(پیدائش 48 باب (پہلا حصہ
آپ کلام میں سے پیدائش 48 کا پورا باب خود پڑھیں، میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی ضرورت سمجھونگی۔
پیدائش 48 اور 49 باب میں کچھ بائبل کی وہ پیشن گوئیاں ہیں جن کو سمجھنے پر کلام کی باقی کتابوں کی باتیں بہتر سمجھ میں آتی ہیں۔ بنیاد غلط تو پوری عمارت خطرے میں، ہمیں اپنی بنیاد کو پختگی سے قائم کرنا ہے۔ ہم کچھ حصوں میں ان باتوں کو تفصیل میں پڑھیں گے۔ پچھلے باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ یعقوب اپنے گھرانے کے ہمراہ ملک مصر میں یوسف کے پاس رہنے کو گیا۔ اس نے یوسف سے وعدہ لیا کہ وہ اسکے مرنے پر اسکو وہیں دفن کریگا جہاں اسکے باپ دادا دفن ہیں۔ اب ہم آگے پڑھتے ہیں۔ یوسف ملک مصر کا دوسرا بڑا حاکم تھا۔ جب اسے علم ہوا کہ اسکا باپ بیمار ہے تو وہ اپنے دونوں بیٹوں منسی اور افرائیم کو ساتھ لے کر اپنے باپ سے ملنے کو گیا۔ اسکی اطلاع جب یعقوب کو پہنچی کہ یوسف آ رہا ہے تو وہ سنبھل کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔
جب یوسف آیا تو یعقوب اس سے یوں مخاطب ہوا کہ "خدای قادر مطلق مجھے لوز میں جو ملک کنعان میں ہے دکھائی دیا ۔۔۔” ابراہام، اضحاق اور یعقوب، یہوواہ خدا کو "خدای قادر مطلق” کے طور پر جانتے تھے۔ ہم نے پہلے بھی پڑھا تھا کہ خدای قادر مطلق عبرانی میں "ایل شیدائی” ہے جسکا معنی ہے کہ وہ خدا جو تمام قوت اور طاقت کا مالک ہے اور وہی مہیا کرنے والا اور پرورش کرنے والا بھی ہے۔ ہم اسکے معنی کی تفصیل میں پھر سے نہیں جائیں گے۔ لوز وہ مقام ہے جہاں پر پہلی بار یعقوب نے خدا کو دیکھا تھا (پیدائش 28 باب)۔ اس بستی کا اصل نام لوز تھا مگر خود یعقوب نے اسے بیت ایل کا نام دیا تھا۔ یعقوب کو خدا کا کیا وعدہ یاد تھا کہ خدا نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے برومند کرے گا اور بڑھائے گا اور اس سے قوموں کا ایک زمرہ پیدا کریگا۔ میں نے 28باب کے مطالعے میں ذکر کیا تھا کہ عبرانی کلام میں خدا نے جب ابرہام سے "قوموں کے باپ (پیدائش 12)” ہونے کا وعدہ کیا تھا تو عبرانی زبان میں وہ لفظ "گوئے، Goy” ہے جو کہ غیر یہودی قوموں کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر 28 باب میں اور اب ایک بار پھر سے خدا کےاس وعدے( 48:4 ) میں قوموں کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ "کہل امیم” ہے جسکے معنی "مقدس لوگ/قوم” بنتا ہے۔ میں نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ بنی اسرائیل قوم خدا کی چنی ہوئی قوم ہی ہے اور ہمیشہ رہے گی مگر وہ جو کہ بنی اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں جب یشوعا ہامشیاخ (یسوع مسیح) کو قبول کرتے ہیں تو خدا انہیں اپنی میراث یعنی بنی اسرائیل کا حصہ بنا لیتا ہے۔ یوحنا 1:12 سے 13 میں ایسے لکھا ہے؛
لیکن جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی انہیں جو اسکے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
مجھے علم ہے کہ بہت سے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اب بنی اسرائیل خدا کی چنی ہوئی قوم نہیں رہی کیونکہ انھوں نے مسیح کو نہ قبول کیا اسلئے خدا نے بھی انہیں رد کر دیا۔ صحیح ، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں۔ کچھ لوگ یرمیاہ31 باب کا بھی حوالہ دیتے ہیںکہ اب موسوی شریعت ختم ہوگئی ہے کیونکہ خدا نے نیا عہد باندھا ہے۔ نیا عہد! مگر کس سے؟ خود ہی پڑھ کر دیکھ لیں یرمیاہ 31:31 سے 37 ؛
دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھونگا۔ اس عہد کے مطابق نہیں جو میں نے انکے باپ دادا سے کیا جب میں نے انکی دستگیری کی تاکہ انکو ملک مصر سے نکال لاؤں اور انہوں نے میرے عہد کو توڑا اگرچہ میں انکا مالک تھا خداوند فرماتا ہے۔ بلکہ یہ وہ عہد ہے جو میں ان دنوں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھونگا۔ خداوند فرماتا ہے میں اپنی شریعت انکے باطن میں رکھونگا اور انکے دل پر اسے لکھونگا اور میں انکا خدا ہونگا اور وہ میرے لوگ ہونگے، اور وہ پھر اپنے اپنے پڑوسی اور اپنے اپنے بھائی کو یہ کہکر تعلیم نہیں دینگے کہ خداوند کو پہچانو کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانینگے خداوند فرماتا ہے اسلئے کہ میں انکی بدکرداری کو بخش دونگا اور انکے گناہ کو یاد نہ کرونگا۔خداوند جس نے دن کی روشنی کے لئے سورج کو مقرر کیا اور جس نے رات کی روشنی کے لئے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کیا جو سمندر کو موجزن کرتا ہے جس سے اسکی لہریں شور کرتی ہیں یوں فرماتا ہے۔ اسکا نام رب الافواج ہے۔ خداوند فرماتا ہے اگر یہ نظام میرے حضور سے موقوف ہوجائے تو اسرائیل کی نسل بھی میرے سامنے سے جاتی رہے گی کہ ہمیشہ تک پھر قوم نہ ہو۔ خداوند یوں فرماتا ہےکہ اگر کوئی اوپر آسمان کو ناپ سکے اور نیچے زمین کی بنیاد کا پتہ لگا لے تو میں بھی بنی اسرائیل کو انکے سب اعمال کے سبب سے رد کر دونگا خداوند فرماتا ہے۔
سورج، چاند اور ستارے ابھی تک روشنی دیتے آرہے ہیں اور نہ ہی کوئی اب تک اوپر آسمان سے نیچے زمین کی بنیاد تک ناپ سکا ہے تو پھر ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ خدا نے بنی اسرائیل کو رد کر ڈالا ہے ؟ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خدا نے بنی اسرائیل کی قوم میں شامل کیا ہے کیونکہ اسکی شریعت آپ کے باطن میں اور آپ کے دل پر خدا نے لکھی ہے۔ آپ اپنے مطالعے کے لئے ساتھ میں افسیوں کا 2 باب بھی پڑھ سکتے ہیں جس میں افسیوں 2:19 میں خاص طور پر لکھا گیا ہے کہ ؛
پس اب تم پردیسی اور مسافر نہیں رہے بلکہ مقدسوں کے ہموطن اور خدا کے گھرانے کے ہوگئے ۔
یعقوب نے یوسف سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خدا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اسکے بعد یہ زمین یعنی ملک کنعان کی سرزمین اسکی نسل کی ہوگی اور انکی دائمی ملکیت ہو جائے گی، لہذا یوسف کے دونوں بیٹے جو یعقوب کے ملک مصر میں آنے سے پہلے پیدا ہوئے ہیں اسکے ہیں یعنی روبن اور شمعون کی طرح افرائیم اور منسی بھی اسی کے ہیں۔ مگر انکے بعد جو بھی یوسف کی اولاد ہوگی وہ یوسف کی ٹھہریگی پر اپنی میراث میں اپنے بھائیوں کے نام سے وہ لوگ نامزد ہونگے۔ ہمیں کلام میں یوسف کے ان دونوں بیٹوں کے ناموں کے علاوہ اور کوئی نام نہیں نظر آتے کیونکہ اگر وہ تھے بھی تو وہ افرائیم اور منسی کے ناموں سےہی نامزد ہوئے ہونگے۔
یوسف نے اپنے باپ کی اس بات سے کسی قسم کی مخالفت نہیں کی بلکہ خاموشی سے اسکو قبول کیا۔ یعقوب نے تو اپنی بات کی شروعات ہی "خدای قادر مطلق” سے کی تھی مگر یوسف کو بھی اس بات کا اچھی طرح سے علم تھا کہ وہی خدای قادر مطلق اسکے بیٹوں کو بھی ملک کنعان کی میراث کا حصہ بنائے گا۔ آپ کو پیدائش 41:51 اور 52 آیات میں نظر آئے گا کہ کون یوسف کا پہلوٹھا بیٹا تھا؛
اور یوسف نے پہلوٹھے کا نام منسی یہ کہہ کر رکھا کہ خدا نے میری اور میرے باپ کے گھر کی سب مشقت مجھ سے بھلا دی۔ اور دوسرے کا نام افرائیم یہ کہہ کر رکھا کہ خدا نے مجھے میری مصیبت کے ملک میں پھلدار کیا۔
یعقوب نے روبن اور شمعون کے نام لے کر افرائیم اور منسی کو ساتھ ملایا۔کہنے کو منسی ، یوسف کا پہلوٹھا تھا مگر یعقوب جانتا تھا کہ خدا نے افرائیم کو پہلوٹھا قرار دیا ہے تبھی اس نے افرائیم کا نام پہلے لیا اور منسی کا بعد میں۔ یوسف نے اس وقت تو کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ شاید اس نے سوچا ہو گا کہ اسکا باپ بوڑھا اور بیمار ہے شاید یاداشت کمزور ہوگئی ہے مگر نہیں روبن کی جگہ اسرائیل نے پہلوٹھے ہونے کا حق یوسف کی اولاد کو دیا یہ آپ 1 تواریخ 5:1 میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔روبن اور شمعون کے حصوں میں سے افرائیم اور منسی کو حصہ دیا گیا تھا یہ ہمیں کلام میں نظر آئے گا۔ یعقوب کو افرائیم کے قبیلے کی اہمیت خدا ظاہر کر چکا تھا۔ اب بنی اسرائیل کے گنتی میں 12 قبیلے نہیں بلکہ 13 قبیلے بن گئے کیونکہ اگر آپ یوسف کو نکال کر اسکے دو بیٹوں کو بنی اسرائیل کے گھرانے میں شمار کریں تو 12 نہیں بلکہ 13قبیلے بنے۔
ہم اسکا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ آپ بنی اسرائیل قوم کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس بات کو خوشی سے قبول کر سکیں کہ خدا نے آپ کو مقدسوں کا ہم وطن اور اپنے گھرانے کا حصہ بنایا ہے یشوعا کے نام میں۔ آمین