(روت 4 باب (پہلا حصہ

آپ کلام میں سے روت 4 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

ہم  نے پچھلے باب میں پڑھا تھا کہ روت نے بوعز کو قرابت کا حق ادا کرنے کو کہا تھا۔   بوعز جانتا تھا کہ وہ نعومی کے قرابتیوں میں سے ایک ہے۔ کسی  بھی قرابتی نے خودکوشش نہیں کی   کہ نعومی کا یا پھر روت کا حق ادا کر سکیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ نعومی اور روت نے یہ قدم اٹھایا۔ ہمارا  روت 4 باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے کہ بوعز پھاٹک کے پاس جا کر وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے لوط کی کہانی میں ذکر کیا تھا کہ پھاٹک  پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے بارے میں آپ اس طرح سے سوچ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ماڈرن زمانے کی عدالت ہے۔ شہر کے بڑے  معزز دار لوگ اور  چنے ہوئے بوڑھے شہر کے لوگوں کے مسلئے مسائل کا فیصلہ کرتے تھے۔  جب بوعز سے زیادہ نزدیک کا قرابتی وہاں آ نکلا تو بوعز نے اسے ادھر بیٹھنے کو کہا۔ کلام میں عموماً غیر ضروری نام درج نظر نہیں آتے ہیں۔  بوعز تو ضرور اس رشتے دار کو نام سے جانتا ہوگا مگر روت کی کتاب کے مصنف کو اسکا نام لکھنا غیر ضروری محسوس ہوا ہوگا تبھی اسکا  نام درج نہیں ہے۔ نہ صرف بوعز نے اس  نزدیکی قرابتی رشتے دار کو بلوایا بلکہ ساتھ میں شہر کے بزرگوں میں سے دس آدمیوں کو بھی بلا کر کہا کہ وہ یہاں بیٹھ جائیں۔ ربیوں کی تشریح کے مطابق کم سے کم دس بزرگ  /گواہ ہونے چاہیے جو کہ صحیح فیصلہ دے سکیں یا گواہ بن سکیں۔  پھر بوعز زندیکی قرابتی سے یوں مخاطب ہوا (روت 4:3 سے 4):

 تب اس نے اس نزدیک کے قرابتی سے کہا نعومی جو موآب کے ملک سے لوٹ آئی ہےزمین کے اس ٹکڑے کو جو ہمارے بھائی الیملک کا مال تھا بیچتی ہے۔ سو میں نے سوچا کہ تجھ پر اس بات کو ظاہر کرکے کہونگا کہ تو ان لوگوں کے سامنے جو بیٹھے ہیں اور میری قوم کے بزرگوں کے سامنے اسے مول لے۔ اگر تو اسے چھڑاتا ہے تو چھڑا اور اگر نہیں چھڑاتا تو مجھے بتا دے تاکہ مجھ کو معلوم ہوجائے کیونکہ تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے جو اسے چھڑائے اور میں تیرے بعد ہوں۔ اس نے کہا میں چھڑاؤنگا۔

 بوعز نے نزدیکی قرابتی سے ابھی صرف  مال مول لینے کا ذکر کیا تھا ۔ شاید اسکو اتنی امید نہیں تھی کہ وہ رشتے دار  الیملک کی زمین کو چھڑانا چاہتا تھا ۔ شاید بوعز نے بھی یہی سوچا ہو کہ پہلا حق اسکا ہے  مگر شاید وہ  یہ قدم نہیں اٹھانا چاہتا ہو گا اسلئے ابھی تک خاموش تھا۔ مگر بوعز کی توقع کے برعکس  نزدیکی رشتے دار نے کہا کہ وہ اسے چھڑائیگا۔  ابھی تک بوعز نے اس سے نعومی کا حق ادا کرنے کے بارے میں پوچھا تھا مگر اب وہ نعومی کے علاوہ روت کا بھی ذکر کر رہا ہے۔ اس نے مزید کہا  کہ جس دن وہ زمین نعومی کےہاتھ سے مول لے اس  وقت اسے روت کو جو کہ مردہ کی بیوی ہے ، اسکو بھی مول لینا ہو گا تاکہ مُردہ کا نام اسکی میراث پر قائم ہو۔ اس بات کو  پورا کرنے سے اس رشتے دار نے انکار کر دیا۔

میں نے پچھلے حصے میں ذکر کیا تھا کہ قرابتی اور لیوریت دونوں ایک جیسے قانون نہیں ہیں۔ قرابتی میراث کو چھڑاتے ہیں مگر  قرابتی، میراث کو چھڑانے کا پابند نہیں ہے۔ خدا نے  اس کو قرابتیوں کی اپنی مرضی پر چھوڑا ہے  کہ وہ اسے پورا کریں یا نہ کریں مگر لیوریت کا قانون ایسا ہے کہ بھائی کو اپنے مردہ بھائی کی بیوہ کا پابند کر دیتا ہے کہ اس سے اپنے مرحوم  بھائی کے نام کی اولاد پیدا کریں تاکہ مرحوم  کا نام مٹ نہ جائے۔ بوعز نے مرحوم الیملک کو بھائی کہہ کر پکارا تھا۔ ملحون ، الیملک کا بیٹا تھا۔ ملحون کے ساتھ ساتھ اسکا بھائی کلیون بھی مر گیا تھا  کہ وہ لیوریت کا حق ادا کرتا۔ اور  چونکہ محلون کا کوئی اور بھائی زندہ نہیں تھا اسلئے   یہ سوچنا کہ بیوہ سے اولاد پیدا کرکے مرحوم کا نام قائم کرنے کا فرض  باپ کی طرف کے قریبی رشتے دار پر فرض تھا، غلط ہے کیونکہ توریت  میں استثنا  25  سے واضح ہے کہ سگے بھائی کا فرض ہے مگر رشتے دار کا فرض نہیں ہے۔ وہ مسیحی پادری جو کہ اسے  لیوریت  بتاتے ہیں غلط ہیں کیونکہ جیسے میں نے کہا کہ توریت کے مطابق   شوہر کے بھائی کا فرض ہے نہ کہ رشتے دار کا۔ تبھی  نزدیکی رشتے دار کو زمین مول لینا تو منظور تھا مگر شادی کرنا اسکے نزدیک اپنی میراث کو خراب کرنا تھا ۔

خدا نے یہودیوں کو 613 احکامات دئے تھے ۔ اپنے پڑوسی سے اپنے برابرا محبت رکھنے کا حکم انہی حکموں میں سے ایک ہے جو کہ  توریت میں درج ہے۔ نعومی اور روت حالات کی ماری ہوئی دو بیوہ  عورتیں تھیں۔ جنکی نہ تو اب کوئی میراث بچی تھی اور نہ ہی اولاد کی کوئی امید تھی۔  نزدیکی رشتے دار کے اس انکار کے بعد بوعز نے اپنے اوپر اس حق کو ادا کرنے کا ذمہ لے لیا تھا اس نے بزرگوں کو اس بات کا گواہ بنایا کہ وہ نا صرف الیملک، کلیون اور محلون کا سب کچھ نعومی کے ہاتھ سے مول لے رہا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ محلون کی بیوی موآبی روت کو بھی اپنی بیوی بنانے کے لئے مول لے رہا ہے تاکہ مرحوم کے نام کو اسکی میراث میں قائم کر سکے اور انکا نام مکان کے دروازے سے مٹ نہ جائے۔ بوعز ، اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنے کے حکم کے تحت  محبت میں یہ قدم اٹھا رہا تھا۔  ہم روت کے 4 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے تاکہ ان چند اہم باتوں کو دھیان سے تفصیل میں دیکھ سکیں جو کہ اس کہانی کا نچوڑ ہے۔

میری خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنا سکھائے ، ویسے ہی جیسے کہ یشوعا نے ہم سے اپنی محبت رکھی۔ آمین