ویلنٹائین ڈے , Valentine’s Day :

فروری کے مہینے میں ویلنٹائین ڈے پڑتا ہے جو کہ 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہ کافی پھیل گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھ دوں۔

رومن کیتھولک، آرتھوڈکس اور اینگلیکن چرچ اسکو سینٹ ویلنٹائین سے جوڑتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی سی روم کے بتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ” لوپرکیلیا، Lupercalia ” کا تہوار فروری 13 سے 15 تک منایا جاتا تھا۔ لوپرکیلیا، فبروا سے جڑا ہے جو کہ رومن بت ہے اور اسکے معنی ہیں "طہارت” اسی سے فروری کے مہینے کا نام نکلا ہے۔ یہ تہوار فحاشی سے جڑا ہے اور کلام فحاشی سے منع کرتا ہے۔ اس دن رومن بادشاہ نے سینٹ ویلنٹائین کو قتل کیا تھا کیونکہ وہ اس دن چھپ کر مرد اور عورت کی شادی کروا دیتے تھے۔ اس دن برہنہ مرد وں کے سامنے کنواری عورتوں کو زنا کاری کے لئے پیش کیا جاتا تھا۔ تبھی جب رومن بادشاہ کو سینٹ ویلنٹائین کے بارے میں معلوم پڑا تو اس نے انھیں قتل کر دیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں رومن کیتھولک چرچ نے اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائین کی عقیدت میں منانا شروع کر دیا مگر یہی سینٹ ایک واحد سینٹ نہیں تھا جسکا نام سینٹ ویلنٹائین تھا آپ کو کچھ اور سینٹ بھی اس نام سے پڑھنے کو ملیں گے۔رومن کیتھولک چرچ نے اسکو طہارت کا دن بھی پکارا ہے اور پھر بعد میں مقدسہ مریم کی طہارت کے دن کے طور پر فروری 2 کو اسے منانا شروع کر دیا۔اگر آپ مصر یا روس میں کرسمس جو کہ جنوری 7 کو پڑتا ہے اس دن سے مریم کی طہارت کے 40 دن گنیں گے تو وہ فروری 15 لوپرکیلیا کا دن پڑتا ہے۔ رومن قوم کے نزدیک فروری 13 سے 15 بھی طہارت کا دن تھا۔ رومن کیتھولک چرچ کے پوپ نے 14 فروری کو ویلنٹائین ڈے مقرر کر دیا تھا۔ مقدسہ مریم کی طہارت کے دن کی تفصیل پھر کبھی کسی اور آرٹیکل میں شاید لکھنے کی سوچوں وہ بھی اگر خداوند کی مرضی ہوئی تو۔ لوپرکیلیا کے اس تہوار کی تفصیل کو اگر آپ نے خود پڑھنا ہے تو انٹرنیٹ پر آپ کو کوئی نا کوئی لنک مل جائے گا۔اور اگر آپ نے ویلنٹائین ڈے کے کارڈز میں یا تصویروں میں دکھائے گئے چھوٹے فرشتے نما شکل کے بچے کو جو ہاتھ میں تیر کمان پکڑے ہوئے ہے، جسکو انگلش میں "کیوپڈ، Cupid ” کہا جاتا ہے، اس کی کھوج میں جانا ہے تو آپ کو اس سے متعلق کچھ اور کہانیاں سننے کو بھی ملیں گی۔ اور ان کہانیوں سے جڑے نام نمرود اور تموز کلام میں بھی نظر آئیں گے جو کہ تیر کمان سے شکار کرتے تھے۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ اس کا کلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر آپ کے خیال میں اس تہوار کو منانے میں کوئی حرج نہیں تو پھر تو شاید آپ کو بہت سے غیر مسیحی تہواروں کو بھی منانے میں حرج نہ ہو جو کہ شاید مسلمانوں کی عیدوں سے لے کر ہندوؤں کے تہوار بھی ہوسکتے ہیں۔

یرمیاہ 10:2میں لکھا ہے؛
خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم دیگر اقوام کی روش نہ سیکھو ۔۔۔۔۔۔۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو کہ یہودیت میں بھی اسی قسم کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مگر اسکی تاریخ 14 فروری نہیں بلکہ 15 آب (عبرانی مہینہ جو کہ تموز اور الول کے مہینے کے درمیان میں یعنی جولائی/اگست میں پڑتا ہے)۔ اسکو عبرانی زبان میں "تو – بی آب، Tu B’Av ” کہا جاتا ہے۔ مگر اسکو اسرائیل میں حگ حا-عحوا ،,Chag HaAhava חג האהבה بھی کہا جاتا ہے۔جس طرح سے یوم کفارہ(یوم کیپور) اسرائیل کے لیے اہمیت رکھتا ہے اسی طرح سے اسکو بھی خوشی کا تہوار مانا جاتا ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب انگور پک چکے ہوتے ہیں اور انکو بیل سے کاٹنے کا وقت ہوتا ہے تاکہ بعد میں مے تیار کی جا سکے۔ کلام میں مے سے مراد خوشی ہے۔ اسرائیل کی بیٹیاں سفید کپڑے پہنے تکستان میں خوشی سے ناچتی ہیں۔ اسکو ایک طرح سے رشتہ جوڑنے کا دن بھی سمجھا جاتا ہے۔ تلمود کے مطابق مرد اس تہوار پر اپنے لیے دلہن چنتے تھے۔ تلمود کے مطابق یا تو اس دن یا پھر یوم کفارہ والے دن جب اسرائیل کی بیٹیاں سفید کپڑے پہنے ہوئے آتی تھیں تو رشتے جوڑنے کی بھی یہ رسم ادا کی جاتی تھی۔

15 آب سے متعلق کچھ اور روایات بھی ہیں جنکو میں دوسرے آرٹیکل میں بیان کرونگی۔ مگر ایک روایت یہ بھی تھی کہ جب خدا نے اسرائیل کو انکی میراث تقسیم کی تھی تو وہ عورتیں جنہیں زمین اپنے باپ سے وراثت میں ملیں تھیں انکےبیاہ اور قبیلہ کی میراث کے حصہ کی وجہ کچھ ایسی پابندیاں لگائی گئی تھیں جو کہ اس دور میں ان عورتوں کو قبیلہ سے باہر شادی کرنےسے روکتا تھا (گنتی 36) تاکہ کوئی قبیلہ خداوند کی دی ہوئی میراث کو نہ کھوئے مگر بعد میں 15 آب کو یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی کیونکہ ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی دی ہوئی میراث کے مطابق بس چکے تھے۔

روایت کے مطابق یہی وہ دن بھی تھا جب بنیمین کے قبیلے کو باقی قبیلوں نے دوبارہ سے اپنے میں شمار کیا تھا۔ آپ اس پوری کہانی کو قضاۃ 21-19 ابواب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کہانی کا مختصر خلاصہ میں بیان کر دیتی ہوں۔ بنیمین کے قبیلے کے کچھ مردوں نے زنا کیا جسکی وجہ سے باقی تمام قبیلے انکے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے بنیمین کے قبیلے سے کہا کہ وہ ان آدمیوں کو انکے حوالے کریں تاکہ خون کا بدلہ خون سے چکا سکیں مگر بنیمین کے قبیلے نے انکار کر دیا جسکے نتیجے میں انکی آپس کی جھڑپ میں ہزاروں بنیمینی مرد مارے گئے۔ انھوں نے بنیمین کا پورا شہر جلا ڈالا۔ صرف چھ سو آدمی بچے جو کہ رمون کی چٹان کو چلے گئے۔چونکہ باقی قبیلوں نے قسم کھائی کہ وہ اپنی بیٹیاں کسی بنیمینی کو نہ دے گا۔ خون خرابے کی وجہ سے بعد میں اسرائیلیوں کو دکھ ہوا کہ انکے درمیان سے ایک قبیلے کے افراد کم ہو گئے ہیں۔ لہذا انھوں نے سوختنی اور سلامتی کی قربانیاں چڑھائیں اور جو قبیلہ خدا کے حضور قربانی چڑھانے نہیں آیا انھوں نے اس قبیلہ کے باشندوں کو قتل کر دیا۔ اس قبیلہ میں چار سو عورتیں کنواری تھیں لہذا بنی اسرائیل نے وہ عورتیں قتل نہیں کیں بلکہ بنیمین کے مردوں کو دے دیں کہ انکا قبیلہ پھرسے آباد ہو۔ دو سو بنیمینی مرد پھر بھی باقی تھے اوراسرائیل کے باقی قبیلے اپنی قسم کی وجہ سے خود انھیں اپنی بیٹیاں نہیں دینا چاہتے تھے لہذا انھوں نے بنیمین کے ان مردوں کو کہا کہ جب سیلا میں سالانہ عید پر لڑکیاں ناچنے کو نکلیں گیں تو تم اپنے لیے بیویاں خود چن لینا۔ ان مردوں نے ایسا ہی کیا۔ یہ عید 15 آب کو منائی جاتی ہے۔

دو اور بھی وجوہات ہیں جسکی بنا پر 15 آب اسرائیلیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے مگر ہمارے اس آرٹیکل کے لئے اتنا ہی بہت ہے۔عبرانی الفاظ حگ حا-عحوا ،Chag HaAhava חג האהבה میں "حگ” کا معنی "تہوار” ہے اور "ا-حوا” کا معنی ہے "پیار، محبت” ۔ جیسے انگلش میں "The” ہے ویسے ہی عبرانی میں "حا” ہے۔ اسکا پورا مطلب بنتا ہے "محبت کا تہوار”۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں محبت کا تہوار منانا ہی ہے تو پرانے عہد نامے کے مطابق "تو-بی-آب، Tu B’Av” کوکیوں نہ منائیں۔ غیر معبودوں کے دنوں کو منانے سے بہتر رہے گا۔ اس سال یہ تہوار 18 اگست کی شام سے 17 اگست کی شام تک منایا جائے گا۔ یاد رکھیں کہ کلام میں ایک دن، شام سے اگلی شام تک بنتا ہے۔ شبات شلوم۔