(پیدائش 43 باب (دوسرا حصہ
ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ یہوداہ نے اپنے باپ اسرائیل کو کہا تھا کہ وہ بنیمین کا ضامن ہے اور اگر وہ اسے اسرائیل کے پاس پہنچا کر کھڑا نہ کردے تو وہ ہمیشہ کے لئے اسرائیل کا گنہگار ٹھہرے گا، اسکا مطلب یہ تھا کہ وہ اسرائیل کا اچھا وارث نہ رہتا اگر وہ اپنے بھائی بنیمین کو باحفاظت اپنے باپ کے پاس واپس نہ لاتا۔ ہمیں علم ہے کہ مسیحا کے بارے میں پیشن گوئی تھی کہ وہ یہوداہ کے قبیلے سے ہوگا۔ اگر یہوداہ اسرائیل کا اچھا وارث نہ رہتا تو مسیحا کے بارے میں لکھی کلام کی پیشن گوئیاں نہ پوری ہوتی۔
کلام کہتا ہے کہ خدا نے ہمیں پہلے سے ہی اپنے لئے چن لیا (افسیوں 1) اور ہم کو مسح کیا اور اور مہر بھی کی اور اپنی روح بھی ہمیں دی (1 کرنتھیوں 1:21 سے 22) ویسے ہی جیسے کہ خدا نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب کو چنا تھا اور پھر یعقوب کے گھرانے میں یہوداہ کو بھی چنا تھا ، خدا اسے اسرائیل کا وارث ہونے سے کبھی بھی رد نہ ہونے دیتا۔ اسلئے واپس بنیمین کو ملک مصر لے کے جانے کے مشن میں خدا انکے ساتھ ساتھ تھا کیونکہ نہ صرف انکے باپ کا بھروسہ تھا بلکہ اسکی دعا بھی یہی تھی۔
یہوداہ اور اسکے بھائیوں نے یوسف کو اسمعیلیوں کے ہاتھ بیس روپے (اصل عبرانی کلام میں بیس چاندی کے سکے) میں بیچا تھا اور اب واپس جاتے ہوئے وہ دونی نقدی یعنی 20 نقدی کی بوریاں لے کر جا رہے تھے۔ وہ ساتھ ہی میں نذرانہ بھی لے کر جا رہے تھے۔ جب مصر پہنچ کر وہ یوسف کے سامنے کھڑے ہوئے اور یوسف نے بنیمین کو ان کے ساتھ دیکھا تو اس نے اپنے گھر کے منتظم سے کہا کہ وہ انھیں اسکے گھر لے جائے اور جانور ذبح کر کے کھانا تیار کروائے کیونکہ وہ دوپہر کو اسکے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ یوسف نے بنیمین کو دیکھ کر بھی انکے سامنے اپنی اصلیت ظاہر نہیں کی بلکہ انکو اور انتظار کروایا جس سے انکے دل میں خوف پیدا ہورہا تھا ۔
منتظم نے شاید انکو بتایا نہیں تھا کہ وہ کس مقصد سے انھیں یوسف کے گھر میں لے کر جا رہا ہے۔ حالات کا مارا انسان بُرا پہلے سوچتا ہے اور اچھا بعد میں ، اچھا بھی تب جب اسکے سامنے پیش ہو۔ یہی حال یوسف کے بھائیوں کا تھا ۔ شمعون آگے ہی مصر کی قید میں بند تھا اور اب انکے ساتھ کیا ہونے والا تھا یہ انھیں معلوم نہیں تھا۔ انھوں نے آپس میں کہا کہ وہ نقدی جو پہلے دفعہ انکے بوروں میں رکھ کر لوٹائی گئی ہے شاید اسی کا الزام لگنے والا ہے تاکہ مصریوں کو بہانہ مل جائے اور وہ انکو غلام بنا لیں اور انکے گدھوں کو بھی ان سے چھین لیں۔ کچھ ایسا ہی انھوں نے یوسف کے ساتھ بھی کیا تھا کہ اسکو غلام بنا کر بیچ دیا اور اس کی قبا بھی اس سے چھین لی۔ جیسا انسان دوسرے کے ساتھ بُرا کرتا ہے اپنے بُرے وقت میں اسکو بھی اسی چیز کا زیادہ ڈر ہوتا ہے۔ وہ گھر کے منتظم کے پاس گئے اور اسے کہا کہ پچھلی دفعہ انکے بوروں میں وہ نقدی تھی جو انھوں نے اناج مول لینے کے لئے دی تھی۔ منتظم نے کہا (پیدائش 43:23):
