سبّت کے متعلق مختلف قیاس آرائی
خروج ۲۰ : ۸
یاد کرکے تو سبت کا دِن پاک ماننا۔
کتابِ مقدس میں ہم جگہ با جگہ خُداوند باری تعالی کے اِنسان کو دئیے گئے احکامات کا مجموعہ دیکھتے ہیں اِن احکامات کو دینے کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ اِنسان گناہ سے بچا رہے اور خُدوند کی ذات سے پختہ رشتہ قائم رکھ سکے چنانچہ کتاب ِ مقدس میں ہم خروج کی کتاب میں دئیے گئے سبّت کے اِس واحد حکم دیکھتے ہیں جس کے ساتھ خُداوند کی ذات لفظ “یاد “استعمال کرتی ہے جس سے کسی بھی متلاشانِ حق کیلئے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خُداوند کی ذات دیگر احکام کے ساتھ ساتھ اِس سبت کے اِس واحد خاص زور دیتی ہے کہ اُسکا بندہ اِس حکم کی پاسداری کرنے میں کسی طرح کی کاہلی یا سستی کا مظاہرہ نہ کرے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں قیام پذیر ہو علاوہ ازیں سبت کا حکم اِس بات کی بھی نشاندہی بهی کرتا ہے کہ سبّت خدوند کی طرف سے اپنے لوگوں کو دیا گیا ایک ابدی نشان ہے (خروج ۳۱ : ۱۳ ۔ حزقی ایل ۲۰ : ۱۲) کہ ہم اُس کے لوگ اور وہ ہمارا خالق ہے عہدِ تجدید میں مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ابنِ آدم سبّت کا ملک ہے (متّی ۱۲ : ۸) میرا خیال ہے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابنِ آدم کون ہے اگر آج ہی ابنِ آدم آپ کے دروازے پر دستک دے اور آپ سے پوچھے کہ آپ میرے سبّت کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
عہدِ تجدید میں مسیح کے ساتھ ساتھ پولس رسول بھی سبّت کی پاسداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں (اعمال ۱۷ : ۲) علاوہ ازیں پولس رسول اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ خُداوند کی اُمت کیلئے سبّت کا آرام باقی ہے (عِبرانیوں ۴ : ۹) اور خُداوند کی امّت کو سبّت اِسی لئے دیا گیا ہے ک وہ سبّت کی پاسداری کریں اور اِس نشان پر تا قیامت قائم رہ سکیں جو خُداوند کیطرف سے دیا گیا ہے مسیحی علما سبّت کے اِس حکم کو لیکر مختلف طرح کی قیاس آرائیاں رکهتے ہیں جن میں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں اول کہ مسیح نے شریعت کو پورا کیا ہے لہٰذا ہم پر شریعت کا حکم صادر نہیں ہوتا چلیں کچھ دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ مسیح نے شریعت کو پورا کیا ہے اور ہم پر یہ حکم صادرنہیں ہوتا جب اِس کے برعکس مسیح فرماتے ہیں اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میرے دوست کہلاؤ گے (یوحنا ۱۵ : ۱۴) اگر تم تم مجھ سے محبت رکهتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو جیسے میں نے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے (یوحنا ۱۵ : ۱۰) اِس قیاس آرائی کے متعلق مزید لکھنا فضول ہوگا کیوں کہ مسیح کے یہ قول اِس قیاس آرائی کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
دوسری قیاس آرائی جو سبّت کے متعلق مسیحی علما پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیح ہفتے کے پہلے دِن مسیح جی اٹھا ہے لہٰذا اب ہم ہفتے کے پہلے دِن ہی خُداوند کیلئے جمع ہونگے نہ کہ ہفتے کے ساتویں دن اگر ہم تمام اناجیل کا بغور مطالعہ کریں تو اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ہفتے کے پہلے دن قبر پر گئی نہ کہ مسیح ہفتے کے پہلے دِن جی اٹھے حوالے جات ملاخطہ کیجیئے۔
متّی ۲۸ : ۱
اور سبت کے بعد (ہفتہ کے پہلے دِن) پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دُوسری مریم قبر کو دیکھنے آئِیں۔
مرقس ۱۶ : ۱ تا ۲ آیت۔
جب سبت کا دِن گُزر گیا تو مریم مگدلینی اور یعقوب کی ماں مریم اور سلومی نے خوشبودار چیزیں مول لِیں تاکہ آکر اُس پر ملیں۔ وہ (ہفتہ کے پہلے دِن) بُہت سویرے جب سورج نِکلا ہی تھا قبر پر آئیں۔
لُوقا ۲۴ : ۱
سبت کے دِن تو اُنہوں نے حُکم کے مُطابِق آرام کِیا۔ لیکِن( ہفتہ کے پہلے دِن ) وہ صُبح سویرے ہی اُن خُوشبُودار چِیزوں کو جو تیّار کی تھِیں لے کر قبر پر آئیں۔
یُوحنّا ۲۰ : ۱
(ہفتہ کے پہلے دِن) مریم مگدلینی اَیسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھّر کو قبر سے ہٹا ہئوا دیکھا۔
مزید یہ کہ مسیح کی صلیبی موت سے پہلے اور بعد میں بھی مسیح کے حواری سبّت پاسداری کرتے نظر آتے ہیں جیسا مسیح کے زمینی ایام میں کرتے تهے اگر کچھ دیر کیلئے ہم اِس قیاس آرائی کو بھی سچ مان لیں تو اِس سے خداوند باری کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ جهوٹے پڑ جائینگے کہ میں خُداوند لا تبدیل خُدا ہوں (ملاکی ۳ : ۶) میں ابد تک لا تبدیل ہو یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ ہاں گھاس مُرجھاتی ہے پُھول کُملاتا ہے پر ہمارے خُدا کا کلام ابد تک قائِم ہے۔ (یسعیاہ ۴۰ : ۸) میرا خیال ہے اِس قیاس آرائی کے متعلق خداوند کے منہ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہی کافی ہیں۔
بعض علما یہ بھی قیاس آرائی رکهتے ہیں کہ مسیح نے سبّت کو بدل دیا ہے لیکن اِس قیاس آرائی کو سچ ماننے میں سب سے بڑا عذر یہ ہے کہ مسیح کو جو احتیار خُدا کی طرف سے دیا گیا ہے (متّی ۲۸ :۱۸) اورمسیح اِس اختیار میں کسی طرح کی ردوبدل یا ترمیم نہیں کر سکتے کیونکہ استثنا اور مکاشفہ میں لکھا ہے (استثنا ۴ : ۲۔ جِس بات کا مَیں تُم کو حُکم دیتا ہُوں اُس میں نہ تو کچُھ بڑھانا اور نہ کچُھ گھٹانا کہ تُم خُداوند اپنے خُدا کے احکام کو جو مَیں تُم کو بتاتا ہُوں مان سکو۔ مکاشفہ ۲۱ : ۱۸۔مَیں ہر ایک آدمی کے آگے جو اِس کِتاب کی نُبُوّت کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہُوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کُچھ بڑھائے تو خُدا اِس کِتاب میں لِکھی ہُوئی آفتیں اُس پر نازِل کرے گا۔)دوسرا جو علما یہ قیاس آرائی بیان کرتے ہیں وه تکنیکی طور پرمسیح کی ذاتِ اقدس پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ مسیح نے خُدا کے کلام میں ردوبدل یا ترمیم کی ہے اِس صورت میں مسیح کا فدیہ اور کفارہ بهی قبول نہیں ہوتا کیونکہ مسیح نے خُدا کے کلام میں ردوبدل یا ترمیم کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسیح نے اِس اختیار میں کسی طرح کی ردوبدل یا ترمیم نہیں کی لہذا علما کی یہ قیاس آرائی بهی غلط ثابت ہوئی۔
اِس کے علاوہ اگر ہم احکامِ عشرہ پر نظر ڈالیں تو احکامِ عشرہ کے چوتھے حکم میں سبّت کا دِن پاک ماننے کی تلقین کی گئی ہے کیا اب ایک مسیحی پر احکامِ عشرہ بهی صادر نہیں ہوتا؟
چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خُدا ، خُدا کا کلمہ کلام و احکام لا تبدیل ہیں اور وہ ہر اُس بندہِ مومن پر صادر ہوتے ہیں جو کتاب ِمقدس پر ایمان رکھتا ہے اور مسیح کو بطور نجات دہندہ قبول کرتا ہے مقدس یوحنا اپنے خط میں بہت واضح اور خوبصورتی سے لکھتے ہیں
۱ یُوحنّا ۲ باب ۳ تا ۴ آیات۔
اگر ہم اُس کے حُکموں پر عمل کریں گے تو اِس سے ہمیں معلُوم ہوگا کہ ہم اُسے جان گئے ہیں۔
جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں اُسے جان گیا ہُوں اور اُس کے حُکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھُوٹا ہے اور اُس میں سچّائی نہیں۔
میری یہ کاوش ہے کہ ہر متلاشانِ حق خُداوند کے زندہ کلام کا خود مطالعہ کریں اور سچائی کو جاننے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کریں یہوواه جو کل کائنات کا خالق و مالک ہے جس کا ہر حکم راست اور سچا ہے ہمیں اپنے مسیح کے وسیلہ سے کلام کے گہرے بھیدوں سے روشناس کریں تا کہ ہم اُس کے کلام کی پیروی کرتے ہوئے اُس بادشاہت میں داخل ہو سکیں جس کا وعدہ اُس نے اپنے بیٹے کے خون کے وسیلہ سے کیا اےخُداوند ہمیں اپنے احکام کو سمجھنے اور اُن پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین ۔
تحریر: اعجاز رحمت