پیدائش 45 باب
آپ کلام میں سے پیدائش 45 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی میں ضرورت سمجھوں گی۔
پیدائش کے 44 باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ یہوداہ نے اپنے بھائی بنیمین کے لئے یوسف (صفنات فنیع) سے اپیل کی کہ وہ بنیمین کو واپس اپنے باپ کے پاس جانے دے تاکہ اسکا بوڑھا باپ بنیمین کے نہ ہونے کے غم میں مر نہ جائے ۔ یہوداہ کی اپیل سن کر یوسف سے اور اپنے آپ پر قابو نہ کیا گیا۔ اتنے سالوں سے اس نے ملک مصر میں تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ اس نے اتنے سال اپنے بھائی اور باپ کی جدائی سہی۔ یوسف کو یہوداہ کی باتوں سے علم ہوگیا تھا کہ اب اسکے بھائی پہلے جیسے نہیں رہے وہ بدل گئے ہیں ۔ وہ اپنے بھائیوں سے ویسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی اپنے آپ سے۔ یوسف نے اپنے آس پاس لوگوں سے باہر جانے کو کہا۔ وہ چلا چلا کر رونے لگا یہاں تک کہ مصریوں اور فرعون کے محل میں بھی اسکی آواز گئی۔
اتنے سالوں کی جو تکلیف وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے سب پر ظاہر ہوگئی اس نے اپنے بھائیوں سے کہا "میں یوسف ہوں۔” یہ دو عبرانی لفظ اسکے بھائیوں پر پہاڑ کی طرح گرے ہونگے کیونکہ وہ گھبرا گئے انھوں نے اسکو کچھ جواب نہ دیا۔ تب یوسف ان سے اس طرح مخاطب ہوا (پیدائش 45:4 سے 8)؛
اور یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا ذرا نزدیک آجاؤ اور وہ نزدیک آئے۔ تب اس نے کہا میں تمہارا بھائی یوسف ہوں جسکو تم نے بیچ کر مصر پہنچوایا۔ اور اس بات سے کہ تم نے مجھے بیچ کر یہاں پہنچوایا نہ تو غمگین ہو اور نہ اپنے اپنے دل میں پریشان ہوکیونکہ خدا نے جانوں کو بچانے کے لئے مجھے تم سے آگے بھیجا۔ اسلئے کہ اب دو برس سے ملک میں کال ہے اور ابھی پانچ برس اور ایسے ہیں جن میں نہ تو ہل چلیگا اور نہ فصل کٹے گی۔ اور خدا نے مجھکو تمہارے آگے بھیجا تاکہ تمہارا بقیہ زمین پر سلامت رکھے۔ پس تم نے نہیں بلکہ خدا نے مجھے یہاں بھیجا اور اس نے مجھے گویا فرعون کا باپ اور اسکے سارے گھرکا خداوند اور سارے ملک مصر کا حاکم بنایا۔
یوسف نے جب اپنے بارے میں پھر سے بتایا کہ وہ انکا وہ بھائی ہے جسکو انھوں نے بیچ دیا تھا تو انکے دل و دماغ پر کیا گذری ہو گی؟ انھوں نے کیا سوچا ہوگا؟ یوسف کے پاس اب اختیار تھا کیونکہ وہ ملک مصر کا حاکم بن گیا تھا انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ لوگ اسکے آگے جھکتے تھے اور وہ خود بھی تو اسکے سامنے جھکے تھے۔ مگر نہیں یوسف انھیں کہہ رہا تھا کہ تم غمگین نہ ہو اور نہ اپنے اپنے دل میں پریشان ہو۔معافی انسان انھی کو دیتا ہے جنھوں نے اسکے خلاف گناہ کیا ہو، وہی جو کہ معافی کےقابل نہیں ہوتے۔ کتنا مشکل ہو گا یوسف کو ان تکلیف دہ باتوں کو بھلا کر یہ کہنا کہ وہ پریشان نہ ہوں کیونکہ خدا نے جانوں کو بچانے کے لئے اسے آگے بھیجا تھا۔ یوسف کے الفاظ سے شاید انھیں کچھ تسلی ہوئی ہو مگر انکا گناہ انکے بھائی بنیمین پر کھل گیا تھا کہ انھوں نے یوسف کو بیچا تھا اسکو کسی درندے نے نہیں کھایا تھا۔ یوسف ان تمام باتوں کو عمل میں لانے کا ذمہ وار خدا کو ٹھہرا رہا تھے، برے معنی میں نہیں بلکہ اچھے معنی میں۔ وہ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان ساری باتوں کے پیچھے خدا کا مقصد تھا کہ وہ انھیں آنے والی مصیبت سے بچا سکے۔ ۔۔۔ یوسف کو مصیبت سے گذار کر دوسروں کو مصیبت سے بچانا؟؟؟ کیا یشوعا نے بھی ایسا نہیں کیا؟
اس نے کہا کہ کال کے ابھی پانچ سال باقی ہیں۔ اس نے کہا ” اور خدا نے مجھکو تمہارے آگے بھیجا تاکہ تمہارا بقیہ زمین پر سلامت رکھے”۔ اپنی مصیبت کے دنوں میں تو یوسف کو یہ بات نہیں سمجھ آئی ہو گی کہ کیسے اسکی مصیبت میں خدا اسکا بھلا چاہتا تھا یا کیسے اسکے خاندان کا بھلا چاہتا تھا مگر اب اسکو ان تمام باتوں کی سمجھ تھی کہ کال کے دنوں میں خدا اسکے خاندان کے لئے بھلا چاہتا تھا ۔ جب دوسرے زندہ رہنے کے لئے پیسہ دے کر خوراک خرید رہے تھے تو خدا اپنے لوگوں کو مفت میں خوراک دے رہا تھا۔ کہنے کو مفت خوراک مگر نہیں یہ خوراک مفت میں نہیں آئی تھی۔ یوسف نے کڑی زندگی گذاری تھی۔ خدا نے اسے اپنے ساتھ وفاداری سے چلنے کی بنا پر یہ تمام عزت دی تھی۔
اگر آپ تکلیفوں میں سے گذر رہے ہیں یا گذر کر اب آپ کو ان تکلیفوں کا صلہ ملا ہے تو کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ خدا کا اس میں بھی کوئی منصوبہ ہے؟ یوسف کی بنا پر اسکا خاندان بچا۔ آپ کی تکلیفوں کا صلہ تو شاید آپ کو مل گیا ہے یا پھر ملنے والا ہے اگر آپ بھی یوسف کی طرح اپنی تمام مصیبتوں میں خدا کو نہ بھولیں اور نہ چھوڑیں ۔ مگر کیا آپ اسکی طرح اپنے خاندان کے بارے میں سوچتے ہیں؟
یوسف نے اپنے بھائیوں کو کہا کہ وہ اپنے باپ کے پاس جائیں اور اسکو بھی تمام گھر والوں کے ہمراہ یہاں لے آئیں۔ اس نے انھیں کہا کہ وہ اسکے باپ کو اسکی تمام شان و شوکت کا ذکر کریں اور اسکو یہاں لے کر آئیں۔ وہ اپنے تمام بھائیوں سے ملکر رویا اور انکو چوما۔ اسکے بھائیوں کی خبر فرعون کو بھی ہوئی وہ یوسف کی خوشی میں خوش ہوئے۔ اس نے بھی یوسف کی طرح انکو یہی کہا کہ وہ یہاں آجائیں اور وہ انکو ملک مصر کا اچھے سے اچھا دے گا۔ وہ اپنے اسباب کا کچھ افسوس نہ کریں کیونکہ ملک مصر کی سب اچھی چیزیں انکے لئے ہیں۔
یوسف نے فرعون کے کہنے کے مطابق انکو گاڑیاں دیں اور زاد راہ بھی دیا۔ اس نے اپنے تمام بھائیوں کو ایک ایک جوڑا کپڑا بھی دیا مگر بنیمین کو اس نے سب سے بڑھ کر دیا۔ اس نے اپنے باپ کے لئے بھی اچھی اچھی چیزیں بھیجیں۔ اس نے اپنے بھائیوں کو خاص تنقید کی کہ وہ راستے میں جھگڑیں نہ۔ شاید اسکی اس تنقید کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ شروع کر دیں یا پھر بنیمین سے حسد نہ کریں۔ شروع میں تو یعقوب کا یقین نہیں آیا کہ یوسف ملک مصر کو حاکم ہے اور اب تک جیتا ہے۔ وہ شاید سوچ رہا ہو کہ اگر یوسف اب تک جیتا ہے اور ملک مصر کا حاکم ہے تو اس نے اپنے باپ سے ملنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی۔ مگر جب اس نے وہ تمام گاڑیاں دیکھیں جو یوسف نے اسکو لانے کے لئے بھیجی تھیں تو تب اسکو یقین آیا۔
آپ نے شاید میرا مسیحا بن یوسف پر لکھا آرٹیکل پڑھا ہو۔ میں نے اس میں ذکر کیا تھا کہ مسیحا بن یوسف کو اپنے بھائیوں پر بے نقاب کرنے کا وقت اب ہے کیونکہ مسیحا کی دوسری آمد جلد ہے۔ ہم مسیحیوں نے یشوعا /یسوع مسیح کو سورج دیوتا کا نقاب پہنایا ہے۔ میں نے آپ کو یوسف کی کہانی میں یشوعا کے بارے میں کچھ باتیں بتائی تھی کہ کیوں اور کیسے وہ مسیحا بن یوسف ہے۔ یوسف نے کہنے کو سورج دیوتا کے پجاری کی بیٹی سے شادی کی تھی جس سے اسکے دو بیٹے بھی تھے اور گو کہ اسکا رابطہ اپنے خاندان کے ساتھ نہیں رہا تھا، اس نے انکو چھوڑ نہیں دیا تھا۔ یوسف نے انکو اپنی زندگی میں دوبارہ داخل ہونے دیا تھا کیونکہ اسے خدا کے منصوبے کی سمجھ تھی۔ ہم مسیحی لوگ یشوعا کی دلہن ہیں جس کو لینے اس نے پھر آنا ہے مگر اس کے ساتھ ہی زکریاہ 12:10 کی یہ پیشن گوئی بھی پوری ہونی ہے جس میں لکھا ہے؛
اور میں داود کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح نازل کرونگا اور وہ اس پر جسکو انھوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اسکے لیے ماتم کرینگے جیسا کوئی اپنے اکلوتے کے لئے کرتا ہےاور اسکے لئے تلخ کام ہونگے جیسے کوئی اپنے پہلوٹھے کے لئے ہوتا ہے۔
وہ اپنے بھائیوں کے نزدیک بیگانہ بن گیا (زبور 69:8)۔ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کا سرے کا پتھر بن گیا (زبور 118:22)مگر اسی بنا پر وہ قوموں کے لئے نور بنا (یسعیاہ 49:6 اور 60:3) بلکل ویسے ہی جیسے کہ یوسف کی وجہ سے نہ صرف اسکا اپنا خاندان بلکہ ملک مصر اور وہ تمام ملک جہاں کال پڑا تھا، روٹی حاصل کر پائے تھے۔ عاموس 8:11 میں ایسے لکھا ہے؛
خداوند خدا فرماتا ہے دیکھو وہ دن آتے ہیں کہ میں اس ملک میں قحط ڈالونگا۔ نہ پانی کی پیاس اور نہ روٹی کا قحط بلکہ خداوند کا کلام سننے کا۔
یہ وہ دن ہیں جب آپ ابھی کلام کی سچائی کو ڈھونڈ پائیں گے مگر جلد ہی وہ وقت آتا ہے کہ آپ کو خداوند کے کلام کے قحط کا سامنا ہو گا ۔ اس قحط سے بچانے والا صرف یشوعا "خدا کا کلام جو مجسم ہوا” ہے۔ کیا آپ نے اس سے اپنے لئے زندگی کی روٹی لی ہے کہ آپ اور آپ کا خاندان ان کال کے دنوں میں زندہ رہ سکے؟ میں کلام سے کچھ اور حوالے بھی دکھا سکتی ہوں مگر ابھی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
ہم اگلی دفعہ پیدائش 46 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کے دل میں اپنے لوگوں کے لئے پیار کو بڑھائے تاکہ آپ اسکے خاندان میں شامل ہو سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین