روت 2 باب (دوسرا حصہ) اور 3 باب

پچھلے حصے میں ہم نے پڑھا تھا کہ بوعز نے  روت پر کرم کی نظر کی۔  روت نے اپنے آپ کو بوعز کی لونڈیوں سے بھی کم تر جانا مگر خدا نے اسے عزت دی۔ اب ہم آگے کا باقی حصہ پڑھتے ہیں۔

بوعز نے روت کو  اپنی فصل  کاٹنے والوں کے ساتھ کھانا کھانے کو کہا اور اس نے روت کو اتنا کھانے کو دیا کہ نہ صرف اس نے   جی بھر کر کھایا بلکہ  اپنی ساس کے لئے بھی  کچھ کھانا چھوڑ دیا۔ بوعز نے اپنے کام کرنے والوں کو خاص کہا کہ وہ روت کو ملامت نہ کریں اوراسکو پولیوں کے درمیان میں بھی چننے دیں۔  پولیوں کے درمیان  چننا غریبوں کو اس کی اجازت نہیں تھی کیونکہ وہ کھیت کے مالک کا حق تھا۔ بوعز نے روت کے لئے بڑھ کر کیا یہاں تک کہ اسکے لئے حکم دیا کہ اسکے لئے گٹھروں میں سے بھی بالیں  نکالکر رکھ چھوڑیں۔ بوعز یقیناً خدا کے حکموں  کے مطابق عمل کرنے والوں میں سے تھا کیونکہ احبار 19:33 سے 34 میں لکھا ہے؛

 اور اگر کوئی پردیسی تیرے ساتھ تمہارے ملک میں بودوباش کرتا ہو تو تم اسے آزار نہ پہنچانا۔ بلکہ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تو اس سے اپنی مانند محبت کرنا اسلئے کہ تم ملک مصر میں پردیسی تھے۔

   بوعز نے  خدا کے حکم کے مطابق ایک پردیسی  کو اپنی مانند محبت دی۔ روت صبح کی گئی ہوئی شام تک کھیت میں کام کرتی رہی اور  بالیں چنتی رہی۔ جتنا اس نے اکٹھا کیا تھا وہ ایک ایفہ بنتا تھا، جو کہ  تقریباً  15 کلو  بنتا ہے۔ میں نے پچھلے حصے میں ذکر کیا تھا کہ  کلام کے مطابق بوعز اس لئے روت پر مہربانی دکھا رہا تھا کیونکہ روت نے نعومی کےساتھ بھلائی کی تھی۔   مجھے لوقا 6:38 میں یشوعا کے الفاظ یاد آرہے ہیں ؛

دِیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کرکے تمہارے پلے میں ڈالینگے کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے لئے ناپا جائیگا۔

  روت نے نعومی کو اور اسکے خدا اور  اسکے لوگوں کو اپنایا اور اجر میں خدا نے اسے دکھا دیا کہ وہ اور  اسکے لوگ بھی روت کو  اپنا رہے ہیں۔ ایک ہی دن میں روت نے اتنا جمع کر لیا تھا کہ اسکی ساس نعومی نے بھی دیکھ کر اس  سے پوچھا کہ وہ کس کے  پاس بالیں چننے کے لئے گئی تھی۔  روت نے جب بوعز کا نام بتایا تو نعومی نے اسکے لئے کہا (روت 2:20)؛

نعومی نے اپنی بہو سے کہاوہ خداوند کی طرف سے برکت پائے جس نے زندوں اور مردوں سے اپنی مہربانی باز نہ رکھی اور نعومی نے اس سے کہا کہ یہ شخص ہمارے قریبی رشتہ کا ہے اور ہمارے نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے۔

زندوں سے نعومی کی مراد اپنی اور روت کی تھی اور مردوں سے مراد اسکی اپنے شوہر اور بیٹوں کی تھی۔ نعومی نے بوعز کو اپنا قریبی رشتہ دار اور اپنے قرابتیوں میں سے ایک پکارا۔ قرابتی کون ہیں؟  توریت میں ہم احبار 25:47 سے 49 میں پڑھتے ہیں کہ؛

اور اگر کوئی پردیسی  یا مسافر جو تیرے ساتھ ہو دولتمند ہوجائے اور تیرا بھائی مفلس ہو کر اپنے آپ کو  اس پردیسی یا مسافر یا پردیسی کے خاندان کے کسی آدمی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ تو بک جانے  کے بعد وہ چھڑایا جا سکتا ہے۔ اسکے بھائیوں میں سے کوئی اسے چھڑا سکتا ہے ۔ یا اسکا چچا  یا تاؤ یا اسکے چچا یا تاؤ کا بیٹا یا اسکے خاندان کا کوئی اور آدمی جو اسکا قریبی رشتہ دار ہو وہ اسکو چھڑا سکتا  ہے یا اگر  وہ مالدار ہوجائے تو وہ اپنا فدیہ دیکر چھوٹ سکتا ہے۔

