غزل الغزلات- 2 باب

غزل الغزلات 8:6

نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانن اپنے بازو پر کیونکہ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور غیرت پاتال سی بے مروت ہے۔ اسکے شعلے  آگ کے شعلے ہیں اور خداوند کے شعلے کی مانند۔

آپ کلام میں سے غزل الغزلات کا 2 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔

دوسرے باب کا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں محبوبہ اپنے محبوب کو کہہ رہی ہے کہ وہ شارون کی نرگس ہے اور وادیوں کی سوسن ہے۔  اس عبرانی لفظ نرگس کا استعمال یسعیاہ 35:1 میں بھی ہوا ۔ یسعیاہ 35 باب  خریدے ہوئے /چھڑائے گئے لوگوں کی خوشی کو بیان کرتا ہے۔  محبوب اپنی محبوبہ کو تمام کنواریوں کے درمیان ویسا ہی خوبصورت پاتا ہے جیسے کہ سوسن   یعنی پھول کو  کانٹوں کے درمیان۔ 3 سے 13 آیات  میں محبوبہ اپنے محبوب کی خوبصورتی  اور اسکی کشش کو بیان کررہی ہے۔ محبوبہ یروشلیم کی بیٹیو کو تنبیہ کرتی ہے کہ اسکے محبوب کو مت جگائیں جب تک کہ وہ خود اٹھنا نہ چاہے مگر شاید یہ وہ خود ہے جو تب تک اٹھنا نہیں چاہتی جب تک وہ نہ چاہے۔   وہ  کہہ رہی ہے کہ اسکا محبوب اسکو کہہ رہا ہے کہ وہ اسکے پاس آجائے۔ مگر شاید محبوبہ اپنے محبوب کے پاس جانے کو تیار نہیں ہے۔ 14 سے 15 آیات میں محبوب اپنی محبوبہ کو کبوتری کی مانند پکارتا ہے جو کہ چھپ کر بیٹھی ہے اور سامنے آنا نہیں چاہتی۔ محبوب اسکا چہرہ دیکھنا چاہتا ہے اور اسکی شیرین آواز سننا چاہتا ہے  وہ اسکو کہتا ہے کہ وہ آئے اور اسکے ساتھ اسکے ان  تاکستانوں میں کام کرے جہاں لومڑی کے بچے تاکستان کو خراب کر رہے ہیں۔ 16 سے 17 آیات میں محبوبہ اپنے آپ کو یقین دلاتی ہے کہ اسکا محبوب اسکا ہے ۔

یہودیوں کی تشریح کے مطابق کہ بنی اسرائیل  اپنی کٹھن زندگی کے باوجود خدا   سے وفادار تھے اور وہ خدا کی نظر میں پیارے تھے کیونکہ جب تمام قوموں نے توریت کو رد کیا تو بنی اسرائیل نے اسکو پھر بھی خوشی سے قبول کیا۔ بنی اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ اپنے خدا کی طرف مڑیں۔ میں نے پچھلے مطالعے میں ذکر کیا تھا کہ عورتوں سے مراد قومیں ہیں ۔ یروشلیم کی بیٹیو، یعنی وہ قومیں جو  کلام میں لکھا ہے کہ خدا کے حضور میں یروشلیم میں آتی ہیں۔ بنی اسرائیل غیر قوموں کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اسکے محبوب یعنی خدا  اور انکے درمیان مت آئیں  ورنہ انہیں اسکی قمیت چکانی پڑے گی۔ بنی اسرائیل اپنے اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب کہ وہ مصر میں تھے اور خدا انہیں پکار رہا تھا کہ اسکے پاس  چلے آئیں کہ ابھی بہار ہے اور مینہ برس کر نکل گیا اور جاڑا یعنی سختی کے دن بھی چلے گئے ہیں۔ عید فسح میں نے بیان کیا تھا کہ  یہ عید ہمیشہ بہار کے موسم میں پڑتی ہے۔  مگر شاید بنی اسرائیل ابھی تک مکمل طور پر اپنے خدا کی حضوری میں جھکنے سے گھبرا رہے ہیں پر ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ انکی آس اور تمام امیدیں صرف اور صرف اسی پر قائم ہیں۔

میسیانک یہودیوں کی تشریح کے مطابق کلیسیا یعنی خدا کے لوگ جنگلی پھول کی طرح نہیں بلکہ اس خاص "سوسن” کے پھول کی مانند ہے جو کہ جھاڑیوں  کے درمیان میں اگتا ہے۔  ہوسیع 14:5 میں لکھا ہے؛

میں اسرائیل کے لئے اوس کی مانند ہونگا۔ وہ سوسن کی طرح پھولیگا اور اور لبنان کی طرح اپنی جڑیں پھیلائے گا۔

عبرانی کلام میں جھاڑیوں کی جگہ کانٹے لکھا ہے۔ اگر آپ نے نرگس یا سوسن کا پھول دیکھا ہے تو شاید آپ کو علم ہو کہ اسکے پودے پر کانٹے نہیں اگتے  مگر عبرانی کلام کی اس  دوسری آیت میں کانٹوں کا ذکر ہے اسلئے علما کا کہنا ہے کہ یہ نرگس/سوسن کے پودے کے اردگرد کے کانٹے دار پودوں کے لئے کہا گیا ہے ویسے ہی جیسا کہ اردو کلام میں "سوسن جھاڑیوں میں” لکھا گیا ہے۔ محبوبہ کا اپنے محبوب کے لئے یہ کہنا ” میں نہایت شادمانی سے اسکے سایہ میں بیٹھی” اسکے درخت کے سایہ میں۔ شاید میں نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا کہ توریت کو زندگی کا درخت بھی کہا جاتا ہے۔ مجھے زبور 91:1 کی آیت یاد آ رہی تھی۔

