(خروج 3 باب (پہلا حصہ
آپ کلام میں سے خروج 3 باب پورا خود پڑھیں۔
موسیٰ ملک مصر کو چھوڑنے کے بعد چرواہا بن گیا تھا۔ وہ اپنے سُسر یترو کی جو کہ مدیان کا کاہن تھا بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس نےابھی تک اپنے لئے بھیڑ بکریاں جمع نہیں کی تھیں بلکہ اپنے سسر کے لئے ہی کام کررہا تھا۔ خروج کے 2 باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ مدیان کے کاہن ، رعوایل تھا جس کی بیٹی صفورہ سے موسیٰ کی شادی ہوئی۔ علما کا کہنا ہے کہ رعوایل ، سامی خدا "ایل” کا کاہن تھا اور وہی یترو تھا جو کہ ہوسکتا ہے کہ اسکا خطاب ہو یا پھر اسکا نام۔ یوسیفس کی کتاب کے مطابق یترو، رعوایل کا ہی ایک اور نام تھا۔ آپ کو خروج 4 باب میں بھی نظر آئے گا کہ موسیٰ کا سسر یترو ہے اور اسکی بیوی کا نام صفورہ درج ہے۔
موسیٰ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتا ہوا بیابان کی پرلی طرف خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک لے آیا۔ بیابان میں تو انکو ہریالی چراگاہ دستیاب نہیں ہوگی اسلئے وہ دور دور تک بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لئے لے کر جاتے تھے۔ وہاں خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگے کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا۔ موسیٰ کی جب نگاہ پڑی تو اس نے عجیب ماجرہ دیکھا کہ جھاڑی کو آگ تو لگی ہوئی ہے مگر وہ جل نہیں رہی۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وجہ ہے کہ جھاڑی آگ کے باوجود جل نہیں رہی۔ خداوند نے اسے قریب دیکھا تو اسے آواز دی "ائے موسیٰ! ائے موسیٰ! ” موسیٰ نے کہا ” حِن نائی ، הִנֵּֽנִי، Hinne-niیعنی میں حاضر ہوں۔” موسیٰ نے خدا کو جواب دینے میں دیر نہیں کی ۔میں اکثر سوچتی ہوں کہ میں خدا کو کم ہی اس طرح سے جواب دیتی ہوں ویسے بھی میرے خیال میں اگر اس قسم کا عجیب وغریب منظر دیکھنے کو ملے گا اور جھاڑی سے کوئی انجانی آواز میرا نام لے کر مجھے پکارے گی تو میں شاید اس جگہ سے دور بھاگوں گی۔ کیا موسیٰ کے لئے یہ آواز انجانی تھی؟ آخر موسیٰ کیوں نہیں دور بھاگا؟
موسیٰ نے مصریوں کے علم میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ خود بھی ان اندیکھی قوتوں سے واقف تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اندیکھی قوتیں بھی ہماری دنیا میں موجود ہیں اور غیبی باتیں عام ہیں۔ مجھے زیادہ افسوس ان مسیحیوں پر ہوتا ہے جو کہ اند یکھی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے۔ مغربی ملکوں میں ایسے مسیحیوں کی کمی نہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ سائنس ہر بات کا جواب ہے۔ اگر آپ مسیحی ہیں اور آپ کا ایمان ان دیکھی چیزوں پر نہیں ہے تو شاید آپ اپنے ایمان میں ابھی تک پختہ نہیں ہوئے ہیں کیونکہ آپ نے کبھی کلام کی باتوں پر غور نہیں کیا۔
کہنے کو تو "خداوند کا فرشتہ ” تھا جو کہ جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا تھا مگر ہم خروج 3:5 سے 6 میں پڑھتے ہیں کہ اس "خداوند کے فرشتے” نے کہا؛
تب اس نے کہا ادھر پاس مت آ۔ اپنے پاؤں سے جوتے اتار کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہے۔ پھر اس نے کہا کہ میں تیرے باپ کا خدا یعنی ابرہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔ موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا۔
شاید آپ کو علم ہو کہ فرشتے کو عبرانی میں "ملاخ، מַלְאַ֨ךְ، Malach” کہتے ہیں۔ فرشتے کے معنی ہیں پیامبر یا پیغام دینے والا یاپیغام پہنچانے والا۔ پرانے عہد نامے میں جہاں کہیں بھی آپ خداوند (یہوواہ) کے فرشتے کا پڑھیں گے جسکے بارے میں اگلی چند آیات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ وہ عام فرشتہ نہیں بلکہ خداوند یہوواہ پاک خدا خود ہے، وہ مسیحیوں کی نظر میں یشوعا ہے جو کہ جسم میں اپنے لوگوں پر ظاہر ہوا۔ خداوند کے چہرے کے جلال کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے کہ کوئی بھی انسان اسکو دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ میں نے پہلے بھی بہت دفعہ ذکر کیا ہے کہ پرانے عہد نامے میں اردو کلام میں جہاں "خداوند” لکھا ہے وہ لفظ عبرانی میں "یہوواہ” ہے اگر آپ اردو کلام کے لفظ "خداوند” کے فرشتے کو "یہوواہ” میں بدل دیں گے تو آپ اس کو یہوواہ کا فرشتہ، پڑھیں گے ۔ میں خروج 20 باب کے مطالعے میں اسکی بھی وجہ بیان کرونگی کہ آخر کیوں "خداوند ” لکھا گیا ہے۔
