(غزل الغزلات- 1 باب (دوسرا حصہ

غزل الغزلات 8:6

نگین کی مانند مجھے اپنے دل میں لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانن اپنے بازو پر کیونکہ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور غیرت پاتال سی بے مروت ہے۔ اسکے شعلے  آگ کے شلعے ہیں اور خداوند کے شعلے کی مانند۔

یہودی دانشوروں کی تشریح کے مطابق یہ محبوبہ بنی اسرائیل ہے  جس پر بادشاہ یعنی خدا کی نظر ہے۔ جب خدا بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر بیابان میں لے کر آیا وہیں بنی اسرائیل کی خدا سے محبت کی کہانی شروع ہوئی۔  مگر بنی اسرائیل  جس سے اسکی ماں کے بیٹوں نے اپنے تاکستانوں کی نگہبانی کروائی اور خود اپنے تاکستان کی نگہبانی نہیں کی اپنے  سیاہ فام رنگ یعنی گناہوں کی بنا پر اپنے آپ کو بادشاہ کے لائق نہیں سمجھتی۔ اسکی ماں کے بیٹوں سے مراد سوتیلے بھائی ہیں جو کہ اس کے اس عشق کی بنا پر اس سے خوش نہیں۔   سوتیلے بھائی کون ہوتے ہیں؟ وہ جو کہ سگے باپ کی بیوی سے پیدا ہوئے ہوں یا پھر سگی ماں کے شوہر سے پیدا ہوئے ہوں (احبار 18)۔ اگر نوح تک کے نسب نامہ پر غور کریں تو سیلاب کے بعد تمام لوگ نوح کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ میں نے آدم تک کی نسل کے نسب نامے کا ذکر نہیں کیا۔ اسکی وجہ آپ پیدائش 6 باب کے مطالعے میں پڑھ سکتے ہیں۔غیر قوموں کو آپ "ماں کے سوتیلے بیٹے” تصور کر سکتے ہیں۔  بنی اسرائیل کا بیابان میں رہتے ہوئے سب سے بڑا گناہ  سونے کے بچھڑے کو بنا کر اسکی پرستش کرنا تھا۔ تبھی یہودی دانشوروں کی نظر میں بنی اسرائیل جو کہ خدا وند یہوواہ   سے محبت رکھتی  ہے ، کہہ رہی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اسکے گناہوں کی بنا پر وہ  خدا کے لائق نہیں۔ اس نے ملک مصر میں دوسروں کی خدمت کی مگر اسی بنا پر وہ خود،  وہ باتیں نہیں سیکھ پائی جو خدا کے نزدیک اور زیادہ خوبصورت ہیں۔ فرعون کی رتھ کو رشی(یہودی دانشور)  خروج 14:14 اور حبقوق 3:15 سے  ملا کر بات رہا ہے ۔ رشی کی نظر میں  جب بادشاہ نے اپنی پیاری کو خوبصورت کہا اور اسکی آنکھوں کو کبوتر کہا  تو سلیمان بادشاہ اسکے سیاہ فام رنگ کو  نظر انداز کر کے اسکے اندر کی خوبصورتی کو بیان کر رہا ہے۔  اسی طرح سے جب  خدا نے بنی اسرائیل کے گناہوں کو معاف کیا تھا (گنتی 14:20) اور انکو  پھر سے اپنایا تھا  تو وہ انکی اس خوبصورتی کو دیکھ رہا تھا جسکی بنا پر خدا نے بنی اسرائیل کو چنا تھا۔ اسکو خدا کا فضل نہیں کہتے تو اور کیا  کہتے ہیں؟ کیا خدا کے فضل کا ذکر ہمیں صرف نئے عہد نامے میں ملتا ہے جبکہ پرانے عہد نامے میں ہم بار بار اسکے فضل سے جڑی کہانیوں کو پڑھتے ہیں؟

میسیانک یہودیوں اور مسیحی علما کی نظر میں  بھی غزل الغزلات کا  بادشاہ،   خدا ہی  ہے جس کی نظر اپنی اس محبوبہ  یعنی کلیسیا پر ہے،  جس نے اسے اپنا نجات دہندہ قبول کیا ہے۔ اس کلیسیا کو علم ہے کہ خدا نے اسے قبول کیا ہے مگر وہ پھر بھی اپنے "سیاہ فام رنگ (گناہوں)” کو نہیں بھلا پا رہی۔ اسکے دل میں ڈر ہے کہ  بادشاہ شاید اسکو اسکے رنگ (گناہ) کی بنا پر قبول نہ کرے ۔ ویسے ہی جیسے کہ بنی اسرائیل کے پاس وجوہات ہیں ، اسکے پاس بھی وجوہات ہیں کہ کیوں اسکا رنگ کالا ہے کیونکہ اسکی ماں کے بیٹوں نے اپنے تاکستانوں میں اس سے کام کروایا ہے مگر اس نے خود اپنے تاکستان کی نگہبانی نہیں کی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ دل میں اپنے محبوب (خدا) کو اور زیادہ جاننے کی خواہش ہے۔ جو عورتیں(قومیں)  اسکے ساتھ ہیں وہ  جانتی ہیں کہ وہ تمام عورتوں میں سب سے خوبصورت ہے مگر پھر بھی اسکو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔  مگر بادشاہ اسکو اسکی خوبصورتی کا احساس پھر سے دلا کر اس کلیسیا/مسیحیوں کےمحبت کے  جذبات کو پھر سے بھڑکاتا ہے۔ بادشاہ ان پر اپنا فضل ظاہر کررہا ہے۔