جو حق تعالیٰ کے پردہ میں رہتا ہے۔ وہ قادر مطلق کے سایہ میں سکونت کریگا۔

خدا کی کلیسیا کو اسکے محبت کے جھنڈے تلے رہنا ہے ۔ کلیسیا کو خدا کے سہارے کی ضرورت ہے (2:4 سے 6)۔  خدا کے لوگ اسکی محبت میں مسرور رہنا چاہتے ہیں اسلئے وہ غیروں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ خدا اور انکے درمیان میں مت پڑیں۔ خدا اپنی کلیسیا کو آواز دیتا ہے کہ اپنی دراڑوں سے نکل کر باہر آئیں اور اسکے تاکستان میں کام کریں جہاں  پر لومڑی کے بچے  تاکستان کو خراب کر رہے ہیں۔ کبوتری پاک پرندوں میں سے ہےاور لومڑی کلام میں جھوٹے نبیوں کی علامت ہے کیونکہ حزقی ایل 13:4 میں لکھا ہے؛

ائے اسرائیل تیرے نبی ان لومڑیوں کی مانند ہیں جو ویرانوں میں رہتی ہیں۔

بات چونکہ تاکستان کی ہورہی ہے اسلئے علما کہتے ہیں کہ یہ محبوب چرواہا ہے جو کہ سوسنوں کے درمیان چراتا ہے۔ علما  کہتے ہیں کہ محبوبہ جان چکی ہے کہ ابھی اسکے محبوب کے پاس  فرصت نہیں اور اسکو  کام ختم کرنا ہے کیونکہ تاکستان کو لومڑیاں خراب کر رہی ہیں۔ محبوبہ ، محبوب کے ساتھ تاکستان میں کام کرنے نہیں گئی بلکہ دن کے ڈھلنے کا انتظار کر رہی ہے کہ کب اسکا محبوب واپس آکر  اس سے ہم کلام ہوگا۔

میرے اور آپ کے لئے اس میں روحانی پیغام یہ ہے کہ خدا کی نظر میں  ہم اس سوسن کی طرح ہیں جو کہ جھاڑیوں کے درمیان ہیں۔ آپ ابھی شاید ایک نئے نئے مسیحی ہیں جس نے خدا کو اپنا نجات دہندہ مانا ہے۔ آپ خدا کی محبت کے جھنڈے تلے رہنا چاہتا ہیں اور آپ کو اسکے سہارے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہی ہے جو کہ آپ کو زندگی کے درخت(کلام) کے پھل سے تازہ دم کرتا ہے   ۔ شاید خدا نے آپ کو ابھی دھیرے سے گلے لگایا ہے مگر آپ پوری طرح سے اسکی محبت کو جاننے سے ڈر رہے ہیں ۔آپ اس سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ میں ڈرتے بھی ہیں۔  آپ  ساتھ ساتھ میں دوسروں کو بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے اور آپ کے خدا کے درمیان میں مت آئیں۔

 پیارے کو نہ جگاؤ۔۔۔ شاید آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ خدا آپ کو بھی اپنے کام کے لئے بلا رہا ہے وہ آپ کو ان  دراڑوں سے باہر نکل کر آنے کو کہہ رہا ہے۔ وہ آپ کو سامنے آنے کو کہہ رہا ہے۔  وہ کہہ رہا ہے کہ ان جھوٹے نبیوں کو پکڑو جو کہ اسکے تاکستان کو خراب کرتے ہیں۔ آپ کو خدا سے محبت تو ہے مگر اسکے تاکستان میں کام کا خیال؛ یہ آپ کے ذہن میں نہیں  اور نہ ہی آپ اپنے آپ کو  ابھی اسکے لئے تیارسمجھتے  ہیں۔ آپ صرف اور صرف اس سے اپنی محبت کے اظہار کے دائرے تک رہنا چاہتے ہیں۔

شادی شدہ لوگوں کے لئے اس میں کیا سبق ہے؟1 کرنتھیوں 13:4 سے7  میں لکھا ہے؛

محبت صابر ہے اور مہربان۔ محبت حسد نہیں کرتی۔ محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔جھنجھلاتی نہیں۔ بدگمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی امید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔

نئی نئی شادی کے بعد محبت تو ذہن پر ہوتی ہے مگر دوسرے کاموں کی ذمے داری کا احساس کچھ ختم ہونا شروع ہوتا ہے۔ 1 کرنتھیوں کی آیات محبت کی تعریف ویسے نہیں کرتیں جیسے کہ دنیا محبت کی تعریف کرتی ہے۔ محبت صابر ہے، نازیبا کام نہیں کرتی، اپنی بہتری نہیں چاہتی اور جھنجھلاتی بھی نہیں۔ سب باتوں کی امید رکھتی ہے اور سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ اگر آپ کا جیون ساتھی ابھی بہت سی باتوں کے لئے آپ کے ساتھ راضی نہیں تو صبر سے کام لیں۔ ہر بات کے لئے دعا کریں۔ زور زبردستی کا نام محبت نہیں۔ امید رکھیں  کیونکہ خداوند آپ کی آس کو ٹوٹنے نہ دے گا (امثال 24:14)۔

ہم اگلی دفعہ غزل الغزلات کے 3 باب کا مطالعہ کریں گے۔

میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کی  اپنے تاکستان میں کام کرنے کی ہمت کو باندھے ، یشوعا کے نام میں۔ آمین