تناخ اور تلمود
تناخ اور تلمود میں کیا فرق ہے؟
میرا یہ آرٹیکل تناخ اور تلمود کا مختصر سا تعارف ہے تاکہ آپ ان سے آشنا ہوسکیں کہ یہ کیا ہیں اور ان میں کیا فرق ہے۔
تناخ, תַּנַ"ךְTanach or Tanakh , کیا ہے؟
مسیحیوں کی زبان میں "تناخ "کو پرانا عہد نامہ کہتے ہیں اور یہودیوں کے لیے یہی پرانا عہد نامہ "تناخ” سے جانا جاتا ہے۔اگر تناخ اور پرانے عہد نامے میں کوئی فرق ہے تو وہ کتابوں کی ترتیب اور گنتی کا ہے۔ تناخ کی کتابیں، تین حصوں پر مشتمل ہیں۔
- توریت ، Torah (اسکو اردو میں شریعت بھی کہا جاتا ہے) ۔جس میں پیدائش، خروج ، احبار، گنتی اور استثنا کی کتابیں شمار ہیں۔
- نویم، Nevi’im (اسکو اردو میں انبیا کہا جاتا ہے)۔ اس میں یشوع، قضاۃ، پہلا اور دوسرا سموئیل، پہلا اور دوسرا سلاطین، یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، ہوسیع، یوایل، عاموس، عبدیاہ، یوناہ، میکاہ، ناحوم، حبقوق، صفنیاہ، حجی، زکریاہ اور ملاکی شامل ہیں۔
- کتویم، Ketuvim، یہ تحریرات ہیں جن میں کلام کی یہ کتابیں شامل ہیں؛
شاعرانہ کتابیں– زبور، امثال اور ایوب
حامیش میگلوت، Chamesh Megillot جس کو پانچ کتابیں (طومار) کہا جاتا ہے۔ اس میں غزل الغزلات، روت،نوحہ، واعظ اور آستر شامل ہیں۔
دیگر کتابیں جس میں دانی ایل، عزرا اور نحمیاہ ، پہلا اور دوسرا تواریخ شامل ہیں۔
یہودیوں کی تناخ میں ان کتابوں کو اکٹھا گنا جاتا ہے مگر مسیحیوں کے لئے یہ ایک کتاب کے دو علیحدہ حصے ہیں؛
پہلا اور دوسرا سموئیل
پہلا اور دوسرا سلاطین
پہلا اور دوسرا تواریخ
عزرا اور نحمیاہ
انکے علاوہ ان بارہ انبیا کو بھی ایک ہی کتاب گنا جاتا ہے؛
ہوسیع، یوایل، عاموس، عبدیاہ، یوناہ، میکاہ، ناحوم، حبقوق، صفنیاہ، حجی، زکریاہ اور ملاکی
تناخ، TaNaKh سرنامیہ ہے، توریت- Torah ، نویم-Nevi’im اور کتویم، Ketuvimکا۔ ان تینوں حروف کے شروع کے حرف کو اکٹھا جوڑ کر عبرانی میں "تناخ” بنتا ہے۔ یہودیوں کے مطابق موسیٰ کو خدا نے کوہ سینا پر دو طرح کی توریت دی تھیں۔ ایک کو تحریری توریت کہتے ہیں اور دوسری کو زبانی توریت۔ یہودیت کے کچھ فرقوں کے مطابق ایک اور توریت بھی ہے جسکو "چھپی ہوئی یا پوشیدہ توریت” کہا جاتا ہے۔ تحریری توریت کو زیادہ تر یہودی تناخ پکارتے ہیں مگر ویسے توریت موسیٰ کی لکھی پہلی پانچ کتابیں ہیں (پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا) جنکو تحریری توریت پہچانا جاتا ہے۔
تلمود، תַּלְמוּדکیا ہے؟
تلمود کو یہودی زبانی توریت سے جانتے ہیں جسکا مطلب ہے "مطالعہ یا کتب بینی”۔ جیسا میں نے پہلے بیان کیا کہ یہودیوں کا نظریہ یہ تھا کہ خدا نے موسیٰ کو دو قسم کی توریت دیں۔ ایک تحریری اور دوسری زبانی۔ انکے خیال میں زبانی اس لیے دی گئی تھی کہ شریعت سے متعلق جو باتیں کلام میں نہیں قلمبند وہ نسل در نسل یہودی لوگ زبانی اپنے بچوں کو سکھا سکیں کہ کیسے شریعت کی باتوں پر عمل کرنا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے کہ خدا نے حکم دیا تھا کہ سبت کے دن کو پاک ماننا۔ ایک عام سوچ یہ ہے کہ کوئی بھی کلام کے ذریعے نہیں جان سکتا کہ کیسے اس دن کو پاک ماننا ہے یا پھر یہ کہ کیسے نکاح نامہ یا طلاق نامہ لکھنا ہے۔ یہ تمام باتیں بزرگوں کے بتائے ہوئے دستور کے مطابق تکمیل میں آتی تھیں۔
