(روت – 1 باب (پہلا حصہ

کلام میں سے آپ روت کا پہلا باب مکمل خود پڑھیں میں وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

روت کی کتاب کے پہلے باب کی پہلی آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ کہانی تب کی ہے جب قاضی بنی اسرائیل کا انصاف کیا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں انکا بادشاہ خداوند یہوواہ پاک خدا تھا۔ قاضیوں کے دور میں اگر کسی قسم کے کال کا ذکر ہے تو وہ جدعون کے دور میں تھا۔ ویسے کہنا مشکل ہے کہ  روت 1:1 میں اسی دور کی بات چل رہی ہے۔ دانشوروں کی اس معاملے میں اپنی اپنی رائے ہے مگر زیادہ تر اسی بات سے متفق ہیں کہ شاید جدعون  کے دور کی بات ہے۔ ہمیں پہلی ہی آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ الیملک اور اسکا خاندان یہوداہ کے بیت لحم سے تھے۔  بیت کے معنی "گھر” اور لخم(لحم، اردو میں) کے معنی "روٹی ” ہے جو کہ کھانے کے ذخیرے کے علاقوں کو ظاہر کرتا ہے  جیسے کہ یشوع 19:10 سے 15 کے حوالوں میں زبولون کو دئے گئے شہروں میں بیت لحم کا نام نظر آتا ہے۔ مگر یہ بیت لحم یہوداہ کے علاقے افرات سے تھے۔ تبھی انکو افراتی پکارا گیا ہے۔ یہ  وہی  علاقہ ہے  جس کے بارے میں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بعد میں یشوعا کی پیدائش وہاں ہوئی۔ یہ خوارک کا ذخیرہ کرنے والے شہر تھے۔

پرانے عہد نامے میں جو نام ہیں وہ اہمیت کے قابل ہیں۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ میں نے پہلے بھی کافی دفعہ ذکر کیا ہوا ہے کہ اس زمانے میں نام حالات  کے مطابق اولاد کو دئے جاتے تھے۔ الیملک کے نام کا مطلب  بھی جان لیں کہ   "ایل” عبرانی میں "خدا” کو کہتے ہیں اور "ملک” عبرانی میں "بادشاہ” کو کہتے ہیں۔ نعومی  کے معنی ہیں "پرلطف، خوش نما،دلفریب ، خوش گوار یا  رحیم” اور انکے دو بیٹوں کے نام  محلون جسکے معنی ہیں  "کمزور”  اور کلیون جسکے معنی ہیں "مایوس یا کم توانائی والا” ۔ یہ چاروں تھوڑے عرصے کے لئے خدا بادشاہ کی سر زمین  یعنی اپنے ، روٹی کے گھرکو چھوڑ کر موآب کی سرزمین کو  گئے۔  وہ  کچھ زیادہ ہی لمبے عرصے کے مہمان تھے موآب کی سرزمین پر۔ عبرانی میں جو لفظ استعمال ہوا وہ اسی ہی بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مستقل ادھر رہنے کو نہیں گئے تھے مگر الیملک  کی موت وہیں ہو گئی۔ موآب کی سرزمین میں جا کر رہنا ہی ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ خدا نے بنی اسرائیل کو کنعان کی سرزمین میں بسایا تھا  جو کہ بعد میں اسرائیل بن گیا۔ ویسے تو  کچھ بنی اسرائیل کے قبیلے اسرائیل کی سرزمین سے باہر ہی بس گئے تھے اور کچھ موآبیوں کے آس پاس کے شہروں میں ہی تھے۔

ہم نے پیدائش کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ لوط کی بیٹیوں نے اپنے باپ کو نشے میں ڈال کر اس سے اپنے لئے اولاد پیدا کی  تھی ایک بیٹی سے موآب پیدا ہوا تھا اور دوسری سے بن عمی۔ موآب سے موآبی قوم نے جنم لیا اور بنی عمی سے بنی عمون کی قوم نے جنم لیا۔  خدا نے بنی اسرائیلیوں کو غیر قوموں میں شادی کرنے سے منع کیا تھا ۔ اگر آپ استثنا 7:1 سے 6 پڑھیں گے تو آپ کو ان قوموں کے نام نظر آئیں گے جن سے خدا نے کہا تھا کہ نہ انکے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنی بیٹیوں کے لئے انکی بیٹیاں لینا۔ موآب کا نام ان قوموں میں نہیں ہے مگر اگر ہم استثنا 23:3 پڑھیں تو اس میں لکھا ہے؛

کوئی عمونی یا موآبی خداوند کی جماعت میں داخل نہ ہو۔ دسویں پشت تک انکی نسل میں سے کوئی خداوند کی جماعت میں کبھی نہ آنے پائے۔

اور اسکی وجہ بھی استثنا 23:4 میں بیان کی گئی ہے کہ کیوں خدا نے اتنا سخت حکم دیا تھا۔   ہمیں  روت 1:4 میں عرفہ اور روت کا نام ملتا ہے  کہ وہ دونوں موآبی تھیں جن سے محلون اور کلیون نے شادیاں کیں تھی۔ خدا نے ان قوموں کی دسویں پشت تک  اپنی جماعت میں داخل ہونے سے منع کیا تھا  مگر شادی سے منع نہیں کیا تھا مجھے کوئی ایسی آیت یاد نہیں آ رہی جس میں خدا نے موآبیوں  اور بنی عمون سے شادیوں سے بھی منع کیا ہو صرف دسویں  پشت تک خداوند کی جماعت میں نہ شمار ہونے کی پابندی لگائی تھی۔ تلمود کے مطابق   مشناہ میں لکھا ہے کہ عمونی اور موآبیوں کا  داخل ہونا ہمیشہ کو منع ہے مگر انکی عورتوں کو اجازت ہے(Talmud- Mishnah Yevamoth 69 a, 76 b and 77 a) کیونکہ انکے کہنے کے مطابق خدا نے عمونی اور موآبی  مردوں کا کلام میں کہا ہے مگر عورتوں کا نہیں۔ میں تلمود کو پڑھتی ضرور ہوں مگر تلمود کی تمام باتوں کو نہیں مانتی اسکی یہی وجہ ہے کہ ربیوں /فریسیوں نے خدا کے کلام کی، ہمارے پادریوں کی طرح ، اپنی تشریح بیان کی ہوئی ہے جو کہ خدا کے حکموں کو باطل کرتی نظر آتی ہے۔اسکا یہ مطلب نہیں کہ تمام تلمود غلط ہے۔  تلمود خدا کا دیا ہوا کلام نہیں ہے۔  میں خدا کے کلام کو  پہلے اہمیت دیتی ہوں اور پھر تلمود کی باتوں پر غور کرتی ہوں کیونکہ یشوعا نے بھی  فریسیوں اور فقیہوں سے یہی کہا تھا (متی 15:3 اور 8 سے 9):

اس نے جواب میں ان سے کہا کہ تم اپنی روایت سے خدا کا حکم کیوں ٹال دیتے ہو؟

یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

میں نے روت کی کتاب کے تعارف میں بیان کیا تھا کہ یشوعا نے نسب نامے میں راحب اور روت دو ایسی عورتیں ہیں جو کہ یہودی نہیں تھیں مگر اسرائیل میں شامل ہوگئی تھیں۔ اگر وہ دونوں یہودی نہیں ہوئیں تھیں  تو انکا اسرائیل میں "مسیحا” کے نسب نامے میں آنا ناممکن تھا ۔ راحب کا شمار ان قوموں میں  سے ہی ہوتا ہے جن کے بارے میں خدا نے کہا تھا کہ ان سے شادی نہ کرنا۔ ربیوں کی تشریح کے مطابق  راحب اور روت پہلے ہی یہودی ہو چکیں تھی اسلئے اگر انکی شادیاں اسرائیل کے بیٹوں سے ہوئیں  تو ان میں سے کسی  نے خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ ہم اس پر آگے بھی بات کریں گے کیونکہ میری رائے  کے مطابق ایسا نہیں ہے۔

نعومی کے لئے بیت لخم کو چھوڑ کر موآب  میں تھوڑے عرصے کے لئے بسنا فائدہ مند نہیں ٹھہرا۔  پہلے اسکے شوہر کی موت ہوئی اور پھر کچھ عرصے بعد اسکے دونوں بیٹوں کی بھی موت ہوگئی۔ کلام اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ کیسے موت ہوئی۔ عبرانی کلام صرف اور صرف ان باتوں کو بیان کرتا ہے جو اہمیت کے قابل ہیں۔ ایک روحانی سبق جو ہمیں اس حصے میں ملتا ہے وہ یہ  ہے کہ خدا کے حکموں کی خلاف ورزی کی کچھ سزا انسان ضرور پاتا ہے۔ یہ سوچنا کہ ہمارا ہر قدم یا ہماری دلی خواہش ہمارے لئے خدا کی بھی مرضی ہے تو یہ غلط ہے ۔ الیملک اور اسکے خاندان نے بنی اسرائیل کی  حالت دیکھ کر خدا پر اپنے کھانے پینے کا انحصار کرنے سے زیادہ بہتر یہی سمجھا کہ موآب کی سرزمین کی  دیکھی پیداوار  پر انحصار کرتے۔وہ اپنی آنکھوں  کی خواہش اور اپنی سمجھ کے مطابق اپنے گھرانے  کی تقدیر کا فیصلہ  کر رہے تھے۔ 1یوحنا 2:17 میں لکھا ہے؛

دنیا اور اسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔

ہم روت کے پہلے باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنی زندگی کے ہر چھوٹے اور بڑے فیصلے میں خداوند کی مرضی جاننے اور اس پر عمل کرنے کی حکمت اور قوت بخشے یشوعا کے نام میں، آمین