یوناہ 2 باب

آپ کلام میں سے یوناہ کا 2 باب خود مکمل پڑھیں۔

ہم نے پچھلے باب کے آخری حصے میں پڑھا تھا کہ یوناہ نے ملاحوں کے پوچھنے پر انکو صلاح دی تھی کہ وہ اسے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں تو سمندر انکے لئے ساکن ہوجائیگا کیونکہ وہ جانتا ہےکہ سمند ر میں طوفان اسکے سبب سے آیا ہے۔ یوناہ کے پہلے باب میں ہمیں کہیں پر بھی یہ نہیں لکھا نظر آئے گا کہ اس نے ایسا مشورہ خدا کے کہنے پر دیا تھا یا اس نے خداوند کی پہلے رائے جاننے کی کوشش کی تھی اور پھر یہ صلاح دی تھی۔ کیا یوناہ ابھی بھی خدا کا حکم ماننے سے گریز کر رہا تھا؟ یولکت شیمونی، Yulkut Shimoni میں ایک ربی نے اسکی تشریح میں کہا کہ ” یوناہ خود کو سمندر میں ہلاک کرنا چاہتا تھا”۔ انکی نظر میں یوناہ ابھی بھی خدا کا حکم ماننے کی بجائے مرنا منظور کر رہا تھا۔ مگر کیوں؟

یوناہ تو شاید مرنا چاہتا ہو مگر خدا کا اسکے لئے منصوبہ کچھ اور ہی تھا خدا نے ایک بڑی مچھلی کو بھیجا جس نے یوناہ کو نگل لیا۔ سائنس دان اکثر بائبل کی کہانیوں کی تفتیش کرنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ اگر آپ نیشنل جیوگرافیکل چینل National Geographical, کی ویب سائٹ پر ریسرچ کریں گے تو آپ کو خود کو بھی اس بات کا ثبوت نظر آ جائے گا کہ اتنی بڑی مچھلی پائی جاتی ہے جو کہ انسان کو باآسانی نگل سکتی ہے۔ بہت سوں کا خیال یہ ہے کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ تھا مگر نہیں ۔ یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں تھا ان تین دنوں اور راتوں میں اس نے خداوند سے دعا نہیں مانگی مگر پھر اس نے اپنی مصیبت میں خداوند سے فریاد کی۔

بہت سے لوگ جب یوناہ کے تین دن رات کی تشریح کرتے ہیں تو وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایک دن کے 24 گھنٹے نہیں بلکہ گنتی میں 3 دن اور رات بنتے ہیں۔ یشوعا نے اپنے بارے میں جب یوناہ نبی کا نشان دیا تو اس سے اسکی مراد تین رات اور تین دن ہی تھی (متی 12:38 سے 40)۔ یشوعا کے زمانے میں بھی وہ لوگ تھے جو کہ قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے یعنی کہ مردے جی اٹھیں گے (اعمال 23:8)۔ اسلئے انکے خیال میں یوناہ مچھلی کے پیٹ میں 3 دن رات تک زندہ ہی تھا۔ ابھی بھی بہت سے لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں مگر ایسا اسکی یوناہ 2 باب میں کی ہوئی دعا سے نہیں لگتا کہ وہ زندہ تھا ، اسکی دعا سے لگتا ہے کہ وہ مرچکا تھا۔ یہودی دانشوروں کی نظر میں یوناہ 1:17 میں مچھلی کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ نر مچھلی ہے (داگ، דָּ֣ג، Dag) مگر پھر جو یوناہ 2:1 میں لفظ ہے وہ مادہ مچھلی ہے (داگاہ، דָּגָֽהDagah, ) جو کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یوناہ پہلے جس مچھلی کے پیٹ میں تھا اس میں وہ تکلیف میں نہیں تھا اسلئے اس نے دعا کرنے کی کوشش نہیں کی مگر جیسے ہی وہ مادہ مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا، جو کہ حاملہ مچھلی تھی اور وہ اسکے پیٹ میں تھا اسلئے مچھلی کے انڈوں کے ہمراہ وہ جگہ کی تنگی کے باعث تکلیف میں تھا تبھی اس نے خداوند کی طرف رجوع کرنے کی سوچی۔ مدراش میں اسکی تشریح کچھ ایسے ہی کی گئی ہے۔ اردو کلام میں یوناہ 2:2 میں یہ لکھا ہے؛