میں نے اس کتاب  پر لکھی گئی بہت سی کمنٹریوں کو پڑھا ہے مگر جب بھی میری اپنی بائبل پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنے لکھے ہوئے وہ نوٹس نظر آتے ہیں جنہوں نے میری روحانی زندگی  میں  رہنمائی کی تھی۔ میں وہی نچوڑ آپ کے ساتھ شئیر کرنے لگی ہوں۔

سلیمان بادشاہ نے بنی اسرائیل کے امن کی خاطر کتنی ہی عورتوں سے شروع میں شادیاں کی تھیں مگر اسکی نظر پھر بھی اس عورت پر تھی جو کہ اسکی نظر میں خوبصورت تھی۔ خدا  کے پاس بھی کتنے ہی خدا پرست لوگ ہیں مگر اسکی نظر آپ پر ہے۔ آپ کو بھی نجات حاصل کرنے کے بعد خدا سے اتنی محبت تو ہوئی ہو گی کہ رات دن بھر اسی کا خیال رہتا ہو۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ۔ میں نے خود یسوع کو اپنا نجات دہندہ 9 سال کی عمر میں قبول کیا تھا۔ سنڈے سکول/چرچ شوق سے جانا اور تمام پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا مجھے اچھا لگتا تھا۔ کلام پر لکھی گئی بچوں کی کہانی کی کتابوں کو پڑھنا مجھے اچھا لگتا تھا ۔ تمام پادریوں سے کلام سے سوالات کرنا اچھا لگتا تھا۔ مگر بہت سی  دوسری باتوں نے مجھے اچھا مسیحی رہنے نہیں دیا۔ مجھے خدا سے تو پیار تھا مگر مسیحیوں کی حرکتیں دیکھ کر ہمیشہ یہی خیال آتا تھا کہ کم سے کم میں ان کی طرح نہیں جو صرف منہ سے خدا خدا کرتے ہیں مگراعمال الٹے ہیں۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا اور میں خود گناہ کی دلدل میں ڈوب گئی۔ اپنی نظر میں تو میں شادی کے بعد  بھی وہی کام کر رہی تھی جو کہ "ایک اچھا مسیحی” کرتا ہے۔ روزانہ دعا کرنا،ہر ہفتے  چرچ جانا  اور  دہ یکی دینا وغیرہ وغیرہ۔ خدا نے مجھے برکت دی کیونکہ اسکی نظر میں میں اب بھی خوبصورت تھی۔ مگر جب اس نے مجھے اپنے کام کے لئے چنا تو خدا نے میری توجہ مکاشفہ  2باب میں دئے افسیوں کی کلیسیا کو لکھے خط کی طرف دلائی۔  خدا نے مجھے کہا "شازیہ تو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی ہے۔ مجھ سے پھر سے پہلی جیسی محبت رکھ۔” میرے ساتھ بہت سے ایسے روحانی واقعات ہوئے ہیں جنکو میں بتا نہیں سکتی  مگر یہ حقیقت ہے کہ خدا نے مجھے  پہلی جیسی محبت رکھنے کو کہا۔ اگر آپ کو کبھی کسی سے پیار ہوا ہو تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کہ دن رات کس بات کا خیال رہتا  ہے۔ مجھے بھی رات اور دن صرف اور صرف خدا کا خیال تھا۔ روحانیت میں اگر آپ کبھی خدا کی حضوری میں آئے ہوں تو شاید آپ کو بھی اس بات کا علم ہو کہ خدا کی حضوری میں ایک عجیب سی خوشی ہے وہی جس کے بارے میں پولس کہتا ہے کہ "اطمینان جو سمجھ سے باہر ہے۔” دل تو یہی چاہتا ہے کہ وہ مجھے اپنی طرف کھینچ کے ہی رکھےتاکہ میں اس کی محبت  میں ہمیشہ شادمان رہوں۔ مگر پھر شیطان ان باتوں کا خوف دل میں ڈالتا ہے (اپنی خوبصورتی مگر ساتھ ہی میں سیاہ فام رنگ) کہ شاید خدا نے مجھے قبول نہیں کیا۔ شاید مجھ میں یہ خوبی نہیں، شاید میں نکمی ہوں یا پھر شاید میں کسی بھی کام کے قابل نہیں، میں اسکے پیار کے قابل نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ آپ اپنی زندگی میں جھانک کے دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کو اپنے میں کس بات کی کمی نظر آتی ہے۔ اور اگر اسکے احکامات سخت لگتے ہیں کہ اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے یا ہم انکو اپنی زندگی میں اپنا نہیں سکتے تو ہم اپنی ماں کے بیٹوں کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ ہم انکی وجہ سے ایسے ہیں تبھی ہم نے اپنے اوپر توجہ نہیں دی۔ مگر پھر خداہمیں، ہماری کمی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے  ایک بار پھر سے ہمیں ہماری روحانی خوبصورتی کا احساس دلواتا ہے۔

اگر آپ کی روحانی زندگی کی شروعات ابھی ہوئی ہے تو اپنے ماضی کے گناہوں کو بھول جائیں کیونکہ کلام میں لکھا ہے (زبور 103:12):

جیسے پورب پچھم سے دور ہےویسے ہی اس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کر دیں۔

اس نے نہ صرف ہماری ماضی کی خطاؤں کو ہم سے دور کیا ہے اور ہماری زندگی سے مٹا ڈالا ہے بلکہ وہ انھیں یاد بھی نہیں کرتا ۔ یہ میں نہیں خدا کا کلام کہتا ہے یسعیاہ 43:25 اور عبرانیوں 8:12 میں۔ میں آپ کے لئے یسعیاہ کا حوالہ لکھ رہی ہوں؛

میں ہی وہ ہوں جو اپنے نام کی خاطر تیرے گناہوں کو مٹاتا ہوں اور میں تیری خطاؤں کو یاد نہیں رکھونگا۔

اور وہ آپ سے اپنی محبت کا اظہار کلام سے یوں کرتا ہے، (یسعیاہ49:16):

دیکھ میں نے تیری صورت اپنی ہتھیلیوں پر کھود رکھی ہے اور تیری شہر پناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔

کوئی بھی مسیحی اگر یہ کہے کہ اسے خدا سے محبت ہے مگر اسکے کلام کو نہ جانتا ہو تو ابھی تک اسکی محبت کامل نہیں ہوئی۔ اسکی محبت بھری باتوں کو کلام میں سے پڑھیں اور رات دن اپنے آپ کو اسکی محبت کا احساس دلائیں اور دوسروں سے اسکی ، اپنے سے محبت کا  ذکر کریں تاکہ آپ یوں ہی اسکی محبت میں بڑھ پائیں۔

اگر آپ شادی شدہ ہیں   اور اتنا عرصہ گذر گیا ہے کہ اب آپ کو اپنے جیون ساتھی سے محبت نہیں رہی بلکہ آپ کے ذہن  پر صرف اور صرف احساس ذمہ داری ہے تو اپنے جیون ساتھی سے اپنی پہلی محبت کا سوچیں ،؛ نہیں میں شادی سے پہلے کے دوسروں سے پیار محبت کے قصوں کو یاد کرنے کا نہیں کہہ رہی  بلکہ اپنے جیون ساتھی سے پہلی محبت کی بات کر رہی ہوں 😛  یاد رکھیں کہ اگر آپ کو اپنے جیون ساتھی سے محبت نہیں تو آپ میں خدا کا پیار ابھی تک کامل نہیں ہوا۔ اگر آپ کی منگنی ہو گئی ہے تو اپنے منگیتر کو صرف جسمانی طور پر جاننے کی خواہش نہ رکھیں بلکہ اسکو صحیح معنوں میں جاننے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے صحیح محبت کے میرے اس چیلنج کو قبول کرنا ہے تو پھر روز 1 کرنتھیوں 13 باب پڑھیں تب تک جب تک کہ آپ کو نہ لگے کہ اب آپ کو محبت کا معنی پتہ چل گیا ہے۔

میری خدا سے دعا ہے کہ آپ اسکی محبت  میں جڑ پکڑ کر اور بنیاد قائم کرکے، سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکیں کہ اسکی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے اور مسیح کی اس محبت کو جان سکیں جو جاننے سے باہر ہے تاکہ آپ خدا کی ساری معموری تک معمور ہوجائیں۔ یشوعا کے نام میں آمین۔

اگلی دفعہ ہم غزل الغزلات 2 باب کا مطالعہ کریں گے۔