موسیٰ سے ایک عام فرشتہ بات نہیں کر رہا تھا بلکہ "یہوواہ” خدا خود بات کر رہاتھا۔ مگر آخر آگ کے شعلہ میں کیوں؟ عبرانیوں 12:29 میں خدا کے لئے یوں لکھا گیا ہے؛
کیونکہ ہمارا خدا بھسم کرنے والی آگ ہے۔
یہ آگ جو کہ بھسم کر ڈالتی ہے خداوند کے عدالتی فیصلے کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ متی 25:41، مکاشفہ 20:14 کے حوالے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں خروج کے چند آخری ابواب میں بھی بات کریں گے۔ موسیٰ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا۔ انسان اپنے گناہ کی بنا پر خداوند کے آگے شرمندگی سے ڈرتا ہے ۔ کلام زبور 32:2 میں کہتا ہے؛
مبارک ہے وہ آدمی جسکی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا اور جسکے دل میں مکر نہیں۔
فرعون اور اسرائیلیوں کی نظر میں موسیٰ نے مصری کو مار کر اچھا نہیں کیا تھا۔ مگر خداوند موسیٰ کے دل کو جانتا تھا جس میں مکر نہیں تھا۔ موسیٰ نے اپنی اسی غلطی کی بہت پہلے ہی توبہ کر لی ہوگی اسلئے میں اکثر سوچتی ہوں کہ جیسا کلام میں لکھا ہے کہ "خداوند کا خوف علم کا شروع ہے (امثال 1:7)” اور "خداوند کا خوف حیات کا چشمہ ہے (امثال 14:27)” اور "خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہے (زبور 111:10) "، موسیٰ ملک مصر سے نکلنے کے بعد خداوند کے علم میں بڑھ رہا تھا وہ حیات کے چشمے کو جان چکا تھا اور اس میں خداوند کی دی ہوئی دانائی پرورش پا رہی تھی۔ وہ چالیس سال کا تھا جب مدیان کے ملک آیا تھا اور اب چالیس سال کے بعد وہ خدا کے حضور میں کھڑا تھا۔ شاید انھی باتوں کی وجہ سے وہ اپنی خداوند سے پہلی آمنے سامنے کی ملاقات میں نظر کرنے سے فی الحال کے لئے ڈر رہا تھا۔ آپ میں خداوند کا کتنا خوف موجود ہے؟
خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ میں نے اپنے لوگوں کی تکلیف کو جو مصر میں ہیں دیکھی اور انکی فریاد سنی۔ خداوند اپنے لوگوں کے دکھ کو جانتا تھا۔ اب خداوند خود اترا تھا کہ انکو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑائے اور اس ملک میں لائے جسکا وعدہ اس نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ خداوند اترا تھا کہ اپنے لوگوں کو چھڑائے مگر فرعون کے پاس خدا موسیٰ کو بھیج رہا تھا کہ وہ اسکی قوم بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال لائے۔ مجھ سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ خداوند نے میرے لئے کچھ نہیں بلکہ ایک شخص نے میرے لیے یہ کام کیا ہے تو میں نے کہا ظاہر ہے کہ خداوند خود آپ کے سامنے آتا تو سب نے ہی ڈر کر بھاگ جانا تھا، خدا نے اس انسان کو آپ کی مدد کے لئے تیار کیا تھا۔ یہی حقیقت ہے کہ خدا چاہے تو کسی کی مدد کے بغیر بھی کام چلا سکتا ہے مگر خدا انسان کو ہی انسان کی مدد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ خداوند موسیٰ کو فرعون کے سامنے بھیج رہا تھا ۔ موسیٰ نے خداوند کو کہا خروج 3:11
موسیٰ نے خدا سے کہا میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال لاؤں؟
آخر موسیٰ خداوند کو ایسے کیوں جواب دیگا؟کیا وہ بھول گیا تھا کہ وہ کبھی مصری شہزادے کی زندگی گذار چکا تھا ؟ یوسیفس کی کتاب کے مطابق موسیٰ مصری فوج کا جنرل تھا۔ کیا موسیٰ میں، مدیان آکر اتنی عاجزی آگئی تھی کہ وہ اپنے اس ماضی کو بھول چکا تھا جس میں کبھی اسکے پاس طاقت اور قوت تھی جو اپنے بھائیوں کو مصریوں کے ہاتھوں سے بچانے کے لئے مصریوں کا قتل کرنے کو بھی تیار تھا؟۔ چرواہا بننے کے بعد شاید وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھ رہا تھا جس کے کسی قسم کا اختیار نہیں رہا تھا۔ یوسیفس کی کتاب کے مطابق موسیٰ خود کو کسی بھی طرح سے اس قابل نہیں سمجھ رہا تھا کہ فرعون کے سامنے جائے اور بنی اسرائیل کو مصریوں سے چھڑا کر لائے۔ کلام میں ہمیں کتنے ہی ایسے لوگوں کے حوالے ملتے ہیں جو کہ شروع میں اپنے آپ کو خدا کے کام کے قابل نہیں سمجھتے تھے مگر پھر خداوند کی مدد سے انھوں نے وہی کام کامیابی سے سر انجام دیا کیونکہ خدا انکے ساتھ تھا۔
میری خدا سے اپنے لئے اور آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی قابلیت پر نہیں بلکہ خداوند کی قابلیت پر بھروسہ کرنا سکھائے تاکہ ہم وہ پہاڑ ہٹا سکیں جنکو ہٹانا مشکل نظر آتا ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔
ہم خروج 3 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