ہم نے پچھلے حصے میں رشتے دار کے لئے استعمال ہوا عبرانی لفظ "میدعا” پڑھا تھا۔ قرابتی کے لئے جو عبرانی لفظ ہے وہ "گوعیل، גאל، Go’el” ہے ۔  یعنی وہ قریبی رشتے دار جو کہ فدیہ دے کر اپنے بھائی کا حق دوبارہ سے  دلا سکے، انکو قرابتی کہتے ہیں۔ روت نے نعومی سے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ بوعز نے  اسے کہا تھا کہ وہ اسکے جوانوں کے ساتھ  تب تک رہے جب تک کہ وہ اسکی تمام فصل نہ کاٹ چکیں۔  نعومی نے اس سے کہا کہ اچھا ہے کہ وہ کسی اور کے کھیت میں نہ جائے اور بوعز کی لونڈیوں کے ساتھ ہی بالیں چنے۔ نعومی کو اس بات کا پورا بھروسہ تھا کہ روت کا بوعز کے فصل کاٹنے والوں کے ساتھ کام کرنا بہتر تھا  تاکہ وہ کسی بھی قسم کی پریشانی اور تکلیف  سے بچی رہتی۔ روت نے ایسا ہی کیا وہ  فصل کے خاتمے تک بوعز کی لونڈیوں کے ساتھ ساتھ لگی رہی۔

آپ کلام میں سے روت 3 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔

نعومی نے اپنی بہو کو ہمیشہ بیٹی پکارا اسے واقعی میں روت سے بیٹیوں کی طرح پیار تھا۔  پہلے باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ نعومی نے اس بات کو بہتر سمجھا تھا کہ اسکی بہوئیں واپس اپنے ماں باپ کے خاندان میں چلی جائیں۔ نعومی اس وقت اپنے سر پر اس پہاڑ کو اتار رہی تھی جسکو وہ سمجھتی تھی کہ اسکے لئے بھار ہے کیونکہ وہ اپنی بہوؤں کی کسی طرح سے بھی مدد نہیں کرسکتی اور نہ  ہی انھیں اچھی زندگی دے سکتی ہے۔ عرفہ کو بھی یہی لگا ہوگا مگر روت کو شاید نہیں۔  دوسرے باب میں ہم نے پڑھا کہ  نعومی کو اپنی بہو روت کی فکر تھی کیونکہ اسی وجہ سے   وہ اسکے لئے یہی بہتر سمجھتی تھی  کہ وہ بوعز کے کھیت پر کام کرے تاکہ پریشانیوں سے بچی رہے مگر اب  اسے روت کی خوشی کی  بھی فکر تھی تبھی اس نے روت کی بھلائی کا سوچا۔ اسے خیال آیا کہ بوعز انکا رشتے دار ہے  اور  روت کے لئے مناسب ہے۔ نعومی نے روت کو مشورہ دیا کہ وہ نہا دھو کر خوشبو لگا کر اور پوشاک پہن کر  بوعز کے کھلیہان کو جائے مگر وہ اپنے آپ کو تب تک ظاہر نہ کرے جب تک کہ وہ  لیٹ نہ جائے اور بعد میں وہ اسکے پاوں کھولکر لیٹ جائے۔ جو کچھ روت کو کرنا مناسب ہے  بوعز ہی روت کو بتائیگا۔ روت نے اپنی ساس سے کہا کہ وہ ویسا ہی کریگی جیسے کہ اسکے ساس نے اسے کہا ہے۔ پہلے اور دوسرے باب میں جو نعومی اور روت کا کردار ہمارے ذہنوں میں ہے اس باب کی  ان پہلی چند آیات کی وجہ سے وہ  شک پیدا کرتا ہے کہ آخر نعومی کیوں اس قسم کی صلاح اپنی بہو کو دے گی؟ کیا واقعی میں وہ اسکو اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھی؟ روت کا اپنی ساس کی بات پر حامی بھرنے کا کیا مقصد تھا؟ کیا وہ اپنی ساس کی تابعداری میں ایسا کہہ رہی تھی یا کہ پھر  اپنی جسمانی خواہشات کا سوچ رہی  تھی؟ مجھے ایک انگلش مصنف کے اس موضوع پر کچھ الفاظ یاد آ رہے ہیں۔  فیلس ٹرائیبل  جو کہ پرانے عہد نامے کا پروفیسر ہے،  نے اپنی کتاب میں بیان کیا کہ کیسے پہلی ملاقات، دوسری سے مختلف تھی (گو کہ یہ دوسری ملاقات ہرگز نہیں تھی )، اس نے کہا ؛

” پہلی ملاقات اتفاق تھی اور دوسری  خود منتخب کی گئی تھی،

  پہلی کھیت میں تھی اور دوسری کھلیہان میں،

پہلی پبلک میں تھی اور دوسری پرائیوٹ،

پہلی  ملاقات کام سے تھی اور دوسری ایک  کھیل تھی،

پہلی دن میں تھی اور دوسری رات میں،

مگر پھر بھی دونوں میں ہی  زندگی اور موت کا خدشہ تھا۔”

روت کو کھیت میں کام کرنے پر بھی جسمانی نقصان ہوسکتا تھا مگر اس نے  پھر بھی یہ خطرہ مول لیا۔ اب بھی رسوائی ہو سکتی تھی مگر اس نے پھر بھی یہ خطرہ اپنی ساس کے کہنے پر مول لیا۔ روت اور نعومی کے  کردار کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں یہ خدا کی نظر میں اہم نہیں کیونکہ جو خدا انکے کردار کے بارے میں سوچتا ہے وہی سب سے اہم ہے۔   ہم روت کے 3 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔

میری خدا سے اپنے اور آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ ہم کسی اور کی نظر میں نہیں بلکہ خدا کی حضوری میں نیک نامی پائیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین