ کے افسوس میں چالیس دن تک سوگ منانے کا بھی کہا  جو کہ بدھ والے دن سے شروع ہوتا تھا۔کلام میں ہم حزقی ایل  8 میں بنی اسرائیل  کی عورتوں کا تموز کے لئے نوحہ کرنے کا پڑھتے ہیں اور ان لوگوں کا خداوند کی ہیکل کی  طرف پیٹھ کر کے مشرق کی طرف آفتاب کا سجدہ کرنے کا پڑتے ہیں، وہاں اسی تموز کی بات ہو رہی ہے اور بابلی بتوں کی رسموں کا ذکر ہے۔  کچھ عرصے کے بعد سیمریمس ، تموز کی زندگی کی فریاد لے کر دیوتاؤں کے سامنے گئی مگر اسے  واپس دریائے فرات میں ایک بڑے انڈے میں بھیج دیا گیا۔ چونکہ وہ انڈے سے نکلی  تھی تو اسلئے لوگوں کا یہی ایمان تھا کہ وہ دیوی ہے۔ کچھ اور کتابوں کے مطابق اپنے بیٹے کی موت کے بعد سمیریمس کی بھی موت ہوگئی تھی مگر بعل (نمرود) نے اسے ابھی اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا اور اسکو واپس انڈے میں بند کر کے زمین پر دریائے افرات میں اتار دیا۔  ایسٹر والے دن کے ایسٹر کے انڈوں کا وجود یہیں سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیمریمس نے  ایک پرندے کو انڈے دینے والے خرگوش میں بدل دیا جسکی وجہ سے لوگ اس پر ایمان رکھتے تھے۔  تموز کی پرستش کرنے والے اپنے سامنے ویسے ہی T، ٹی کا نشان بناتے تھے جیسے کہ آجکل کچھ مسیحی اپنی طرف سے باپ، بیٹے اور روح القدس کا نشان بناتے ہیں۔  مت بھولیں کہ یہ بابلی دیوتاؤ ں کے قصے ہیں ان میں سچائی  نہیں ہے۔ مسیحیوں کی ایسٹر کی صبح کی عبادت بھی کلام کے مطابق نہیں ہے بلکہ انھی بابلی من گھڑت کہانیوں کا حصہ ہیں۔  اس سے متعلق بھی کئی قسم کی کہانیاں جڑی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے شاید فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ بعض شیطانی فلموں میں شیطان کے چیلے کنواری عورتوں یا پھر بچوں  کی قربانی  طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ کرتے تھے اور پھر انکے خون میں انڈوں کو ڈبویا جاتا تھا۔  میں پھر سے یاد دلا دوں کہ یہ کہانیاں من گھڑت ہیں اور انکی بنیاد کلام کی سچائی پر مبنی نہیں ہے۔

آپ خود سوچیں کہ ایسٹر والے دن انڈوں اور ایسٹر کے خرگوش کا یشوعا کے جی اٹھنے سے کیا واسطہ ہے؟ وہی باتیں جن سے پرانے عہد نامے میں خدا یہودیوں سے ناراض تھے آج مسیحی انھی کو  اپنائے ہوئے ہیں۔ جب خدا نے یہودیوں کو اس حرکت پر معاف نہیں کیا بلکہ ملک بدر کردیا کیا آپ کے خیال میں آپ ان یہودیوں سے بہتر ہیں  کہ خدا آپ کو ایسا کرنے پر معاف کریں گے۔  اگر آپ توبہ نہ کریں اور پھر سے اسکی مقرر کردہ عیدوں اور احکامات کو نہ مانیں تو آپ میں اور حزقی ایل 8 باب میں درج ان نافرمانبردار یہودیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آپ جب یہ روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر مناتے ہیں تو صاف صاف خدا کے حکموں  کی نافرمانبرداری کرتے ہیں۔ میں دس احکامات کی بات کر رہی ہوں جو کہ شریعت کا حصہ ہیں۔  کیا آپ نے کبھی اپنے پادریوں سے پوچھا ہے کہ کیوں چرچ کا رخ مشرق کی طرف ہوتا ہے اور کلام میں کہاں پر لکھا ہے کہ اتوار کو روزہ مت رکھو؟ خداوند نے جیسے بنی اسرائیل کے لئے حزقی ایل 8:18 میں کہا وہ آپ کے لئے بھی جو یہ مکروہ حرکت کرتے ہیں ، کہتے ہیں:

پس میں بھی قہر سے پیش آؤنگا۔ میری آنکھ رعایت نہ کریگی اور میں ہرگز رحم نہ کرونگا اور اگرچہ وہ چلا چلا کر میرے کانوں میں آہ و نالہ کریں تو بھی میں انکی نہ سنونگا۔

کلام کے مطابق روزے کب  رکھے جاتے ہیں؟

میرے سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ بتائیں کہ ہمیں کب روزے رکھنے ہوتے ہیں۔  ہمیں کلام میں اکثر ذکر ملتا ہے کہ کس نے کب روزہ رکھا یا پھر کیوں روزہ رکھا۔ مثال کے طور پر یوناہ نبی کی کتاب کے مطالعے میں ہم نے پڑھا تھا کہ نینوا کے باشندوں نے توبہ کا روزہ رکھا تھا۔  آستر کی کتاب کے مطالعے میں ہم نے پڑھا تھا کہ یہودیوں نے آستر کے لئے روزہ رکھا تھا تاکہ خداوند اسے بادشاہ کی نظر میں مقبول ٹھہرائے اور وہ لوگ اپنے سر پر آنے والی بلا سے نجات پا سکیں۔ 2 سموئیل 1 باب میں ہمیں لوگوں کا ساؤل اور اسکے بیٹے  یونتن کی موت کے دکھ میں روزہ رکھا ۔  ہمیں دانی ایل نبی کے روزے رکھنے کا ذکر بھی ملتا ہے  (دانی ایل 9:3 اور 16)۔ یشوعا کے یہ چالیس دن کے روزے ، یشوعا کو روحانی جنگ کے لئے رکھنے پڑے تھے۔  عزرا 8:21 میں ہمیں  فروتن بننے کے  لئے روزے رکھنے کا ذکر ملتا ہے۔   اور اعمال کی کتاب میں ہمیں بزرگوں کا روزہ رکھنے کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے خداوند سے راہنمائی حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھا۔ اور بھی کافی مثالیں ہیں۔

روزہ آپ کسی بھی بات  کے لئے رکھ سکتے ہیں۔ کلام میں درج یہ مثالیں ہمیں اسی بات  کی اہمیت بیان کرتی ہیں۔ مگر پھر بھی کچھ روزے ایسے ہیں جو کہ یہودی لوگ رکھتے تھے۔ ان میں سے چند روزے وہ ہیں جنکو رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے۔  آئیں کلام میں سے کچھ حوالے دیکھتے ہیں۔  زکریاہ 8:19 میں لکھا ہے؛

کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ چوتھے اور پانچویں اور ساتویں اور دسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اور خرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا۔ اسلئے تم سچائی اور سلامتی کو عزیز رکھو۔

یہی واحد آیت ہے جہاں ان چند روزوں کا اکٹھا ذکر ہے۔  جہاں تک میں جانتی ہوں بہت سے مسیحی علما اس بات سے متفق ہیں کہ زکریاہ نبی کی کتاب میں درج باتیں  ابھی پوری ہونا باقی ہیں۔ وہ آپ کو یہ ضرور کہیں گے کہ زکریاہ نبی کی کتاب میں سے کافی باتیں پوری ہوگئی ہیں مگر  ساتھ ہی میں اس بات کو بھی مانیں گے کہ ابھی بھی بہت سی باتیں پوری ہونا باقی ہیں۔میں ابھی اس پر بات نہیں کرونگی۔    آئیں پہلے دیکھتے ہیں کہ کلام کے یہ مہینے کونسے  ہیں  اور یہ کس قسم  کے روزہ ہیں اور کس دن رکھے جاتے ہیں؟

چوتھا مہینہ؛ تموز:

کلام کے  عبرانی کیلنڈر کے مطابق چوتھا مہینہ تموز کا مہینہ ہے اور یہ  ہمارے جون/جولائی کے مہینہ میں پڑتا ہے۔ اس مہینے کی 17 تاریخ کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس روزے کے ساتھ ہی تین ہفتے کا  ماتم شروع ہوجاتا ہے کیونکہ نہ  صرف پہلی بلکہ دوسری ہیکل بھی اسی دن تباہ ہوئی تھی  اور یروشلیم شہر بھی۔ یہی وہ دن ہے جب موسیٰ نبی نے پتھر کی لوحیں غصے میں توڑیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہیکل میں بت اسی تاریخ کو رکھے گئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رومن جنرل نے اسی دن توریت کو جلایا تھا اور یروشلیم شہر کی دیواریں توڑ ڈالی تھیں۔ پہلی اور دوسری ہیکل دراصل 9 آب کو مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں تھی اس تاریخ کو دیوار رخنہ ہوئی تھی۔ پہلی ہیکل کی تباہی کی کہانی آپ کو 2 سلاطین 25 باب میں ملے گی اور دوسری ہیکل کی تباہی کی کہانی  تاریخ کی کتابوں میں کیونکہ دوسری ہیکل، رومن سپاہیوں کے ہاتھوں ، یشوعا کے جی اٹھنے کے بعد  69 ء یا  70 ء کو ہوئی۔  یہودی لوگ 69ء کہتے ہیں جبکہ مسیحی 70ء۔

پانچواں مہینہ؛ آب/آوؤ:

کلام کے عبرانی کیلنڈر کے مطابق پانچواں مہینہ  آب کا مہینہ ہے اور یہ جولائی/اگست کا مہینہ بنتا ہے۔  جیسے میں نے اوپر ذکر کیا کہ 9 آب کو پہلی اور دوسری ہیکل مکمل تباہ کر دی گئی تھیں۔ تاریخ میں  تین اور مختلف موقعوں پر   سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں  یہودیوں کا قتل بھی اسی تاریخ کو ہوا تھا۔

ساتواں مہینہ؛ تشری:

کلام کے مطابق ساتواں مہینہ تشری کا مہینہ ہے  جو کہ ستمبر/اکتوبر بنتا ہے۔  آپ کو کلام میں احبار 23 باب میں یوم کفارہ کے دن اپنی جان کو دکھ دینے کا ذکر ملے گا۔ میں نے یوم کفارہ پر لکھے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا ہے کہ جان کو دکھ دینے سے مراد روزہ ہے اور ہمارے زکریاہ نبی کے اوپر دیا ہوا حوالہ اس بات کا ثبوت ہے۔ اسی مہینے کی 3 تاریخ کو بھی روزہ رکھا جاتا ہے جسے  جدلیاہ کا روزہ پکارا جاتا ہے۔ جدلیاہ کو اس تاریخ کو مار ڈالا گیا تھا (2 سلاطین25:25)۔

دسواں مہینہ؛ طیبت:

کلام کے مطابق دسواں مہینہ طیبت کا مہینہ ہے جو کہ  ہمارے دسمبر /جنوری کا مہینہ بنتا ہے۔  ہمیں کلام میں 2 سلاطین میں نبوکد نصر کا یروشلیم پر  حملے کا ذکر ملتا ہے۔خداوند اپنے نبیوں کی معرفت بار بار اپنے لوگوں کو تنبیہ کرتے رہے  مگر اسرائیل کے گھرانے اور بنی یہوداہ نے خداوند کی نہ سنی۔  10 طیبت کو نبوکد نضر نے   یروشلیم شہر کا محاصرہ کر لیا اور پھر  30 مہینے کے بعد  تموز کے مہینے میں   شہرِ پناہ میں رخنہ ہو گیا۔ اب اگر آپ 2 سلاطین 25 باب کو ان  تین مہینوں (چوتھا، پانچواں اور دسواں مہینہ) کو دھیان میں رکھ کر پڑھیں گے تو آپ کو  کلام میں درج ان روزوں کی اہمیت کا احساس ہو جائے گا۔

ان کے علاوہ   نیسان(مارچ/اپریل کا مہینہ) 14 کا روزہ ہے  جو کہ ملک مصر میں پہلوٹھوں پر آئی ہوئی وبا کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔ پہلوٹھے مرد  یہ روزہ رکھتے ہیں۔  اور آستر کی کتاب میں درج    روزہ بھی ادار کے مہینے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ روزے لازم نہیں ہیں۔ اوپر والے چار درج  روزے لازم  سمجھے جاتے ہیں۔ بعض ان کو بنی یہوداہ کے روزے پکار کر کہتے ہیں کہ یہ مسیحیوں پر لازم نہیں۔ میں اس سے متفق نہیں۔ اگر آپ یوم کفارہ سے متعلق احکامات کو احبار 23 میں پڑھیں گے تو آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ روزہ تمام بنی اسرائیل پر فرض ہے۔

یشوعا نے کہا (متی 9:14 سے 15)؛

اس وقت یوحنا کے شاگردوں نے اسکے پاس آکر کہا کیا سبب ہے کہ ہم اور فریسی تو اکثر روزہ رکھتے ہیں اور تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے؟ یسوع نے ان سے کہا کیا براتی جب تک دلہا انکے ساتھ ہے ماتم کر سکتے ہیں؟ مگر وہ دن آئینگے کہ دلہاان سے جدا کیا جائیگا۔ اس وقت وہ روزہ رکھینگے۔

یشوعا  ابھی جسمانی صورت میں ہمارے ساتھ نہیں مگر اس کی دوسری آمد جلد ہے۔  کیا آپ اسکے شاگردوں میں سے ہیں جنہیں روزہ رکھنا   واجب ہے؟

میں اپنے اس آرٹیکل کو یہیں اس دعا کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ خداوند آپ کو خود صحیح روزے کا مفہوم سمجھائیں اور آپ کو پورے دل و جان سے اپنے حکموں پر عمل کرنے کی قوت بخشے۔ یشوعا کے نام میں، آمین




سبت کیا ہے ؟

سبت کیا ہے ؟

سبت عبرانی لفظ شابات کی عربی شکل ہے ۔ لفظ شابات یا سبت یوں تو نہایت گہرے معانی رکھتا ہے تاہم عام طور پر اس سے مراد ’’خاص آرام کا دن ‘‘لی جاتی ہے ۔عبرانی لغت کے مطابق اس سے مراد ٹھہرنا ،روکنا، دستبراد ہونا فارغ ہونا وغیرہ ہیں (دیکھو اسٹرائنگز H7673) کتابِ مقدس میں یہ لفظ سب سے پہلے پیدائش 2:2 میں نظر آتا ہے جہاں ااسکا ترجمہ فارغ ہوا کیا گیا ہے ۔کتاب مقدس میں سبت کا اہتمام کرنے کا حکم ہمیں خروج۱۶باب سے پہلے نظر نہیں آتا ہے تاہم یہودی روایات کے مطابق بنی اسرائیل قدیم ہی سے شابات کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ تالمودی روایات کے مطابق جس زمانہ میں بزرگ موسیٰ فرعون کے محل میں شاہانہ زندگی گُذارا کرتے تھے، ان ایام میں انہونے فرعون کے سامنے یہ تجوئز رکھی کہ عبرانیوں کو ہفتہ میں ایک مکمل دن آرام کرنے کیلئے دیا جائے ۔( دیکھو: تالمودسے اقتباسات ،مولف: ایچ پیلانو، مترجم: اسٹیفن بشیر، ناشرین مکتوبہ عناویم صفحہ نمبر ۹۰)

سبت کا مقصد

سبت سے متعلق ربِ جلیل یہوواہ باریٰ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اسکو یاد کرکے پاک مانا جائے ، اس میں کام کاج نہ کیا جائے نہ ہی اپنے ملازمین یا نوکر چاکر سے کام لیا جایا (دیکھو خروج 8:20-11) اور اسکی وجہ ربِ جلیل توریت شریف میں یہ بتاتے ہیں کہ انہونے چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق کی اور ساتوں دن وہ تخلیقِ کائنات سے فارغ ہوئے اور انہونے آرام کیا (دیکھو خروج 11:20) بہت سے نقادین بائبل اعتراض کرتے ہیں کہ ربِ جلیل جو تھکتا نہیں وہ کیسے آرام کرسکتا ہے ؟ یہودی مفسر راشی کے مطابق یہاں آرام سے مراد نمونہ ہے : توراہ کے دے جانے کے وقت بنی نوع انسان کو یہ نمونہ دیا گیا کہ اس مقدس اور بابرکت دن باریٰ تعالیٰ اپنے تمام کام سے فارغ ہوئے اورانہوں نے اپنے کام سے ٹھہرکر اس پر نظر کی لہٰذا مومن ایمانداروں کو بھی اس روز اپنے معمولاتِ زندگی میں سے ٹھہر کر کائنات پر نظر کرنی چاہے اور اس میں موجود تخلیقات پر نظر دھوڑانی چاہے اور سوچنا چاہے کہ باریٰ تعالیٰ نے اسکو زمین پر کیوں بھیجا ۔ (دیکھو راشی کی تفسیر برائے خروج 11:20)

سبت پر چند اعتراضات اور غلط فہمیاں:

مروجہ کرسچنٹی میں سبت کو لیکر کئی غلط طرح کی تعلیمات رائج ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ’’ سبت ہفتہ کا دن ہے ‘‘ مروجہ گیگورین کلینڈر میں دن رات 12 بجے سے شروع ہوتا ہے یعنی کرسچنٹی کہ مطابق سبت جمعہ کی رات 12 بجے سے لیکر ہفتہ کہ رات 12 بجے تک ہے ۔ جب کہ یہ سبت کو ناپنے کا یہ غیر بائبلی طریقہ ہے ، کتابِ مقدس میں ایک دن غروبِ آفتاب سے لیکر دوسرے غروبِ آفتاب تک شمار کیا جاتا ہے ( دیکھو پیدائش 4:1) یعنی درحقیقت سبت کا دن جمعہ کی شام غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور اگلے روز یعنی ہفتہ کے غروبِ آفتاب کے وقت ختم ہوتا ہے ۔

المسیح (سلام علینا ) اور سبت مقدس:

دوسری طرف کرسچنٹی میں یہ تعلیم گھر کر گئی ہے کہ تجسمِ باریٰ تعالیٰ جناب یہوشوعا المسیح (سلام علینا) نے سبت کے دن کو منسوخ کردیا یا مومن ایمانداروں کوباریٰ تعالیٰ کی طرف سے دے جانے والے حکم کو ختم کرکے غالباً اُس میں کسی قسم کی آسانی پیدا کردی ہے۔ اناجیلِ جلیل میں مندرج جناب المسیح (سلام علینا) کی زندگی کے واقعات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت مسیح (سلام علینا) کا دستور تھا ۔(دیکھو متی 8:12-10/مرقس 12:1/مرقس 2:1-3 /مرقس 4:6/لوقا 16:4/لوقا 31:4-38/لوقا 6:6/لوقا 13:10) آپ (سلام علینا) اپنے دستور کے مطابق یہودی عبادت خانہ جایا کرتے اور وہاں تعلیم و تربیت کیا کرتے تھے ، ایسے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایک شخص جسکا سبت دستور ہو سبت کو منسوخ یا موقوف کرتا ہے عقل مندی ہرگیز نہیں ۔ بہت سے ایسے لوگ جو سبت کے دن سے بغض رکھتے ہیں اناجیلِ جلیل سے ایسے حوالاجات تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے پائے جاتے ہیں جن میں کسی بھی طرح المسیح (سلام علینا) سبت کی خلاف ورزی کرتے نظر آئیں اس مد میں یہ حضرات اناجیل میں سے ایسے حوالاجات پیش کرتے ہیں جن میں فقیہ فریسی آپ (سلام علینا) پر سبت کی خلاف ورزی کا الزام لگائے پائے جاتے ہیں ۔ مثلا سبت کے روز شفا دینا (متی 12:9-14/مرقس 1:3-6/ لوقا 6:6-11/لوقا10:13-17)سبت کے روز گندم کی ڈالیاں توڑ کر کھانا (متی 8:1-12/مرقس 23:2-28/لوقا 6:1-5)سبت کے دن چارپائی اُٹھانے کا حکم دینا (یوحنا 1:5-18) وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

کتابِ مقدس کے باقائدہ قاری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کتابِ مقدس میں کسی بھی ایک جگہ یہ ذکر نہیں ملتا ہے کہ سبت کے دن شفا نہیں دی جاسکتی ہے ، اہل یہود کے فقہ شرع نے شریعت خداوندی کی مختلف تفاسیر کرکے شرعِ خداوندی کو اس قدر سخت بنادیا تھا کہ ایک عام انسان اسکو بوجھ سمجھنے لگا، یہودی علما ء نے سبت کی تفسیر کرتے ہوئے کچھ قوانین بنائے جنکو یہودی فقہ کی زُبان میں’’ میلاخیوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھو قاموس الکتاب صفحہ نمبر ۵۰۰) اِن میلاخوت کیمطابق ایک عام یہودی سبت کے دن دو ٹانکے نہیں لگا سکتا ، گانٹھ نہیں لگاسکتا نہ ہی گانٹھ کھول سکتا ہے اور تو اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لئے جاسکتا ہے ۔ (مذید دیکھو تالمود ٹریک شابات) سبت کے روز گندم کی ڈالیاں توڑ کر مسل کر کھانا ایسا کام نہیں جو معمولاتِ زندگی کا حصہ ہو تالمودی حلاکہ (یہودی علماء کی وضح کردہ نمونہ زندگی) کے مطابق کوئی شخص اگر کھیت سے گُذرتے ہوئے ایسا کرتا ہے تو وہ سبت کی حکم عدولی کرتا ہے، جیسا کہ متی 12، مرقس 2 اور لوقا 6 میں فقی فریسی مسیح (سلام علینا) کے حواریوں پر الزام لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ باریٰ تعالیٰ کا حکم نہیں کہ اگر آپ کسی کھیت سے گذر رہے ہیں اور اچانک آپ گندم کی بالی توڑ کر کھالیں تو آپ نے سبت کی روح کو مسخ کردیا ہے یا آپ نے سبت کا حکم توڑ ڈالا ہے ،یہ تو یہودی علماء کی تفسیر ہے جو انہونے سبت کے حوالہ سے کررکھی ہے۔ اور اس واقعہ میں بھی وہ اپنی تفسیر کے مطابق مسیح (سلام علینا) اور انکے حواریوں کو خود ساختہ سبت کی خلاف ورزی کا مرتکب پاتے ہیں۔ ایسے ہی سبت کے روز شفا کے حوالہ سے ہے مروجہ یہودیت میں بھی کئی مکتبہ فکر ایک دوسرے سے بحث کرتے پائے جاتے ہیں، ایسے ہی المسیح (سلام علینا) کے زمانہ میں اسکول آف ہلل (مدرسہِ ہلیل) اور اسکول آف شیمائی (مدرسہ شمائی) کے درمیان تنازعہ تھا ، ایک اسکو ل سبت کے روز شفا کو معیوب سمجھتا تھا تو دوسرا اسکو نیکی سے تشبیہ دیتا تھا ۔ (دیکھو جوئش انسائیکلوپیڈیا برائے بیت ہلل بیت شیمائی) اناجیلِ جلیل میں جناب المسیح (سلام علینا) نے بھی سبت کے روز شفا کو نیکی ٹھہرایا ہے اور المسیح (سلام علینا) کے مخالفین کے پاس سبت کے دن شفا کو برائی یا سبت کی حکم عدولی ثابت کرنے لائق دلائل نہ تھے اسلئے ہر بار وہ اپنا سا منہ لیکر رہ جاتے۔ باقی رہا سوال ’’چارپائی اُٹھانے کا ‘‘ تو اس حوالہ میں پاکستانی پنجابی چار پاؤں والے پائی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہاں جو یونانی زُبان کا لفظ کیرابتوس استعمال ہوا ہے اسکے معنی گدا ، رِلی ،یا بیچھونی کے ہیں۔ (دیکھیو اسٹرائنگزG2895) یہاں بھی یہودی علما ء نے مسیح (سلام علینا ) پر سبت کے روز شفا دینے کے حوالہ سے سبت کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگانے کی کوشش کی ۔ سو ثابت ہوا کہ تجسم باریٰ تعالیٰ یہوشوعا المسیح (سلام علینا) توریت شریف میں دے جانے والے حکم کو پوری طرح بجالاتے تھے اور یہ انکی زمینی زندگی کا دستور تھا (دیکھو لوقا 16:4) وہ کسی بھی طرح سبت توڑ کر خلاف شرع کام نہیں کرسکتے بائبل مقدس کے مطابق خلافِ شرع کام گناہ ہے (مقابلہ کرو استثنا 2:4 / 1 یوحنا 3:4)

جنابِ پولوس (رضی الہٰ تعالیٰ عنہ ) اور سبت:

سبت سے بغض رکھنے والے مسیح (سلام علینا) پر یہودی فقہ کی طرح مخالف شرع اور شریعت توڑنے کا الزام لگانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں، بلکہ غیر اقوام میں باریٰ تعالیٰ کے ایلچی جنابِ شاؤل (پولوس) رضی الہٰ تعالیٰ عنہ پر بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہونے باریٰ تعالیٰ کی شریعت اور سبت کے خلاف تعلیم دی اور وہ عہد تجدید میں شامل جناب پولوس کے خطوط میں سے ایسی آیات تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس میں انہونے سبت کے خلاف تعلیم دی ہو مثلا: کسی دن کو دوسرے دن پر فوقیت دینا یا اٖفضل جانا (رومیوں5:14) مقرر دنوں کو ماننا (گلتیوں 10:4) سبت کا الزام لگانا کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا عکس ہے (کلسیوں 16:2-17) وغیرہ وغیرہ ایسے حوالاجات ہیں جنکو سبت اور شرعِ خداوندی سے بغض رکھنے والے بنا سوچے سمجھے دلیل بناکر پیش کرتے رہتے ہیں ۔مذکورہ حوالاجات پر میشاخ تھیولاجیکل ویو کے پلٹ فارم سے جناب حنین وقاص خان تحقیق مقالے رقم کرچکے ہیں(رجوع کریں) ہم یہاں انکو اختصار کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ رومیوں 14:5 کا حوالہ دینے والے حضرات نے محض رومیوں 14 میں لفظ ’’دن کو افضل جانتا ‘‘پڑھا اور سمجھ لیا کہ یہاں سبت مقدس کی بابت بات ہورہی ہے جب کہ اگر رومیوں 14 کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں جنابِ پولوس ایسے حضرات سے مخاطب ہیں جو کسی مخصوص دن میں کھانے پر پابندی لگاتے ہیں مثلا مروجہ کرسچنٹی میں عام تاثر ہے کہ 40 روزوں کے دوران سن+ڈے (سنڈے) کو روزہ نہیں رکھاجاسکتا ہے ۔ پولوس رسول رومیوں کی کلیسیا میں گھر کرتی جارہی ایسی ہی کسی تعلیم کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’کوئی تو ایک دن کو دوسرے سے افضل جانتا ہے اور کوئی سب دنوں کو برابرجانتا ہے ہر ایک اپنے دل میں پورا اعتقاد رکھے ۔جو کسی دن کیلئے جانتا ہے وہ خداوند کیلئے مانتا ہے اور جو کچھ کھاتا ہے خداوند کیلئے کھاتا ہے کیونکہ وہ خداوند کا شکر کرتا ہے اور جو نہیں کھاتا ہے وہ بھی خداوند کے واسطے نہیں کھاتا ہے اور خداوند کا شکر کرتا ہے (رومیوں 5:14-6)یعنی یہاں سبت کی بابت بات ہی نہیں کی گئی ہے ۔ دوسرا حوالہ ہے گلتیوں 10:4 یہاں پولوس رسول لکھتے ہیں ’’ تم دنوں اور مہینوں اور مقرر وقتوں اور برسوں کو مانتے ہو‘‘ مخالفینِ سبت و شرع یہ سمجھتے ہیں کہ پولوس رسول نے یہاں باریٰ تعالیٰ کی مقرر کردیا عیدوں بشمول سبت کے حوالہ سے بات کی ہے تاہم اگر اس آیت کو بھی سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات غیر اقوام کے مقررہ دنوں، مہینوں مقررہ اوقات اور برسوں کے حوالہ سے پولوس رسول فکر مند نظر آتے ہیں آیت 8 اور 9 کے مطابق :لیکن اس وقت خدا سے ناواقف ہوکر تم ان معبودوں کی غلامی میں تھے جو اپنی ذات میں خدا نہیں ۔ مگر اب تم نے خدا کو پہچانا بلکہ خدا نے تم کو پہچانا تو اُن ضعیف اور نکمی اور ابتدائی باتوں کی طرف کس طرح پھر رجوع ہوتے ہوجن کی غلامی کرنا چاہتے ہو ؟ ‘‘ کیا باریٰ تعالیٰ کے منہ سے برائے راست نکلی باتیں ضعیف ہیں ؟ کیا یہ باتیں نکمی ہیں ؟کیا باریٰ تعالیٰ غیر معبود ہیں یا اپنی ذات میں خدا نہیں اگر تو کوئی ایسا سوچتا ہے کہ پولوس رسول نے باریٰ تعالیٰ کا اورانکے زندہ و جاوید کلام کا یوں تمسخر اُڑایا ہے تو اسکو علاج کی ضرورت ہے ۔ ۔(مذید دیکھو عیدوں کی غلامی از حُنین وقاص خان) اسکے بعد کلسیوں 16:2-17 کا حوالہ پیش کرکے یہ ثابت کرکے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمیں دوسروں کو سبت مقدس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا عکس ہے سو ہمیں اسکا اہتمام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ۔ راقم الحروف کے سامنے جب بھی کسی نے بطور دلیل اس آیت کو پیش کیا بخدا ایسے شخص کی علمی و الہامی قابلیت پر راقم کے پاس ر شک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔ جناب پولوس یہاں بانگ دہل کلیسیا کو بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ : پس کھانے پینے یا عیدنئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے (کلسیوں 16:2) اول تو یہ سمجھ لینا چاہے کہ کسی پر الزام کس صورت میں لگتا ہے ؟ اگر میں نے آپ سے کچھ رقم ادھار لے رکھی اور آپکے بار بار طلب کرنے پر بھی اسکو واپس ادا نہیں کرتا ہوں تو آپ مجھ پر الزام لگانے پر حق بجانب ہیں ، اگر آپ مجھے کوئی ایسی چیز کھاتے دیکھتے ہیں جس کو الہامِ خداوندی نے ممنوعہ قرار دے رکھا ہے تو آپ مجھ پر الزام لگانے پر حق بجانب ہیں ، اسہی طرح اگر آپ مجھے الہامِ خداوندی میں مرقوم عیدوں اور سبت کی پاسداری کرتے نہ پائیں تو اس صورت میں آپ مجھ پر الزام لگاسکتے ہیں ۔ اس آیت میں پولوس رسول آپکو کسی پر کھانے پینے عیدوں اور سبت کے حوالہ سے الزام لگانے سے منع نہیں کرتے بلکہ ان معاملات میں بے الزام رہنے کی تاکید کرتے ہیں کہ انکی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے (مذید دیکھو کلسیوں 16:2-17 پر تحقیقی مقالہ از حنین وقاص خان) سوثابت ہوا کہ سبت مقدس سے بغض کرنے والے افراد نہ تو کتابِ مقدس کے سیاق و سباق کو جانتے ہیں اور نہ اس پر سمجھ کر عمل کرنا چاہتے ہیں یہ محض لفاظی تکرار کرنے اور اپنے ذاتی نظریات کو دوسروں پر مسلط کرکے انکو گمراہ کرنے میں سرگرم ہیں ۔ ایک اور غلط فہمی کہ سبت محض یہودیوں کیلئے ہے کرسچنٹی میں گردش کرتی ہے اس غلط فہمی کی وجہ کتابِ مقدس سے ناواقفیت کے سوا اور کچھ نہیں شرعِ مقدس کے نزول کے وقت باری تعالیٰ نے دیسی اور پردیسی دونوں پر شرع مقدس کو واجب اور لازم قرار دیا (دیکھو گنتی 15:15) اولاً یہوواہؔ باریٰ تعالیٰ اور انکے اکلوتے بیٹے تجسمِ باریٰ تعالیٰ یہوشوعا ہامیشاخ پر ایمان لانے والے غیر اقوام نہیں بلکہ اسرائیل میں پیوست ہوکر ایک ہی مقدس قوم بنتے ہیں (مقابلہ کرو خروج 6:19 ، 1 پطرس 10:2-11 اور رومیوں 11 ) اگر کوئی خود کو ابھی بھی غیر قوم جانتا ہے تو بھی کتابِ مقدس کی تعلیمات سے ابھی تک پوری طرح واقف نہیں دوئم مسیح پر ایمان لانے والے غیر یہودیوں پر بھی شرعِ خداوندی اس ہی طرح واجب ہے جیسے دوسرے یہودیوں پر (دیکھو گنتی 15:15) نیز المسیح (سلام علینا) نے فرمایا سبت آدمی کیلئے بنا ہے (دیکھو مرقس 28:2) ناکہ یہودیوں کیلئے جو مومن ایمان دار ایمان لاچکے وہ سبت اور خدا باریٰ تعالیٰ کے احکام کو ماننے کی پابند ٹھہرتے ہیں ۔نیز المسیح (سلام علینا) نے فرمایا ہے :’’اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے‘‘(دیکھو یوحنا15:14 ) راقم کے نزدیک المسیح(سلام علینا ) کے اس قول کی درست وضاحت یہ ہی ہے کہ ہم اپنے اعمال سے اپنی محبت اُس سے ثابت کریں ۔