اس نے کہا کہ تمہاری سلامتی ہو۔ مت ڈرو۔ تمہارے خدا اور تمہارے باپ کے خدا نے تمہارے بوروں میں تمکو خزانہ دیا ہوگا۔ مجھے تو میری نقدی مل چکی۔ پھر وہ شمعون کو نکال کر انکے پاس لایا۔
عبرانی میں "تم پر سلامتی ہو” کے لئے لفظ "شلوم” استعمال ہوتا ہے۔ یوسف کے گھر کا منتظم انھیں شلوم کہہ رہا تھا جو کہ شاید بہت حد تک ممکن ہے کہ یوسف کی بنا پر اسے علم ہو گا کہ اسکا کیا مطلب ہے۔ اگر آپ میں خداوند کی روح ہے تو وہ آپ کے آس پاس لوگوں پر ضرور کچھ اثر چھوڑتی ہے۔ ایسا ہی کچھ یوسف کے اس منتظم کی باتوں سے لگ رہا تھا کیونکہ ظاہر ہے یوسف نے تو اسے صرف یہی کہا ہوگا کہ اگر وہ نقدی کی بات کریں تو صرف یہ کہنا کہ وہ اسے مل گئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یوسف نے ہی وہ قیمت چکائی ہو۔
وہ منتظم اپنی باتوں سے یوسف کے بھائیوں کو اس بات کا اطمینان دلا رہا تھا کہ انکو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنے والا۔ وہ انھیں یوسف کے گھر میں لایا اور اس نے انھیں پانی دیا اور انکے گدھوں کو چارا دیا۔ انھیں علم ہو چکا تھا کہ وہ یوسف کے ساتھ روٹی کھانے والے ہیں تو جب یوسف آیا تو انھوں نے اسکے سامنے جھک کر وہ نذرانے دئے جو کہ یوسف کے باپ نے انھیں اپنے ساتھ لے کر جانے کو کہا تھا۔
یوسف نے رسمی طور پر ان سے انکی خیر وعافیت پوچھی اور اپنے اور انکے باپ کا پوچھا اور جب بنیمین کو دیکھا تو اس نے پوچھا کہ کیا یہی انکا سب سے چھوٹا بھائی ہے؟ اس نے بنیمین کو برکت دی ۔ اسکا جی بھر آیا اور وہ اپنی کوٹھری میں جلدی سے گیا اور رویا۔ پھر وہ منہ دھو کر واپس انکے درمیان میں آیا اور اس نے کھانا لگوانے کا حکم دیا ۔ انھوں نے یوسف کے لئے جدا اور اسکے بھائیوں کے لئے جدا اور اپنے لئے جدا کھانا چنا۔ میں نے پچھلے آرٹیکلز میں ذکر کیا تھا کہ مصری ، عبرانیوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے لئے جدا کھانا چنا تھا۔ یوسف کے بھائیوں کو ان کی عمر کی ترتیب کے مطابق بٹھایا گیا تھا۔ یہ انکے لئے حیران کن بات تھی کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ بنیمین کو پانچ گنا زیادہ کھانے کا حصہ دیا گیا تھا۔ ربی بتاتے ہیں کہ اسکی وجہ یہ تھی کہ یوسف انکا امتحان لینا چاہتا تھا کہ کہیں وہ اسکے چھوٹے بھائی بنیمین سے بھی تو بغض نہیں رکھتے۔ ایک اور وجہ کچھ دانشور یہ بھی بتاتے ہیں کہ بنیمین پر پانچ گنا برکت تھی اور مصریوں کے مطابق صرف حاکم کو ہی باقیوں کی نسبت پانچ گنا ملتا تھا اسلئے یہ حاکمیت کی نشانی تھی۔ آپ کو شاید علم ہو کہ بنی اسرائیل کا پہلا بادشاہ بنیمین کے قبیلے سے ہی تھا۔
تمام بھائیوں نے مے پی اور خوشی منائی۔ زبور 133:1 میں لکھا ہے؛
دیکھو! کیسی اچھی اور خوشی کی بات ہے کہ بھائی باہم ملکر رہیں۔
ابھی انکے لئے وہ وقت نہیں آیا تھا کہ وہ ملکر رہتے مگروقتی طور پر وہ سارے آپس میں خوشی سے کھا پی رہے تھے۔
ہم پیدائش 44 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ باہم ملکر خوشی بخوشی رہ سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین