غزل الغزلات- 6 باب

غزل الغزلات 8:6

نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانند اپنے بازو پر کیونکہ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور غیرت پاتال سی بے مروت ہے۔ اسکے شعلے آگ کے شعلے ہیں اور خداوند کے شعلہ کی مانند۔

آپ کلام میں سے 6 باب کو پورا خود پڑھیں میں وہی آیات لکھوں گی جسکی مجھے ضرورت پڑے گی۔

غزل الغزلات کے پچھلے مطالعہ میں ہم نے پڑھا تھا کہ محبوب اپنی محبوبہ کو مجبور نہیں کرتا اور وہ اسکے دروازہ نہ کھولنے پر چلا جاتا ہے۔ محبوبہ ایک بار پھر سے یروشلیم کی بیٹیو سے  ہمکلام ہوتی ہے۔ چھٹے باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ پہلی بار یروشلیم کی بیٹیاں ، عورتوں میں سب سے جمیلہ یعنی محبوبہ سے پوچھ رہی ہیں کہ اسکا محبوب کہاں گیا ہے تاکہ وہ اسکی تلاش میں جائیں۔ محبوبہ نے انہیں بتایا کہ اسکا محبوب بلسان کے تاکستان میں گیا۔ سلیمان بادشاہ کو باغ اور اپنے لئے باغیچے بنانے کا شوق تھا کیونکہ واعظ 2:4 سے 6 میں لکھا ہے؛

میں نے بڑے بڑے کام کئے۔ میں نے اپنے لئے عمارتیں بنائیں اور میں نے اپنے لئے تاکستان بھی لگائے۔ میں نے اپنے لئے باغیچے اور باغ تیار کئے اور ان میں ہر قسم  کے میوہ دار درخت لگائے۔ میں نے اپنے لئے تالاب بنائے کہ ان میں سے باغ کے درختوں کا ذخیرہ سینچوں۔

محبوبہ  جانتی تھی کہ اسکا محبوب باغوں میں گلے کو چرانے  کو گیا ہے۔ وہ ایک بار پھر سے کہتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی ہے اور اسکا محبوب اسکا ہے۔ محبوب  ایک بار پھر سے اپنی محبوبہ کی خوبصورتی کے پل باندھتا ہے۔ ترضہ افرائیم کے قبیلے  کا شہر تھا جو کہ خوبصورت تھا۔ محبوب نے اپنی محبوبہ سے اس رات کے واقعے کی بنا پر  کسی قسم کا گلہ شکوہ نہیں کیا بلکہ  ان باتوں کو بھول کر پھر سے اسکی خوبصورتی کو بیان کرتا ہے۔ اسکو اپنی محبوبہ کی خوبصورتی کی کشش ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے کہ وہ اس میں ڈوب جائیگا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے وقتی طور پر جدا ہوگئے تھے مگر ایک بار پھر سے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ شاید آپ کو علم نہ ہو کہ سلیمان بادشاہ کی  اصل میں 700 بیویاں اور 300 حرمیں تھیں  جو کہ اس نے زیادہ تر  سلامتی کے نام میں اپنائی تھیں۔ مگر اسکا اپنا پیار صرف ایک کے لئے ہی تھا۔ ویسے تو اس باب کی 8 آیت میں اتنی تعداد نہیں لکھی ہوئی ۔ یہودی دانشوروں کے مطابق سلیمان کی ابھی اتنی بیویاں اور حرمیں نہیں ہونگی تبھی کم کا ذکر لکھا ہے مگر بے شمار کنواریوں کا ذکر ہے۔  اسکی محبوبہ اپنی ماں کی اکلوتی اور لاڈلی تھی۔ ہم نے پہلے باب میں اسکی ماں کے بیٹوں کا پڑھا تھا اور میں نے بتایا تھا کہ اس سے مراد  اسکے سوتیلے بھائی ہونگے۔

یروشلیم کی بیٹیاں محبوبہ کو جو کہ شولمیت ہے اسکو لوٹ آنے کا کہتی ہے  کہ وہ اسکی خوبصورتی پر نظر کریں۔ پہلی بار محبوبہ کو شولمیت کہا گیا ہے۔ تلمود اسکے حوالے سے کچھ نہیں  کہتی ہے مگر بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ شولمیت کا معنی ویسے ہی بنتا ہے جیسے کے شلوم کا یعنی  کہ سلامتی۔ مگر شولمیت کہتی ہے کہ وہ انکے پاس  کیونکر لوٹ آئے۔ اسکا یہ کہنا ” گویا وہ دو لشکروں کا ناچ ہے” شاید اسکے اندر  دل کی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے جو اپنے دوستوں کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے محبوب کو بھی پھر سے کھونا نہیں چاہتی۔ کچھ علما کی نظر میں  تیرہویں آیت میں محبوب، شولمیت سے مخاطب ہے نہ کہ یروشلیم کی بیٹیاں۔

یہودی دانشوروں کی نظر میں  اس باب کا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آئے گا جب قومیں توبہ کریں گی کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف گناہ کیا ہے اور وہ انکی مدد کریں گے کہ پھر سے آباد کریں۔ اسرائیل بھی اس بات کا اقرار کریگی کہ خدا نے انھیں ہمیشہ کے لئے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ وقتی طور پر ان سے کنارا کشی کی ہے۔ خدا اپنے لوگوں کے ساتھ ویسے ہی رہے گا جیسا وہ انکے ساتھ شروع میں تھا جب اس نے اسرائیل قوم کو تمام قوموں میں سے چن لیا تھا۔ وہ انکے گناہ یاد نہ کریگا بلکہ انکی اسی پاکیزگی کو مد نظر رکھیگا جس دل سے انھوں نے اسکی شریعت کو قبول کیا تھا۔

میسیانک یہودیوں کی نظر میں  بھی کچھ ایسا ہی پیغام ہے کہ قومیں انکی مدد کریں گی کیونکہ باقی قوموں کو ان پر رشک آئے گا کہ خدا انکا سچا خدا ہے۔ وہ مسیحیوں کی بنا پر واحد خدا کو جان جائیں گی۔ کتنی ہی قومیں ہیں جنکو خدا جانتا ہے مگر اسکے لئے اسرائیل قوم جیسی کوئی قوم نہیں ہے کیونکہ وہی واحد قوم ہے جس نے اسکی شریعت کو قبول کیا ہے۔ جب  میں مسیحیوں پر نظر کرتی ہوں تو مجھے غزل الغزلات 6:13 کا یہ حوالہ  پڑھ کر

لوٹ آ لوٹ آ ائے شولمیت! لوٹ آ لوٹ آ کہ ہم تجھ پر نظر کریں

یہ سوچ کر خیال آتا ہے کہ خدا نے ہمیں دنیا کی خواہشوں کو چھوڑ کر اسے اپنانے کو کہا ہے مگر زیادہ تر مسیحیوں نے قوموں کی یہ بات سن کر اپنے محبوب خدا کو بھلا کر ان قوموں  کی روشوں  اور روایتوں کی  طرف لوٹ جانا منظور کیا۔

 میں نے اس مطالعے کے شروع میں کہا تھا کہ میری نظر میں صرف بادشاہ اور محبوبہ  خاص کرداروں میں سے ہے۔ کیونکہ  باوجود  اسکے کہ یشوعا  اپنی بادشاہت چھوڑ کر ہماری خاطر غریب ہوگیا کیونکہ کلام میں فلپیوں 2:6 سے 8 میں لکھا ہے؛

اس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار  کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کردیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔

2 کرنتھیوں 8:9 میں لکھا ہے؛

کیونکہ تم ہمارے خداوند یسوع مسیح کے فضل کو جانتے ہو کہ وہ اگرچہ دولتمند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اسکی غریبی کے سبب سے دولتمند ہو جاؤ۔

  بادشاہ  ہمیشہ بادشاہ ہی رہتا ہے اسکا پسندیدہ کام اپنے گلے کی خود نگہبانی کرنا  ہو سکتا ہے  یا پھر  وہ چرواہے کے طور پر  اپنے گلے کی نگہبانی کر سکتا ہے مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب وہ بادشاہ نہیں رہا۔ میری نظر میں وہ ہمیشہ میرا خدا بادشاہ ہی رہے گا۔ مجھے اپنانے کے لئے ضرور اس نے اپنی بادشاہت چھوڑی  مگر وقتی طور پر۔ وہ بادشاہ کی صورت ہی میں  دوبارہ آئے گا۔ پنطس پیلاطس کے سامنے بھی یشوعا نے اپنا یہودیوں کا بادشاہ ہونے سے انکار نہیں کیا تھا (یوحنا 18:37)۔

میں اس مطالعے کے ساتھ ساتھ کچھ اپنی کہانی بھی بیان کرتی آئی ہوں ۔ میں نے بیان کیا تھا کہ میں بھی  خداوند کے تاکستان میں کام نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ساتھ ساتھ میں اسے کھونا بھی نہیں چاہتی تھی۔  پچھلے باب میں ہم نے پڑھا تھا  کہ محبوبہ جب شہر میں اپنے محبوب کو ڈھونڈنے نکلی تھی تو پہرداروں نے اسے گھایل کیا تھا۔ اس باب میں وہ یروشلیم کی بیٹیوں کو کہہ رہی ہے کہ اسکا محبوب باغوں میں چرانے اور سوسن جمع کرنے گیا ہے۔ کیا یہ بات اس کو پہلے نہیں معلوم تھی؟ میں نے اپنی روحانی زندگی میں نوٹ کیا ہے کہ جب بھی کبھی میں نے جانتے ہوئے بھی خدا کو غلط جگہوں پر ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے نقصان میرا اپنا ہی ہوا ہے۔  آپ خود ایک لمحے کو سوچیں کہ "شہر” کس قسم کے ماحول کو ظاہر کرتا ہے! افراتفری، گہما گہمی، شور شرابا اور  ساتھ ہی میں  "مجھے کسی کی کیا پراوہ”، شاید آپ سمجھ گئے ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ آپ کو تو علم ہے کہ نہ تو میں مصنف ہوں اور نہ ہی ٹیچر کہ اپنی بات کو واضع لفظوں میں سمجھا سکوں۔ میرے پاس اردو الفاظ کا ذخیرہ بھی کم ہی ہے۔ اگر آپ خدا کو غلط جگہوں پر ڈھونڈ کر گھایل ہوئے ہیں تو پھر ایک بار کلام کھول کر دیکھیں اور اس سے پوچھیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ وہ آپ کی نظروں سے کہاں اوجھل ہے؟ میری طرح آپ کو بھی جان کر خوشی ہوگی کہ وہ آپ کی سوچ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ آپ میں بستا ہے۔ وہ غزل الغزلات کے محبوب کی طرح آپ کو آپ کی ماضی کی کسی غلطی پر ملامت نہیں کرے گا۔ خدا کو تو بس یہی خوشی ہوگی کہ وہ اور آپ اکٹھے ہیں۔

یروشلیم کی بیٹیاں جیسے محبوبہ کو آواز دے کر واپس لوٹ آنے کا کہہ رہی تھیں شاید آپ کو بھی آپ کے بہت سے غلط قسم کے ساتھی پرانی دنیا میں لوٹ آنے کا کہیں گے۔ کیا آپ کے دل میں بھی کوئی کشمکش چل رہی ہے؟ مجھے یاد ہے کہ کافی عرصے تک میں بھی کشمکش میں ہی مبتلا تھی۔   اسکے کلام ہمیشہ سے ہی میرے قدموں کے لئے چراغ رہا ہے۔

 غلط لوگوں سے روحانی مشورے نہ حاصل کریں۔ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کی راہ میں ان لوگوں کو لائے جو آپ کو کلام کی روشنی سے آپ کی صورت حال میں راہنمائی فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ اسکا کلام آپ کی راہ کے لئے بھی روشنی ہے۔

میاں بیوی کے لئے اس باب میں کیا اہم سبق ہو سکتا ہے؟غزل الغزلات کی محبوبہ کی طرح کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک طرف انکا خاندان  ہوتا ہے اور دوسری طرف جیون ساتھی، خاص طور پر شادی کے شروع کے سالوں میں زیادہ دقت محسوس ہوتی ہے۔  میاں بیوی کی شاید آپس میں لڑائی اتنی نہ ہوتی ہو جتنی کہ کبھی کبھی رشتے داروں  کی وجہ سے لڑائی ہوتی ہے۔ آپ اپنی اس صورت حال میں اپنے ساتھ کسی ایسے روحانی دوست کو تلاش کر سکتے ہیں جو کچھ وقت نکال کر آپ کے لئے دعا کرے اور خدا کی مرضی معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ خدا کا کلام ہی آپ کی بہترین راہنمائی کر سکتا ہے۔

میں نے بہت دفعہ ان عورتوں کے ساتھ دعا کی ہے جن کی کچھ گھریلو مجبوریاں تھی اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ خدا نے انکے لئے میری دعاؤں کو ہمیشہ سنا ہے۔  میری آپ کے سب کے لئے یہی دعا ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی کی کسی کشمکش سے گذر رہے ہیں تو خدا خود آپ کی راہنمائی کرے اور آپ کو جواب کلام کی رو سے دے، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