سبت اور برکات:

پہلے پہل خداوند باریٰ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خروج 16 میں سبت کو قائم کرنے کا حکم فرمایا ۔ باریٰ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بیابان میں ہر طرح کی نعمت سے نوازا یہاں تک کیاانکے لئے آسمان سے من تک برسا تاہم یہ آسمانی خوارک جسکے بارے میں الہامی روایت ہے کہ یہ فرشتوں کی غذا ہے بروز سبت موقوف ہوجاتا یعنی سبت کے روز اسکا نزول نہ ہوتا (خروج 33:16-35)سبت کے اہتمام کے بارے میں باریٰ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ : اگر تو سبت کے روز اپنا پاؤں روکے رکھے اور میرے مقدس دن میں اپنی خوشی کا طالب نہ ہو سبت کو رحت اور خداوند کا مقدس معظم کہے اور اسکی تعظیم کرے، اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دستبردار رہے ۔ تب یہوواہؔ میں مسرور ہوں گااور میں تجھے دنیا کی بلندوں پر لے جاؤنگا اور تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاونگا کیونکہ یہوواہؔ کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے ۔ (یسعیاہ 13:58-14) سبت کو قائم رکھنے والا مبارک ہے (یسعیاہ 2:56) سبت کے قائم رکھنے والے باریٰ تعالی کے عہد میں شریک ،باریٰ تعالی کے کوہِ مقدس میں اسکی عبادت گاہ میں شادمان ہوں گے (یسعیاہ 4:56-8)

نئے آسمان اور زمین میں سبت:

کتابِ مقدس میں باریٰ تعالیٰ یہوواہ کا فرمان یوں مندرج ہے کہ : اور یہوواہؔ فرماتا ہے جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جو میں بناؤنگا میرے حضور قائم رہیں گے اُسہی طرح تمہاری نسل اورتمہارا نام باقی رہے گا ۔اور یوں ہوگا یہوواہؔ فرماتا ہے کہ ایک چاند سے دوسرے چاند تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشرعبادت کیلئے میرے پاس آئے گا (یسعیاہ 23:66-24)

تحریر: اعجاز رحمت




مخالفِ مسیح کی پہچان

بہت عرصے سے میں سوچ رہی تھی کہ ایک مختصر سا آرٹیکل "مخالف مسیح کی پہچان” پر بھی لکھوں کیونکہ میرے نزدیک یہ ایک وہ موضوع ہے جسکے بارے میں زیادہ تر مسیحی رہنما بات نہیں کرتے اور اسکو خود بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جیسے کہ یشوعا (یسوع) کی پیدائش سے پہلے ہی ہمیں پرانے عہد نامے (تناخ) میں "مسیح” ، جسے عبرانی میں "مشیاخ، מָשִׁיחַ Mashiach” کہتے ہیں، کے بارے میں پیشن گوئیاں ملتی ہیں ویسے ہی خدا نے "مخالف ِمسیح” کے بارے میں بھی پہلے سے ہی خبردار کیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں علم ہے کہ مسیحا (مشیاخ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ؛

• مسیحا(مشیاخ) نے عورت سے پیدا ہونا تھا (پیدائش 3:15) اور ہمیں متی 1:20 یا گلتیوں 4:4 میں اس پیشن گوئی کا ثبوت ملتا ہے۔
• مسیحا (مشیاخ) نے بیت لحم میں پیدا ہونا تھا (میکاہ 5:2) اور ہمیں متی 2:1 اور 6 میں اورلوقا 2:4سے 6 میں اسکا ثبوت نظر آتا ہے۔
• مشیاخ نے کنواری عورت سے پیدا ہونا تھا (یسعیاہ 7:14) اور آپ کو نئے عہد نامے میں متی 1:22سے 23 اور لوقا 1:26 سے 31 میں یہ حوالہ ملتا ہے۔
• مشیاخ نے ابرہام کی نسل سے ہونا تھا (پیدائش 22:18 اور 12:3) اور نئے عہد نامے میں اسکا ثبوت متی 1:1 اور رومیوں 9:5 میں ملتا ہے۔
• مشیاخ نے اضحاق (پیدائش 17:19 اور 21:12) اور یعقوب (گنتی 24:17) کی نسل سے ہونا تھا اور یہوداہ کے قبیلے سے نکلنا تھا (پیدایش 49:10) آپ کو اسکا ثبوت نئے عہد نامے میں متی 1 اور لوقا 3 میں ملے گا۔
• مشیاخ کو عمانوائیل (یسعیاہ 7:14) پکارا جانا تھا مطلب "خدا ہمارے ساتھ” جو کہ ہم کہتے ہیں اور متی 1:23 اس بات کا ثبوت ہے۔
• مشیاخ نے مصر سے نکلنا تھا اور اسکی پیدایش پر بچوں کا قتلِ عام ہونا تھا (یرمیاہ 31:15) ان باتوں کا ثبوت آپ کو متی 2 باب میں ملے گا۔
• مشیاخ نے موسیٰ کی مانند نبی ہونا تھا جو کہ بنی اسرائیل سے پیدا ہونا تھا (استثنا 18:15) اور اسکا ثبوت اعمال 3:20 سے 22 میں ہے۔
• مشیاخ ناصری کہیلائیگا ( یسعیاہ 11:1 آپ کو اسے سمجھنے کے لئے عبرانی کلام دیکھنا پڑنا ہے) اور ثبوت کے لئے متی 2:23 دیکھیں۔
• مشیاخ تمثیل بیان کریگا (زبور 78:2 سے 4 اور یسعیاہ 6:9 سے 10) اور ثبوت متی 13:10 سے 15 اور 34سے 35 آیات ہیں۔

یہ صرف چند مثالیں تھیں کہ مسیحا کی پیدایش کہاں اور کیسے ہوگی۔ اسی طرح سے اگر آپ اسکے مصلوب ہونے کے بارے میں پیشن گوئیاں دیکھیں گے تو آپ کو بہت سی آیات ملیں گی۔ اگر آپ اس کے بارے میں میرا زبور 22 پر لکھا آرٹیکل پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ اسے میری ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ، میں نے یشوعا کے پکڑوائے جانے سے لے کر صلیب پر جان دینے کے بارے میں زبور 22 میں درج پیشن گوئیوں کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح سے اگر آپ میرے خداوند کی عیدوں پر آرٹیکلز کو پڑھیں گے تو میں نے ان میں بھی بیان کیا ہے کہ یشوعا نے کیسے اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دیا ہے اور کون سی وہ عیدیں ہیں جو کہ اسکی دوسری آمد پر پوری ہونگی۔ یہ تمام مختصر سے حوالے ہیں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ کلام کی کن باتوں سے بنی اسرائیل مسیحا کو پہچان سکتے تھے۔ ہم اب کچھ ان آیات کا مطالعہ کریں گے جس سے ہمیں کلام ، مخالف ِمسیح کی پہچان کروانا چاہتا ہے۔
اب اگر آپ کو میری باتوں کی کچھ سمجھ آگئی ہے تو ہم آگے بڑھتے ہیں۔ کلام میں مخالفِ مسیح کا ذکر صرف 4 بار (5 بار اگر آپ 1 یوحنا 2:18 میں درج لفظ کو 2 بار گنیں ) ہوا ہے اور وہ بھی یوحنا نبی کے پہلے اور دوسرے خط میں، مطلب کہ صرف اور صرف نئے عہد نامے میں۔ میرے ساتھ ان آیات کو کلام میں سے دیکھیں۔ میں آپ کی آسانی کے لئے انہیں یہاں لکھ رہی ہوں مگر برائے مہربانی کلام میں سے خود بھی ان پر نظر ڈالیں۔

1یوحنا 2:18
ائے لڑکو! یہ اخیر وقت ہےاور جیسا تم نے سنا ہے کہ مخالفِ مسیح آنے والا ہے۔ اسکے موافق اب بھی بہت سے مخالفِ مسیح پیدا ہوگئے ہیں۔ اس سے ہم جانتے ہیں کہ یہ اخیر وقت ہے۔

1 یوحنا 2:22
کون جھوٹا ہے سوا اسکے جو یسوع کے مسیح ہونے کا انکار کرتا ہے؟مخالفِ مسیح وہی ہے جو باپ اور بیٹے کا انکار کرتا ہے۔

1 یوحنا4:3
اور جو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں اور یہی مخالفِ مسیح کی روح ہے جسکی خبر تم سن چکے ہو کہ وہ آنے والی ہے بلکہ اب بھی دنیا میں موجود ہے۔

2 یوحنا 1:7
کیونکہ بہت سے ایسے گمراہ کرنے والے دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جو یسوع مسیح کے مجسم ہو کر آنے کا اقرار نہیں کرتے۔ گمراہ کرنے والا اور مخالفِ مسیح یہی ہے۔

ہمیں مخالفِ مسیح کے بارے میں جتنی بھی پہلی تعلیمات دی گئی ہیں وہ کافی زیادہ حد تک غلط ہیں کیونکہ مخالفِ مسیح کو اور جن آیات سے ملایا گیا ہے وہ کچھ اور تفصیل بیان کرتی ہیں اور یہی ہم اپنے اس آرٹیکل سے پہچاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر مخالف مسیحا کون ہے۔ ہم نئے عہد نامے سے یشوعا کی تعلیم پر نظر کریں گے اور پھر ساتھ میں ہی چند آیات پرانے عہد نامے سے دیکھیں گے۔ یشوعا نے متی 24 باب میں اپنے پھر سے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کے نشان کے بارے میں اپنے شاگردوں کو کچھ خاص باتیں بتائیں تھی۔ آپ کو کچھ اسی قسم کے حوالے مرقس 13 باب اور لوقا 21 باب میں بھی ملیں گے۔ میں متی 24 سے چندآیات لکھ کر بیان کرنے لگی ہوں۔ یشوعا نے تنبیہ کی ؛

متی 24:4 سے5
یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار! کوئی تمکو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئینگے اور کہینگے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کرینگے۔

"میں مسیح ہوں” اس کا مطلب یہ ہےکہ یسوع ، مسیح ہے۔ آپ نے ان آیات کی بہت سی تشریحات پڑھی یا سنی ہونگی مگر آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ آپ کے پادری بھی ہوسکتے ہیں جو کہ یسوع کے نام میں آپ کے پاس آئینگے اور آپ کو مسیح یعنی یسوع کا بتا کر یا پھر اسکے نام میں کلام کے خلاف تعلیم دے کر، کلام کی سچائی سے دور کردیں گے۔ میں نے بہت سے آرٹیکلز میں پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اگر یشوعا کے دور میں یشوعا اور انکے شاگردوں کے پاس کلام موجود تھا تو وہ صرف اور صرف "تناخ” یعنی ہماری بائبل کا پرانا عہد نامہ تھا۔ جس سے انھیں معلوم تھا کہ مسیح کو کیسے پہچاننا ہے اور اسی سے وہ پہچان سکتے تھے کہ کون مخالف مسیحا ہے۔ وہ تمام باتیں جو کہ مشیاخ کے بارے میں درج تھیں اگر انکو کوئی وہ جو کہ اپنے آپ کو مسیحا بتاتا ہو پوری کرتا ہوا نہ نظر آئے تو انھیں اسی سے علم ہو جاتا تھا کہ یہ کلام کے مطابق درج ” مسیحا ” نہیں ہے۔ گو کہ یشوعا کے بعد بھی چند ایک اور لوگ اٹھے تھے جن کو ان یہودیوں نے ، جنہوں نے یشوعا کو مسیحا ماننے سے انکار کیا تھا ، مسیحا سمجھا مگر کچھ ہی عرصے کے بعد انھیں علم ہوگیا کہ وہ مسیحا نہیں تھے کیونکہ انھوں نے کلام میں درج "مسیحا” کے بارے میں درج تمام آیات کو پورا نہیں کیا تھا جن کو یہودی سمجھتے اور جانتے تھے۔ ایک بار پھر سے متی 24:4 سے 5 پر غور کریں ۔ اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ یشوعا کے نام میں آئینگے۔ یشوعا کے بعد جو چند لوگ اٹھے تھے انکا نام "یشوعا” نہیں تھا۔ آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہودیوں کی نظر میں جتنے بھی جھوٹے مسیحا اٹھے تھے ان میں سے سوائے یشوعا کے اور کسی کا بھی نام یشوعا نہیں تھا۔ یشوعا کو یہودیوں نے کن باتوں کی وجہ سے رد کیا اس پر میں نے اپنے چند آرٹیکل میں مختصر ذکر کیا ہے۔ ہم اس آرٹیکل میں اس بات کو زیرِبحث نہیں لائیں گے۔

یشوعا کے نام میں اگر بہتیرے آئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسیحی خود ہیں جو کہ رومن کیتھولک چرچ کی تعلیم کی بنا پر گمراہ ہوگئے اور پھر اسکے بعد ان رومن کیتھولک چرچ سے جتنے بھی آگے اور یا اب کے موجودہ چرچز ہیں تو وہ یسوع کے نام میں ابھی تک لوگوں کو گمراہ ہی کر رہے ہیں۔ وہ تمام جو کہ توریت /تناخ کی سچائی کو رد کرتے ہیں، خداوند کے دشمن ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میری اس بات سے ابھی متفق نہیں ہونگے۔ مگر چلیں آئیں آگے بڑھتے ہیں ، ابھی تو ہم نے یشوعا کی تنبیہ کے مطابق تمام آیات پر غور ہی نہیں کیا۔

متی 24:11 سے 12
اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہونگے اور بہتیروں کو گمراہ کرینگے۔ اور بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائیگی۔

یشوعا چونکہ اپنے شاگردوں سے مخاطب تھے اور جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں بلکہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ موجود تھا لہذا اگر وہ یشوعا کی اس بات کو سمجھ رہے تھے تو وہ صرف اور صرف پرانے عہد نامے میں درج کلام کی آیات کی رو سے سمجھ رہے ہونگے۔ استثنا 13 باب میں خداوند نے بیان کیا ہے کہ خداوند کے لوگ یعنی بنی اسرائیل کیسے جھوٹے نبی کو پہچان سکتے تھے۔ خداوند نے انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی کہ جھوٹا نبی شریعت پر چلنے والا نہ ہو کیونکہ اگر کوئی نبی، بنی اسرائیلیوں میں سے ہی ہے تو اسکے لیے لازم تھا کہ وہ خداوند کی شریعت پر عمل کرتا۔ اگر وہ شریعت کے مطابق نہیں عمل کرنے والوں میں سے تھا تو بنی اسرائیل اسکو اسی وقت نبی ماننے سے انکار کر سکتے تھے۔ اور اگر کوئی نبی جو خداوند کے نام میں کچھ کہتا اور وہ پورا نہ ہوتا کیونکہ وہ بات نبی نے خود سے بنا کر کہی تھی تو وہ جھوٹا نبی ٹھہرتا (استثنا 18:20 سے 22)۔

لیکن جو نبی گستاخ بنکر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اسکو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اسکے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بنکر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔

میں جب مسیحیوں سے یشوعا کے نام کا ذکر کرتی ہوں تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ یسوع یا جیزز یا عیسا نام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ ہماری دعا تو سنتا ہے۔ انھیں اس بات کا ذرا سا بھی علم نہیں کہ وہ یشوعا کا نہیں بلکہ جھوٹے نبیوں کے ذریعےسے سکھائے گئے غیر معبود کا نام اپنی زبان پر لیتے ہیں اور اپنے خداوند کا اصل نام کا جلال غیر معبود کے نام کر دیتے ہیں۔ میں تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں۔ میں اپنوں کو اوران مسیحیوں کو صرف اور صرف تعلیم دینے کے لئے یسوع کا لفظ استعمال کرتی ہوں یا پھر اردو کلام کی آیات کو لکھتے ہوئے درج کرتی ہوں، جو کہ کلام کی ان سچائیوں سے واقف نہیں ہیں مگر میری اپنی ہر دعا میں اسکا اصل نام ہی زبان پر ہوتا ہے۔ میں یشوعا کے اصل نام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہی ہوں یہاں تک کہ اب اگر کوئی یسوع یا جیزز نام میں دعا بھی مانگے تو میرا دل نہیں مانتا کہ میں اس پر آمین کہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی کبھی میرے منہ سے آمین نکل جاتا ہے کیونکہ ابھی بھی بہت سی عادتیں پکی نہیں ہوئی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ سال ہا سال کی تعلیم اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ہے مگر اگر ہم ابھی اسکی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے تو ہم کبھی بھی سیکھ نہیں پائیں گے۔ یہ میرا اپنا ایک طریقہ ہے اس بات کی طرف ایک قدم بڑھانے کا۔ ایک بار غور سے متی 24 باب پڑھیں۔ میرے خیال میں یشوعا کا اصل نام استعمال کرنے سے بھی آپ سے عداوت رکھنے والے بہت سے ہیں۔

ہمارے پرانے عہد نامے کے استثنا کے حوالے میں بے دینی کا ذکر نہیں کیا گیا مگر یشوعا نے اپنے شاگردوں کو اپنی بات سمجھانے کے لئے بے دینی کا لفظ استعمال کیا ہے (متی 24:12)۔ آپ کے خیال میں یشوعا اور یشوعا کے شاگرد جو کہ خود یہودی تھے، انکے لئے بے دینی سے کیا مراد ہوسکتی ہے؟ ان پر یہ بات واضح تھی کہ بے دینی سے مراد یہ ہے کہ جو شریعت یعنی توریت پر عمل نہ کرتا ہو کیونکہ توریت کو ماننا اور اسکی باتوں پر عمل کرنا ہی ان یہودیوں یہاں تک کہ یشوعا کا دین ایمان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یوحنا نبی نے گناہ کی بابت لوگوں کو سمجھاتے ہوئے لکھا ہے (1 یوحنا 3:4):

جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔

اس آیت میں شرع سے مراد شریعت ہے جو کہ توریت ہے۔ محبت کو بیان کرتے ہوئے یوحنا نبی نے کہا ہے (1 یوحنا 2:5):

ہاں جو کوئی اسکے کلام پر عمل کرے ا س میں یقیناً خدا کی محبت کامل ہوگئی ہے۔ ہمیں اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس میں ہیں۔

"اسکے کلام” سے یہا ں مراد "پرانا عہد نامہ یعنی تناخ” ہے کیونکہ جب نئے عہد نامے کے صحیفے لکھے گئے تھے تب تک ہمارا نیا عہد نامہ اس صورت میں نہیں تھا جس طرح سے ہم اسکو آج دیکھتے ہیں۔ ایک بار پھر سے یاد دلا دوں کہ اگر اس وقت تک ان کے پاس کوئی کلام تھا تو وہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ تھا۔ خیر اب ہم یشوعا کی دی ہوئی ایک اور وارننگ کو دیکھتے ہیں۔ یشوعا نے متی 24:15 میں اجاڑنے والی مکروہ چیز کا ذکر کیا؛

پس جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو جسکا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا۔ مقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے)۔۔۔

کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ "اجاڑنے والی مکروہ چیز ” کیا ہے؟ یشوعا نے یہ تو صاف بتایا ہے کہ اسکا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا ہے۔ اس کے لئے آپ کو دانی ایل 12:11 دیکھنا ہے؛

اور جس وقت دائمی قربانی موقوف کی جائیگی اور وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائیگی ایک ہزار دو سو نوے دن ہونگے۔

آپ ساتھ میں دانی ایل 9:27 بھی پڑھ سکتے ہیں جس میں لکھا ہے؛

اور وہ ایک ہفتہ کے لئے بہتوں سے عہد قائم کریگا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کریگا اور فصیلوں پر اجاڑنے والی مکروہات رکھی جائینگی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائیگی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اس اجاڑنے والے پر واقع ہوگی۔

ہم اس آرٹیکل میں دانی ایل نبی کی تمام پیشن گوئیوں کی گہرائی میں نہیں جائینگے مگر صرف اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے۔ دانی ایل 12:11 کی اس آیت میں دو باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ایک یہ کہ دائمی قربانی موقوف کی جائیگی اور دوسرا یہ کہ "وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائیگی۔” اگر آپ نے کبھی میرا حنوکاہ پر لکھا آرٹیکل پڑھا ہے تو شاید آپ کو اس بات کا علم ہو کہ میں نے مکابیوں کی کتاب سے اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کا ذکر کیا ہے۔ مکابیوں کی کتاب رومن کیتھولک بائبل کا حصہ ہے اور میں ہر بات میں رومن کیتھولک کو غلط نہیں کہتی ۔ حنوکاہ کا تہوار یشوعا نے منایا تھا (یوحنا 10:22)۔ اردو کلام میں حنوکاہ کو عید تجدید پکارا گیا ہے۔ مکابیوں کی کتاب سے ہمیں کچھ تفصیل ملتی ہے کہ اجاڑنے والی مکروہ چیز کیا ہے۔ آپ برائے مہربانی میرے حنوکاہ والے آرٹیکل کو بھی پڑھیں۔

انطاکس ایپفینس نے جب مصر اور اسرائیل سے اپنی حکومت جمانے کے لئے جنگ کی تو وہ بڑے تکبر سے خداوند کے مقدس میں داخل ہوا اور ہیکل کی تمام چیزوں کو لے گیا۔ اس نے فرمان جاری کیا تھا کہ سب لوگ ایک قوم بن جائیں اور اپنے دستور چھوڑ کر انکے دستوروں کو اپنائیں۔ اس نے حکم دیا تھا کہ لوگ مقدس میں قربانیاں گذراننے سے باز آئیں اور خداوند کی عیدوں کو منانا بند کر دیں۔ اس نے دیگر تمام حرام جانوروں کی قربانیاں چڑھانے کو کہا اور شریعت کے تمام طوماروں کو پھاڑنے یا جلا دینا کا حکم دیا۔ اگر کوئی بھی اسکے ان حکموں کی خلاف ورزی کرتا تو وہ قتل کر دیا جاتا۔ اس نے خداوند کے مقدس میں یونان کے دیوتا "زیوس، Zeus” کا مجسمہ کھڑا کیا۔ اگر آپ کو توریت کے احکامات کا علم نہیں تو آپ کو شاید نہ پتہ ہو کہ یہ چیزیں خداوند کی نظر میں مکروہ ہیں۔ خداوند نے بنی اسرائیل کو اپنے احکامات دئے تھے جو کہ غیر قوموں کی روشوں سے ہٹ کر تھے۔یہ احکامات موسیٰ نبی کے نہیں تھے۔

دانی ایل نبی کی کتاب کے ساتویں باب میں ہمیں مخالف مسیحا کا ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکی ہوں کہ لفظ "مخالفِ مسیحا ” کا استعمال صرف اور صرف نئے عہد نامے میں ہوا ہے مگر دانی ایل نبی کی کتاب میں ہمیں اس کا ذکر ملتا ہے جسے ہمیں "خدا کا دشمن” پکارا سکتے ہیں۔ یہی ہمارا نئے عہد نامے کا "مخالفِ مسیحا” بھی ہے۔ دانی ایل 7:25 میں اسکے بارے میں یوں لکھا ہے؛

اور وہ حق تعالیٰ کے خلاف باتیں کریگا اور حق تعالیٰ کے مقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا اور وہ ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور تک اسکے حوالہ کئے جائینگے۔

جیسا میں نے بیان کیا کہ دانی نبی کے ساتویں باب میں خداوند کے دشمن کی بات ہو رہی ہے لہذا اسکے مطابق اس آیت میں ہمیں خاص اطلاع دی گئی ہے کہ وہ خداوند کے خلاف باتیں کریگا اور اسکے مقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا۔ اس وقت تک صرف بنی اسرائیل (یہودی) قوم خداوند کے مقدسوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب وہ جو کہ یشوعا پر ایمان رکھتے ہیں اور اسکے نام سے جانے جاتے ہیں وہ بھی خداوند کے مقدسوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یشوعا کی وجہ سے وہ ابرہام کی نسل یعنی بنی اسرائیل کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یوحنا 14:24 میں یشوعا نے کہا؛

جو مجھ سے محبت نہیں رکھتا وہ میرے کلام پر عمل نہیں کرتا اور جو کلام تم سنتے ہو وہ میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا۔

ایسے ہی 1 یوحنا 2:4 میں لکھا ہے؛

جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اسے جان گیا ہوں اور اسکے حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اس میں سچائی نہیں۔

میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکی ہوں کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس اس وقت اگر خدا کا کلام تھا تو وہ صرف اور صرف پرانا عہد نامہ تھا نہ کہ نیا عہد نامہ۔ اسلئے جب انھوں نے کلیسیاؤں کو خط لکھا تھا تو اس میں ذکر کئے گئے، خدا کے احکامات یا کلام سے مراد پرانا عہد نامہ یعنی شریعت تھی۔ مسیحی راہنماؤں نے خداوند کے خلاف باتیں کی ہیں۔ آپ کہیں گے وہ کیسے؟ ہم نے ابھی یوحنا 14:24 اور 1 یوحنا 2:4 کی آیات پڑھی ہیں۔ کوئی بھی جو کہ نہ تو خود خداوند کے حکموں پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو بھی منع کرتا ہو وہ خداوند کے کلام کے خلاف یعنی مخالفت میں ہی بات کر رہا ہوتا ہے۔ دانی ایل نبی کی اس آیت میں ایک اور بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ "وہ مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا” ۔ مسیحیوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ خداوند کی عیدوں کو منانے کی ضرورت نہیں، خداوند کے سبت کے دن کو پاک ماننے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنے چند دوسرے آرٹیکل میں سوال کیا تھا کہ نئے عہد نامے میں کہاں پر لکھا ہے کہ ہمیں اب کرسمس اور ایسٹر منانا ہے اور خداوند کی عیدوں کو نہیں منانا؟
کچھ غیر مسیحی دانی ایل نبی کی اس آیت کو لے کر یہ کہتے ہیں کہ دیکھا بائبل تک یہی کہتی ہے کہ شریعت بدل دی جائیگی اسلئے وہ جو کہتے ہیں کہ بائبل بدل دی گئی ہے، صحیح کہتے ہیں؟ دانی ایل نبی کی لکھی اس آیت کو پھر سے پڑھیں۔ لکھا ہے کہ "وہ مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا”۔ اس آیت میں عبرانی کلام میں "مقررہ اوقات و شریعت” کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ وہ نہیں جو کہ خداوند کی عیدوں اور خداوند کی شریعت (توریت) کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ اگر آپ نے میرے ان آرٹیکلز کو پڑھا ہے جہاں میں نے خداوند کی عیدوں اور شریعت کے الفاظ کو عبرانی کلام میں دکھایا ہے تو شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے بتایا تھا کہ خداوند کی مقرر کردہ عیدوں کے لئے عبرانی لفظ "مویدیم, מוֹעֲדִים Moedim ” ہے اور شریعت کے لئے لفظ "توراہ תּוֹרָה Torah,” ہے۔ اس آیت میں "اوقات” کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "زیمنین، זִמְנִ֣ין، "Zamnin اور شریعت کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "دات۔ וְדָ֔ת،We-dat”۔ خداوند کے دشمن کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ خداوند کی مقرر کردہ عیدوں اور خداوند کی شریعت کو بدل سکے کیونکہ یہ خداوند کے اختیار میں ہے۔ خداوند کی عیدیں اور توریت خداوند کی ہیں اسلئے کوئی اس لکھے ہوئے کلام کو نہیں بدل سکتا۔ عبرانی توریت غلطیوں سے پاک ہے ۔ اگر کہیں پر کوئی غلطی ہے تو وہ اسکے کئے ہوئے دوسری زبانوں کے ترجموں میں ہے مگر توریت میں نہیں۔

لہذا خداوند کے دشمن کی کوشش یہی ہے کہ وہ ان مقرر کردہ اوقات اور شریعت کو بدل سکے جو کہ انسانی احکامات پر مبنی ہیں۔ اسکی ایک بہت ہی سادہ سی مثال سبت کے دن کی ہے۔ ہر کوئی جو کہ کلام پڑھتا ہے، جانتا ہے کہ کلام کے مطابق ساتواں دن سبت ٹھہرایا گیا ہے مگر پھر بھی مسیحیوں کو یہی بتایا جاتا ہے کہ اب سبت کا دن اتوار ہے کیونکہ یسوع ہفتے کے پہلے دن جی اٹھا۔ زیادہ تر مسیحی خود تو کلام پڑھتے نہیں اسلئے کلام میں سے بنا تفتیش کئے وہ انسان کی سکھائی ہوئی باتوں کو مان لیتے ہیں۔ نئے عہد نامے میں یہ کہیں پر بھی نہیں لکھا گیا ہے کہ اب ہفتے کا آخری دن نہیں بلکہ پہلا دن سبت کا دن پاک مانا جائے گا۔ تبھی خداوند کی توریت (شریعت) اور خداوند کی عیدیں، آج بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے کہ یشوعا اور اسکے شاگردوں کے دور میں تھے۔ سبت کا دن نہیں بدلا ہے اگر کچھ بدلا ہے تو وہ انسان کی اپنی عقل کے مطابق انکی تشریح بدل گئی ہے۔ خداوند کا کلام زندہ کلام ہے ، جب یشوعا نے متی 15:9 میں یسعیاہ نبی کی اس آیت کو ریاکاروں کے لئے کہا تو وہی بات مجھے آج بھی بہت سے مسیحیوں کی زندگی میں پورا اترتے دکھائی دیتی ہے۔ متی 15:7 سے 9 میں یشوعا نے کہا؛

ائے ریاکارو یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

میں نے صرف سبت کے دن کی مثال ہے مگر اگر آپ نے میرے ان آرٹیکلز کو پڑھا ہو جو کہ میں نے خداوند کی عیدوں پر لکھے ہیں تو آپ کو خود بھی اندازہ ہو جائیگا کہ خداوند کے دشمن شریعت کو "لعنت” قرار دیتے ہیں اور ان عیدوں کو منانے سے روکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں ان عیدوں کو منانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یسوع نے اپنی آمد سے ان عیدوں کو پورا کر دیا ہے۔ اب ہم شریعت کے ماتحت نہیں۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے آرٹیکلز خداوند کی عیدوں کے بارے میں کچھ وہ تفصیلات بیان کرتے ہیں جن سے شاید آپ پہلے واقف نہ ہوں۔ افسوس کہ جھوٹے مسیحی راہنما خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا سبب ہیں۔ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ انھوں نے خداوند کے دشمن کی جھوٹی تعلیم کو اپنا لیا ہے اور اپنے آپ کو خداوند کا دشمن بنا لیا ہے۔ وہ یشوعا کی اس بات کو اپنے ناقص علم کی بنا پر جھٹلاتے ہیں۔ یشوعا نے متی 5:17 سے 18 میں کہا؛

یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلیگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔

میں نے اپنے بہت سے آرٹیکلز میں ذکر کیا ہے کہ خداوند کی کونسی عیدوں کا پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ میرا ابھی بھی یہی سوال ہے کہ "اگر سب کچھ پورا نہیں ہوا تو کیااسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ابھی بھی شریعت یعنی توریت پر عمل کرنا چاہیے؟” اور اگر آپ کو نہیں علم کہ کیا یشوعا کی پہلی آمد میں پورا ہوا ہے اور کیا یشوعا کی دوسری آمد میں پورا ہونا ہے، تو پہلے کلام سے ان باتوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر بحث و مباحثات میں پڑیں۔
میں نے مختصراً خداوند کے دشمن/مخالف مسیحا کی پہچان کی بات کی ہے۔ میں اپنے اس آرٹیکل کو 2 تھسلنیکیوں 2:1 سے 12 کی آیات سے جو میں نیچے درج کر رہی ہوں، ختم کرتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ خداوند اپنے کلام کی رو سے آپ کی راہنمائی کریں تاکہ آپ مخالف مسیحا کے چنگل میں پھنس کر اپنی زندگی ہمیشہ کے لئے نہ گنوا بیٹھیں۔
میں نے جو مخالف مسیحا کے بارے میں بتایا ہے اسکی روشنی میں ، خداوند کے روح کی مدد سے ان آیات کو خود سمجھنے کی کوشش کریں؛

ائے بھائیو! ہم اپنے خداوند یسوع مسیح کے آنے اور اسکے پاس اپنے جمع ہونے کی بابت تم سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ کسی روح یا کلام یا خط سے جو گویا ہماری طرف سے ہو یہ سمجھ کر کہ خداوند کا دن آ پہنچا ہے تمہاری عقل دفتعہً پریشان نہ ہوجائے اور نہ تم گھبراؤ۔ کسی طرح سے فریب میں نہ آنا کیونکہ وہ دن نہیں آئیگا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہو۔ جو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا یا معبود کہلاتا ہے اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے مقدِس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ جب میں تمہارے پاس تھا تو تم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا؟ اب جو چیز اسے روک رہی ہے تاکہ وہ اپنے خاص وقت پر ظاہر ہو اسکو تم جانتے ہو۔ کیونکہ بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے مگر اب ایک روکنے والا ہے اور جب تک کہ وہ دور نہ کیا جائے روکے رہیگا۔ اس وقت وہ بے دین ظاہر ہوگا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کریگا۔ اور جسکی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کے ساتھ۔ اور ہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ ہوگی اس واسطے کہ انہوں نے حق کی محبت کو اختیار نہ کیا جس سے انکی نجات ہوتی۔ اسی سبب سے خدا انکے پاس گمراہ کرنے والی تاثیربھیجیگا تاکہ وہ جھوٹ کو سچ جانیں۔ اور جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں۔




ویلنٹائین ڈے , Valentine’s Day :

فروری کے مہینے میں ویلنٹائین ڈے پڑتا ہے جو کہ 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہ کافی پھیل گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھ دوں۔

رومن کیتھولک، آرتھوڈکس اور اینگلیکن چرچ اسکو سینٹ ویلنٹائین سے جوڑتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی سی روم کے بتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ” لوپرکیلیا، Lupercalia ” کا تہوار فروری 13 سے 15 تک منایا جاتا تھا۔ لوپرکیلیا، فبروا سے جڑا ہے جو کہ رومن بت ہے اور اسکے معنی ہیں "طہارت” اسی سے فروری کے مہینے کا نام نکلا ہے۔ یہ تہوار فحاشی سے جڑا ہے اور کلام فحاشی سے منع کرتا ہے۔ اس دن رومن بادشاہ نے سینٹ ویلنٹائین کو قتل کیا تھا کیونکہ وہ اس دن چھپ کر مرد اور عورت کی شادی کروا دیتے تھے۔ اس دن برہنہ مرد وں کے سامنے کنواری عورتوں کو زنا کاری کے لئے پیش کیا جاتا تھا۔ تبھی جب رومن بادشاہ کو سینٹ ویلنٹائین کے بارے میں معلوم پڑا تو اس نے انھیں قتل کر دیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں رومن کیتھولک چرچ نے اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائین کی عقیدت میں منانا شروع کر دیا مگر یہی سینٹ ایک واحد سینٹ نہیں تھا جسکا نام سینٹ ویلنٹائین تھا آپ کو کچھ اور سینٹ بھی اس نام سے پڑھنے کو ملیں گے۔رومن کیتھولک چرچ نے اسکو طہارت کا دن بھی پکارا ہے اور پھر بعد میں مقدسہ مریم کی طہارت کے دن کے طور پر فروری 2 کو اسے منانا شروع کر دیا۔اگر آپ مصر یا روس میں کرسمس جو کہ جنوری 7 کو پڑتا ہے اس دن سے مریم کی طہارت کے 40 دن گنیں گے تو وہ فروری 15 لوپرکیلیا کا دن پڑتا ہے۔ رومن قوم کے نزدیک فروری 13 سے 15 بھی طہارت کا دن تھا۔ رومن کیتھولک چرچ کے پوپ نے 14 فروری کو ویلنٹائین ڈے مقرر کر دیا تھا۔ مقدسہ مریم کی طہارت کے دن کی تفصیل پھر کبھی کسی اور آرٹیکل میں شاید لکھنے کی سوچوں وہ بھی اگر خداوند کی مرضی ہوئی تو۔ لوپرکیلیا کے اس تہوار کی تفصیل کو اگر آپ نے خود پڑھنا ہے تو انٹرنیٹ پر آپ کو کوئی نا کوئی لنک مل جائے گا۔اور اگر آپ نے ویلنٹائین ڈے کے کارڈز میں یا تصویروں میں دکھائے گئے چھوٹے فرشتے نما شکل کے بچے کو جو ہاتھ میں تیر کمان پکڑے ہوئے ہے، جسکو انگلش میں "کیوپڈ، Cupid ” کہا جاتا ہے، اس کی کھوج میں جانا ہے تو آپ کو اس سے متعلق کچھ اور کہانیاں سننے کو بھی ملیں گی۔ اور ان کہانیوں سے جڑے نام نمرود اور تموز کلام میں بھی نظر آئیں گے جو کہ تیر کمان سے شکار کرتے تھے۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ اس کا کلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر آپ کے خیال میں اس تہوار کو منانے میں کوئی حرج نہیں تو پھر تو شاید آپ کو بہت سے غیر مسیحی تہواروں کو بھی منانے میں حرج نہ ہو جو کہ شاید مسلمانوں کی عیدوں سے لے کر ہندوؤں کے تہوار بھی ہوسکتے ہیں۔

یرمیاہ 10:2میں لکھا ہے؛
خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم دیگر اقوام کی روش نہ سیکھو ۔۔۔۔۔۔۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو کہ یہودیت میں بھی اسی قسم کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مگر اسکی تاریخ 14 فروری نہیں بلکہ 15 آب (عبرانی مہینہ جو کہ تموز اور الول کے مہینے کے درمیان میں یعنی جولائی/اگست میں پڑتا ہے)۔ اسکو عبرانی زبان میں "تو – بی آب، Tu B’Av ” کہا جاتا ہے۔ مگر اسکو اسرائیل میں حگ حا-عحوا ،,Chag HaAhava חג האהבה بھی کہا جاتا ہے۔جس طرح سے یوم کفارہ(یوم کیپور) اسرائیل کے لیے اہمیت رکھتا ہے اسی طرح سے اسکو بھی خوشی کا تہوار مانا جاتا ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب انگور پک چکے ہوتے ہیں اور انکو بیل سے کاٹنے کا وقت ہوتا ہے تاکہ بعد میں مے تیار کی جا سکے۔ کلام میں مے سے مراد خوشی ہے۔ اسرائیل کی بیٹیاں سفید کپڑے پہنے تکستان میں خوشی سے ناچتی ہیں۔ اسکو ایک طرح سے رشتہ جوڑنے کا دن بھی سمجھا جاتا ہے۔ تلمود کے مطابق مرد اس تہوار پر اپنے لیے دلہن چنتے تھے۔ تلمود کے مطابق یا تو اس دن یا پھر یوم کفارہ والے دن جب اسرائیل کی بیٹیاں سفید کپڑے پہنے ہوئے آتی تھیں تو رشتے جوڑنے کی بھی یہ رسم ادا کی جاتی تھی۔

15 آب سے متعلق کچھ اور روایات بھی ہیں جنکو میں دوسرے آرٹیکل میں بیان کرونگی۔ مگر ایک روایت یہ بھی تھی کہ جب خدا نے اسرائیل کو انکی میراث تقسیم کی تھی تو وہ عورتیں جنہیں زمین اپنے باپ سے وراثت میں ملیں تھیں انکےبیاہ اور قبیلہ کی میراث کے حصہ کی وجہ کچھ ایسی پابندیاں لگائی گئی تھیں جو کہ اس دور میں ان عورتوں کو قبیلہ سے باہر شادی کرنےسے روکتا تھا (گنتی 36) تاکہ کوئی قبیلہ خداوند کی دی ہوئی میراث کو نہ کھوئے مگر بعد میں 15 آب کو یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی کیونکہ ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی دی ہوئی میراث کے مطابق بس چکے تھے۔

روایت کے مطابق یہی وہ دن بھی تھا جب بنیمین کے قبیلے کو باقی قبیلوں نے دوبارہ سے اپنے میں شمار کیا تھا۔ آپ اس پوری کہانی کو قضاۃ 21-19 ابواب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کہانی کا مختصر خلاصہ میں بیان کر دیتی ہوں۔ بنیمین کے قبیلے کے کچھ مردوں نے زنا کیا جسکی وجہ سے باقی تمام قبیلے انکے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے بنیمین کے قبیلے سے کہا کہ وہ ان آدمیوں کو انکے حوالے کریں تاکہ خون کا بدلہ خون سے چکا سکیں مگر بنیمین کے قبیلے نے انکار کر دیا جسکے نتیجے میں انکی آپس کی جھڑپ میں ہزاروں بنیمینی مرد مارے گئے۔ انھوں نے بنیمین کا پورا شہر جلا ڈالا۔ صرف چھ سو آدمی بچے جو کہ رمون کی چٹان کو چلے گئے۔چونکہ باقی قبیلوں نے قسم کھائی کہ وہ اپنی بیٹیاں کسی بنیمینی کو نہ دے گا۔ خون خرابے کی وجہ سے بعد میں اسرائیلیوں کو دکھ ہوا کہ انکے درمیان سے ایک قبیلے کے افراد کم ہو گئے ہیں۔ لہذا انھوں نے سوختنی اور سلامتی کی قربانیاں چڑھائیں اور جو قبیلہ خدا کے حضور قربانی چڑھانے نہیں آیا انھوں نے اس قبیلہ کے باشندوں کو قتل کر دیا۔ اس قبیلہ میں چار سو عورتیں کنواری تھیں لہذا بنی اسرائیل نے وہ عورتیں قتل نہیں کیں بلکہ بنیمین کے مردوں کو دے دیں کہ انکا قبیلہ پھرسے آباد ہو۔ دو سو بنیمینی مرد پھر بھی باقی تھے اوراسرائیل کے باقی قبیلے اپنی قسم کی وجہ سے خود انھیں اپنی بیٹیاں نہیں دینا چاہتے تھے لہذا انھوں نے بنیمین کے ان مردوں کو کہا کہ جب سیلا میں سالانہ عید پر لڑکیاں ناچنے کو نکلیں گیں تو تم اپنے لیے بیویاں خود چن لینا۔ ان مردوں نے ایسا ہی کیا۔ یہ عید 15 آب کو منائی جاتی ہے۔

دو اور بھی وجوہات ہیں جسکی بنا پر 15 آب اسرائیلیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے مگر ہمارے اس آرٹیکل کے لئے اتنا ہی بہت ہے۔عبرانی الفاظ حگ حا-عحوا ،Chag HaAhava חג האהבה میں "حگ” کا معنی "تہوار” ہے اور "ا-حوا” کا معنی ہے "پیار، محبت” ۔ جیسے انگلش میں "The” ہے ویسے ہی عبرانی میں "حا” ہے۔ اسکا پورا مطلب بنتا ہے "محبت کا تہوار”۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں محبت کا تہوار منانا ہی ہے تو پرانے عہد نامے کے مطابق "تو-بی-آب، Tu B’Av” کوکیوں نہ منائیں۔ غیر معبودوں کے دنوں کو منانے سے بہتر رہے گا۔ اس سال یہ تہوار 18 اگست کی شام سے 17 اگست کی شام تک منایا جائے گا۔ یاد رکھیں کہ کلام میں ایک دن، شام سے اگلی شام تک بنتا ہے۔ شبات شلوم۔




مقدسہ مریم – آسمان کی ملکہ

مقدسہ مریم؛  آسمان کی ملکہ:

مقدسہ مریم کے بارے میں کونسا مسیحی نہیں جانتا ہوگا مگر بہت سے یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اسے آسمان کی ملکہ بھی پکارا گیا ہے۔ بائبل میں ایسا مریم کو نہیں پکارا گیا بلکہ رومن کیوتھولک چرچ کے مطابق  مقدسہ مریم "آسمان کی ملکہ ” ہے۔ بائبل کے مطابق آسمان کی ملکہ کون ہے یہ ہم کلام مقدس سے دیکھیں گے اور اس آرٹیکل سے یہی سیکھیں گے کہ کیا مریم آسمان کی ملکہ ہے یا نہیں۔

بائبل  کے مطابق آسمان کی ملکہ کون ہے؟

امید ہے کہ آپ اپنی بائبل سے خود بھی میرے ساتھ ان حوالوں کو نکال کر پڑھنے کی کوشش کریں گے جو  میں اس آرٹیکل میں درج کرنے لگی ہوں۔  خروج 20:3 سے 6 آیات میں خداوند نے اپنے لوگوں کو حکم دیا؛

میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تو انکے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ انکی عبادت کرنا کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں انکی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں۔ اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔

ہمیشہ کی طرح یہ بیان کرتی چلوں کہ اردو کلام میں جہاں ان آیات میں خداوند لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "یہوواہ” ہے۔  یہوواہ پاک خدا نے ہمیں اسکے حضور میں غیر معبودوں کو ماننے سے منع کیا ہے اور ساتھ ہی اپنے لئے کسی بھی قسم کی تراشی ہوئی مورت کو بھی بنانے سے منع کیا ہے۔  واعظ 1:9 میں لکھا ہے؛

جو ہوا وہی پھر ہوگا اور جو چیز بن چکی ہے وہی ہےجو بنائی جائیگی اور دنیا میں کوئی چیز نئی نہیں۔

آپ نے میرے آرٹیکلز میں پڑھا ہوگا کہ میں اکثر لکھتی ہوں کہ وہی غلطی جو یہودیوں نے کی اب مسیحی کر رہے ہیں اور یہی سوچ کر مجھے ہمیشہ اس آیت کا خیال آتا ہے۔ پرانے عہدنامے میں ہم بارہا پڑھتے ہیں کہ یہودیوں نے شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور  خداوند کی شریعت سے دور ہوگئے جس کے سبب سے ان پر وہ لعنتیں آئیں جو کہ شریعت کی کتابوں میں درج ہیں۔  خداوند نے ہمیشہ اور ہر بار اپنے نبیوں کے ذریعے سے اپنے لوگوں کو تنبیہ کی۔ کچھ ایسا ہی ہم یرمیاہ نبی کی کتاب میں خاص اس آسمان کی ملکہ کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں جو کہ یشوعا کی پیدائش اور مقدسہ مریم کے وجود میں آنے سے پہلے تھی۔   یرمیاہ نبی کی کتاب میں "آسمان کی ملکہ” کا ذکر پانچ بار آیا ہے۔ ایک بار یرمیاہ 7 میں اور چار بار یرمیاہ 44 میں۔ آپ اگر چاہیں تو اسے دو بار گن سکتے ہیں۔ یرمیاہ 7:18 میں یوں لکھا ہے؛

بچے لکڑی جمع کرتے ہیں اور باپ آگ سلگاتے ہیں اور عورتیں آٹا گوندھتی ہیں تاکہ آسمان کی ملکہ کے لئے روٹیاں پکائیں اور غیر معبودوں کے لئے تپاون تپا کر مجھے غضبناک کریں۔

اور یرمیاہ 44:17 سے 25 میں ایسے لکھا ہے؛

بلکہ ہم تو اسی بات پر عمل کریں گے جو ہم خود کہتے ہیں کہ ہم آسمان کی ملکہ کے لئے بخور جلائینگے اور تپاون تپائینگے جس طرح ہم اور ہمارے باپ دادا ہمارے بادشاہ اور ہمارے سردار یہوداہ کے شہروں اور یروشلیم کے بازاروں میں کیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت ہم خوب کھاتے پیتے اور خوشحال اور مصیبتوں سے محفوظ تھے۔ پر جب سے ہم نے آسمان کی ملکہ کے لئے بخور جلانا  اور تپاون تپانا چھوڑ دیا تب سے ہم ہر چیز کے محتاج ہیں اور تلوار اور کال سے فنا ہورے ہیں۔ اور جب  ہم آسمان کی ملکہ کے لئے بخور جلاتی اور تپاون تپاتی تھیں تو کیا ہم نے اپنے شوہروں کے بغیر اسکی عبادت کے لئے کلچے پکائے اور تپاون تپائے تھے؟ تب یرمیاہ نے ان سب مردوں اور عورتوں یعمی ان لوگوں سے جنہوں نے اسے جواب دیا تھا کہا۔ کیا وہ بخور جو تم نے اور تمہارے باپ دادا اور تمہارے بادشاہوں اور امرانے رعیت کے ساتھ یہوداہ کے شہروں اور یروشلیم کے بازاروں میں جلایا خداوند کو یاد نہیں کیا؟ کیا وہ اسکے خیال میں نہیں آیا؟ پس تمہارے بداعمال اور نفرتی کاموں کے سبب سے خداوند برداشت نہ کرسکا۔ اسلئے تمہارا ملک ویران ہوا اور حیرت و لعنت کا باعث بنا جس میں کوئی بسنے والا نہ رہا جیسا کہ آج کے دن ہے۔ چونکہ تم نے بخور جلایا اور خداوند نے گنہگار ٹھہرے اور اسکی آواز کے شنوا نہ ہوئے اور نہ اسکی شریعت نہ اسکے آئین نہ اسکی شہادتوں پر چلے اسلئے نہ مصیبت جیسی کہ اب ہے تم پر آ پڑی۔

اور یرمیاہ نے سب لوگوں اور سب عورتوں سے یوں کہا کہ ائے تمام بنی یہوداہ جو ملک مصر میں ہو! خداوند کا کلام سنو۔ رب الافواج اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم نے اور تمہاری بیویوں نے اپنی زبان سے کہا کہ آسمان کی ملکہ کے لئےبخور جلانے اور تپاون تپانے کی جو نذریں ہم نے سانی ہیں ضرور ادا کریں گے اور تم نے اپنے ہاتھوں سے ایسا ہی کیا۔ پس اب تم اپنی نذروں کو قائم رکھو اور ادا کرو۔

یرمیاہ نبی نے انھیں خاص تنبیہ کی کہ انکے غیر معبودوں کو ماننے اور آسمان کی ملکہ کے لئے بخور وغیرہ جلانے کی وجہ سے ان پر مصیبت آئی تھی کیونکہ خداوند ان سے ناراض تھا۔ افسوس اس بات کا کہ ہمارے مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ یہودی  یا بنی اسرائیل ، خدا کی چنی ہوئی قوم ان سے زیادہ گنہگار تھی کیونکہ انکے گناہوں کے بارے میں تو وہ پرانے عہد نامے میں پڑھتے ہیں مگر کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچا  کہ خدا انکے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔

رومن کیتھولک چرچ مقدسہ مریم کو آسمان کی ملکہ پکارتا ہے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہی یہ رومن کیتھولک خود کہتے ہیں۔   اگر آپ رومن کیتھولک فادر سے اس بات کے بارے میں پوچھیں گے کہ "کیا مقدسہ مریم آسمان کی ملکہ ہے اور کیوں ہے "، تو انکا جواب شاید کچھ اس قسم کا ہوگا۔

"یسوع بادشاہ ہے اور جیسے کہ تمام بادشاہوں کے ہمراہ ملکہ بھی ہوتی ہے  ویسے ہی مقدسہ مریم ہے، جس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنے بیٹے کے کان میں  ایک دھیمی پکار ہے۔ اسکی مثال وہ 1 سلاطین 15:13 اور 2 سلاطین 24:12  میں سے دیتے ہیں کہ بالکل ویسے ہی مقدسہ مریم ، آسمان کی ملکہ ہے جو کہ اپنے بیٹے کے ساتھ   حکومت کرتی ہے۔  1 سلاطین 2:19 سے 20 کا حوالہ دیتے ہوئے آپ کو جواب ملے گا کہ سلیمان بادشاہ نے بھی اپنی ماں کی کوئی بات رد نہیں کی اسلئے اگر یسوع کی ماں مریم سے دعا مانگی جائے تو وہ آگے اپنے بیٹے کے حضور ہماری فریادوں کو پیش کرتی ہے اور بیٹا ہمیشہ ماں کی بات سنتا ہے اور اسکا انکار نہیں کرتا کیونکہ نئے عہد نامے  میں  یوحنا 2:1 سے 5  کی آیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یسوع نے اپنی ماں کی سنی۔

 ساتھ میں وہ آپ کو لوقا 1 باب سے حوالے دے کر بتائیں گے کہ مریم پر خداوند کا فضل ہوا اور وہ تمام عورتوں میں مبارک ہے اور اسکے پیٹ کا پھل مبارک ہے۔ وہ آپ کو کہیں گے کہ کلام میں لکھا ہے ہر زمانہ کے لوگ مریم کو مبارک کہیں گے۔”

مقدسہ مریم تمام عورتوں میں مبارک ہے:

 اس سے پیشتر کہ میں آسمان کی ملکہ کی تفصیل میں جاؤں میں چند اہم باتیں مریم کے بارے میں بیان کرنا چاہوں گی کیونکہ اپنے اس آرٹیکل کی وجہ سے میں کسی بھی طرح کلام کی مریم کا درجہ  یا  عزت کو کم نہیں کرنا چاہتی۔ بلاشبہ مریم کو تمام عورتوں میں مبارک کہا گیا ہے کیونکہ خداوند نے اپنے فضل سے اسکو اس خاص مقصد کے لئے چنا۔ مریم کے نفیس کردار کا ثبوت  تو کلام کی آیات سے ہی ملتا ہے ۔  مریم ہی یشوعا کا اس زمین پر پیدا ہونے کا وسیلہ بنی ۔ مریم کو  خدا کے کلام کا علم تھا تبھی اس نے خوف کے باوجود خداوند کے اس قول کو قبول کیا جو ہرگز بے تاثیر نہیں تھا۔ دنیاوی باتوں کو بھلا کر اس نے خداوند کی مرضی کے آگے گھٹنا ٹیکنا مناسب سمجھا۔ مریم کے خداوند کی تعریف میں کہے ہوئے الفاظ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا پرست عورت تھی جو کہ دل سے خداوند کی عبادت کرتی تھی۔ یشوعا کو پیدا کرنے اور پال پوس کر بڑا کرنے میں اسکی  ہمت کی داد دینی چاہیے کیونکہ لوقا 2:35 میں  اسکو شمعون نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ؛

بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھد جائیگی تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں۔

یشوعا کے پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ہی مریم اور یوسف کو یشوعا کی جان بچانے کے لئے مصر کو بھاگنا پڑا تھا اور پھر یشوعا کا صلیب پر مصلوب ہوتا دیکھنا  کوئی آسان کام نہیں تھا مگر اس نے سب برداشت کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ خداوند کی مرضی یہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ یہودیوں میں وہ سب سے پہلی عورت تھی جس نے یشوعا کو مسیحا قبول کیا ۔ وہ یشوعا کے شاگردوں اور ماننے والوں کے ہمراہ اسکی عبادت کرتے ہوئے پائی گئی تھی (اعمال 1:14) مگر کہیں پر بھی آپ کو یہ درج نظر نہیں آئے گا کہ اس نے اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھا ہو یا پھر یشوعا کے پیروکاروں نے ، کیونکہ وہ سب ہی جانتے تھے کہ خداوند کا حکم ہے کہ اسکے علاوہ کسی اور کو نہ سجدہ کیا جائے۔ مریم کی عزت کسی بھی مسیحی کے دل سے کم نہیں ہونی چاہیے  کیونکہ وہ باقی تمام انبیا اور رسولوں کی طرح عزت کے ہی لائق ہے۔

تاریخ کے مطابق آسمان کی ملکہ کون ہے؟

بغیر تاریخ کی کتابوں کو جانے تاریخ کو بیان کرنا مشکل ہے۔ آپ نے کلام میں عستارات  یا یسیرت دیوی کا نام پڑھا ہوگا (1 سلاطین 11:5 سے 7، قضاۃ 10:6) ۔ گو کہ عنات کی دیوی کا نام کلام میں کہیں نہیں آیا ہے مگر کنعان سے مصر تک اسکی پوجا کی جاتی تھی۔کلام میں ہمیں "بیت عنات” کے حوالے ملیں گے (قضاۃ 1:33اور یشوع 19:38 اور یشوع 15:59)۔ بیت ، عبرانی لفظ ہے جسکے معنی ہیں "گھر  یا رہنے کی جگہ” ، عنات کے بارے میں میں نے ذکر کیا کہ یہ ایک دیوی کا نام ہے۔   اسکو آسمان کی ملکہ پکارا جاتا تھا اور ایل، El کی بیٹی  کہا جاتا تھا۔ گو کہ مصریوں میں وہ  سورج دیوتا  را، Ra کی بیٹی جانی جاتی تھی۔ کلام میں ہمیں شمجر عنات کے بیٹے کا بھی ذکر ملتا ہے (قضاۃ 3:31 اور 5:6) مگر علما یہ نہیں جانتے کہ شہر کی بات ہو رہی ہے یا کہ پھر اس سے مراد اسکے والدین ہیں۔ ہمارے اپنے لوگوں کے بھی کچھ نام ایسے ہیں جو کہ کسی سے متاثر ہو کر رکھ دئے جاتے ہیں اسلئے علما اس بارے میں صحیح طور پر نہیں کہہ سکتے کہ کس وجہ سے شمجر کو عنات کا بیٹا کہا گیا تھا۔  میں نے پہلے بھی  اپنے آرٹیکلز میں بارہا بتایا ہے کہ ایل، El عبرانی میں خدا کو کہا جاتا ہے جس سے مراد کوئی بھی خدا ہوسکتا ہے۔آسمان کی ملکہ کو جس ایل کی بیٹی کہا گیا ہے  اس ایل کی رہائش گاہ،  دو دریاؤں،   جہاں آسمان اور زمین ملتے ہیں وہاں بیان کی گئی ہے۔ کلام میں یسعیاہ 66:1 میں لکھا ہے؛

خداوند یوں فرماتا ہے کہ آسمان میرا تخت ہے اور زمین میرے پاؤں کی چوکی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

وہ بے دین لوگ جو کہ ہمارے خدا کو اس بت پرست ایل کے ساتھ جوڑنے کی کرتے ہیں   اور بائبل کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس ایل کی رہائش گاہ دو دریاؤں کے درمیان میں بیان کی گئی ہے جبکہ ہمارے خدا کا تخت آسمان پر ہے۔اور وہ جاہل لوگ جو کہ عبرانی زبان نہیں جانتے وہ یہوواہ کو بعل بیان کرتے ہیں۔  عنات کو بعل کی بہن  بھی بتایا گیا ہے۔ کیا ایل ہی آسمان کی ملکہ کا باپ اور بھائی ہوسکتا ہے؟ عنات کو کنواری کہا جاتا تھا جو کہ ایک جنگجو عورت تھی جس نے بعل کے دشمنوں کو بے رحمی سے مار ڈالا تھا۔ چونکہ اس نے اپنے بھائی کے تحفظ میں اسکے دشمنوں کو مار ڈالا تھا اسلئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کو تحفظ مہیا کرتی ہے۔  اسکی تصویروں میں اسکے ساتھ اکثر شیر نظر آتا ہے۔ عنات کے بارے میں  یہی  تسلیم کیا  جاتا تھا کہ اسکی بنا پر جنگ میں فتح یابی ملتی ہے۔   عستارات یا یسیرت کو بھی آسمان کی ملکہ کہا جاتا تھا۔ آپ کو انکے بارے میں تفصیل  کنعان کی تاریخی کتابوں میں ملے گی جن میں کنعان کےدیوی اور  دیوتاؤں  کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اور اگر آپ انڈین فلمیں دیکھتے آئے ہیں تو آپ کو خود کو بھی علم ہوگا کہ کرشنا کو اسکی ماں کی گود میں بھی دکھایا گیا ہے جو کہ ہندؤں کے بت ہیں۔   میں نے بہت ہی مختصر لکھا ہے صرف یہ بتانے کے لئے کہ آسمان کی ملکہ  ایک وہ دیوی تھی جو کہ بت پرستوں کے نزدیک کنواری تھی  اور  کسی غیرمعبود کی ماں تھی جو کہ 25 دسمبر کو پیدا ہوا تھا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر آسمان کی ملکہ ایک دیوی تھی تو کیا  مسیحیوں کے لئے جائز ہے کہ وہ آسمان کی ملکہ کے حضور گھٹنے ٹیکیں اور اس سے دعا کریں کیونکہ خداوند کا تو یہی حکم ہے کہ اسکے لوگ کسی اور کے آگے سجدہ نہ کریں؟ مجھے علم ہے کہ رومن کیتھولک میرے  اس سوال  پر  کلام سے وہی آیات پیش کریں گے جن میں سے چند میں نے اوپر درج کی ہیں۔

رومن کیتھولک چرچ تسبیح نما  روزری پڑھتے ہیں۔  میں نے اپنی بہت کوشش کی کہ مجھے اردو میں کہیں سے رومن کیتھولک چرچ کی اشاعت شدہ روزری پڑھنے کی گائیڈ مل سکے۔ چونکہ میں امریکہ میں رہتی ہوں اسلئے میرے لئے یہ انگلش میں تو  یہ بہ آسانی دستیاب ہے مگر اردو میں نہیں۔ میرا اپنا ارادہ یہی تھا کہ میں ان سب کی تصویریں آپ کے لئے پوسٹ کر سکتی مگرچونکہ میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں اسلئے  مجھے امید ہے کہ آپ خود بھی اس معاملے میں اپنی پوری تفتیش کریں گے اور خود بھی اپنی تسلی کریں گے کہ اب جو میں لکھنے لگی ہوں کیا وہ رومن کیتھولک چرچ کے اپنے عقائد ہیں یا کہ پھر کلام کی تعلیم کے مطابق ہیں۔ یاد رہے کہ یشوعا نے بھی   اپنے زمانے کے لوگوں کو اس بات پر جھڑکا تھا۔ متی 15:7 سے 9 میں یشوعا نے ایسے کہا؛

ائے ریاکارو یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا  دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

 یشوعا نے  یسعیاہ 29:13 کی آیت درج کی تھی۔  امید ہے کہ آپ میرے ساتھ  خدا کے کلام سے جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا خدا کی تعلیم ہے اور کیا انسانی احکامات ہیں۔ اگر آپ کے پاس روزری پڑھنے کی گائیڈ ہے تو آپ کو نظر آئیگا کہ اس میں ماں مریم کو آسمان کی ملکہ پکارا گیا ہے۔  روزری کو اور مریم کے مجسمے کو  مقدس پکارا گیا ہے جو کہ آپ کو خروج کی کتاب میں درج  خیمہ اجتماع یا پھر ہیکل سے جڑی کسی بھی قسم کی  اشیا کا حصہ نظر نہیں آئیگا۔  میں خود آسمان کی ملکہ سے جڑی ان دعاؤں کو پڑھنے اور مریم کو آسمان کی ملکہ پکارنے سے گریز کرتی ہوں۔ میں یہ تمام باتیں صرف اور صرف آپ کو سمجھانے کے لئے لکھ رہی ہوں۔

رومن کیتھولک چرچ کی روایت کے مطابق  سینٹ ڈومنک، Saint Dominic نے روزری   ایجاد کی تھی کیونکہ  انھیں رویا میں مقدسہ ماں مریم  نظر آئی تھی  جسکی بنا پر انھو ں نے روزری کو دعا میں استعمال کرنے پر زور دینا شروع کیا ۔ اور اگر آپ روزری پڑھنے کی تاریخ کو پڑھیں تو آپ کو وہ کہانی بھی ملے گی جس میں  رومن کیتھولک چرچ  بیان کرتے ہیں کہ روزری کو دعا میں استعمال کرکے انھیں  مقدسہ مریم کی وجہ سے فتح حاصل ہوئی تھی۔ عنات  دیوی کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی سوچا جاتا تھا کہ وہ تحفظ فراہم کرتی  تھی  اور اسکے ذریعے سے فتح یابی ملتی تھی۔

روزری کو ہاتھ میں پکڑ کر تسبیح کی طرح ہی پڑھا جاتا ہے۔ روزری پڑھنے کے لئے رومن کیھتولک چرچ کی ہدایات اس ترتیب میں ہیں؛

  • رسولوں کا عقیدہ (ایک دفعہ )
  • دعائے ربانی (ایک دفعہ)
  • سلام ائے مریم (تین دفعہ)
  • جلال باپ اور بیٹا (ایک دفعہ)

ہر روزری کے بھید کا طریقہ

  • دعائے ربانی (ایک بار)
  • سلام ائے مریم (دس بار)
  • جلال باپ اور بیٹا (ایک بار)
  • ائے مہربان یسوع (ایک بار)

میں نہ تو رسولو ں کا عقیدہ لکھ رہی ہوں اور نہ ہی دعائے ربانی ، میں Hail Mary  میں درج فرشتے کا سلام اور  سلام ائے ملکہ کے الفاظ درج کر رہی ہوں کیونکہ پھر ہم کلام کی آیات سے غور کریں گے کہ کیا کلام ہمیں اس قسم کی ہدایات دیتا ہے۔

فرشتے کا سلام؛

سلام ائے مریم پُر فضل خداوند تیرے ساتھ ہے۔ تو عورتوں میں مبارک ہے اور مبارک ہے تیرے پیٹ کا پھل یسوع۔ ائے مقدسہ مریم خدا کی ماں ہم گناہگاروں  کے واسطے دعا کر اب اور ہماری موت کے وقت۔

سلام ائے ملکہ؛

 سلام ائے ملکہ رحم کی ماں، ہماری زندگی، ہماری شیرینی اور ہماری امیدتجھے سلام۔ ہم حوا کے جلاوطن فرزند تیرے آگے چلتے ہیں اس آنسوں کی وادی میں، ہم روتے ماتم کرتے ہوئے تیرے سامنے آہ کھینچتے ہیں، پس ائے ہماری وکیلہ، ہماری طرف اپنی رحم کی نگاہ کر۔ اس جلاوطنی کے بعد ہم کو اپنا رحم کا پھل یسوع دِکھلا۔ ائے رحم دل، ائے مہربان، ائے شیرین، کنواری مریم

دعا؛

ائے خدا تیرے اکلوتے بیٹے نے اپنی زندگی، موت اور جی اٹھنے سے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی۔ تیری منت کرتے ہیں کہ تو ہی یہ عنایت کر کہ ان بھیدوں پر دھیان و گیان کرنے سے مقدسہ مریم کی اقدس روزری کی شفاعت سے ہم مسیح کے وعدوں کے لائق بن جائیں۔ اسی مسیح ہمارے خداوند کے وسیلے سے۔

فرشتے کے سلام کی بات کرتے ہوئے رومن کیتھولک چرچ کی تعلیم ہے کہ لوقا  1:28 میں جبرائیل فرشتے نے  مریم کو یہ کہا تھا اور الیشبع نے لوقا 1:42 میں مریم کو عورتوں میں مبارک اور اسکے پیٹ کے پھل کو مبارک کہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں  کہ یہ سچ ہے مگر کیا کلام نے یہ بھی کہا تھا وہ گناہگاروں کے واسطے دعا کرے؟  رومن کیتھولکس سے گذارش ہے کہ برائے مہربانی مجھے اپنے  مذہب کے دفاع میں  1  تیمتھیس 2:1 سے 4 کی آیات نہ پیش کریں کہ  کلام کہتا ہے کہ ایک دوسرے  کے لئے مناجاتیں اور التجائیں اور شکر گذاریاں پیش کی جائیں۔ یہ  حکم انکے لئے نہیں ہے جو کہ خداوند میں سو رہے ہیں بلکہ ان کے لئے ہے جو ابھی زندہ ہیں؛  اور نہ ہی مکاشفہ 5:8 کی آیت پیش کریں کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ان چوبیس بزرگوں  میں مریم بھی شامل ہے۔

سلام ائے ملکہ میں اسکو رحم  کی ماں، "ہماری زندگی اور ہماری شیرینی  اور ہماری امید” پکارا گیا ہےمگر کلام تو کچھ اور ہی بیان کرتا ہے۔  ان چند آیات کو پڑھیں اور سوچیں  کہ زندگی اور امید کس کی طرف سے ہے؛

یوحنا 3:16

کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

یوحنا 3:36

جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسکی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھیگا بلکہ اس پر خدا کا غضب رہتا ہے۔

یشوعا نے یوحنا 6:40 میں کہا؛

کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اس پر ایمان لائےہمیشہ کی زندگی پائے اور میں اسے آخری دن پھر سے زندہ کروں۔

یوحنا 11:25

 یسوع نے اس سے کہا قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ  رہیگا۔

یوحنا 14:6

یسوع نے اس سے کہا راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔

1 یوحنا 4:9

جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اسکے سبب سے زندہ رہیں۔

ہم یشوعا کے سبب سے زندگی پاتے ہیں نہ کہ مریم کے ذریعے سے کیونکہ وہ ہماری زندگی نہیں۔  اب چند آیات امید پر بھی دیکھ لیں؛

یرمیاہ 17:7

مبارک ہے وہ آدمی جو خداوند پر توکل کرتا ہے اور جسکی امید گاہ خداوند ہے۔

زبور 71:5

کیونکہ ائے خداوند خدا! تو ہی میری امید ہےلڑکپن سے میرا توکل تجھ ہی پر ہے۔

زبور 84:12

ائے لشکروں کے خداوند! مبارک ہے وہ آدمی جسکا توکل تجھ پر ہے۔

رومیوں 15:13

پس خدا جو امید کا چشمہ ہے تمہیں ایمان رکھنے کے باعث ساری خوشی اور اطمینان سے معمور کرے تاکہ روح القدس کی قدرت سے تمہاری امید زیادہ ہوتی جائے۔

کلام مقدس ہمارے لیے شیرین ہے کیونکہ زبور 119:103 میں لکھا ہے؛

تیری باتیں میرے لیے کیسی شیرین ہیں! وہ میرے منہ کو شہد سے بھی میٹھی معلوم ہوتی ہیں۔

کلام کے مطابق خداوند رحیم ہے (استثنا 4:31،  زبور 103:8،  زبورہ 145:8) اور اسکی طرح اور کوئی نہیں۔آیات تو میں بہت سی اور بھی درج کر سکتی ہوں مگر شاید آپ کو ان چند آیات سے سمجھ آ گئی ہوگی کہ ہماری زندگی اور ہماری امید خدا ہے وہی رحیم خدا ہے اور اسکا کلام ہے  جو ہمارے لئے شیرین ہیں۔  میں نے پورے کلام میں ایک حوالہ بھی نہیں پڑھا جو آسمان کی ملکہ کو ایسے بیان کرے ،مگر روزری پڑھتے ہوئے ہر تین تین بار یا پھر دس دس بار آپ اسے اپنی زندگی اور اپنی امید پکار رہے ہیں۔   اور اگر کلام کے مطابق خدا  ہمارے آنسوؤں کو مشکیزہ میں رکھتا ہے تو  پھر آسمان کی ملکہ کے آگے کیوں  رونا اور ماتم کرنا واجب ہے؟ زبور 56:8 میں یوں لکھا ہے؛

تو میری آوارگی کا حساب رکھتا ہے۔ میرے آنسوؤں کو اپنے مشکیزہ میں رکھ لے۔ کیا وہ تیری کتاب میں مندرج نہیں ہیں؟

خداوند کو ہماری دعائیں  اور آہ و نالہ سننے کے لئے آسمان کی ملکہ کے آگے منتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔  سلام ائے ملکہ میں  آسمان کی ملکہ کو  "وکیلہ” پکارا گیا ہے۔  آپ کو اتنا تو علم ہوگا کہ "وکیل/وکیلہ” کا  قاضی کے آگے کیا کردار ہوتا ہے۔  کلام کی رو سے یشوعا ہمارا وہ وکیل ہے جو کہ باپ کےاور ہمارے درمیان،   ہماری فریادوں کو پیش کرتا ہے۔ (میں اسکی تشریح اپنے نئے عہد نامے کے مطالعے میں تفصیل سے کرونگی) 1 تیمتھیس 2:5 میں لکھا ہے؛

کیونکہ خدا ایک ہےاور خدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔

ہمیں اپنے لئے کسی اور وکیل یا وکیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ عبرانیوں 12:24 میں یشوعا کے فدیہ کے حوالے سے کلام کہتا ہے؛

اور نئے عہد کے درمیانی یسوع اور چھڑکاؤ کے اس خون کے پاس آئے ہو جو ہابل کے خون کی نسبت بہتر باتیں کہتا ہے۔

اگر آپ نے کلام میں قائن اور ہابل کی کہانی پڑھی ہے تو آپ کو علم ہوگا کہ جب قائن نے اپنے بھائی کا قتل کیا تو خداوند نے قائن سے کہا کہ ہابل کا خون خدا کو پکارتا ہے۔ یشوعا سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی بہتر وکیل نہیں ہے۔

روزری  پڑھتے ہوئے جو آخری دعا میں نے اوپر درج کی ہے اس میں لکھا ہے "روزری کی شفاعت” سے ۔ میرا نہیں خیال کہ مجھے آپ کو اب اس سے زیادہ اور اس بارے میں سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ  کلام میں یشوعا نے کہا  (یوحنا 14:13):

جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کرونگا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔

یوحنا 15:16 میں اسی کو کچھ ایسے کہا؛

تم نے مجھے نہیں چنا بلکہ میں نے تمہیں چن لیا اور تمکو مقرر کیا کہ جاکر پھل لاؤ اور تمہارا پھل قائم رہے تاکہ میرے نام سے جو کچھ باپ سے مانگو وہ تمکو دے۔

آپ کو روزری کی شفاعت کی ضرورت نہیں۔ یشوعا کا نام تما ناموں سے بڑھ کر ہے(فلپیوں 2:9 سے 11)۔ رومن کیتھولک ٹی وی چینل والوں نے کہا کہ روزری کی شکتی/قوت بیان سے بڑھ کر ہے۔ پتہ نہیں کیوں ان لوگوں کو احساس نہیں ہوتا کہ ایسا کہہ کر وہ خدا کے خلاف کفر بک رہے ہیں۔

رومن کیتھولک چرچ کے کہنے مطابق آسمان کی ملکہ کے 15 وعدے ہیں  جو وہ ان سے پورے کرتی ہے جو روزری کو پڑھتے ہیں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ کلام میں اس قسم کا کوئی ذکر نہیں ہے کیونکہ یہ آسمان کی ملکہ کے الفاظ ہیں نہ کہ کلام مقدس کے۔ میں ان وعدوں کویہاں  نہیں بیان کر رہی جیسا کہ میں نے کہا اگر آپ نے اپنی تسلی کرنی ہے تو آپ خود روزری پڑھنے کی گائیڈ سے ان کو دیکھ سکتے ہیں اور اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ کیا یہ خدا کے کلام کے خلاف کفر نہیں۔ روزری کا پڑھنا خدا کے نام کے جلال کے لئے نہیں بلکہ آسمان کی ملکہ کے جلال کے لئے ہے۔ اگر کوئی رومن کیتھولک مجھے یہ کہے کہ ان وعدوں میں  یہ کہا گیا ہے کہ "وہ جو کہ روزری کو پڑھتے ہیں میرے فرزند ہیں اور بھائی ہیں میرے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کے”؛ تو آپ ہی بتائیں کہ ہر زبان میں یسوع کا نام مختلف کیوں ہے۔ اگر آپ کا نام تمام زبانوں میں ایک ہے تو اسکا بھی ویسا کیوں نہیں ہے؟ یسوع مسیح، مریم کا اکلوتا بیٹا نہیں تھا وہ  تو خدا کا اکلوتا بیٹا تھا کلام کے مطابق،  مریم کے اور بھی بیٹے اور بیٹیاں تھیں جنکے بارے میں کلام میں درج ہے (متی 12:46 سے 47، متی 13:55، مرقس 6:2 سے 3، یوحنا 2:12، اعمال 1:14)۔  آسمان کی ملکہ کا اکلوتا بیٹا ہے مگر کلام کی مریم کا نہیں۔ کیونکہ متی 1:24 سے 25 کے مطابق یوسف نے  مریم سے تب تک کوئی جسمانی رشتہ نہیں رکھا تھا جب تک کہ یشوعا پیدا نہ ہوگیا۔

رومن کیتھولک چرچ کی تعلیم انسانی احکامات پر مشتمل ہے۔ شیطان جھوٹ کو سچ ہی بنا کر پیش کرتا ہے اور یہی رومن کیتھولک چرچ کر رہا ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنا کر آسمان کی ملکہ  کے آگے جھکنے اور اس سے دعائیں مانگنے اور اسکے کئے ہوئے وعدوں پر یقین کرنے کا کہہ کر خدا کے کلام کی سچائی سے دور اور دوزخ کی آگ کے قریب پھینک رہا ہے تاکہ وہ نجات جو انھوں نے یشوعا میں پائی اس کو کھو دیں۔ میں نے یہ مختصر سا آرٹیکل لکھ کر سچائی کو پیش کیا ہے۔ رومن کیتھولک چرچ کی رسموں کو خدا حافظ کہہ کر یشوعا میں زندگی پانے یا نہ پانے کا فیصلہ آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ آپ انسان اور خدا دونوں کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر نجات پا کرخدا میں قائم رہنا ہے تو انسانوں کو تو ناخوش کریں گے مگر یشوعا میں ہمیشہ کی زندگی کے وارث ضرور بن جائیں گے۔

میں اپنے اس آرٹیکل کو اسی دعا کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ خداوند خدا خود آپ کی اپنے کلام سے راہنمائی کرے کہ آسمان کی ملکہ اور مقدسہ مریم ایک نہیں ہے اور یہ کہ مریم کے مجسمے یا پھر کسی اور سینٹ مجسمے کے آگے جھکنا اس سے دعائیں مانگنا اور روزری کو پڑھنا خدا کے خلاف کفر بکنا ہے۔خداوند یہوواہ آپ  کو بت پرستی کی لعنت سے چھڑائے اور آپ کی تمام ناراستی سے پاک کر کے سچائی کی طرف لائے، یشوعا کے نام میں۔ آمین




مسیحی سبت کا دن  ہفتہ یا اتوار

میں کافی عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہ رہی تھی  کیونکہ یہ واحد حکم ہے جسکے لیے لکھا ہے؛

خروج 20:9

یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔

جس حکم کو یاد کرکے پاک ماننے کا کہا گیا ہے اسکو بھلانے میں مسحیوں نے زیادہ وقت نہیں لگایا ہے۔  پورا حکم کلام میں اس طرح سے درج ہے (خروج 20:9 سے 11)؛

یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کرکے اپنے سارے کام کاج کرنا۔ لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چوپایہ نہ کوئی مسافر جو تیرے ہاں تیرے  پھاٹکوں کے  اندر ہو۔ کیونکہ خدا وند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اسلئے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔

اسی حکم کو آپ استثنا 5:12 سے 15 میں بھی پڑھ سکتے ہیں جہاں لکھا ہے؛

تو خداوند اپنے  خدا کے حکم کے مطابق سبت کے دن کو پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کر کے اپنا سارا کام کاج کرنا۔ لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے۔ اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا بیل نہ تیرا گدھا نہ تیرا کوئی اور جانور اور نہ کوئی مسافر جو تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو تاکہ تیرا غلام اور تیری لونڈی بھی تیری طرح آرام کریں۔ اور یاد رکھنا کہ تو ملک مصر میں غلام تھااور وہاں سے خداوند تیرا خدا اپنے زور آور ہاتھ اور بلند بازو سے تجھ کو نکال لایا۔ اسلئے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو سبت کے دن کو ماننے کا حکم دیا ہے۔

مجھے علم ہے کہ بہت سے مسیحی کہتے ہیں کہ ہم اب شریعت کے ماتحت نہیں اسلئے سبت کا پاک رکھنا لازمی نہیں  کیونکہ یسوع نے کہا (مرقس2:27 سے 28)؛

 اور اس نے ان سے کہا سبت آدمی کے لئے بنا ہے نہ آدمی سبت کے لئے۔ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔

اور وہ جو کہ جانتے ہیں کہ سبت شریعت کے دیے جانے سے پہلے ہی پاک مانا جاتا تھا تو وہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اتوار کو سبت کا دن پاک مانیں۔ مگر کیا اتوار سبت کا دن ہے؟

مسیحی چرچوں میں  ویسے تو اس بات کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے کہ اتوار سبت کا دن ہے کیونکہ ہر کوئی اتوار کو ہی سبت کا دن تسلیم کرتا ہے مگر اگر کوئی غلطی سے کلام میں سے سوال کر بھی لے تو ہمارے پادری صاحبان انکو سمجھاتے ہیں کہ یسوع مسیح ہفتے کے پہلے دن جی اٹھا تھا اور نئے عہد نامے میں رسولوں نے   ہفتے کے پہلے دن مل بیٹھنا شروع کر دیا تھا (اعمال 20:7) اسلئے اب ہمیں ایسا کرنا فرض ہے۔   یہ کلام کی غلط تشریح ہے۔  کلام میں کہیں پر بھی سبت کا دن تبدیل کر کے ہفتے کا پہلا دن نہیں رکھ دیا گیا تھا۔ ان باتوں کے ثبوت کے لئے میرے ساتھ ان آیات کا مطالعہ کریں۔

کلام میں پیدائش 2:2 سے 3 میں لکھا ہے؛

اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن فارغ ہوا۔ اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا کیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا فارغ ہوا۔

خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔  مقدس ٹھہرانے کا مطلب آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انھیں عام سے الگ کر دیا گیا ہے   تاکہ خاص باتوں/چیزوں کے لئے استعمال ہو سکیں۔ ہفتے کے سات دن ہوتے ہیں مگر چھ دن کے بعد ساتویں دن کو خدا نے الگ کر دیا۔ خدا نے نہ صرف ساتویں دن کو برکت دی بلکہ اسے پاک بھی ٹھہرایا۔  پرانے عہد نامے میں آپ کو کیلنڈر کچھ ایسا ملے گا؛ پہلے ہفتے کے پہلے دن، یا پہلے مہینے کے ساتویں دن  وغیرہ وغیرہ۔ آپ مثال کے لئے احبار 23 باب کو پڑھ سکتے ہیں۔  اگر آپ پیدائش کے 1 باب سے کلام کو پڑھنا شروع کریں گے تو آپ جانیں گے کہ سبت کا دن تمام باتوں اور اشیا میں پہلا ہے جس کو  خدا نے  مقدس ٹھہرایا۔

خداوند نے  موسیٰ کو احبار 23:1 سے 3 میں ایسے حکم دیا؛

اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ۔ بنی اسرائیل سے کہہ کہ خداوند کی عیدیں جنکا تمکو مقدس مجمعوں کے لئے اعلان دینا ہوگا میری وہ عیدیں یہ ہیں۔ چھ دن کام کاج کیا جائے پر ساتواں دن خاص آرام کا اور مقدس مجمع کا سبت ہے۔ اس روز کسی طرح کا کام نہ کرنا۔ وہ تمہاری سب سکونت گاہوں میں خداوند کا سبت ہے۔

 اوپر آیت میں جہاں پر اردو کلام میں لفظ "عیدیں” لکھا ہے وہ عبرانی زبان میں "مویدیم،  מוּאדם ،  Moedim” جو کہ مقرر کردہ وقت کو بیان کرتا ہے۔سبت خداوند کا مقرر کردہ دن ہے نہ کہ یہودیوں کا۔  خداوند نے سبت کو اپنی عید کہا ہے۔  مجھے کچھ ان لوگوں کا بھی علم ہے  جو کہ کہتے ہیں کہ سبت  سوموار کو پڑ رہا ہے یا پھر ہفتے کے کسی اور دن۔ وہ ایسا  نئے چاند کے نظر آنے  کے مطابق یا پھر کچھ اور وجوہات کی بنا پر  بیان کرتے ہیں۔ جہاں تک اور جتنی ابھی تک مجھے کلام کی سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ سبت کا  نئے چاند کا نظر آنے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ خداوند نے جب آسمان اور زمین کو بنایا تھا تو اس نے چھ دن کے کام کے بعد ساتواں دن آرام کا ٹھہرایا تھا  یعنی وہ وقت جب کہ اجرام فلکی کو تخلیق میں آئے  تین دن ہوئے تھے۔ اسلئے میں ان علما کی  سبت کی اس تعلیم کو رد کرتی ہوں۔

سبت ہفتہ نہیں بلکہ اتوار ہے۔:

زیادہ تر مسیحی علما جن کی بنیاد توریت کی تعلیم پر نہیں ہے وہ کلام سے کچھ آیات دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ پرانے عہد نامے کا سبت ہفتہ تھا مگر نئے عہد نامے کا سبت اتوار ہے کیونکہ مسیح اس دن جی اٹھا تھا۔   میں  ایک  ویب سائٹ کا لنک دے رہی ہوں جس میں انھوں نے  11 وہ آیات دی ہیں جس کے مطابق وہ سیونتھ ڈے ایڈ وینٹسٹ Seventh Day Adventist, کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ کی تمام تعلیم سے متفق نہیں  مگر وہ سبت کے دن کو ہفتہ مانتے ہیں اور انکی اس تعلیم سے میں متفق ہوں۔  یہ ویب سائٹ https://carm.org/religious-movements/seventh-day-adventism/scriptures-dealing-first-day-week جو کہ  ان آیات کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اب شریعت کے ماتحت نہیں ہیں اسلئے ہفتے کو سبت کا دن پاک نہ ماننے کی ضرورت نہیں  ، مسیحیوں کو  خدا کی سچی تعلیم سے گمراہ کرنے میں کوشاں ہے۔  انھوں نے یہ آیات اپنی دلیل میں دی ہیں ان آیات کو کلام میں سے دیکھیں اور خود بھی میری ان باتوں پر غور کریں؛

  • یسوع ہفتے کے پہلے دن مردوں میں سے جی اٹھا (متی 28:1 سے 7، مرقس 16:2 اور 9، لوقا 24:1 اور یوحنا 20:1):

کیا خدا نے چھ دن کام کرنے کے بعد ساتواں دن آرام نہیں کیا تھا؟ سبت والا دن خداوند نے آرام کا ٹھہرایا ہے۔ یشوعا اپنے آسمانی باپ خداوند یہوواہ کے اس حکم کی فرمانبرداری ہی کر رہا تھا ۔ وہ کلام کے مطابق شریعت کو پورا کر رہا تھا، ساتواں دن آرام کا تھا  اسلئے وہ سبت ختم ہونے کے بعد پہلے دن  جو کہ ہفتے کی شام سے اتوار کی شام تک بنتا ہے ، جی اٹھا تھا۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ عورتیں  منہ اندھیرے اسکی  قبر پر آئیں تھیں  جب انھوں نے یشوعا کو وہاں نہیں پایا تھا (یوحنا 20:1)، یہ کہنا غلط نہیں کہ یشوعا ہفتے کی شام کو سبت ختم ہونے کے بعد جی اٹھا تھا  نہ کہ اتوار کی صبح ۔

  • یسوع اپنے شاگردوں پر ہفتے کے پہلے دن ظاہر ہوا تھا (یوحنا 20:19):

اس آیت میں لکھا ہے "پھر اسی دن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو۔”  مجھے اس آیت میں یہ نظر نہیں آ رہا کہ خدا نے اپنے حکم   "سبت کے دن کو پاک ماننا” بدل کر اتوار رکھ دیا ہے۔

  •  یسوع اپنےگیارہ  شاگردوں پر  آٹھویں دن پھر سے ظاہر ہوا جب وہ کمرے میں  تھے ۔ یہودیوں کے دن گننے کے مطابق یہ پھر سے ہفتے کا پہلا دن تھا (یوحنا 20:26):

میری دلیل پھر سے وہی ہے کہ کہاں پر اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ خداوند نے نئے عہد نامے میں سبت کے دن کو بدل کر اتوار کر دیا ہے۔

  • روح القدس ہفتے کے پہلے دن، پینتکوست کو نازل ہوئی (احبار 23:16، اعمال 2:1):

مجھے سوچ کر ہنسی آ رہی ہے کہ ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ پینتکوست  کے دن کیسے گننا ہوتے ہیں اور یہ کہ یہ پہلی بار نہیں کہ شوعوت یعنی پینتکوست/عید خمسین اتوار کو پڑی تھی۔(آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں https://www.hebcal.com/holidays/shavuot)۔   اس آیت میں  جو بات قابل غور ہے وہ پینتکوست ہے کہ یشوعا نے اس عید کو کیسے کلام کی رو سے پورا کیا۔ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ سبت اب بدل کر اتوار ہو گیا ہے۔

  • پطرس نے پہلا پیغام ہفتے کے پہلے دن دیا تھا (اعمال 2:14):

 میں اس بارے میں بھی کیا کہوں انکی دی ہوئی تمام آیات یہ ہر گز ثابت نہیں کرتیں کہ سبت کا دن بدل کر اتوار ہوگیا ہے۔ پطرس نے پینتکوست والے دن جب یہودی لوگ خدا کے حکم کے مطابق شوعوت کے لئے ہیکل میں موجود تھے اور جب  یشوعا کو مسیحا ماننے والوں پر خداوند کا روح القدس نازل ہوا تھا تو پطرس نے ان لوگوں کے سوالوں کے جواب میں اپنی گواہی دی تھی اور انھیں مسیحا کی خوشخبری دی تھی۔ آپ اعمال 2 باب پورا خود بھی پڑھ سکتے ہیں۔

  • تین ہزار لوگ ہفتے کے پہلے دن کلیسیا میں شمار ہوئے تھے (اعمال 2:41)
  • تین ہزار لوگوں نے ہفتے کے پہلے دن بپتسمہ پایا تھا (اعمال 2:41):

میری دلیل ابھی بھی وہی ہے کہ یہ آیات ہر گز ثابت نہیں کرتیں کہ خداوند نے اپنے سبت کا دن بدل دیا ہے۔ آپ میرے عید پینتکوست/خمسین/شوعوت پر لکھا آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے یشوعا نے شریعت کے مطابق عید پینتکوست  کو پورا کیا https://backtotorah.com/?p=737 ۔

  • مسیحی ہفتے کے پہلے دن روٹی توڑنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔
  • مسیحیوں نے پولس کا پیغام ہفتے کے پہلے دن سنا (اعمال 20:7) نوٹ: آدھی رات تک کا ریفرنس ہے جو کہ یہودیوں کے دن گننے کا طریقہ کار نہیں بلکہ رومن کا طریقہ کار ہے۔:

میں چونکہ میسیانک یہودیوں کی عبادت میں شامل ہوتی ہوں اسلئے یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی اس رسم کو اچھی طرح جانتی ہوں جس کو "حودالاہ،  הַבְדָּלָה، Havdalah” کہتے ہیں۔ ہمارا سبت جمعے کی شام سے ہفتے کی شام تک ہوتا ہے۔ سبت کے آخر میں "حودالاہ” کی رسم ہوتی ہے جس میں شام کا کھانا اور مے کا پینا  ہوتا ہے۔ عموماً ہفتے کا پہلا دن شروع ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ یہ سبت کے آخر یعنی  ہفتے کی شام کی رسم ہوتی ہے۔ ہفتے کی شام سے پہلا دن شروع ہو رہا ہوتا ہے۔ پولس انکے ساتھ تھا اور چونکہ وہ سب "حودالاہ” کی رسم کے لئے اکٹھے تھے اور پولس کو اگلے دن سفر پر جانا تھا اسلئے وہ ان سے آدھی رات تک باتیں کرتا رہا۔یہاں پر بات رومن کیلنڈر کے مطابق نہیں بلکہ عبرانی کیلنڈر کے مطابق ہو رہی ہے اسلئے  ان باتوں کو عبرانی کیلنڈر کو مدنظر میں رکھ کر سوچیں۔  بات وہی آ جاتی ہے کہ یہ آیات ہفتے کا پہلا دن بدل کر اتوار ہو جانے کی نشاندہی نہیں کرتا ہے۔

  • پولس نے کلیسیا کو تاکید کی کہ چندہ ہفتے کے پہلے دن الگ کر دیا جائے (1 کرنتھیوں 16:2):

 باقی تمام آیات کی طرح یہ آیت بھی اس بات کو ثبوت نہیں کہ خداوند نے اپنا سبت کا دن بدل ڈالا۔

  • یسوع نے یوحنا کو مکاشفہ ہفتے کے پہلے دن دیا (مکاشفہ 1:10):

انھیں علم نہیں ہے کہ خداوند کا دن کس کو کہتے ہیں۔   آپ حنین وقاص خان کا لکھا آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں جس میں انھوں نے "خداوند کے دن” کو بیان کیا ہے۔ https://backtotorah.com/?p=47

یہ حوالے تو میں نے اس ویب سائٹ سے  دئے ہیں۔ اب وہ لوگ جو کہ کلسیوں 2:16 کو اپنی اس بات کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ؛

پس کھانے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے۔

ذرا اس سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیں جس میں لکھا ہے

2:17

کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہے۔

(مجھے توریت کو شریعت کہنا زیادہ پسند نہیں۔ آپ کی سمجھ کی خاطر اسے شریعت لکھتی ہوں۔ کیونکہ توریت کے معنی "شریعت” ہرگز نہیں۔ یہ اسکا غلط ترجمہ ہے۔)    یہ بات میں پہلے بھی کسی آرٹیکل میں کہہ چکی ہوں کہ آپ تو  شریعت کے مطابق کھانے پینے یا خدا کی عیدوں یا نئے چاند یا سبت  کو نہیں مناتے۔ پولس یعنی ربی شاؤل یہ ان لوگوں سے نہیں کہہ رہا تھا جو کہ شریعت یعنی توریت کی ان باتوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ربی شاؤل یعنی پولس ان لوگوں سے مخاطب تھا جو کہ ان باتوں پر عمل کرتے تھے ۔  عام مسیحی ہم میسیانک یہودی  لوگوں پر ان باتوں کے سبب سے الزام لگاتے ہیں۔ اور میری نظر میں یہ بھی آیت اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ خداوند کا دن "سبت” بدل کر اتوار ہوگیا ہے۔  وہ مسیحی جو کہ ساتھ ہی میں مرقس 2:27 سے 28 کو اپنے اس مقصد کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ابن آدم یعنی یسوع سبت کا مالک ہے تو انھیں تھوڑا سا اپنی عقل کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔  یشوعا مرقس 2:28 کے حوالے میں ان فریسیوں سے مخاطب تھا جو کہ  اسکے شاگردوں پر سبت کو توڑنے کا الزام لگا رہے تھے۔ توریت میں اس طرح سے بالیں توڑنے کر کھانے سے منع نہیں کیا گیا۔ یہ فریسیوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول تھے جن پر وہ لوگوں کو سختی سے چلنے کی تعلیم دیتے تھے۔ فریسی وہ لوگ تھے جو کہ خداوند کی توریت سے زیادہ سختی سے تلمود پر عمل کرتے تھے۔ اگر آپ کو نہیں علم کہ تناخ اور تلمود میں کیا فرق ہے تو اسکے لئے میرا  یہ آرٹیکل https://backtotorah.com/?p=716 پڑھیں۔  یشوعا انکو سمجھا رہا تھا کہ وہ سبت کا مالک ہے بالکل  ویسے ہی جیسے کہ ہم نے اوپردئے ہوئے  احبار 23 کے حوالے میں دیکھا کہ سبت یہوواہ کا مقرر کردہ دن ہے ۔  یشوعا ساتھ ہی میں  انکو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ سبت کو خدا نے آدمیوں کے لئے بنایا ہے مگر آدمی کو سبت کے لئے نہیں۔ مطلب سادہ سا ہے کہ خدا نے انسان کو سبت کا آرام دیا تھا اسکو بوجھ بنا کر اس پر نہیں رکھا تھا۔ اور فریسی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے سبب سے لوگوں  پر روحانی بوجھ ڈالنے والوں میں سے تھے۔   جو سادہ سی بات میں آپ کو اگر واضح نہیں کر پا رہی تو میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ پر اسکو واضح کرے۔

شاید آپ مجھے رومیوں 14:5 سے 6 کا حوالہ پیش کر کے کہنا چاہیں کہ مسیحیوں کے لئے سبت کی کوئی پابندی نہیں۔ برائے مہربانی پورے باب کو دھیان سے پڑھیں۔ یہاں پر کمزور ایمان والے اور مظبوط ایمان والے کی بات چل رہی ہے۔  خداوند کا دن سبت بدل کر اتوار ہو جانے کی بات نہیں ہو رہی ہے۔  یا پھر شاید آپ کے ذہن میں گلتیوں 4:9 سے 10 آیات ہوں۔ کیا آپ کو علم ہے کہ پولس  نے کس بات پر گلتیوں کی کلیسیا کو یہ خط لکھا تھا؟ کلام کی آیات کو تروڑ مروڑ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال نہ کریں۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ توریت ، بائبل کے باقی تمام صحیفوں کی بنیاد ہے۔ اگر آپ دس حکموں پر عمل کرتے ہیں تو کیا "یاد کرکے سبت کے دن کو پاک ماننا” دس حکموں میں سے ایک نہیں؟ کیا آپ صرف سبت کے دن کو پاک ماننے کو شریعت کا حصہ کہہ کر رد کر  سکتے ہیں؟

نئے عہد نامے میں بارہا ہم رسولوں کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ سبت والے دن  عبادت گاہ میں تھے۔ سبت والا دن  صرف خدا کی عبادت ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ اس دن کلام کو  اور گہرائی میں سیکھا جاتا تھا۔ تمام یہودی اور میسیانک یہودی عبادت گاہوں میں آج بھی عبادت کے علاوہ  کچھ اور وقت کلام کو سیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔  ہمیں انھی موقعوں پر رسولوں کا عبادت گاہ میں یہودیوں کے ساتھ بحث کا ذکر نظر آئے گا۔  نئے عہد نامے کے رسول ، خدا کے حکم کے مطابق مقدس مجمع کا  ہر سبت کو حصہ بنتے تھے۔ آپ اعمال کی کتاب میں جہاں جہاں سبت لکھا ہوا ہے اسکو نوٹ کر سکتے ہیں کہ اعمال 2 باب کے بعد بھی کافی دفعہ رسول سبت کے دن عبادت گاہ میں تھے کیونکہ انھیں علم تھا کہ سبت کا دن بدل کر پہلا دن نہیں ہوگیا ہے۔

اپنا کیلنڈر  بھی دیکھیں کہ کیا ہفتے کا آخری دن ہفتہ ہے یا اتوار؟  اگر خداوند نے نہیں کہا کہ "اب سبت ہفتے کی جگہ اتوار ہے تو پھر سبت کا دن کلام کے مطابق کونسا بنے گا؟ پورے نئے عہد نامے کو تسلی سے پڑھیں تاکہ خود بھی جان سکیں کہ نئے عہد نامے میں کہیں پر بھی خدا نے سبت کا دن نہیں بدلا ہے۔

مسیحیوں کو سبت کا دن  "جمعے کی شام سے ہفتے کی شام تک” کیوں پاک ماننا چاہئے:

یسعیاہ 56:2 میں لکھا ہے ؛

مبارک ہے وہ انسان جو اس پر عمل کرتا ہےاور وہ آدمزاد جو اس پر قائم رہتا ہے جو سبت کو مانتا اور اسے ناپاک نہیں کرتا اور اپنا ہاتھ ہر طرح کی بدی سے پاک رکھتا ہے۔

میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ تمام اشیا میں  سب سے پہلے خدا نے سبت کو مقدس ٹھہرایا تھا۔ خداوند نے کہا خروج 31:12 سے 17 میں؛

اور خداوند نے بنی اسرائیل سے کہا۔ تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دینا کہ تم میرے سبتوں کو ضرور ماننا۔ اسلئے کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان تمہاری پشت در پشت ایک نشان رہیگا تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہارا پاک کرنے والا ہوں۔ پس تم سبت کو ماننا اسلئے کہ وہ تمہارے لئے مقدس ہے۔ جو کوئی اسکی بے حرمتی کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم سے کاٹ ڈالا جائے۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن آرام کا سبت ہے جو خداوند کے لئے مقدس ہے۔ جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ پس بنی اسرائیل سبت کو مانیں اور پشت در پشت اسے دائمی عہد جانکر اسکا لحاظ رکھیں۔ میرے اور بنی اسرائیل کے درمیان یہ ہمیشہ کے لئے ایک نشان رہیگا اسلئے کہ چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کرکے تازہ دم ہوا۔

آپ لوگوں کی اردو میری اردو سے یقیناً زیادہ اچھی ہوگی۔ آپ کو خود کو علم ہوگا کہ "دائمی” اور پشت در پشت” جیسے الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ سبت خدا کے لوگوں کا نشان ہے جو خداوند اور انکے بیچ میں ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ  کیا آپ خداوند کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں یا کہہ نہیں۔ ہم اس  دائمی نشان کا حوالہ کلام میں سے حزقی ایل 20:12 اور 20 میں بھی دیکھ لیتے ہیں کیونکہ ہر بات دو یا تین کی گواہی سے ثابت کرنا بہتر ہے؛

اور میں نے اپنے سبت بھی انکو دئے تاکہ وہ میرے اور انکے درمیان نشان ہوں تاکہ وہ جانیں کہ میں خداوند انکا مقدس کرنے والا ہوں۔

اور میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔

وہ جو سوچتے ہیں کہ مسیحیوں پر سبت پابند نہیں ہے انھیں کلام کی اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یسعیاہ 66:22 سے 23 میں لکھا ہے؛

خداوند فرماتا ہے جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جو میں  بناؤنگا میرے حضور قائم رہینگے اسی طرح تمہاری نسل اور تمہارا نام باقی رہیگا۔ اور یوں ہوگا خداوند فرماتا ہے کہ ایک نئے چاند سے دوسرے تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے میرے حضور آئیگا۔

نئے آسمان اور نئی زمین پر بھی خداوند کا سبت قائم رہیگا تو پھر اسکو بدلنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔  یشوعا شریعت کے مطابق موا اور سبت  ختم ہونے کے بعد جی اٹھا۔ اس نے شریعت کو پورا کیا اور ابھی سبتوں کے سبت یعنی یوم کیپور کو اپنی دوسری آمد پر پورا کرنا ہے (اسکے لئے میرا "یوم کیپور” کا آرٹیکل پڑھیں۔

سبت کو کیسے پاک رکھنا ہے؟

میں نے جب خداوند کی سبت کو پاک رکھنے کا سوچا تو شروع میں جب مجھے تلمود اور تناخ  کے احکامات   کا اتنا علم نہیں تھا ، مجھے یہ دن پاک رکھنا بوجھ سا لگنے لگا۔ اپنی  چند امریکی میسیانک یہودی دوستوں سے بات کرتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیسے اس دن کو پاک مانتے ہیں کیونکہ اپنی اپاہج بیٹی کی وجہ سے مجھے کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑ  ہی جاتا ہے۔ میری دو دوست جو کہ عمر میں میری ماں کے برابر ہیں، انھوں نے کہا "شازیہ ، خدا نے کلام میں کہیں عورتوں پر یہ پابندی نہیں لگائی کہ بچوں   اور دوسروں کی فکر چھوڑ کر صرف اور صرف اس میں مگن رہنا ہے۔ ابن آدم سبت کا مالک ہے ۔ سبت انسان کے لئے بنا ہے نہ کہ انسان سبت کے لئے۔”میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ رسموں میں اگر خدا نہ ہو تو بس رسم رہ جاتی ہے۔  رسمیں خدا کے حکموں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔  کلام ہمیں  سبت والے دن کوئی کام نہ کرنے کا کہتی ہے۔  کام سے مراد پیسہ بنانے کی نیت ہے یا پھر کوئی ایسا بھاری کام جو کہ ہمیں خدا  کے دن کو پاک ماننے سے دور کر دے۔  اوپر دی ہوئی آیات کو تو آپ ایک بار پھر سے پڑھ سکتے ہیں ، میں خروج 35:1 سے 3 نیچے درج کرنے لگی ہوں۔ اس میں لکھا ہے؛

اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو جمع کرکے کہا جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم خداوند نے تمکو دیا ہے وہ یہ ہیں۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن تمہارے لئے روزِمقدس یعنی خداوند کے آرام کا سبت ہو۔ جو کوئی اس میں کچھ کام کرے وہ مار ڈالا جائے۔ تم سبت کے دن اپنے گھروں میں کہیں بھی آگ نہ جلانا۔

آگ نہ جلانے سے مراد یہ تھی کہ اس دن کھانا نہ پکانا پڑے۔ اگر آپ خروج 16:21 سے 30 پڑھیں گے تو اس میں نظر آئے گا کہ سبت کے دن کی خوراک کو بنی اسرائیل کو سبت سے پچھلے دن جمع کرنا ہوتا تھا کیونکہ سبت کے دن خدا من نہیں برساتا تھا۔  سبت کے دن خاص مجمع کا ذکر تو ہم نے شروع کی آیات میں پڑھا تھا۔ تبھی سبت کے دن عبادت گاہ میں جمع ہونا ہمیں کلام میں بارہا نظر آئے گا۔

یہودی/میسیانک یہودی  کے گھروں میں آپ کو سبت سے متعلق   یہ رسومات عام نظر آئیں گی مگر زیادہ تر رسمیں کلام میں حکم کے طور پر درج نہیں ہیں۔ سبت جمعے کی شام کو سورج ڈھلنے کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے اور اگلے دن  یعنی ہفتے کی شام کو ختم ہوتا ہے۔  عموماً لوگ سبت کی خوشی میں اچھا کھانا پکاتے ہیں اور مے کا انتظام کرتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے اور سبت کے شروع ہونے کے وقت گھر کی عمر میں بڑی عورت  دو موم بتیاں جلاتی ہے اور چھوٹی سی برکت کی دعا مانگتی ہے اور بچوں کو بھی ہاتھ رکھ کر برکت دیتی ہے۔ روایتی یہودی/میسیانک یہودی صدقے کا چھوٹا سا صندوق موم بتیوں کے قریب رکھتے ہیں جس میں وہ عموماً بچوں کو پیسے ڈالنے کے لئے کہتے ہیں۔  مقصد خداوند کے اس حکم پر عمل کرنا ہے کہ  خیرات دی جائے۔ بچوں کی چھوٹی سی عمر میں دوسروں کی مدد کرنے کو سکھانے کے لئے یہ اچھی عادت ہے۔  دعائیہ کتاب سے کچھ دعائیں پڑھی جاتی ہیں یا اپنی ذاتی دعا مانگی جاتی ہے۔ کلام کی آیات کو پڑھنا، حمد و ثنا کے گیت گانا یہ سبت  کا حصہ ہیں۔ کچھ عبادت گاہوں میں آجکل سبت کی عبادت جمعے کی شام کو بھی ہوتی ہے اور کچھ صرف ہفتے کے دن عبادت رکھتے ہیں۔ اسکا مقصد خدا کے حکم کے مطابق  "مقدس مجمع” ہے۔ میں جس میسیانک یہودی عبادت گاہ جاتی ہوں وہاں  ہفتے کی صبح سبت کی عبادت کے بعد اکٹھے دوپہر کا کھانا کھایا جاتا ہے جو کہ کلیسیا کے لوگ مل کر اپنے اپنے گھروں سے لاتے ہیں۔  اس رسم  کو عبرانی میں "اونے(گ)،  עֹ֫נֶג Oneg, ” کہا جاتا ہے اسکے معنی ہیں "مسرت بخش، لطف اندیز، خوشی یا راحت”۔ عبرانی کلام میں یسعیاہ 58:13 میں ہمیں یہ لفظ نظر آتا ہے؛

اگر تو سبت کے روز اپنا پاؤں روک رکھے اور میرے مقدس دن اپنی خوشی کا طالب نہ ہو اور سبت کو راحت اور خداوند کا مقدس اور معظم کہے اور اسکی تعظیم کرے۔ اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دست بردار رہے۔

میں اس سے اگلی آیت بھی آپ کے لئے لکھ رہی ہوں؛

تب تو خداوند میں مسرور ہوگا اور میں تجھے دنیا کی بلندیوں پر لے چلونگا اور میں تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاونگا کیونکہ خداوند ہی کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے۔

اونے(گ)  کے بعد ہر عمر کے لوگوں کی عموماً کسی نہ کسی قسم کی کلاس ہوتی ہے تاکہ کلام کو مزید سیکھا جا سکے۔  حودالاہ کے بارے میں ، میں نے اوپر بھی ذکر کیا تھا کہ سبت کے ختم   ہونے کی رسم ہے۔ ہماری عبادت گاہ میں ، ہم  ہر مہینے کی پہلی سبت پر حودالاہ کی رسم پر اکٹھے ہوتے ہیں ورنہ  ویسے گھروں  میں عموماً سبت کو  حودالاہ کی رسم سے ختم کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے کہ خداوند اگلا پورا ہفتہ اچھا دکھائے وغیرہ وغیرہ۔

میں جانتی ہوں کہ چونکہ ہم بچپن سے ہی ان رسموں پر نہیں چلتے آئے ہیں اسلئے شروع شروع میں جہاں بہت سی باتیں اچھی لگتی ہیں وہیں پر کبھی کبھی یہ بوجھ بھی محسوس ہوتی ہیں۔ آپ سبت کو پاک ماننے کا اردہ کریں خداوند ضرور آپ کی مدد کریگا اور خود اپنے ان احکامات کی اہمیت آپ کو دکھائے گا۔   جیسے میں نے بیان کیا   یہ تمام رسمیں خداوند کے حکموں کا حصہ نہیں ہیں مگر یہی رسمیں ہمیں کلام میں رسولوں کی زندگی کا حصہ نظر آتی ہیں مگر وہ جو کہ ان رسموں کو نہیں جانتے وہ ہمیشہ غلط فہمی کا شکار رہیں گے۔  یہ میرا سبت کے موضوع پر مختصر سا آرٹیکل تھا۔ امید ہے کہ آپ کو میری ان باتوں سے کلام کی باتوں کو پہچاننے میں مدد ملی ہوگی اور آپ اپنے اور خداوند کے درمیان اس دائمی عہد کو مٹننے نہیں دیں گے بلکہ اسے پاک رکھیں گے۔

شبات شلوم! یہ  سبت والے دن کہا جاتا ہے۔ شبات عبرانی میں سبت کو کہتے ہیں اور شلوم کے معنی ہیں "سلامتی”۔ اگر آپ سبت کا دن پاک مانتے ہیں تو اس  اصطلاح کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ جب کوئی آپ کو شبات شلوم کہے تو آپ بھی اس پر سبت کی سلامتی "شبات شلوم ” کہہ کر بھیجیں۔ خداوند آپ کی  اپنا مقدس دن پاک رکھنے میں  خود راہنمائی کرے، یشوعا کے نام میں۔ آمین




(شریعت مسیحیوں کے لئے (دوسرا حصہ

میں نے  "شریعت مسیحیوں کے لئے” کے پہلے حصے میں مجھ سے کئے گئے ایک سوال کا جواب دیا تھا۔  اس حصے میں میں کچھ اور  سوالوں  کا جوب دے رہی ہوں۔  دوسرا سوال یہ تھا؛

2- رسول کس کا پرچار کرتے تھے توریت کا یا مسیح کی تعلیم کا؟

سوال تو سادہ سا ہی ہے اور جواب بھی کوئی خاص مشکل نہیں ہے ۔ رسول چاہے  آپ پرانے عہد نامے کے حوالے سے سوچیں یا کہ پھر نئے عہد نامے کے حوالے سے ، وہ تمام کے تمام خدا کے احکامات کا ہی پرچار کرتے تھے۔ یشوعا (یسوع) نے  یہودیوں سے یوحنا 5:46 میں کہا؛

کیونکہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اسلئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے۔

یشوعا جب مردوں میں سے جی اٹھا  تو وہ اماؤس کی راہ کی طرف جاتے ہوئے ان دو آدمیوں کو نظر آیا جو یروشلیم میں ہوئے اس تمام ماجرے کی بات چیت کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ یشوعا انکے ساتھ ہو لیا اور جب انھوں نے اسکے کہنے پر تمام ماجرا سنایا تو یشوعا ان سے اس طرح سے مخاطب ہوا (لوقا 24:25 سے 27):

اس نے ان سے کہا ائے نادانو اور اور نبیوں کی سب باتوں کو ماننے میں سست اعتقادو! کیا مسیح کو یہ دکھ اٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟ پھر موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کرکے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اسکے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ انکو سمجھا دیں۔

میں نے پچھلے حصے میں بھی یہ ذکر کیا تھا کہ یشوعا اور اسکے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں تھا۔ یہ سوچنا کہ نئے عہد نامے کے رسول تو یشوعا کا پرچار کرتے تھے مگر پرانے عہد نامے کے رسول توریت کا ، تو یہ سراسر حماقت ہے ۔  میں نے پچھلے حصے میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یشوعا وہ کلام ، یعنی توریت ہے جو کہ مجسم ہوا ایسا میں نہیں کہتی  بلکہ یوحنا 1 باب میں لکھا ہے۔  نئے عہد نامے کے رسولوں نے اپنے صحیفوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح سے یشوعا  نے شریعت کو پورا کیا ہے۔  اگر وہ غیر قوموں سے نکلے نئے ایمانداروں سے مخاطب تھے تو ساتھ ہی میں وہ اپنے صحیفوں میں ان سے بھی مخاطب تھے جو کہ شریعت کو جانتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔

زیادہ تر مسیحی صرف اور صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ یشوعا نے توریت اور انبیا کے صحیفوں کو پورا کر دیا ہے اسلئے اس پر عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۔ ہمارے مسیحی چونکہ کافی عرصے سے ان لوگوں کی دی ہوئی تعلیم پر چل رہے ہیں جو نہ تو خود توریت کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں اور نہ ہی  دوسروں کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں کہ توریت کو جانیں، اسلئے افسوس اس بات کا ہے کہ مسیحیوں کو یہ بھی علم نہیں کہ کیا پورا ہوا ہے اور کیا نہیں، اور وہ جو کہ پورا ہوا ہے وہ کس طرح سے پورا ہوا  ہے۔  اگر کوئی صرف میرا ایک آرٹیکل  "عید فسح (https://backtotorah.com/?p=712) کو پڑھے تو انہیں   نئے عہد نامے اور پرانے عہدنامے کے حوالوں سمیت اس کو گہرائی میں جاننے کا موقع مل جائے گا کہ یشوعا (یسوع)  کس طرح سے  ہمارا فسح کا برہ ہے اور اس نے کس طرح سے اس عید کو پورا کیا۔  نئے عہد نامے کے رسول اگر یشوعا کی تعلیم کا پرچار کر رہے تھے تو وہ توریت کے دائرے میں ہی رہ کر ایسا  کر رہے تھے کیونکہ وہ تمام کے تمام وہ یہودی تھے جو کہ توریت  کی تعلیم سے آشنا تھے انہیں اس بات کا علم تھا   کہ خدا نے  اسکی باتوں سے ہٹ کر تعلیم دینے کی کیا سزا مقرر کی ہے۔  استثنا 18:18 سے 22 میں لکھا ہے؛

میں انکے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالونگا اور جو کچھ مین اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہیگا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جنکو وہ میرا نام لیکر کہیگا نہ سنے تو میں انکا حساب لونگا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اسکو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اسکے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بنکر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔

اگر آپ نئے عہد نامے کے رسولوں کی تعلیم کو سمجھ کر پڑھیں تو جانیں گے کہ انھوں نے تقریباً ہر باب میں پرانے عہد نامے کا حوالہ دیا ہے۔ انہیں علم تھا کہ  کل اور آج بلکہ ابد تک خدا یکساں ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا مختلف ہو اور نئے عہد نامے میں مختلف؟

انکا تیسرا سوال یہ تھا؛

3-  رسولوں نے کس کے لئے مصیبتیں سہیں اور جانیں قربان کیں، توریت کی تعلیم کی منادی کے لئے یا مسیح کی منادی کے لئے؟ اعمال 5:28 سے 32:

مجھے یہ سوال اوپر دئے ہوئے دوسرے سوال کا حصہ ہی لگتا ہے اسلئے میں اوپر والے سوال کی زیادہ تفصیل میں نہیں گئی تھی۔  چونکہ اعمال کا حوالہ دیا ہوا ہے اسلئے میں کلام میں سے یہ حوالہ بھی  لکھ دوں۔ اعمال 5:28 سے 32

کہ ہم نے تو تمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی اور اس شخص کا خون ہماری گردن پر رکھنا چاہتے ہو۔ پطرس اور رسولوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔ ہمارے باپ دادا کے خدا نے یسوع کا جِلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔ اسی کو خدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے۔ اور ہم ان باتوں کے گواہ ہیں اور روح القدس بھی جسے خدا نے انہیں بخشا ہے جو اسکا حکم مانتے ہیں۔

 میں دوسرے سوال میں ہی اس بات کا ثبوت دے چکی ہوئی ہوں  کہ یشوعا ہی کلام ہے ۔ نئے عہد نامے کے رسول پرانے عہد ناموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہی یہودیوں  پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یشوعا کس طرح سے مسیحا ہے کیونکہ اعمال 5:42 میں یہ لکھا ہے؛

اور وہ  ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات  کی خوشخبری سنانے سے یسوع ہی مسیح ہے  باز نہ آئے۔

اگر انھیں تاکید کی گئی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا تو اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ یہودی یشوعا کو مسیحا ماننے سے ابھی تک انکار کر رہے تھے اور ہیکل کا  اختیار انکے پاس تھا وہ کسی کو بھی عبادت گاہ میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ ان باتوں کی تعلیم دیں جنکی تعلیم وہ نہیں دے رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے کہ رومن کیتھولک چرچ کے فاردز پروٹسٹنٹ پادریوں کو اپنے چرچ  میں اور پروٹسٹنٹ پادری ، رومن کیتھولک فاردز کو اپنے چرچ میں ہر بار تعلیم دینے سے روکیں گے کچھ ایسا ہی یشوعا کے شاگردوں کے ساتھ ہو رہا تھا۔

نئے عہد کے رسول  یشوعا کے کہنے کے مطابق ہی لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے اور وہ اسکی ان باتوں کے گواہ تھے کیونکہ لوقا 24:44 سے 48 میں ایسے لکھا ہے؛

پھر اس نے ان سے کہا یہ میری وہ باتیں ہیں جو میں نے تم سے اس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہےکہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت ار نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔ پھر اس نے انکا ذہن کھولا تاکہ کتاب مقدس کو سمجھیں۔ اور ان سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دکھ اٹھائیگا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اٹھیگا۔ اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اسکے نام سے کی جائیگی۔ تم ان باتوں کے گواہ ہو۔

پولس نے رومیوں 3:21 میں ایسے کہا؛

مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے جسکی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔

سب کے سب  ہی یشوعا کے گواہ ہیں۔ اگر انھوں نے مصیبتیں اور تکلیفیں سہی ہیں  تو وہ یشوعا کی گواہی کے سبب سے سہی ہیں۔

انکا چوتھا سوال یہ تھا؛

4- موسیٰ کی شریعت کا انجام کیا ہے؟ رومیوں 10:4:

رومیوں 10:4 میں یوں لکھا ہے؛

کیونکہ ہر ایک ایمان لانے والے کی راستبازی کے لئے مسیح شریعت کا انجام ہے۔

میں نے پہلے بھی بہت دفعہ اپنے آرٹیکلز میں ذکر کیا ہے کہ ہم چونکہ ترجمہ پڑھتے ہیں اسلئے بعض اواقات  ہم کلام کا اصل مفہوم سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ اس آیت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ویسے تو مجھے علم ہے کہ میرے آرٹیکلز پڑھنے والوں میں انگلش زبان کوصحیح طور پر  پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد کم ہے مگر میں پھر بھی  کامن جوئیش بائبل (Common Jewish Bible) سےاس  آیت کو انگلش میں بھی دکھا رہی ہوں   تاکہ اگر آپ خود انگلش نہیں بھی پڑھ سکتے تو تب بھی آپ ان سے بھی پوچھ گچھ کر سکیں جو انگلش زبان  کو پڑھنے اور لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ یہ میرا اپنا بیان نہیں ہے۔ اس میں اس آیت کا ایسا ترجمہ کیا گیا ہے؛

Romans 10:4

For the goal at which the Torah aims is the Messiah, who offers righteousness to everyone who trusts.

اس اوپر دی ہوئی آیت میں بھی یہی مفہوم بنتا ہے کہ شریعت کا مقصد  (تیلوس ) ایمانداروں کو مسیح  میں راستبازی سکھانا ہے۔ فٹ بال  یا ہاکی جیسی کھیل میں تو سب کو ہی علم ہے کہ "گول” کا کیا معنی ہے۔ راستباز کی زندگی میں بھی شریعت کا گول مسیح ہے۔   میں جانتی ہوں کہ علما کہتے ہیں کہ رومیوں کی کتاب یونانی زبان میں لکھی گئی ہے اسلئے میں اس لفظ "انجام” کو نئے عہد نام میں درج چند اور آیات میں بھی دکھانے لگی ہوں۔  اس کا یونانی لفظ "تیلوس، Telos ” ہے جسکا معنی "انجام ، پورا،  مقصد  یا پھر آخر” لکھا گیا ہے۔   یونانی نئے عہد نامے میں یہ لفظ 33 بار استعمال ہوا ہے۔ 1 تیمتھیس 1:5 میں  اس لفظ کو ایسے لکھا گیا ہے؛

حکم کا مقصد (تیلوس) یہ ہے کہ پاک دل اور نیک نیت اور بے ریا ایمان سےمحبت پیدا ہو۔

1 پطرس 1:9

اور اپنے ایمان کا مقصد(تیلوس)  یعنی روحوں کی نجات حاصل کرتے ہو۔

بریکٹ میں لکھے ہوئے الفاظ میرے ہیں جو کہ یونانی کلام کے مطابق ہیں اردو میں یہ ایسے نہیں لکھا گیا۔اردو کلام میں  33 میں سے دو بار اس لفظ تیلوس کو "مقصد” ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ کرنے والا اپنی سمجھ کے مطابق جو معنی اسے بہتر لگتا ہے  وہی استعمال کرتا ہے۔  شاید آپ نے مجھے پہلے بھی کہتے ہوئے سنا ہو کہ توریت راستبازوں یعنی خدا کے لوگوں کے لئے ہے ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے تو میں اسے آپ پر اس طرح سے وضاحت کر سکتی ہوں۔  خدا پر ایمان لانے سے پہلے تک راستبازی لازم نہیں  کیونکہ رومیوں 3:28 میں لکھا ہے؛

چنانچہ ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔

مگر ایک بار جب کوئی خدا پر ایمان لے آئے تو پھر اسکا خدا کے حکموں پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ جو کوئی بھی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ اسکے حکموں پر عمل کرتا ہے   ۔ ایسا میں نہیں کلام کہتا ہے 1 یوحنا 5:2 سے 3 میں؛

جب ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اسکے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے فرزندوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ اور خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اسکے حکموں پر عمل کریں اور اسکے حکم سخت نہیں۔

میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوئی ہوں کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں تھا اگر انھیں خدا کے حکموں کا  کسی صورت میں پیدا تھا تو وہ پرانے عہد نامے کی صورت میں تھا ۔ اسکا ثبوت ہمیں رومیوں 15:4 سے بھی  مل جائے گا؛

کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب مقدس کی تسلی سے امید رکھیں۔

1 کرنتھیوں 10:11

یہ باتیں ان پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصحیت کے واسطے لکھی گئیں۔

2تیمتھیس 3:14 سے 17

مگر تو ان باتو ں پر جو تو نے سیکھی تھیں اور جنکا تجھے یقین دلایا گیا تھا یہ جانکر قائم رہ کہ تو نے انہیں کن لوگوں سے سیکھا تھا۔ اور تو بچپن سے ان پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔ ہر ایک  صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئےفائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مرد کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہوجائے۔

پولس کے کہنے کے مطابق یہ یعنی پرانا عہد نامہ ؛ ہماری تعلیم کے واسطے لکھا گیا تاکہ ہم صبر سے امید رکھیں اور نصیحت اور راستبازی میں تربیت  حاصل کریں۔

رومیوں 2:12 سے 13 میں ایسے لکھا ہے؛

اس لئے کہ جنہوں نے بغیر شریعت پائے گناہ کیا وہ بغیر شریعت کےہلاک بھی ہونگے اور جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہوکر گناہ کیا ان کی سزا شریعت کے موافق ہوگی۔ کیونکہ شریعت کے سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔

 شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ ابرہام خدا پر ایمان لایا اور اسکا ایمان اسکے لئے راستبازی گنا گیا(رومیوں 4:3اور پیدائش/تکوین 15:6)۔ یہ سچ ہے مگر جب خدا نے اسے ختنہ کروانے کا کہا تو ابرہام نے خدا کے حکم پر عمل کیا(رومیوں 4:11)  تبھی یعقوب  نے  2:14  اور 17 میں کہا؛

ائے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے؟

اسی طرح ایمان بھی اگر اسکے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات میں مُردہ ہے۔

آپ یعقوب کا 2 باب پورا خود پڑھ کر بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ توریت کی بنیاد پر تمام رسولوں اور انبیا کی تعلیم  اور لکھائی ہے۔ توریت /شریعت اور یشوعا ایک ہی ہیں تبھی عبرانیوں 1:1 سے 3 میں یشوعا کے بارے میں ایسے لکھا گیا ہے؛

اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے۔ اس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جسکے وسیلہ سے اس نے عالم بھی پیدا کئے۔ وہ اسکے جلال کا پرتَو اور اسکی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔

میں اس سوال کے جواب کو یہیں ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ "بیٹا” ہی آپ سے ہمکلام ہو اور آپ کو اپنے کلام کو سمجھنے میں مدد دے، یشوعا کے نام میں۔ آمین

باقی سوالوں کا جواب اگلے حصے میں دونگی۔




پہلے پھلوں کا نذرانہ اور عید پینتکوست

 میں نے سوچا  کہ ابھی تک میں اس  عیدپر کچھ نہیں لکھا ہے اسلئے اس کے بارے میں بھی کچھ لکھوں۔ عید پینتکوست  کو میں رومن کیتھولک بائبل میں بھی دیکھ رہی تھی وہاں پر اسے عید خمسین پکارا گیا ہے مگر عبرانی زبان میں  اسکو "شعو –عوت ، שבועות،  Shavuot” کہتے ہیں جسکے معنی ہیں "ہفتے۔   پینتکوست اسکا یونانی نام ہے جسکے معنی ہیں "پچاس (پچاس دن)۔ کلام میں احبار 23:15 سے 16 اور 21 سے 22 میں اس عید کے لئے ایسے لکھا ہے؛

اور تم سبت کے دوسرے دن سے جس دن ہلانے کی قربانی کے لئے پولا لاؤ گے گننا شروع کرنا جب تک سات سبت پورے نہ ہوجائیں۔ اور ساتویں سبت کے دوسرے دن تک پچاس دن گن لینا۔ تب تم خداوند کے لئے نذر کی نئی قربانی گذراننا۔

اور تم عین اسی دن اعلان کر دینا۔ اس روز تمہارا مقدس مجمع ہو۔ تم اس دن کوئی خادمانہ کام نہ کرنا۔ تمہاری سب سکونت گاہوں میں پشت در پشت سدا یہی آئین رہیگا۔ اور جب تم اپنی زمین کی پیداوار کی فصل کو کاٹو تو تو اپنے کھیت کو کونے کونے تک پورا نہ کاٹنا اور نہ اپنی  فصل کی گری پڑی بالوں کو جمع کرنا بلکہ انکو غریبوں اور مسافروں کے لئے چھوڑ دینا۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔

پرانے عہد نامے میں شعو-عوت  وہ دن ہے جب خدا نے بنی اسرائیل کو اپنے احکامات/توریت دی تھی اور نئے عہد نامے میں وہ دن ہے جب روح القدس اسکے لوگوں پر نازل ہوا تھا۔ کلام میں احبار 23 کے مطابق نیسان 14 کو عید فسح پڑتی ہے  اور اس سے اگلا دن خاص سبت پڑتا ہے جو کہ بے خمیری روٹی یعنی عید فطیر سے جڑا ہے۔ میں نے کسی اور آرٹیکل میں بیان کیا تھا کہ جب خدا نے عید پر خادمانہ کام سے منع کیا ہو تو اسکو خاص سبت کہتے ہیں وہ عام سبت والا دن نہیں ہے۔ اس خاص سبت سے اگلے دن  کو فصل کی کٹائی کا  شروع کہا گیا ہے۔ اسکو عبرانی زبان میں رِشِت کیتزر، רֵאשִׁית קָצִיר، Reshit Katzir” کہا جاتا ہے جسکے لفظی معنی  اس طرح سے ہیں "رِشِت – پہلا” اور "کیتزر- فصل کی کٹائی” ۔ پُولے کو عبرانی زبان میں "اومر، עמרOmer, ” کہا جاتا ہے۔   خدا نے احبار  23 باب میں عید فسح اور عید فطیر کے بارے میں حکم دیتے ہوئے اسی باب کی 9 سے 11  اور 14 آیات میں اس طرح سے فصل کے پہلے پھلوں کا حکم دیا؛

اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب تم اس ملک میں جو میں تمکو دیتا ہوں داخل ہوجاؤ اور اسکی فصل کاٹو تو تم اپنی فصل کے پہلے پھلوں کا ایک پُولا کاہن کے پاس لانا۔ اور وہ اسےخداوند کے حضور ہلائے تاکہ وہ تمہاری طرف سے قبول ہو اور کاہن اسے سبت کے دوسرے دن صبح کو ہلائے۔

اور جب تک اپنے خدا کے لئے یہ چڑھاوا نہ لے آؤ اس دن تک نئی فصل کی روٹی یا بھنا ہوا اناج یا ہری بالیں نہ کھانا۔ تمہاری سب سکونت گاہوں میں پشت در پشت ہمیشہ یہی آئین رہیگا۔

 پہلے پھلوں کے نذرانے کو اکثر  عید کے طور پر بیان کیا گیا ہے مگر کلام کے مطابق یہ فصل کے پہلے (بہترین) پھلوں کا نذرانہ ہے۔ اس نذرانے/ پولے کو سبت کے دوسرے دن صبح کو لہرایا جاتا تھا ، شمال، جنوب، مشرق اور پھر مغرب کی طرف یعنی آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں۔ جب خدا کے حضور میں یہ پہلے یعنی بہترین پھلوں(جو کی فصل)  کا پُولا لہرایا جاتا تھا تو  دن گننا شروع کئے جاتے تھے جب تک کہ کلام کے مطابق سات سبت پورے نہیں ہو جاتے تھے(احبار 23:15)۔

کس دن سے دن گننا شروع کرنے ہیں اس پر ابھی بھی بہت سے علما کی آپس میں بحث ہوتی ہے۔ وہ یہودی جو کہ زبانی توریت کی تعلیم پر سختی سے چلتے ہیں وہ فسح کے اگلے دن سے دن گننا شروع کرتے ہیں اور وہ جو کہ اوپر دی ہوئی آیت  "اور تم سبت کے دوسرے دن سے جس دن ہلانے کی قربانی کے لئے پولا لاؤ گے گننا شروع کرنا جب تک سات سبت پورے نہ ہوجائیں” کے مطابق چلتے ہیں وہ عام سبت کے اگلے دن سے  "اومر” دن گننا شروع کرتے ہیں جب تک کے ساتھ سبت پورے نہ ہوجائیں۔ پچاسویں دن عید پینتکوست/خمسین منایا جاتا ہے۔

یشوعا پہلے پھلوں کا نذرانہ:

میں ایک بار پھر سے وہی آیت لکھنے لگی ہوں جو آپ نے میرے کتنے ہی آرٹیکلز میں پڑھی ہوگی؛ یشوعا نے کہا  (متی 5:17 سے 18):

یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔

اس دفعہ میں نے ساتھ میں 18 آیت بھی لکھی ہے تاکہ آپ بُرا نہ مانیں کہ ہر بار ایک ہی آیت لکھتی ہوں J میں اکثر مسیحیوں سے پوچھتی ہوں کہ مجھے بتائیں کہ یشوعا نے کیا پورا کیا ہے اور کیا ابھی پورا ہونا باقی ہے۔ میں کسی کو نیچا دکھانے کے لئے نہ بات نہیں پوچھتی بلکہ اس سوال سے مجھے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھیں کلام کی کس طرح سے اور کتنی سمجھ ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں بتا سکوں کہ کیسے یشوعا نے توریت اور انبیا کے صحیفوں کو پورا کیا ہے تاکہ وہ آدمیوں کی روایتوں کو چھوڑ کر کلام کی سچائی کو اپنا سکیں۔ امید ہے کہ میرے اس آرٹیکل سے آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کلام مقدس میں یشوعا کے لئے جو 1 کرنتھیوں15 باب میں لکھا ہے وہ یشوعا نے توریت میں سے کیسے پورا کیا ہے۔ 1 کرنتھیوں 15:20 سے 24 میں لکھا ہے؛

لیکن فی الواقع مسیح مُردوں میں سے جی اٹھاہے اور جو سو گئے ہیں ان میں پہلا پھل ہوا۔ کیونکہ جب آدمی کے سبب سے موت آئی تو آدمی ہی کے سبب سےمُردوں کی قیامت بھی آئی۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی سب مسیح میں سب زندہ کئے جائینگے۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے پہلا پھل مسیح۔ پھر مسیح کے آنے پر اسکے لوگ۔ اسکے بعد آخرت ہوگی۔ اس وقت وہ ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت نیست کر کے بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالہ کر دیگا۔

مشیاخ یشوعا یعنی مسیح یسوع کو پولس نے "پہلا پھل” کہا۔ میں نے اوپر درج کیا تھا کہ فصل کی کٹائی کا یہ پہلا پھل "بہترین” پھل ہوتا تھا۔ اگر آپ نے میرے عید فسح سے متعلق آرٹیکل نہیں پڑھے تو انھیں بھی ضرور پڑھیں تاکہ آپ کو بہتر سمجھ آسکے جو میں اب درج کرنے لگی ہوں۔

آپ نے کلام مقدس میں پڑھا ہی ہوگا کہ عید فسح 14 نیسان کو منائی جاتی ہے، آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ کلام کے مطابق "۔۔۔شام ہوئی اور صبح ہوئی۔ سو پہلا دن ہوا (پیدائش 1:5)” ؛ دن شام سے اگلی شام تک بنتا ہے۔ میں نے عید فسح کے آرٹیکل میں یشوعا فسح کا برہ کیسے تھا، اسکے بارے میں بھی تفصیل سے بیان کیا ہے اب اگر آپ نیسان 14 کو ذہن میں رکھ کر ان باتوں کو  سوچیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے یشوعا پہلا پھل ہے۔  یشوعا تین رات اور تین دن قبر میں تھا مگر تیسرے دن عام سبت کے بعد ہفتے کی صبح  شروع ہونے سے پہلے وہ جی اٹھا۔ آپ کلام میں سے یوحنا 20 باب پورا پڑھیں، میں یوحنا 20:14سے 20 آیات لکھ رہی ہوں؛

یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا ائے عورت توکیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا میاں اگر تو نے اسکو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اسے کہاں رکھا ہےتاکہ میں اسے لے جاؤں۔ یسوع نے اس سے کہامریم! اس نے مڑ کر اس سے عبرانی میں کہا ربونی! یعنی ائے استاد! یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر ان سے کہہ کہ میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں۔ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔ پھر اسی دن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آکر بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو!

یہودیوں کی رسم کے مطابق اس دن جب  سردار کاہن کائفا  اور  یہودی صدر عدالت کے بزرگ یشوعا کو آزمانے کے بعد جُو  کے کھیت میں فصل کی کٹائی سے پہلے، پہلے پھلوں کا پولا باندھ رہے  گئے ہونگے تاکہ کاٹنا آسان ہو تو دوسری طرف رومن سپاہی یشوعا کو باندھ کر سولی پر چڑھارہے ہونگے۔ یشوعا نے جب جان دے دی تو اسے قبر میں رکھا گیا۔  چونکہ اگلے دن خاص سبت تھا اور شام کو فسح کا کھانا اسلئے انھوں نے   شریعت کے مطابق فسح کھائی اور سبت کا آرام کیا۔ خاص سبت سے اگلے دن انھوں نے  جُو کے پولے کو  جو ٹوکریوں میں جمع کیا گیا تھا،  ہیکل میں پہنچایا  (احبار 23:10) اور کلام میں درج حکم کے مطابق مقرر وقت پرخداوند کے حضور پولے کو ہلایا ۔

جب یشوعا، مریم پر ظاہر ہوا اور اس نے اس سے کہا مجھے مت چھو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا تو اس سے اسکی یہی مراد تھی کہ وہ جو کہ پہلے پھل کا نذرانہ ہیں ، باپ کے حضور میں جب تک پیش نہ کر لیا جائے  تب تک باقی فصل استعمال کے لئے قبول  نہیں کی جائے گی۔آپ کو اسکا حوالہ یوسیفس کی تیسری کتاب کے 10:5 اور 6 میں لکھا ملے گا۔

آپ کلام میں سے اعمال 1 اور 2 باب پورا  پڑھیں۔یشوعا ، مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد چالیس دن تک رسولوں کو نظر آتا رہا ۔ یشوعا نے انھیں حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جائیں بلکہ اس وعدے کے پورا ہونے کا انتظار کریں جو کہ خدا باپ نے کیا تھا۔ اس نے ان سے کہا (اعمال 1:5):

کیونکہ یوحنا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔

یہودی خدا کے حکم کے مطابق فصل کے پہلے پھل کے ابھی تک دن گن رہے تھے۔ ہم نے اوپر پڑھا تھا کہ یشوعا پہلا پھل تھا اور اعمال کے اس پہلے باب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ چالیس دن کے بعد وہ اوپر اٹھا لیا گیا مگر یشوعا کے حکم کے مطابق انہیں یروشلیم میں ہی رہ کر باپ کے وعدے کے پورے ہونے کا انتظار کرنا تھا کیونکہ یشوعا نے انھیں کہا تھا کہ وہ تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس کا بپتسمہ پائیں  گے۔ خدا کے حکم کے مطابق عید  پینتکوست/خمسین جو کہ پہلے پھلوں کے پیش کئے جانے کے دن سے گننا شروع کی جاتی ہےپچاسویں دن منائی جاتی ہے۔ اس عیدپر جب تمام لوگ خدا کے گھر میں موجود تھے تو روح القدس اسکے  چنے ہوئے لوگوں پر اترا۔  اعمال 2:41میں لکھا ہے؛

پس جن لوگوں نے اسکا کلام قبول کیا انہوں نے بپتسمہ لیا اور اسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب ان میں مل گئے۔

خروج 32:28 کے مطابق جب بنی اسرائیل نے  سونے کا بچھڑا بنا کر خدا کے خلاف گناہ کیا تھا تو اس روز تین ہزار مرد مارے گئے تھے مگر عید پینتکوست کے ہی دن روح القدس کے وسیلے سے تین ہزار مردوں نے زندگی پائی۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مسیحیوں کو اب یہ عیدیں منانی چاہیں یا نہیں؟ میں نے کچھ پادریوں کا اس  نذرانے کا حوالہ دے کر چندا مانگتے ہوئے سنا ہے۔ چندے پر تو زور دیا جاتا ہے مگر خدا کی ان عیدو ں   کو منانے کا کبھی بھی کہتے نہیں سنا۔ میں نے اوپر متی 5:18 کی آیت لکھی تھی  جس میں یشوعا نے کہا؛

کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔

میں سمجھ سکتی ہوں کہ شاید آپ وہ مسیحی ہیں جس کو ابھی تک علم نہیں کہ یشوعا نے توریت اور انبیا کے صحیفوں میں سے کیا کیا پورا کیا ہے اور کیا ابھی پورا ہونا باقی ہے مگر متی 5:18 کے مطابق تو آپ سمجھ ہی سکتے ہونگے کہ چونکہ ابھی تک آسمان اورزمین قائم ہیں اسلئے  توریت اور انبیا کے صحیفوں کے مطابق ابھی اور باتیں پوری ہونی باقی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا آپ اس دفعہ عید پینتکوست منانا چاہیں گے ؟ ہر سال  نسل در نسل جب تک سب کچھ پورا نہیں ہو جاتا؟

اوپر دیا ہوا کرنتھیوں کا حوالہ پھر سے پڑھیں اور سوچیں کہ " اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائینگے۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے پہلا پھل مسیح۔ پھر مسیح کے آنے پر اسکے لوگ۔ اسکے بعد آخرت ہوگی۔”۔۔۔ مسیح کے آنے پر اسکے لوگ۔ اسکے بعد آخرت؟ کیا آپ اسکے لوگوں میں شمار ہوسکتے ہیں جو اسکے کہنے کے مطابق اسکی یادگاری میں ان عیدوں کو نہیں رکھتے؟

اس دن خاص طور پر زبور 67پڑھا جاتا ہے جسکی سات آیات ہیں اور عبرانی کلام کے مطابق  پورے 49 عبرانی الفاظ ہیں۔ اسکے علاوہ کلام سے روت کی کتاب پڑھی جاتی ہے اور خروج کا 19 اور 20 باب بھی پڑھا جاتا ہے۔ دودھ کی بنی ہوئی چیزیں کھانا اس دن کی خاص رسموں میں سے ہے۔