میں نے اپنی مصیبت میں خداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی۔ میں نے پاتال کی تہ سے دہائی دی۔ تو نے میری فریاد سنی۔

اگر آپ اسی آیت کو عبرانی کلام میں دیکھیں گے تو جہاں پر اردو کلام میں "پاتال” لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "شیعول، שְׁא֛וֹל، Sheol” ہے ۔ اردو لفظ "پاتال” کا بھی معنی "دوزخ” ہے اور اگر آپ شیعول کے معنی تلاش کریں گے تو یہی ملے گا کہ "وہ جگہ جہاں انسان مرنے کے بعد ہوتا ہے”۔ میں نے اپنے یوناہ 2باب کے پرانے آرٹیکل میں کہا تھا کہ یوناہ عالم ارواح میں تھا جس پر نقطہ اٹھایا گیا تھا کہ ایسا ممکن نہیں۔ پہلے مجھے لگا کہ میں نے شاید اردو کا مناسب لفظ نہیں استعمال کیا مگر پھر میں نے پاتال اور شیعول دونوں کے ہی معنی دیکھے ہیں اور ابھی بھی یہی کہونگی کہ وہ عالم ارواح میں تھا کیونکہ ایسا میں نہیں بلکہ کلام کہہ رہا ہے۔ اور میرے یہی ماننا ہے کہ خدا کے لئے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ یوناہ کا جسم تو مچھلی کے پیٹ میں مردہ تھا مگر اسکی جان اور روح نہیں ۔ یوناہ نے روح میں خداوند سے فریاد کی۔ اس نے اپنی فریاد میں گہرے سمندر کی تہ اور سیلاب کو بیان کیا۔ اسکو سمندر کی موجیں اور لہریں بھی یاد تھیں اسکو زیادہ ڈر اس بات کا لگا کہ وہ خداوند کی حضوری سے دور ہوگیا ہے۔ اسے اپنا پہاڑوں کی تہ تک غرق ہونا یاد تھا اسے خیال آیا کہ زمین کے اڑبنگے اس پر ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے ہیں شاید وہ پھر کبھی خشکی نہ دیکھے۔ اسکا دل بیتاب ہوا اور اس نے خداوند کو یاد کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اسکی دعا خداوند کے حضور پہنچ سکتی ہے تبھی اس نے خداوند کی شفقت پر امید لگائی یہ یاد کرکے (یوناہ2:9) کہ

میں حمد کرتا ہوا تیرے حضور قربانی گذرانونگا۔ میں اپنی نذریں ادا کرونگا۔ نجات خداوند کی طرف سے ہے۔

یوناہ کی مچھلی کے پیٹ کی یہ کہانی؛ موت، تدفین اور پھر سے جی اٹھنے ہر لحاظ سے یشوعا کے دئے ہوئے ایک نشان پر پورا اترتا ہے۔ میں نے اوپر کہا تھا کہ یوناہ نے تین دن رات تک خداوند سے فریاد کرنے کی نہیں سوچی تھی مگر پھر اس خداوند سے فریاد کی۔ مجھے جن صاحب نے آیات بھیجی تھیں کہ کو ئی بھی مرنے کے بعد اس طرح سے زندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فریاد کرتا ہے انھوں نے اپنی اس بات کی تصدیق میں یہ حوالاجات فراہم کئے تھے۔ ایوب 7:9، زبور 6:5، زبور 30:9، یسعیاہ 38:18 سے 19، زبور 88:10 سے 12، زبور 115:17 اور مکاشفہ 1:5۔ بلاشبہ یہ آیات صحیح کہتی ہیں مگر کلام کی کچھ اور باتیں بھی ہیں جنہیں ہمیں دھیان میں رکھنا لازم ہے۔ آپ نے خود بھی کلام میں کتنوں کا ہی پڑھا ہوگا کہ مردہ تھے مگر زندہ ہوئے۔ واعظ 3:2 میں لکھا ہے؛

پیدا ہونے کا ایک وقت ہے اور مر جانے کا ایک وقت ہے۔۔۔۔۔۔

یوناہ کے ذمے خدا نے ایک کام دیا تھا یوناہ کا مچھلی کے پیٹ میں یوں ہونا اسکی موت کا مقرر کردہ وقت نہیں تھا۔ یہ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ خدا یوناہ کو اپنی حضوری سے اس طرح سے دور اس لئے کر رہا تھا تاکہ وہ خداوند کے خوف اور راستبازی میں قائم رہے کیونکہ نئے عہد نامے میں درج ہے (متی 10:28)؛

جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کرسکتے ان سے نہ ڈرو بلکہ اسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔

میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یوناہ خدا سے اس لئے نہیں دور بھاگ رہا تھا کیونکہ وہ نینوہ کو خداوند کا پیغام دینے دے ڈر رہا تھا نہیں اسکی وجہ کوئی اور تھی جو کہ ہم 3 اور 4 باب میں پڑھیں گے۔ خدا نے اپنے بہت سے نبیوں کو عالم ارواح کو روح میں دکھایا ہے جن کی بابت انھوں نے اپنے صحیفوں میں ذکر کیا۔ شریعت میں پیدائش 2:7 میں لکھا ہے؛

اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔

انسان کا جسم مٹی سے بنا ہوا ہے اور اس میں زندگی کا دم خداوند کی طرف سے ہے۔ احبار 17:11 میں لکھا ہے؛

کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے۔۔۔۔۔۔

واعظ 12:7 میں لکھا ہے؛

اور خاک خاک سے جاملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اور روح خدا کے پاس جس نے اسے دیا تھا واپس جائے۔

یہودی نظریے کے مطابق تمام کے تمام لوگ شیعول میں جاتے ہیں چاہے وہ اچھے ہیں یا برے کیونکہ ایوب 3:11 سے 19 میں کچھ ایسا ہی بیان ہے ۔ لوقا 16:19 سے 31 میں یشوعا نے لعزر اور امیر آدمی کی کہانی بیان کی۔ یشوعا نے اپنی کسی بھی تمثیل میں نام نہیں لئے مگر اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے اس نے خاص لعزر کا نام لیا جو کہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ کہانی خالی ایک کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقت شامل ہے۔ آپ کلام میں سے اس کہانی کو خود پڑھیں۔ جب یشوعا صلیب پر مصلوب کیا گیا تو اسکے ساتھ دو اور کو بھی صلیب دی گئی تھی جو کہ ڈاکو تھے (لوقا 23:33 سے 43)۔ یشوعا نے ان میں سے ایک کو یوں کہا تھا "۔۔۔میں تجھ سے سچ کہتا ہوں تو آج ہی میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔” کیا یشوعا نے پہلے یہ نہیں کہا تھا کہ "میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔ اور اگر میں جاکر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لونگا تاکہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو۔ (یوحنا 14:2 سے3)۔

یہودیوں کے نظریے کے مطابق عالم ارواح میں اچھے اور برے انسانوں اور گرائے گئے فرشتوں کی الگ الگ جگہ یعنی کہ اسکے کئی حصے ہیں۔ اور اس کا کچھ اندازہ ہم لعزر کی کہانی سے لگا سکتے ہیں۔ انکے نظریے کے مطابق ویسا ہی جیسا کہ کلام میں درج ہے کہ خداوند کے دن تمام مردے چھوٹے اور بڑے، خداوند کے حضور پیش کئے جائینگے اور کتابیں کھل جائیں گی جسکے مطابق ہر ایک کو انکے اعمال کے مطابق انصاف ملے گا۔ ہم کچھ ایسا ہی مکاشفہ 20:12 سے 13 میں پڑھتے ہیں۔ نئی زمین کو آپ فردوس نہیں کہہ سکتے کیونکہ یشوعا نے اپنے ساتھ لٹکائے گئے ہوئے بدکاروں میں سے ایک کو "آج ہی ” فردوس میں ہونے کا کہا تھا۔ میری پہلے بھی عورتوں کی بائبل سٹڈی میں اس بات پر بہت بحث ہو چکی ہوئی ہے جنکے خیال میں آسمان کی بادشاہت، جنت اور فردوس ایک ہی چیز ہے۔ میں نے اس پر بھی آرٹیکل لکھنے کا سوچا ہوا تھا اور ابھی تک موقع نہیں ملا ہے۔ نہ تو میں ان تمام باتوں کی تفصیل میں ابھی جا سکتی ہوں اور نہ ہی اس بات کو شاید آپ کو اتنی اچھی طرح سے سمجھا پاؤں کہ کس طرح سے یوناہ مچھلی کے پیٹ میں مردہ تھا۔ اگر آپ میری اس بات سے متفق نہیں ہیں تو اس سے کسی کو ضر ر نہیں پہنچتا کیونکہ ان باتوں کی صحیح سمجھ آنے یا نہ آنے سے کسی سے اسکی نجات نہیں چھین سکتی۔ مجھے یشوعا کے دئے ہوئے یوناہ نبی کے نشان کی بخوبی سمجھ کلام کے وسیلے سے ہے اور میں یہی اس آرٹیکل میں بھی بیان کر رہی ہوں۔
میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ یوناہ نبی پہلے نر مچھلی کے پیٹ میں تھا اور پھر مادہ مچھلی کے پیٹ میں۔ مچھلی کا ذکر تین آیات میں آیا ہے۔ یوناہ 1:17 میں نر مچھلی کا ذکر ہے۔ یوناہ 2:1 میں مادہ مچھلی کا ذکر ہے اور یوناہ 2:10 میں ایک بار پھر سے نر مچھلی کا ذکر ہے۔ میں ربیوں کی اس تشریح سے متفق نہیں جو وہ بیان کرتے ہیں گو کہ یہ سچ ہے کہ جب تک انسان تکلیف میں نہیں ہوتا وہ خداوند سے فریاد کرنے کی نہیں سوچتا مگر میرا اپنا ذاتی خیال ہےکہ یوناہ کا جسم نر مچھلی کے پیٹ میں تھا۔ جس مادہ مچھلی کا ذکر ہوا ہے وہ اس جگہ کو بیان کرتا ہے جہاں مردے ہیں۔ یسعیاہ 26:19 میں لکھا ہے ۔۔۔زمین مردوں کو اگل دیگی۔ میں ایسا اسلئے سوچتی ہوں کہ عبرانی کلام میں یوناہ 2:1 میں مچھلی کے پیٹ کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ عبرانی لفظ "می آ، מְעֵי، Me’eh” ہے مگر پھر یوناہ 2:2 میں "تہ” کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ "میب- بیتن، מִבֶּ֧טֶן Mibbeten, ” ہے جسکا لفظی معنی "رَحمَ” ہے مگر اس آیت میں ” پاتال ” کے لفظ کی بنا پر اسکو اردو کلام میں "تہ” لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ کھوکھلی یا گہرائی کو بیان کرتا ہے اور پاتال کا لفظ میں نے پہلے ہی بیان کیا ہے کہ شیعول ہے۔ یوناہ کا دل جب بیتاب ہوا تو اس نے خداوند سے دعا مانگی اور اسکی دعا خداوند کے حضور پہنچی (یوناہ 2:7)۔ خداوند کا دن جلد آنے والا ہے جب شیعول مردے اگل دے گا۔ کوئی بھی راستباز انسان خداوند سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا، یوناہ بھی خداوند سے محبت رکھتا تھا اور خداوند کی نظر میں راستباز تھا ۔

میں ساتھ ہی میں یہ بھی بیان کر دوں کہ یشوعا کو کس بنا پر "مردوں میں پہلوٹھا ” پکارا گیا ہے۔ آپ اپنے حوالے کے لئے ان آیات کو کلام میں سے پڑھ سکتے ہیں۔ مکاشفہ 1:5، کلسیوں 1:18، رومیوں 8:29۔ اگر آپ نے میرے دوسرے آرٹیکلز پڑھے ہیں تو میں نے ان میں بیان کیا تھا کہ پہلوٹھا بیٹا اپنے پہلوٹھے کا حق گنوا بھی سکتا ہے اور آدم کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا کہ تمام انسانوں میں یعنی جسم میں وہ پہلا تھا۔وہ پہلوٹھا تھا مگر گناہ کی وجہ سے یہ حق گنوا بیٹھا اور اسکے اس گناہ کے سبب سے سب پر موت آئی کیونکہ "گناہ کی مزدوری موت ہے” مگر یشوعا کے سبب سے ہمیں زندگی ملی کیونکہ 1 کرنتھیوں 15:20 سے 23 میں لکھا ہے؛