تلمود کے دو حصے ہیں ایک مشناہ، Mishnah اور دوسرا گیمارہ Gemara, ۔ مشناہ کا مطلب ہے "دہرانا” ، جبکہ گیمارہ کا ارامی میں مطلب ہے "روایت” اور عبرانی میں مطلب ہے "تکمیل”۔ مشناہ، شریعت کی باتوں پر روشنی ڈالتی ہے اسلئے اسکے چھ حصے ہیں جنکو عبرانی میں سیدر، Sederکہا جاتا ہے۔ اور یہ چھ حصے آگے اور حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ میرے پاس اردو میں تلمود نہیں ہے اسلئے میں ان حصوں کے نام لکھنے سے فی الحال پرہیز کر رہی ہوں تاکہ آپ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایک سیدر خدا کی عیدوں پر ہے اور پھر آگے وہ سبت، فسح، یوم تیروعہ اور سکوت جیسے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ میں نے تمام حصوں کے نام نہیں لکھے صرف مثال دی ہے۔ اسی طرح سے مثال کے طور پر، مشناہ کا ایک حصہ (سیدر) عورتوں اور مردوں سے متعلق ہے جو کہ آگے شادی بیاہ، طلاق اور اس قسم کے گھریلوموضوع پر بٹا ہوا ہے۔
گیمارہ، ربیوں کے بحث و مباحثات پر مشتمل ہے جو کہ ربی مشناہ میں درج قوانین پر کرتے تھے۔
یشوعا کے زمانے سے پہلے اور کافی عرصے بعد تک بھی تلمود میں درج ان باتوں کو نسل در نسل زبانی منتقل کیا گیا تھا۔ مگر پھر دوسری ہیکل کی تباہی کے بعد جب یہودی ملک بدر ہوئے تو کچھ یہودی ربیوں کو رومن کیتھولک چرچ کے سخت اصولوں کی بنا پر بہتر لگا کہ ان تمام باتوں کو قلمبند کردیا جائے۔ دو قسم کی تلمود دستیاب ہیں ایک کو بابلی تلمود کہا جاتا ہے اور دوسری کو یروشلیمی تلمود۔
یشوعا اور زبانی توریت:
وہ یہودی جو کہ اس زبانی توریت کی تعلیم کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان پر سختی سے چلتے تھے وہ یشوعا کے زمانے کے فریسی تھے۔ اب فریسی تو نہیں رہے مگر بہت سے ربیوں کی تعلیم یہی ہے کہ زبانی توریت پر سختی سے عمل کیا جائے۔ مگر کیا یشوعا کی تعلیم یہی تھی؟ کسی گروپ میں بحث پر ایک صاحب نے مجھے کہا کہ یشوعا نے شریعت کو پورا کر دیا جیسے کہ اب ہاتھ دھونے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس وقت تو میرے پاس ٹائم نہیں تھا کہ اس بات کا جواب دے سکوں مگر آج دے رہی ہوں۔ جس صاحب نے یہ بات کہی تھی وہ متی 15:2 ( یا مرقس 7:2) کی اس آیت کی بات کر رہے تھے جس میں لکھا ہے؛
تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے؟
اب اگر آپ مرقس 7 باب میں سے اس حوالے کو پڑھیں گے تو 1 آیت سے 5 میں ایسے لکھا ہے؛
پھر بہت سے فریسی اور بعض فقہیہ اسکے پاس جمع ہوئے۔ وہ یروشلیم سے آئے تھے۔ اور انھوں نے دیکھا کہ اسکے بعض شاگرد ناپاک یعنی بن دھوئے ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ کیونکہ فریسی اور سب یہودی بزرگوں کی روایت کے مطابق جب تک اپنے ہاتھ خوب دھو نہ لیں نہیں کھاتے۔ اور بازار سے آ کر جب تک غسل نہ کر لیں نہیں کھاتے اور بہت سی اور باتوں کو جو ان کو پہنچی ہیں پابند ہیں جیسے پیالوں اور لوٹوں اور تانبے کے برتنوں کو دھونا۔ پس فریسیوں اور فقیہوں نے اس سے پوچھا کیا سبب ہے کہ تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت پر نہیں چلتے بلکہ ناپاک ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔
نوٹ کریں کہ "بزرگوں کی روایت ” کا لکھا گیا ہے نہ کہ "خدا کی شریعت/حکم” کا۔ جب یشوعا نے انھیں جواب دیا تو اس نے مرقس 7:6 سے 9 اور 13میں ایسے کہا؛
اس نے ان سے کہا یسعیاہ نے تم ریاکاروں کے حق میں کیا خوب نبوت کی جیساکہ لکھا ہے: یہ لوگ ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرتے ہیں لیکن انکے دل مجھ سے دور ہیں۔ یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔ تم خدا کے حکم کو ترک کرکے آدمیوں کی روایت کو قائم رکھتے ہو۔ اور اس نے ان سے کہا تم اپنی روایت کو ماننے کے لئے خدا کے حکم بالکل رد کر دیتے ہو۔ یو ں تم خدا کے کلام کو اپنی روایت سے جو تم نے جاری کی ہے باطل کر دیتے ہو۔ اور ایسے بہترے کام کرتے ہو۔
چونکہ مسیحیوں کو فریسیوں کی تعلیم کا علم نہیں اسلئے وہ ان آیات کو شریعت کی رو سے سوچتے ہیں مگر حقیقتاً میں یہاں "بزرگوں کی روایت اور اپنی جاری کی ہوئی روایت” کی بات ہو رہی ہے۔” بزرگو ں کی روایت” اور "خدا کے احکام” ایک برابر نہیں۔ خدا کے احکام افضل ہیں ۔ فریسیوں نے اپنی روایتیں، یہودیوں پر ٹھونسی ہوئی تھیں۔ ہاتھوں کا دھونا بھی فریسیوں کی تعلیم تھی مگر خدا نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ آپ کو شریعت کی کتاب میں کہیں پر بھی ہاتھ دھونے کا حکم نہیں نظر آئے گا۔
اسی طرح کی مثال آپ کو سبت کے حوالے سے بھی ملے گی ؛ مرقس 3:1 سے 6 (آپ اسکو متی 12:9 سے15میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔)
اور وہ عبادتخانہ میں پھر داخل ہوا اور وہاں ایک آدمی تھا جسکا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ اور وہ اسکی تاک میں رہے کہ اگر وہ اسے سبت کے دن اچھا کرے تو اس پر الزام لگائیں۔ اس نے اس آدمی سے جسکا ہاتھ سوکھا ہوا تھا کہا بیچ میں کھڑا ہو۔ اور ان سے کہا سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟ وہ چپ رہ گئے۔ اس نے انکی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف ان پر غصہ سے نظر کرکے اس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اس نے بڑھا دیا اور اسکا ہاتھ درست ہوگیا۔ پھر فریسی فی الفورباہر جاکر ہیرودیوں کے ساتھ اسکے برخلاف مشورہ کرنے لگے کہ اسے کس طرح ہلاک کریں۔
یشوعا کے زمانے کے فریسیوں (بزرگوں) کی تعلیم کے مطابق سبت کے دن علاج کرنا، کام کرنے کے برابر تھا۔ وہ یہی تعلیم دیتے تھے کہ اگر زمین پر کچھ گر جائے تو مت اٹھاؤ اور نہ ہی کسی بیمار آدمی کے گھر ملنے کو جاو گو کہ بعد میں ماڈرن ربیوں نےکچھ خاص قسم کی صورت حال میں اجازت دی ہوئی ہے ۔ بزرگوں کی ان روایات کی بنا پر لوگ خدا کی اصل تعلیم سے ہٹ کر فریسیوں کی تعلیم کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے تبھی یشوعا نے انھیں مرقس 2:23 سے 28 میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ "سبت آدمی کے لئے بنا ہے نہ آدمی سبت کے لئے۔” ساتھ ہی میں اس نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ ابن آدم یعنی یشوعا سبت کا مالک ہے۔
مسیحیوں کے لئے تلمود کی کیا اہمیت ہے؟
تلمود ، ہم مسیحیوں کو کلام کی بہت سی باتوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہودیوں کی رسم و رواج کو جانے بغیر ہم کلام کو گہرائی میں نہیں جان سکتے۔ اگر آپ نے میرے عید فسح سے متعلق آرٹیکل پڑھے ہیں تو آپ میری اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ نے وہ آرٹیکل نہیں پڑھے تو انھیں ضرور پڑھیں تاکہ آپ کلام کی باتوں کو بہتر سمجھ سکیں۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ رسمیں بری نہیں اگر انکی اہمیت خدا کے احکامات سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔
میں بذات خود تلمود کی تعلیم پر نہیں چلتی مگر اس کو کلام کو سمجھنے کے لئے استعمال ضرور کرتی ہوں۔ اگر خدا نے "سبت کا دن پاک ماننے کو کہا ہے” تو ربیوں نے اس ایک حکم کے مطابق اتنے زیادہ احکامات دے دئے ہیں کہ خدا کے ان سادہ احکامات پر چلنا مشکل کر دیا ہے ۔ایسا ہی انھوں نے توریت میں درج باقی احکامات کے ساتھ کیا ہے۔ یشوعا نے متی 11:28 سے 30 میں کہا؛
ائے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تمکو آرام دونگا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کیونکہ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔
یشوعا سے کلام کو سیکھیں ، اس سے بہتر آپ کو کلام کوئی نہیں سمجھا سکتا۔
آڈیو پیغام سننے کے لئے پلے کا بٹن دبائیں؛
To hear the message in Urdu press the play button.