ان عیدوں سے متعلق لکھنے کو ابھی اور بھی بہت کچھ ہے مگر میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ  اپنے خدا کی عیدوں کا گہرا معنی جان کرخوشی خوشی منائیں گے ۔

میری خدا سے دعا ہے کہ وہ  ہمکو برکت دے اور زمین کی انتہا تک سب لوگ اسکا ڈر مانیں، یشوعا کے نام میں، آمین۔




(شریعت مسیحیوں کے لئے (پہلا حصہ

میرے آرٹیکل "مسیحیوں کو توریت پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟”  پر کچھ لوگوں نے کلام میں سے پولس رسول کے خطوط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے  کچھ سوالات اٹھائے۔ میرا اپنا ارادہ تو یہ تھا کہ جب میں توریت کی سٹڈی مکمل کر لونگی تو پھر پولس (شاؤل ) کے خطوط پر سٹڈی شروع کروانگی تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو مگر چونکہ  لوگوں کے خیال میں میرے پاس انکے سوالات کا جواب نہیں اسلئے میں نے انھیں آرٹیکل کی صورت میں لکھنا چاہا۔   مجھے بحث و مباحثہ پسند نہیں اسلئے کہ امثال کی کتاب میں بہت سے ایسے حوالے ہیں جو کہ اس بات کی تعلیم دیتی ہے پر مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ ان بحث و مباحثات سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ  خاموشی سے کلام کو سیکھ رہے ہوتے ہیں۔  سوالات کریں مگر طنز  اور بد زبانی سے پرہیز کریں۔ مجھے لوگوں کے سوالات کا جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر جو کلام کی بدگوئی اور بے ادبی کرتے ہیں مجھے ان سے  بات کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ 

میں نے ایک خاص بات جو نوٹ کی وہ یہ ہے کہ ہمارے مسیحیوں کو علم نہیں کہ توریت  جسکو عبرانی میں "تورہ، Torah” کہتے ہیں، کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوتی ہے۔  ویسے تو میں نے اپنے آرٹیکل "کلام مقدس سے متعلق کچھ معلومات کی باتیں” میں لکھا ہے کہ توریت کیا  ہے مگر یہاں مختصراً بتاتی چلوں کہ توریت کو اردو کلام میں "شریعت” لکھا گیا ہے جسکے معنی ہیں "ہدایات یا تعلیم”  ۔ کلام مقدس کی پہلی پانچ کتابوں یعنی "پیدایش، خروج، احبار ، گنتی اور استثنا” کو توریت کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کبھی کسی کو موسیٰ کی لکھی ہوئی کتابوں کا کہتے ہوئے سنیں تو اسکا یہی مطلب بنتا ہے کہ توریت کی بات ہو رہی ہے۔ توریت یعنی کہ شریعت میں جو احکامات ہیں انکو عبرانی میں میتزوات، Mitzvot ” کہا جاتا ہے جس کا معنی ہے "احکامات”۔ جب کلام میں شریعت کی بات ہو رہی ہے تو وہ پہلی تمام پانچ کتابوں کا حوالہ ہے مگر جب احکامات  کا ذکر آئے تو وہ "میتزاوت” کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  (یہ علیحدہ بات ہے کہ نئے عہد نامے میں تلمود کی تعلیم کو بھی کئی  بار شریعت کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ )زبور 119 میں  بار بار آپ "احکامات” اور  "شریعت” (کچھ اور الفاظ بھی ہیں) کا پڑھیں گے۔ احکامات، شریعت  یعنی توریت  کا حصہ ہیں ۔ امید ہے کہ  جب اگلی بار آپ کلام کو پڑھیں گے تو ان لفظوں کو پڑھتے ہوئے میری ان باتوں پر ضرور غور کریں گے۔

وہ سوالات جو کہ مجھ سے فیس بک کے ایک گروپ میں  کسی ممبر نے کئے تھے  میں ایک ایک کر کے بمہ اپنے جواب کے ساتھ حصوں کی صورت میں درج کر رہی ہوں۔ میں انکا  فرضی نام یہاں نہیں لکھ رہی ہوں مگر انکے ان سوالات کا شکریہ ضرور کہنا چاہوں گی کیونکہ میرے خیال سے انکے یہ سوالات اور بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہونگے۔ میں کوشش کرونگی کہ  اردو کلام کے حوالے جب لکھوں تو رومن کیتھولک بائبل کی کتاب  کا نام بھی ساتھ میں دے سکوں کیونکہ مجھے احساس  ہے کہ رومن کیتھولک بائبل اور پروٹسٹنٹ بائبل میں کتابوں کے نام  اور کافی لوگوں کے نام ایک جیسے نہیں ہیں۔اسے سے یہ مراد نہیں ہے کہ کلام بدل گیا ہے۔بس ترجمان نے عبرانی کلام کی کتابوں  کے نام کا ترجمہ اردو میں  اپنے طور پر کیا ہے۔

سوالات اور انکے جوابات؛

انکا پہلا سوال یہ تھا؛

  • توریت کس کو دی گئی اور کن کے لئے تھی، صرف اسرائیل کے لئے یا غیر قوموں کے لئے بھی تھی؟ اعمال 10:28

چونکہ انھوں نے اعمال 10:28 کا حوالہ دیا ہے اسلئے میں اردو کلام سے اعمال 10:28 کی آیت لکھ رہی ہوں؛

ان سے کہاتم تو جانتے ہوکہ یہودی کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنا یا اسکے ہاں جانا ناجائز ہےمگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیاکہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔

جب بھی کوئی میرے ساتھ کلام کی بات کرتے ہوئے کلام کی آیت کا حوالہ دیتا تھا تو میں اکثر ہی پورے باب کو پڑھ لیتی تھی تاکہ یہ جان کر جواب دے سکوں کہ اصل موضوع کیا تھا جس کا حصہ یہ آیت ہے۔ میں آپ کو بھی یہی مشورہ دونگی کہ جب بھی کلام کی بات ہو تو اگر ہوسکے تو پورا باب پڑھ لیں یا پھر یہ جان لیں کہ اس کتاب میں کس موضوع پر بات چل رہی ہے۔ اعمال کی کتاب کا یہ حوالہ پطرس کے اس قصے میں سے ہے جس میں خدا نے رویا میں پطرس کو  پاک اور ناپاک  کے بارے میں بتا کر کرنیلیس کے گھر بھیجا تھا۔ کرنیلیس غیر یہودی تھا۔ اور پطرس اسی کے گھرانے کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا  کہ "تم تو جانتے ہو کہ یہودی کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنا یا اسکے ہاں جانا ناجائز ہے مگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔” اس آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ پطرس اپنے آپ کو یہودی کہہ رہا تھا اور بیان کر رہا تھا کہ  گو کہ وہ یہودی ہے مگر خدا نے اس پر ظاہر کیا کہ وہ کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہے۔

بہت سے مسیحیوں کو تناخ اور تلمود کی تعلیم کا علم نہیں ہے۔ میں نے اپنے آرٹیکل "تناخ اور تلمود  https://backtotorah.com/?p=716” میں اس بات کا ذکر کیا ہے  کہ تناخ ، پرانے عہد نامے کو کہتے ہیں اور تلمود، یہودیوں کی  نظر میں زبانی توریت ہے۔ برائے مہربانی میرے اس آرٹیکل کو پڑھیں تاکہ آپ کو بہتر پتہ چل سکے کہ تناخ اور تلمود میں کیا فرق ہے۔ میں نے لکھا  "یہودیوں کی نظر میں۔۔” کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تناخ میں خدا کے دئے ہوئے احکامات درج ہیں مگر تلمود یہودی دانشوروں  کی کلام پر تشریح اور روایات کی کتاب ہے۔ خدا کا پطرس پر یہ ظاہر کرنا  کہ وہ کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہے ، سے یہ مراد نہیں تھی کہ پرانے عہد نامے یا عہد عتیق میں خدا فرق تھا اور نئے عہد نامے یعنی عہد جدید میں خدا فرق ہو گیا ہے۔ یہ یہودیوں کی کلام کی اپنی تشریح تھی جس کے مطابق وہ سوچتے تھے کہ خدا نے یہودیوں کو غیر قوموں سے صحبت  یعنی اٹھنے بیٹھنے اور ساتھ کھانے پینے سے منع کیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کہ مسیحی اب سوچتے ہیں کہ خدا نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لئے رد کر دیا ہے۔ مگر  حقیقت یہ ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا نے اس بات  کو ایسے نہیں بیان کیا۔   خدا نے پرانے عہد نامے میں  یہودیوں کے درمیان موجود غیر یہودیوں  سے متعلق احکامات دئے تھے۔ میں آپ کے لئے کچھ آیات نیچے درج کر رہی ہوں۔

خروج 12:47 سے 49

اسرائیل کی ساری جماعت اس پر عمل کرے۔ اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اور خداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اسکے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں۔ تب وہ پاس آکر فسح کرے۔ یوں وہ ایسا سمجھا جائیگا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے۔ وطنی اور اس اجنبی کے لئے جو تمہارے بیچ مقیم ہو ایک ہی شریعت ہوگی۔

احبار 16:29

اور یہ تمہارے لئے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن کوئی خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے  بیچ بود و باش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے۔

گنتی(عدد) 15:13 سے 16

جتنے دیسی خداوند کے حضور راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی گذرانیں وہ اس وقت یہ سب کام اسی طریقہ سے کریں۔ اور اگر کوئی پردیسی تمہارے ساتھ بودوباش کرتا ہو یا جو کوئی پشتوں سے تمہارے ساتھ رہتا آیا ہو اور وہ خداوند کے حضور راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی گذراننا چاہے تو جیسا تم کرتے ہو وہ بھی ویسا ہی کرے۔ مجمع کے لئے یعنی تمہارے لئے اور اس پردیسی کے لئے جو تم میں رہتا ہو نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہیگا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو۔ تمہارے لئے اور پردیسیوں کے لئے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو۔

استثنا (تثینہ ءشرع) 10:16 سے 19

اسلئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اور آگے کو گردن کش نہ رہو۔ کیونکہ خداوند تمہارا خدا الہوں کا  الہٰ  خداوندوں کا خداوند ہے وہ بزرگوار اور قادر اور مہیب خدا ہے جو رُو رعایت نہیں کرتا اور نہ رشوت لیتا ہے۔ وہ یتیموں اور بیواؤں کا انصاف کرتا ہے اور پردیسی سے ایسی محبت رکھتا ہے کہ اسے کھانا اور کپڑا دیتا ہے۔ سو تم پردیسیوں سے محبت رکھنا کیونکہ تم بھی ملک مصر میں پردیسی تھے۔

حزقی ایل(حزقیال) 47:21 سے 23

اسی طرح تم قبائل اسرائیل کے مطابق زمین کو آپس میں تقسیم کروگے۔ اور یوں ہوگا کہ تم اپنے اور ان بیگانوں کے درمیان جو تمہارے ساتھ بستے ہیں اور جنکی اولاد تمہارے درمیان پیدا ہوئی جو تمہارے لئے دیسی بنی اسرائیل کی مانند ہونگے میراث تقسیم کرنے کے لئے قرعہ ڈالو گے۔ وہ تمہارے ساتھ قبائل اسرائیل کے درمیان میراث پائیں گے۔

یہ چند آیات ہیں۔ پرانے عہد نامے میں اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر میرے خیال سے آپ کو انہی آیات سے پتہ چل چکا ہو گا کہ خداوند نے کبھی بھی بنی اسرائیل کو  انکے ساتھ صحبت رکھنے سے منع نہیں کیا تھا ۔ اگر خدا نے کسی بات سے منع کیا تھا تو وہ انکی روشوں  اور دستوروں کو اپنانے سے منع کیا تھا۔ یرمیاہ(ارمیاہ)  10:2 میں لکھا ہے؛

خداوند یوں فرماتا ہے تم دیگر اقوام کی روش کو نہ سیکھو اور آسمانی علامات سے ہراسان نہ ہو اگرچہ دیگر اقوام ان سے ہراسان ہوتی ہیں۔

اور احبار 20:23 میں ایسے لکھا ہے؛

تم ان قوموں کے دستوروں پر جنکو میں تمہارے آگے سے نکالتا ہوں مت چلنا کیونکہ انہوں نے یہ سب کام کئے۔ اسی لئے مجھے ان سے نفرت ہوگئی۔

بالکل ویسے ہی جیسے کہ ہمارے مسیحیوں نے اب کلام سے ہٹ کر اپنی روایتیں قائم کی ہوئی ہیں،  یشوعا کے زمانے میں فریسی  اور شریعت  کے علما تھے جنہوں نے لوگوں پر ، کلام کی اپنی تشریح کے مطابق ، قوانین نافذ کئے ہوئے تھے۔ وہی تھے جو کہ یہودیوں کو غیر قوموں کے ساتھ صحبت رکھنے سے منع کرتے تھے۔گو کہ یشوعا (یسوع) کے بعد کے یہودی دانشور موسیٰ بن میمون جسکو رامبم، RaMBaM(Rabbeinu Moshe Ben Maimon) کہا گیا ہے اس نے  مسیحیوں کو تورہ سیکھانے کی اجازت دی کیونکہ اس کے خیال میں  مسیحی تناخ (پرانے عہد نامے)  کو مانتے ہیں اسلئے انہیں یہودیت کی سچی تعلیم دینے میں کوئی ہرج نہیں مگر  بابل کی تلمود (Sanhedrin 59a) میں یہودی ربی یوخنن نے کہا کہ

 "کوئی بھی بیگانہ (غیر اہل کتاب) اگر تورہ  کا مطالعہ کرتا ہو تو وہ موت کے لائق ہے کیونکہ بقول موسیٰ شریعت  ہماری میراث ہے (استثنا 33:4) یہ ہماری میراث ہے انکی نہیں۔۔۔۔”

 آپ اس بیان کو اوپر دی ہوئی آیات کی روشنی میں خود بھی  پرکھ سکتے ہیں کہ خدا نے ایسا ہرگز حکم نہیں  دیا تھا تبھی خدا نے پطرس کو رویا میں یہ کہا تھا کہ وہ غیر یہودیوں کو ناپاک  قرار نہ دے۔

ویسے تو اوپر دی ہوئی آیات سے واضع ہوگیا ہے کہ شریعت یعنی توریت خدا نے صرف بنی اسرائیل کو ہی نہیں دی تھی جیسا کہ ہمیں عام طور پر سکھایا جاتا ہے مگر ان غیر یہودیوں کو بھی دی تھی جو انکے درمیان بودوباش کرتے تھے۔ مگر پھر بھی چند  اورحوالے دیکھ لیتے ہیں شاید آپ کو تسلی ہوجائے۔ استثنا(تثینہ ء شرع) 33:4 کے مطابق یہ صحیح ہے کہ خدا نے شریعت بنی اسرائیل کو دی تھی کیونکہ لکھا ہے؛

موسیٰ نے ہمکو شریعت اور یعقوب کی جماعت کے لئے میراث دی۔

میں ابھی "میراث” کی زیادہ تفصیل میں جاونگی مگر اتنا ضرور کہونگی کہ جب خدا ، حزقی ایل 47 باب کے مطابق غیر قوم کو بنی اسرائیل کی سرزمین میں میراث دے سکتا ہے تو ، شریعت بھی انکی میراث بن سکتی ہے جو یہوواہ کو اپناتے ہیں۔

پیدائش  (تکوین) 28:3میں یعقوب کو برکت دیتے ہوئے اضحاق نے اسے کہا تھا کہ اس سے  قوموں کے جتھے پیدا ہونگے۔۔۔۔ میں نے پیدائش کے مطالعے میں بھی ذکر کیا تھا کہ ابرہام کو اسی قسم کی برکت دیتے ہوئے عبرانی کلام میں قوموں کے لئے جو لفظ  (Goy/Goyimگوئے/گوئیم ) استعمال ہوا ہے اس سے مراد "غیر قومیں” ہے مگر یعقوب کو برکت دیتے ہوئے جو عبرانی کلام میں لفظ (Ami/Am/Amimامی/ام/امیم) استعمال کیا  گیا ہے وہ "مقدس قوم” بنتا ہے۔  آپ نے حزقی ایل(حزقیال) 37:21 سے 28 یہ آیات شاید کلام میں پڑھی ہوں مگر پہلے کبھی دھیان نہ دیا ہو جس میں لکھا ہے؛

اور تو ان سے کہنا کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ میں بنی اسرائیل کو قوموں(گوئیم، Goyim) کے درمیان سے جہاں جہاں وہ گئے ہیں نکال لاؤنگا اور ہر طرف سے انکو فراہم کرونگا اور انکو اپنے ملک میں لاؤنگا ۔ اور میں انکو اس ملک میں اسرائیل کے پہاڑوں پر ایک ہی قوم ( گوئے، Goy) بناؤنگا اور ان سب پر ایک ہی بادشاہ ہوگا اور وہ آگے کو نہ دو قومیں(گوئیم، Goyim)   ہونگے اور نہ دو مملکتوں میں تقسیم کئے جائینگے۔ اور وہ پھر اپنے بتوں سے اور اپنی نفرت انگیز چیزوں سے اور اپنی خطاکاری سے اپنے آپ کو ناپاک نہ کریں گے بلکہ میں انکو انکے تمام مسکنوں سے جہاں انہوں نے گناہ کیا ہے چھڑاونگا اور انکو پاک کرونگا اور وہ میرے لوگ (امAm, )  ہونگے اور میں انکا خدا ہونگا۔ اور میرا بندہ داؤد انکا بادشاہ ہوگا اور ان سب کا ایک ہی چرواہا ہوگا اور وہ میرے احکام پر چلینگے اور میرے آئین کو مان کر ان پر عمل کرینگے۔ اور وہ اس ملک میں جو میں نے اپنے بندہ یعقوب کو دیا جس میں تمہارے باپ دادا بستے تھے بسینگے اور وہ  اور انکی اولاد کی اور انکی اولاد کی اولاد ہمیشہ تک اس میں سکونت کریں گے اور میرا بندہ داود ہمیشہ کے لئے انکا فرمانروا ہوگا۔ اور میں انکے ساتھ سلامتی کا عہد باندھونگا  جو انکے ساتھ ابدی عہد ہوگا اور میں انکو بساونگا اور فراوانی بخشونگا اور انکے درمیان اپنے مقدس کو ہمیشہ کے لئے قائم کرونگا۔ میرا خیمہ بھی انکے ساتھ ہوگا۔ میں انکا خدا ہونگا اور وہ میرے لوگ(امAm, )  ہونگے۔ اور جب میرا مقدس ہمیشہ کے لئے انکے درمیان رہیگا تو قومیں(گوئیم، Goyim) جانیں گی کہ میں خداوند اسرائیل کو مقدس کرتا ہوں۔

بریکٹ میں درج الفاظ میرے اپنے ہیں عبرانی کلام کی رو سے، اردو کلام میں ایسے درج نہیں۔ میں مسیحیوں سے اکثر سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ کو علم ہے کہ  پرانے عہد نامے میں سے کون کون سی باتوں کا پورا ہونا ابھی باقی ہے، افسوس کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شوق ہے کہ سیکھیں کہ کون سی باتیں ابھی پوری ہونا باقی ہیں جو کہ مسیحا کی دوسری آمد پر پوری ہونگی۔ امید ہے کہ حزقی ایل کے اس حوالے سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ ابھی یہ پیشن گوئی مکمل طور پر پوری نہیں ہوئی ہے۔ آپ کےخیال میں جب حزقی ایل کے اس حوالے سے کن احکام اور آئین کی طرف اشارہ ہے؟ انکے پاس نیا عہد نامہ نہیں تھا۔  یشوعا بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑ کے لئے آیا تھا اس نے آپ کو اپنے لوگوں کا حصہ بنایا ہے کیونکہ اس نے یوحنا 15:5 میں کہا؛

میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو جو مجھ میں قائم رہتا ہے  اور میں اس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔

 اسرائیل کو  پرانے عہد نامے میں انگور کی ڈالی اورزیتون اور انجیر کا درخت پکارا گیاہے(یوایل/یوئیل 1:7،  یسعیاہ/اشعیا 5:1 سے 7)۔ اگر آپ اپنے آپ کو اس انگور کے درخت کی ڈالی سمجھتے ہیں تو کیا آپ بنی اسرائیل کا حصہ نہ ٹھہرے؟  یشوعا اور اسکے شاگردوں نے بھی جب خدا کے حکموں پر چلنے کی بات کی تھی تو تب بھی انکے پاس نیا عہد نامہ اس طرح سے موجود نہیں تھا جس طرح سے ہمارے پاس موجود ہے۔  1 یوحنا 3:4 سے 6 میں لکھا ہے؛

جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ وہ اسلئے ظاہر ہواتھا کہ گناہوں کو اٹھا لے جائے اور اسکی ذات میں گناہ نہیں۔ جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ اور جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اس نے اسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے۔

اس آیت سے یہ تو علم ہوگیا کہ گناہ کیا ہے کیونکہ یوحنانبی کے کہنے کے مطابق گناہ شرع یعنی شریعت کی مخالفت ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یشوعا کلام ہے جو کہ مجسم ہوا (یوحنا 1باب)۔۔۔ کلام یعنی پرانا عہد نامہ !    اسکی ذات میں گناہ نہیں اور جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا اور یہ بات تو ہم نے پہلے ہی پڑھ لی ہے کہ گناہ شریعت کی مخالفت ہے۔ اگر آپ شریعت پر نہیں عمل کر رہے تو گناہ کر رہے ہیں  اور آپ اس میں قائم نہیں کیونکہ ہم سب ہی مانتے ہیں کہ یشوعا (یسوع) پاک ہے کیونکہ جب نئے عہد نامے میں کہا گیا  1 پطرس 1:16؛

کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اسلئے کہ میں پاک ہوں۔

تو پطرس نے احبارکی کتاب  کا یہ حوالہ دیا تھا میں نے حزقی ایل کے حوالے میں بھی دکھایا کہ خداوند اپنے لوگوں کو پاک کرے گا۔  تبھی پولس نے بھی رومیوں 3:31 میں کہا؛

پس کیا ہم شریعت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔

مجھے علم ہے کہ پولس کے خطوط کے بہت سے حوالات اس قسم کے ہیں جو کہ عام مسیحی کی سمجھ سے باہر ہیں مگر ویسے ہی جیسے کہ میں نے عبرانی کلام کے الفاظ گوئے /گوئیم اور ام/امیم کا فرق بیان کیا ہے اسی طرح سے پولس نے بھی بہت سی جگہوں پر جس شریعت کو بیان کیا ہے وہ  یہودیوں کی تلمود کی شریعت کے حوالے ہیں جو کہ یہودی دانشوروں کی کلام پر تشریح ہے نہ کہ خدا کی دی ہوئی شریعت/توریت۔  اعمال 15:21 میں بزرگوں نے کہا

کیونکہ قدیم زمانہ سے ہر شہر میں موسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ ہر سبت کو عبادتخانوں میں سنائی جاتی ہے۔

اگر آپ اعمال کا 15 باب پورا پڑھیں گے تو جانیں گے کہ پولس اور بزرگ جن میں پطرس، یعقوب اور یوحنا شمار تھے انھوں نے غور و فکر کے بعد یہی مناسب سمجھا کہ نئے ایمانداروں کو ہدایت کی جائے کہ  کچھ بنیادی شریعت کی باتوں پر وہ لازمی عمل کریں اور جیسے جیسے وہ عبادتخانوں میں ہر سبت جائیں گے وہ باقی شریعت پر بھی عمل کرنا آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے۔ اسی باب میں جس "جؤا” کا ذکر ہے وہ تلمود یعنی فریسیوں کی تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ یہی وہ جؤا ہے جس کو اٹھانا بھاری ہے۔ اسکے بارے میں  شاید چھٹے سوال کے جواب میں مزید لکھ پاؤں گی۔ میں پورے کلام کو چند چھوٹے چھوٹے آرٹیکلز میں واضح نہیں کر سکتی مگر امید ہے کہ یہ کچھ حوالے آپ کے لئے تسلی بخش ہونگے اور جیسے جیسے آپ کلام کا مطالعہ خود کریں گے آپ ان باتوں کو اور گہرائی میں دیکھ پائیں گے۔ یشوعا  (یسوع) نے یوحنا 15:10 میں کہا؛

اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اسکی محبت میں قائم ہوں۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ باپ اور یسوع، الگ الگ ہیں تو پھر تو انکے احکامات الگ الگ ہوسکتے ہیں مگر اگر وہ ایک ہے تو پھر دئے گئے احکامات بھی ایک جیسے ہیں۔یاد رکھیں کہ آپ اسکے پیروکاروں میں سے ہے  اگر اس نے توریت /شریعت پر عمل کیا تو ہمیں بھی لازم ہے کہ شریعت کے تحت چلیں کیونکہ ابھی شریعت کے مطابق  سب کچھ پورا نہیں ہوا ہے۔

آپ اگر چاہیں تو دوسروں کے ساتھ اس آرٹیکل کو شئیر کر سکتے ہیں۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے کلام کو  اس آرٹیکل کی رو سے سمجھنے میں مدد دے۔ آمین




پولس خدا کا چنا رسول؟

پولس   خدا کا چنا رسول:

گو کہ مجھے علم تھا کہ بہت سےلوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں مگر ہیں نہیں، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پولس ایک جھوٹا رسول ہے جس نے مسیحیوں کو یشوعا کی اصل تعلیم سے ہٹا کر اپنی تعلیم پر لگا دیا ہے مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ کوئی پاکستانی مسیحیوں کو بھی ان باتوں کی تعلیم دے رہا ہے۔ میرا اس آرٹیکل کا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں انکو غلط ثابت کر سکوں   جو کہ مسیحیوں کو یہ سیکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پولس،  خود سے تعینات کردہ   ایک جھوٹا رسول ہے۔ وہ لوگ  گلتیوں 1:1 کا حوالہ دیتے ہیں جس میں لکھا ہے؛

پولس کی طرف سے جو نہ انسانوں کی جانب سے نہ انسان کے سبب سے بلکہ یسوع مسیح اور خدا باپ کے سبب سے جس نےاسکو مردوں میں سے جلایا رسول ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مکاشفہ 21:14 کے مطابق؛

اور اس شہر کی شہر پناہ کی بارہ بنیادیں تھیں اور ان پر برہ کے بارہ رسولوں کے نام لکھے تھے۔

یشوعا کے شاگرد ، اسکے بارہ رسول ہیں   پولس "تیرہواں رسول” کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہوداہ اسکریوتی کے بعد جب شاگردوں نے قرعہ ڈالا  تو وہ "متیاہ” کے نام نکلا  اور وہ ان گیارہ رسولوں کے ساتھ شمار ہوا (اعمال 1:23 سے 26)۔ رسول کے معنی ہیں "پیامبر، پیغمبر”۔  پولس نے خدا کے پیغام میں کوئی تبدیلی نہیں کی  اور نہ ہی اسکے حکموں کے خلاف تعلیم دی ہے۔  مجھے نہیں یاد پڑ رہا کہ پولس نے کہیں کہا ہو کہ اسکا نام مکاشفہ  میں بیان اس شہر کی بارہ بنیادوں میں سے ایک پر لکھا ہے۔

  مسیحیوں کا یہ ایمان ہے کہ جیسے پولس رسول نے کہا کہ اب وہ شریعت کے ماتحت نہیں ہیں اسلئے شریعت ان پر لاگو نہیں ہوتی ہے اور  وہ جو کہ  عبرانیت اور یہودیت کے علم کے دائرے میں رہ کر کلام کی تشریح کرتے ہیں  وہ بعض اوقات لوگوں پر  شریعت  پر چلنے کا اتنا زور دیتے ہیں کہ مسیحیوں سے انکا  روحانی اطمینان ہی چھین لیتے ہیں۔ انھی لوگوں میں کچھ وہ بھی شامل ہیں جو کہ کہتے ہیں کہ پولس ایک خود سے بنایا ہوا جھوٹا رسول ہے ۔ ہم اس آرٹیکل میں کچھ ان آیات پر غور کریں گے کہ پولس نے  کیا کہا اور کلام کی کیا تعلیم ہے۔

پولس کا اصل نام شاؤل ہے۔ جس طرح سے کلام کا ترجمہ کرتے وقت تمام ناموں کا بجائے تلفظ لکھنے کے ایک طرح سے ترجمہ کر دیا گیا، ترجمان نے پولس کا بھی نام شاؤل  کی بجائے پولس کر دیا۔  2 پطرس 3:15 سے 16 میں پطرس نے پولس کا ذکر کرتے ہوئے کہا؛

اور ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو چنانچہ ہمارے پیارے بھائی پولس نے بھی اس حکمت کے موافق جو اسے عنایت ہوئی تمہیں یہی لکھاہے۔ اور اپنے سب خطوں میں ان باتوں کا ذکر کیا ہے جن میں بعض باتیں ایسی ہیں جنکا سمجھنامشکل ہے اور جاہل اور بے قیام لوگ انکے معنوں کو بھی اور صحیفوں کی طرح کھینچ تان  کر اپنے لیے ہلاکت پیدا کرتے ہیں۔

پطرس نے پہلے سے ہی ان لوگوں کو جو کہ سچائی کی راہ پر چل رہے ہیں تنبیہ کی ہے کہ پولس  نے اپنے خطوں میں ایسے باتیں کیں ہیں جن کو ہر کوئی آسانی سے نہیں سمجھ سکتا اور جاہل اور بے قیام لوگ ان باتوں کو کھینچ تان کر اپنے لیے ہلاکت پیدا کر رہے ہیں۔ وہ کیا باتیں کہہ کر لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پولس ایک جھوٹا نبی ہے؟! آئیں ان میں سے کچھ باتوں پر ہم غور کرتے ہیں۔

دمشق کی راہ پر:

کچھ نے پولس کے اس بیان پر نکتہ اٹھایا ہے کہ دمشق کی راہ پر جو اسکے ساتھ واقعہ پیش آیا وہ اسکے اپنے بیان کے خلاف جاتا ہے۔ اسکے لیے انھوں نے یہ آیات  پیش کیں۔ ہم پہلے ان آیات کو پڑھیں گے اور پھر اسکا نتیجہ دیکھیں گے۔

اعمال 9:3 سے 4 آیات؛

جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ یکایک آسمان سے ایک نور اسکے گرداگرد آچمکا۔ اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ ائے ساول ائے ساول! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟

اعمال 9:7 سے 8 آیات؛

جو آدمی اسکے ہمراہ تھے وہ خاموش کھڑے رہ گئے کیونکہ آواز تو سنتے تھے مگر کسی کو دیکھتے نہ تھے۔ اور ساول زمین پر سے اٹھا لیکن جب آنکھیں کھولیں تو اسکو کچھ دکھائی نہ دیا اور لوگ اسکا ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے۔

اعمال 22:6 سے 9 آیات؛

جب میں سفر کرتا کرتا دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ دوپہر کے قریب یکایک  ایک بڑا نور آسمان سے میرے گرداگرد آچمکا۔ اور میں زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ ائے ساول ائے ساول! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ائے خداوند ! تو کون ہے؟ اس نے مجھ سے کہا میں یسوع ناصری ہوں جسے تو ستاتا ہے۔ اور میرے ساتھیوں نے نور تو دیکھا لیکن جو مجھ سے بولتا تھا اسکی آواز نہ سنی۔

جو یہ کہتے ہیں کہ پولس جھوٹا ہے وہ  یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پولس کے ساتھ لوگوں نے  آواز سنی تھی یا کہ نہیں؟

پہلے حوالے میں یعنی اعمال 9:7 سے 8 میں جو آواز پولس کے ہمراہ آدمیوں نے سنی وہ یہ تھی "ائے ساؤل ائے ساؤل! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟”  مگر دوسرے حوالے میں یعنی اعمال 22:6 سے 9 کے حوالے میں لکھا ہے کہ” جو مجھ سے بولتا تھا اسکی آواز نہ سنی۔” یعنی جب پولس نے پوچھا "ائے خداوند! تو کون ہے؟” تو جو جواب پولس کو ملا  کہ "میں یسوع ناصری ہوں جسے تو ستاتا ہے۔۔۔”  وہ یہ حوالے ہیں  جو کہ اسکے ساتھیوں کو سنائی نہ دیئے۔  اسکے ساتھیوں نے نور تو دیکھا مگر کسی کو دیکھا نہیں۔ کلام میں غلطی نہیں ، غلطی صرف  ان آیات کا مطلب اپنے طور پر اخذ کرنے میں ہے۔

کیاپولس کے مطابق شریعت ایک بھاری جؤا ہے؟

ایک اور تعلیم جو دی جاتی ہے کہ پولس اور  نئے عہد نامے میں  رسولوں  کی تعلیم کے مطابق شریعت ایک ایسا جؤا ہے جسے نہ تو وہ اٹھا سکے اور نہ ہی انکے باپ دادا۔ یہ آپ کو اعمال  15:10 آیت میں نظر آئے گا؛

پس اب تم شاگردوں کی گردن پر ایسا جؤا   رکھ کر جسکو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھےنہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو؟

اس آیت سے کچھ آیات پہلے ایک بہت اہم بات ہے جسکو ایک عام مسیحی نہیں جانتا ۔ اس سے پہلے کہ میں اسکو بیان کروں آپ ان آیات کو غور سے پڑھیں۔ اعمال 15:1 اور 5؛

1-پھر بعض لوگ یہودیہ سے آکر بھائیوں کو تعلیم دینے لگے کہ موسیٰ کی رسم کے موافق تمہارا ختنہ نہ ہو تو تم نجات نہیں پا سکتے۔

5-مگر فریسیوں کے فرقہ سے جو ایمان  لائے تھے ان میں سے بعض نے اٹھ کر کہا کہ انکا ختنہ کرانا اور ان کو موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے کا حکم دینا ضرور ہے۔

 پہلی آیت کے بیان کے مطابق ان بھائیوں کی تعلیم یہ تھی کہ جب تک ان کا ختنہ نہ ہو تو وہ نجات نہیں پا سکتے۔ میں نے اپنے آرٹیکل  "تناخ اور تلمود(https://backtotorah.com/?p=716) میں بیان کیا تھا کہ یشوعا کے زمانے میں فریسی کون تھے۔  یشوعا نے  فریسیوں  کے بارے میں کہا تھا کہ وہ انسانی احکامات کی تعلیم دیتے ہیں ۔ وہ خدا کے حکم کو ترک کرکے آدمیوں کی روایت کو قائم رکھتے ہیں (مرقس 7:5 سے 13)۔  یہ کہنا ختنہ نہ ہو تو نجات نہیں پا سکتے بالکل غلط تھا اور  اعمال کے 15 باب میں اسی ہی بات پر  بات کرتے ہوئے پطرس نے یہ کہا "پس اب تم شاگردوں کی گردن پر ایسا جؤا رکھ کر جسکو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو۔ ” پطرس فریسیوں کی دی ہوئی انسانی تعلیم کی بات کر رہا تھا نہ کہ خدا کے دئے ہوئے حکموں یعنی اسکی شریعت کو "بھاری جؤا” کہہ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یشوعا  نے متی 11:28 سے 30 میں کہا کہ  ہم اسکا جؤا اٹھا لیں کیونکہ اسکا جؤا ہلکا ہے اور اسکا جؤا شریعت ہے۔  یوحنا 15:10 میں ایسے لکھا ہوا ہے؛

اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اسکی محبت میں قائم ہوں۔

یشوعا اور اسکے شاگردوں کے پاس نیا عہد نامہ نہیں تھا۔ جب بھی یشوعا نے کلام کا حوالہ دے کر تعلیم دی تو وہ پرانا عہد نامے سے ہی تھی۔ یشوعا نے جو بھی احکامات دئے وہ  بھی پرانے عہد نامے سے ہی تھے۔ یہاں تک کہ یشوعا کے شاگردوں نے کلام کے متعلق جو بھی باتیں کہیں وہ پرانے عہد نامے کی بنیاد پر ہی تھیں۔  1یوحنا 5:3 میں لکھا ہے؛

اور خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اسکے حکموں پر عمل کریں اور اسکے حکم سخت نہیں۔

انگلش بائبل میں "سخت” کی جگہ "بھاری” لکھا ہوا ہے۔ اگر اسکے حکم سخت نہیں تو پھر پطرس کیوں انھیں بھاری جؤا کہے گا۔ کیا پطرس خدا کے کلام میں اضافہ کر رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔  1 یوحنا 3:4 میں لکھا ہے؛

جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔

میری اردو تو ذرا کمزور ہے مگر اس آیت میں آپ ہی بتا دیں کہ "شرع” کیا ہے؟   پولس نے رومیوں 7:7 میں کہا؛

پس ہم کیا کہیں؟ کیا شریعت گناہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ بغیر شریعت کے میں گناہ کو نہ پہچانتا مثلاً اگر شریعت یہ نہ کہتی کہ تو لالچ نہ کرتو میں لالچ کو نہ جانتا۔

پولس کے کہنے کے مطابق  کہ راستباز انسان کو گناہ کی پہچان شریعت کراتی ہے  مطلب یہ کہ بغیر شریعت کو جانے انسان نہیں جان سکتا کہ خدا کی نظر میں  وہ کیا گناہ ر رہا ہے۔ ایک انسان بظاہر تو اچھا ہوسکتا ہے مگر اگر اسکے دل میں لالچ ہے تو شریعت میں لکھا ہے کہ لالچ کرنا گناہ ہے۔  بعض کی نظر میں یہ حکم شریعت کا حصہ ہے اور شاید یہ ان پر لاگو نہیں ہوتا J  غلط۔ دس احکامات شریعت کا حصہ ہیں  اور خدا نے ہمیں اپنے پڑوسی کی کسی بھی چیز کا لالچ نہ کرنے کا حکم دیا ہے (خروج 20:7)۔

غیر قوموں کا رسول:

ربی شاؤل یعنی پولس پر ایک الزام یہ لوگ یہ بھی لگاتے ہیں کہ  یشوعا نے  متی 10:5 میں اپنے شاگردوں کو کہا؛

ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور انکو حکم دیکر کہا۔ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔

انکے کہنے کے مطابق یشوعا نے غیرقوموں میں تعلیم دینے سے منع کیا اور پولس اپنے آپ کو یشوعا کے حکم کے برخلاف "غیر  قوموں ” میں  گیا۔  رومیوں 11:13

میں یہ باتیں تم غیر قوموں سے کہتا ہوں۔ چونکہ میں غیر قوموں کا رسول ہوں اسلئے اپنی خدمت کی بڑائی کرتا ہوں۔

میرا نہیں خیال کہ یشوعا کو انکو اس وقت یہ کہنے سے مراد تھی کہ وہ کبھی بھی غیرقوموں میں منادی نہ کریں کیونکہ  متی 28:19 میں اس نے خود اپنے شاگردوں سے کہا؛

پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور انکو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔

سب قوموں سے مراد تو غیر قوم ہی بنتی ہے۔ جب یشوعا نے متی 10:5 میں شاگردوں کو یہ حکم دیا تھا تب تک اس کے پاس آسمان اور زمین کا کل اختیار نہیں آیا تھا۔ یہ اختیار اسکے مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد  میں آیا تھا۔ (آپ میرا ایک اور آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت تھی زمین پر آنے کی؟” بھی پڑھیں۔) اگر پولس یشوعا کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا تھا تو پطرس نے بھی پھر اس قسم کی خلاف ورزی کرنیلیس کے گھرانے میں جا کر کی تھی  (اعمال 10)۔ آپ اس کہانی کو کلام میں سے خود پڑھ سکتے ہیں۔

نجات صرف  ایمان سے ہے؟

 پولس پر یہ لوگ ایک اور الزام یہ لگاتے ہیں کہ اسکے مطابق نجات  صرف  ایمان سے ہے (رومیوں 4 باب)۔ چونکہ یہ لوگ پولس کو تو جھوٹا قرار دیتے ہیں مگر یعقوب کو نہیں اسلئے وہ یعقوب 2:14 کا حوالہ دیتے ہیں؛

ائے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مسیحی کہنے کو تو  پولس کو جھوٹا  نہیں سمجھتے مگر اسکی اس تعلیم کو انھی لوگوں کی طرح  جو کہ پولس کو جھوٹا کہتے ہیں،  خود بھی صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے۔ نجات ایمان کے وسیلے پر ہی ملتی ہے مگر اگر نجات حاصل کرنے کے بعد کوئی کلام کی باتوں پر عمل نہ کرتا ہو تو ایسی نجات کا کوئی فائدہ نہیں اور یعقوب یہی بات کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ درحقیقت  پولس نے بھی رومیوں 3:31 میں ایسے ہی کہا؛

پس کیا ہم شریعت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔

پولس کے زمانے میں بھی لوگ پولس کی سچی تعلیم کو غلط سمجھ بیٹھے مگر پولس نے ہمیشہ ہی شریعت کے ماتحت چلنے کی تعلیم دی ہے ۔  کیونکہ جب یروشلیم میں پولس بزرگوں کے سامنے حاضر ہوا  تو انھوں نے اسے جو حکم دیا اس نے انکے حکم کے مطابق ہی کیا ۔ آپ کلام میں سے اعمال 21 باب کو خود پڑھیں میں صرف اسکی 24 آیت درج کر رہی ہوں؛

انہیں لیکر اپنے آپ کو انکے ساتھ پاک کر اور انکی طرف سے کچھ خرچ کر تاکہ وہ سر منڈائیں تو سب جان لیں گے کہ جو باتیں انہیں تیرے بارے میں سکھائی گئی ہیں انکی کچھ اصل نہیں بلکہ تو خود بھی شریعت پر عمل کرکے درستی سے چلتا ہے۔

پولس شریعت  پر عمل کرتا تھا اور یہ بات بزرگ جانتے تھے تبھی وہ اسکی طرفداری کر رہے تھے۔ پولس نے شریعت کو قائم رکھنے کو کہا ہے۔

ختنہ کرانے کا فائدہ نہیں کیونکہ شریعت لعنت ہے:

پولس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے ختنہ کروانے کو بے فائدہ کہا  ہےاور شریعت کو لعنت قرار دیا ہے۔

مجھے کسی ربی کی تعلیم یاد ہے جو پولس کے خط پر پیغام دے رہے تھے انھوں نے کہا کہ پولس کے خط کے بارے میں ایسے سوچیں جیسے کہ کسی نے کوئی سوال کیا ہو مگر ہمارے پاس وہ سوال نہیں ہے بلکہ جواب کی صورت میں پولس کا اس کلیسیا کو لکھا ہوا خط موجود ہے۔ گلتیوں کے خط کے بارے میں بھی  آپ یہی سوچیں کہ پولس سے کیےگئے   سوال کا جواب ہے ،مگر سوال کیا ہے یہ ہمیں علم نہیں گو کہ میرا اپنا شک یہی ہے کہ اعمال  15:1 میں جو لکھا ہے  وہی ہے کیونکہ گلتیوں 6:13 میں بھی کچھ ایسا بیان ہے  کہ جو انھیں ختنہ کروانے کا کہہ رہے تھے وہ صرف اور صرف اپنے فخر یعنی گھمنڈ کی باتیں سوچ رہے تھے تاکہ شاید لوگوں میں نام پیدا کر سکیں کہ انکے کہنے پر کسی نے اپنا ختنہ کروایا  تھا۔

پولس پر الزام ہے کہ گلتیوں  سے 35:2 میں اس نے کہا کہ ختنہ کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ؛

دیکھو میں پولس تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ختنہ کراؤگے تو مسیح سے تم کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ میں ہر ایک ختنہ کرانے والے شخص پر پھر گواہی دیتا ہوں کہ اسے تمام شریعت پر عمل کرنا فرض ہے۔

اگر ختنہ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو پھر پولس نے رومیوں 2:13 میں یہ کیوں کہا؛

کیونکہ شریعت کے سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔

ویسے تو ختنہ پیدائش 17 اباب میں خدا نے اپنے اور ابرہام اور اسکے گھرانے کے درمیان ابدی عہد کا نشان ٹھہرایا تھا  یعنی شریعت کے دیئے جانے سے پہلے۔ پولس ختنے کے خلاف ہرگز نہیں تھا جیسا میں نے اوپر بیان کیا وہ اس بات کے خلاف تھا کہ کوئی یہ کہے کہ ختنے کے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔

پولس نے گلتیوں 3:13 میں کہا؛

مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لیکر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔

اگر آپ نے جاننا ہے کہ شریعت کی لعنت کیا ہے تو اسکے لیے آپ کو استثنا 28:15 سے 68 آیات پڑھنی پڑیں گی ویسے تو پورا باب ہی پڑھ لیں تاکہ ساتھ ہی میں اسکی برکتیں بھی پتہ چل جائیں۔یہ صرف ایک مثال ہے کلام میں کچھ اور باتیں بھی درج ہیں  جن کی خلاف ورزی ہم پر لعنت لاتی ہے۔  خدا کے حکموں پر عمل کرنا برکتوں کا باعث ہے اور اسکے حکموں پر نہ عمل کرنا لعنت کا باعث،  یہی شریعت کی لعنت کہلاتی ہے  ، شریعت بذات خود لعنت ہر گز نہیں ہے ۔ جیسا میں نے  اوپر 1 یوحنا3:4 کی آیت لکھی کہ گناہ شریعت(شرع) کی مخالفت ہے لہذا خدا کے جن حکموں کی خلاف ورزی کے باعث ہم جن لعنتوں کے حقدار تھے یشوعا نے وہ اپنے اوپر لے لیں۔ وہ ہماری خاطر لعنتی ٹھہرا تاکہ ہم نجات حاصل کر کے اسکے حکموں پر عمل کرکے اسکی برکتوں کے حقدار ٹھہرائے جائیں۔

پولس ایک جھوٹا رسول:

وہ جو کہ پولس کو جھوٹا نبی پکارتے ہیں وہ اکثر مکاشفہ 2:2 کا حوالہ دیتے ہیں جس میں یشوعا نے افسیوں کی کلیسیا کو شاباشی دی ، اس میں لکھا ہے؛

میں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا جو اپنے آپ کو رسول کہتے ہیں اور ہیں نہیں تو نے انکو آزما کر جھوٹا پایا۔

وہ کہتے ہیں کہ یشوعا افسیوں کو شاباشی دے رہا ہے کیونکہ انھوں نے پولس کا جھوٹ پکڑ لیا تھا وہ جان گئے تھے کہ پولس ہی جھوٹا رسول ہے۔ انکے مطابق اعمال 21:28 سے 29 میں جو لکھا ہے؛

کہ ائے اسرائیلیو! مدد کرو۔ یہ وہی آدمی ہے جو ہر جگہ سب آدمیوں کو امت اور شریعت اور اس مقام کے خلاف تعلیم دیتا ہے بلکہ اس نے یونانیوں کو بھی ہیکل میں لا کر اس پاک مقام کو ناپاک کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے ترفمس افسی کو اسکے ساتھ شہر میں دیکھا تھا۔ اسی کی بابت انہوں نے خیال کیا کہ پولس اسے ہیکل میں لے آیا ہے۔

وہ جو پولس کو جھوٹا کہتے ہیں انکے مطابق یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ پولس غیر یہودیوں کو لا کر خدا کی مقدس ہیکل کو ناپاک کر رہا تھا اور یہ افسی ترفمس اور اسکےساتھ کی افسیوں کی کلیسیا  نے پولس کی جھوٹی تعلیم کو رد کیا تھا۔

 میں نے ان آیات کے بارے میں بہت غور کیا اور ذاتی طور پرمجھے  انکے اس نقطے کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی۔ آپ خود بھی غور کریں کہ کیا صرف اور صرف ترفمس افسی کا نام اس آیت میں موجود ہونا مکاشفہ کی اس بات کا ثبوت ہے؟  کیا جو یشوعا کو اپنا نجات دہندہ قبول کر لیتے ہیں وہ بنی اسرائیل کا حصہ  نہیں بن جاتے ہیں؟ اگر وہ بنی اسرائیل کا حصہ بن چکے ہیں تو کیا انکی ہیکل میں موجودگی سے خدا کا مقدس ناپاک ہو جاتا ہے؟  یہ کس قسم کا ثبوت ہے کہ یشوعا افسیوں کی کلیسیا کو "پولس رسول” کو جھوٹا پانے پر شاباشی دے رہا ہے جبکہ مکاشفہ میں پولس کا نام بھی نہیں دیا ؟ مجھے اعمال 21:28 سے 29 آیت میں اس بات کا ثبوت دکھائی نہیں دیتا۔ میرے خیال سے ان لوگوں کو کوئی اس سے بہتر آیت تلاش کر کے اپنی اس بات کو ثابت کرنا چاہئے۔

انہی  لوگوں کے کہنے کے مطابق جیسا کہ 1 یوحنا 4:2 میں جھوٹے نبی کی پہچان کا جو طریقہ بیان ہے پولس اس پر پورا اترتا ہے۔ پہلے ذرا ہم اس آیت پر ایک نظر ڈال لیں؛

خدا کے روح کو تم اس طرح سے پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔

صحیح!    ان لوگوں کے کہنے کے مطابق پولس  کہتا ہے کہ مسیح گناہ کی حالت میں مجسم ہوا  اسلئے وہ جھوٹا ہےکیونکہ اس نے رومیوں 8:3 میں کہا؛

اسلئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہوکر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کےلئے بھیج کرجسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔

یہ لوگ فلپیوں 2:7 کی آیت کو بھی اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں؛

بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔

مجھے کوئی ثبوت نظر نہیں آیا کہ کہ پولس نے اس بات سے انکار کیا ہو کہ مسیح مجسم نہیں ہوا تھا۔ ان کی ان باتوں کو پڑھ کر میرے ذہن میں پطرس کی دی ہوئی ہدایت کا ہی خیال آ رہا تھا جو کہ اس نے 2 پطرس 3:15 سے 16 میں دی۔ پولس کی جن روحانی باتوں کو یہ لوگ سمجھ نہیں پائے انھوں نے ان آیات کو کھینچ تان کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ میں ان آیات کی تشریح نہیں کرونگی مگر ان سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہوں گی کہ کیا یوحنا ہی نہیں تھا جس نے یسوع کے بارے میں کہا تھا  (یوحنا 1:29)؛

دوسرے دن اس نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کا گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔

یشوعا کو گناہ کی سزا کا حکم کس طرح سے دیا گیا تھا؟ کیا اس نے جسم میں دکھ اٹھایا اور مصلوب ہوا یا کہ پھر روح میں؟

میں، میں اور صرف میں:

 یہ لوگ پولس پر ایک الزام بھی لگاتے ہیں کہ پولس کے تمام صحیفے اسکے احکامات کو بیان کرتے ہیں نہ کہ خدا کے احکامات کو ۔ یعنی کہ وہ اپنے بارے میں فخر سے بیان کرتا ہے اور لوگوں میں اپنے آپ کو افضل بیان کرتا ہے ۔ میں صرف چند آیات لکھ رہی ہوں جو کہ یہ لوگ اپنے اس الزام کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔

2کرنتھیوں 11:5 اور 10

میں تو اپنے آپ کو ان افضل رسولوں سے کچھ کم نہیں سمجھتا۔

مسیح کی صداقت کی قسم جو مجھ میں ہے۔اخیہ کے علاقہ میں کوئی شخص مجھے یہ فخر کرنے سے نہ روکیگا۔

اکرنتھیوں  15:9 اور 10

کیونکہ میں رسولوں میں سب سے چھوٹا ہوں بلکہ رسول کہلانے کے لائق نہیں اسلئے کہ میں نے خدا کی کلیسیا کو ستایا تھا۔ لیکن جو کچھ ہوں خدا کے فضل سے ہوں اور اسکا فضل جو مجھ پر ہوا وہ بے فائدہ نہیں ہوا بلکہ میں نے ان سب سے زیادہ محنت کی اور یہ میری طرف سے نہیں ہوئی بلکہ خدا کے فضل سے جو مجھ پر تھا۔

گلتیوں 2:6 اور 7 اور 9 آیات

اور جو لوگ کچھ سمجھے جاتے تھے (خواہ وہ کیسے ہی تھے مجھے اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ خدا کسی آدمی کا طرفدار نہیں) ان سے جو کچھ سمجھے جاتے تھے مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ لیکن برعکس اسکے جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جس طرح مختونوں کو خوشخبری دینے کا کام پطرس کے سپرد ہوا اسی طرح نامختونوں کو سنانا اسکے سپرد ہوا۔

اور جب انہوں نے اس توفیق کو معلوم کیا جو مجھے ملی تھی تو یعقوب اور کیفا اور یوحنا نے جو کلیسیا کے رکن سمجھے جاتے تھے مجھے اور برنباس کو دہنا ہاتھ دیکر شریک کر لیا تاکہ ہم غیر قوموں کے پاس جائیں اور وہ مختونوں کے پاس۔

1 کرنتھیوں 10:31 سے 33

پس تم کھاؤ یا پِیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔ تم نہ یہودیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنو نہ یونانیوں کے لئے نہ خدا کی کلیسیا کے لئے۔ چنانچہ میں بھی سب باتوں میں سب کو خوش کرتا ہوں اور اپنا نہیں بلکہ بہتوں کا فائدہ ڈھونڈتا ہوں تاکہ وہ نجات پائیں۔

ا کرنتھیوں 11:1

تم میری مانند بنو جیسا میں مسیح کی مانند بنتا ہوں۔

چند اور آیات بھی ہیں جو کہ میں نہیں لکھ رہی مثال کے طور پر گلتیوں 2:11 سے 14 ، اعمال 13:47۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ پولس اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے اور اپنے آپ کو دوسرے سچے رسولوں سے زیادہ قابل سمجھتا ہے یہاں تک کہ وہ گلتیوں 2:11 سے 14 کے حوالے میں رسولوں کی بےعزتی کرنے  کو بھی فخر کا باعث سمجھتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے پولس کو غیر قوموں کے لئے نور بنا کر نہیں بھیجا تھا اور اوپر دی ہوئی تمام آیات کے مطابق پولس ہر بات میں "میں، میں اور صرف میں” یعنی اپنی اہمیت بیان کر رہا ہے۔

بات  وہی ہے جیسے کہ پطرس نے کہا تھا۔ یہ لوگ چونکہ پولس کی ہر بات اور اسکی تمام تعلیم  کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں اسلئے ان آیات کا حوالہ دے کر اُسے غلط پیش کر رہے ہیں۔  جب یشوعا نے متی 5:15 میں کہا تھا "تم دنیا کے نور ہو۔۔۔”  تو متی 7:28 باب کی آیت دکھاتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے شاگردوں سے ہی نہیں بلکہ اس بھیڑ سے بھی مخاطب تھا جنکو وہ یہ تعلیم دے رہا تھا۔ اگر پولس نے اپنے آپ کو غیر قوموں کا  نور کہا ہے تو اس نے اپنے لئے غلط نہیں کہا تھا کیونکہ یشوعا نے تو یہ میرے اور آپ کے لئے بھی کہا ہے۔ اگر پولس نے کرنتھیوں کی کلیسیا کو اپنی مانند بننے کو کہا تھا تو اس نے انھیں غلط نہیں کہا تھا کیونکہ کرنتھیوں کی کلیسیا کو  جن کا ایمان ابھی یشوعا پر نیا نیا ہی تھا انھیں کلام کی بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا اور شاید اسلئے پولس انھیں کہہ رہا تھا کہ وہ اسکی مانند بنیں جیسا کہ وہ مسیح کی مانند بنتا ہے۔    وہ کلام پر عمل کرنے کے حوالے سے بات کر رہا تھا۔

میں جب نئے عہد نامے کی کتابوں پرآرٹیکل لکھونگی تو تب پولس کی ان تمام باتوں کی تفصیل کو بیان کرونگی۔ میرا اس آرٹیکل کو لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ پولس جھوٹا رسول نہیں جیسا کہ یہ لوگ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ وہ خود پولس کی روحانی باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو اسلئے اپنے مقصد کی خاطر اسکے لکھے ہوئے صحیفوں کو غلط ٹھہراتے ہیں۔  2 پطرس 1:20 سے 21 میں لکھا ہے؛

اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔

ویسے تو مجھے علم ہے کہ یہ لوگ جو پولس کو جھوٹا نبی کہتے ہیں وہ تو پطرس کے اس خط کو بھی سچ نہیں مانتے مگر میں نے یہ آیت انکے لئے نہیں لکھی بلکہ ان مسیحیوں کے لئے لکھی ہے جو کہ کلام کی تمام کتابوں کو سچ مانتے ہیں۔ یہ کہنا  کہ پولس خدا کی طرف سے رسول نہیں تھا سراسر غلط ہے یہ لوگ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ پولس اور سیلاس کی تعلیم جو کہ انھوں نے بیریہ کے لوگوں کو دی ، بیریہ کے ان لوگوں کے بارے میں  اعمال 17:11 میں لکھا ہے؛

 یہ لوگ تھسلینکے کے یہودیوں سے نیک ذات تھے کیونکہ انہوں نے بڑے شوق سے کلام کو قبول کیا اور روز بروز کتاب مقدس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔

دوسروں کی سننے میں کوئی حرج نہیں مگر کلام میں سے خود بھی تحقیق کرنا آپ کے اپنے لئے اچھا ہے تاکہ انکی سنتے سنتے کہیں آپ انکے کہنے پر عمل کرنا تب تک نہ شروع کریں جب تک کہ خود کلام سے تصدیق نہ کر لیں۔ بیریہ کے لوگوں کی طرح بنیں ، کلام میں سے خود بھی تحقیق کرنا سیکھیں۔ مجھے علم ہے کہ ان لوگوں نے اور کیا کیا الزام لگائے ہیں مگر میرے خیال سے  جو حقیقت کی تلاش میں ہیں وہ اس چھوٹے سے آرٹیکل سے بھی پولس کی حقیقت پہچان سکتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہرگز نہیں ہے۔

میری ہمیشہ کی طرح یہی دعا ہے کہ خداوند خدا خود آپ کو اپنے کلام کی سچائی دکھائے یشوعا کے نام میں۔ آمین