لیکن فی الواقع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں ان میں پہلا پھل ہوا۔ کیونکہ جب آدمی کے سبب سے موت آئی تو آدمی ہی کے سبب سے مردوں کی قیامت بھی آئی۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائینگے۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے پہلا پھل مسیح۔ پھر مسیح کے آنے پر اسکے لوگ۔

اور 1 کرنتھیوں 15:45 میں یہ لکھا ہے؛

چنانچہ لکھا بھی ہے کہ پہلا آدم زندہ نفس بنا۔ پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔

یوناہ نے کہا "نجات خداوند کی طرف سے ہے” ۔ یہ تصور کوئی نیا تصور یا صرف نئے عہد نامے کا تصور نہیں۔ یہ حقیقت جتنی نئے عہد نامے میں ہے اتنی ہی پرانے عہد نامے میں بھی ہے۔ وہی جس سے نجات مل سکتی ہے، اکثر لوگ اس سے اور اسکے حکموں سے، یوناہ کی طرح دور بھاگنے کی کرتے ہیں۔ پر جب مصیبت میں پڑتے ہیں تو انھیں اپنی دکھ تکلیف کی گہرائی کا احساس ہوتا ہے انھیں اپنا آپ موت کی گہرائیوں میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ مگر پھر انھیں شاید خدا کی اس شفقت کا خیال آتا ہے جس سے وہ نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہی وہ مقام ہوتا ہے جب وہ خداوند کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہوسیع 6:1 سے 2میں لکھا ہے؛

آؤ ہم خداوند کی طرف رجوع کریں کیونکہ اسی نے پھاڑا ہے اور وہی ہم کو شفا بخشیگا۔ اسی نے مارا ہے اور وہی ہماری مرہم پٹی کریگا۔ وہ دو روز کے بعد ہم کو حیاتِ تازہ بخشیگا اور تیسرے روز اٹھا کھڑا کریگا اور ہم اسکے حضور زندگی بسر کرینگے۔

یوناہ کا دوسرا باب ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ کیسے ہم اپنے اوپر لائی ہوئی مصیبتوں کو اپنے سے دور کر سکتے ہیں اور آگے قدم بڑھا سکتے ہیں۔ شاید آپ نے نوٹ کیا ہو کہ یوناہ کی اس دعا میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ خداوند خدا میں نے گناہ کیا ہے مجھے معاف کر، میں نینوہ شہر جانے کے لئے تیار ہوں۔ ہم اسکے بارے میں مزید یوناہ کے 3 باب میں پڑھیں گے۔ اگر آپ ابھی کسی مصیبت میں سے گذر رہے ہیں تو بجائے دوسروں پر الزام دینے کے سوچیں کہ کیا یہ مصیبت آپ کی اپنی لائی ہوئی تو نہیں۔ خداوند کی طرف رجوع لائیں کیونکہ وہ زیادہ عرصے تک آپ کو مصیبت میں رہنے نہیں دے گا وہ دو روز کے بعد آپ کو تیسرے روز اٹھا کھڑا کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ میں خداوند کے مخصوص وقت کی بات کر رہی ہوں۔ مراد یہ ہے کہ وہ آپ کو مصیبت میں لمبا عرصہ نہیں رکھے گا۔ یوناہ کی دعا نجات کی درخواست نہیں تھی بلکہ شکرگذاری اور اس نجات کی تعریف تھی جو کہ اسے پہلے سے ہی مل چکی تھی۔ آپ کے لئے بھی یشوعا نے یہ کیا ہے کہ جب آپ ابھی گناہ کی حالت میں ہی تھے (رومیوں 5:8)۔

خداوند نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ یوناہ کو خشکی پر اگل دے اور مچھلی نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا۔
آپ اگر چاہیں تو یوناہ کی اسی دعا کو یا پھر زبور 17 کو اپنی دعا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور خدا پر اس بات کا بھروسہ رکھ سکتے ہیں کہ وہ جلد ہی آپ کو مصیبت سے باہر نکال دے گا۔ میری خدا سے آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ وہ جلد آپ کو مصیبتوں کی گہرائی سے نکال کر خشکی پر لا کھڑا کرے، یشوعا کے نام میں۔ آمین