پیدائش 39 باب

آپ کلام میں سے پیدائش 39 باب پورا خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھوں گی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

پچھلے باب میں ہم نے یہوداہ کی کہانی پڑھی تھی اور اس باب میں ایک بار پھر سے ہم وہیں سے   یوسف کی کہانی  پڑھنے لگے ہیں جسکو ہم نے پیدائش 37 باب میں جہاں سے چھوڑا تھا۔ ہم نے پیدائش 37 باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ یوسف کو مصر میں فوطیفار مصری کے ہاتھ بیچ دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یوسف اگر مصر میں ہے تو مصری کے ہاتھ ہی بکا تو اس میں "فوطیفار مصری” کہنے کی کیا ضرورت تھی؟  تاریخ گواہ ہے کہ  جب یوسف کو مصر میں لا کر بیچا گیا اس وقت  جو مصر کا بادشاہ تھا وہ  مصری نہیں  تھا۔ مصریوں پر کبھی سامی نسل کے  بادشاہوں نے بھی حکومت کی تھی جن کو "حیکسوس، Hyksos” کہا گیا تھا۔ آپ کو یہ لفظ یوسیفس کی کتاب میں بھی نظر آئے گا۔ مجھے نہیں علم کہ اردو میں اسکو کیا کہتے ہیں مگر یوسیفس کے مطابق اسکا ترجمہ بنتا ہے "چرواہا /گڈریا/گلہ بان بادشاہ”۔  یہ سامی نسل ، نوح کے بیٹے سم کی اولاد  میں سے ہے  جو کہ خانہ بدوش تھے اور جنہوں نے مصر پر اپنی حکومت کچھ عرصے تک جمائی تھی۔ انھوں نے مصریوں پر بتوں کی پرستش  اورمصری  زبان  کوچھوڑنے کو نہیں کہا تھا۔ ہم خروج کے پہلے باب میں پڑھیں گے کہ جو نیا بادشاہ آیا تھا وہ یوسف کو نہیں جانتا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ ایک  مصری تھا۔  اور  اسی بنا پر موسیٰ نے پیدائش کے اس 39 باب میں ذکر کیا ہے کہ فوطیفار مصری تھا۔ یوسف فوطیفار کے نوکروں میں  شامل ہوگیا۔ کہاں اپنے باپ کا چہیتا بیٹا جس نے شاید کبھی اتنا سخت محنت طلب کام نہ کیا ہو اب غیروں کے درمیان میں نیچ کام کر رہا تھا۔ آپ کو یاد ہے میں نے اپنے آرٹیکل میں مسیحا بن یوسف کا ذکر کیا تھا۔ آپ کو اس باب میں بھی کچھ اور مشابہت نظر آئیں گی۔ یشوعا نے اپنے بارے میں  مرقس 10:45 میں کہا؛

کیونکہ ابن آدم بھی اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اسلئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔

یوسف 17 برس کا تھا جب اسکو اسکے بھائیوں نے غلامی میں بیچ دیا  مگر فوطیفار کے گھر میں جب اس نے کام کرنا شروع کیا تو خداوند یوسف کے ساتھ تھا جسکی بنا پر وہ اقبالمند ہوا۔ اسکے آقا نے دیکھا کہ وہ جس کام کو بھی کرتا ہے خوب کرتا ہے تو وہ اسکی نظر میں مقبول ٹھہرا۔ اسکے آقا نے اسکو اپنے تمام گھر کا مختار بنا دیا اور یوسف کی بنا پر خداوند نے اسکے مصری مالک کو بہت برکت دی۔  سوائے کھانے کے باقی اسکے مالک کو کسی چیز کی پرواہ نہ تھی۔ مصری لوگ، عبرانی کے ساتھ مل کر بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اتنی چھوٹی سی ہی عمر میں خدا نے یوسف کو کتنی برکت دے دی تھی  مگر ان باتوں کے باوجود یوسف خدا کا خوف رکھتا تھا۔ اسکے دل میں کسی قسم کا گھمنڈ اور لالچ نہیں تھا۔ کلام میں یسعیاہ نبی نے مسیحا کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کہ (یسعیاہ 52:13)؛

دیکھو میرا خادم اقبالمند ہوگا۔ وہ اعلیٰ وبرتر اور نہایت بلند ہوگا۔

  چھوٹی عمر میں ترقی کے ساتھ ساتھ گھمنڈ آنا  ایک عام بات ہے مگر نہیں یوسف کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔  1 پطرس 5:6 سے 7 میں لکھا ہے؛

پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سر بلند کرے۔ اور اپنی ساری فکر اسی پر ڈال دہ کیونکہ اسکو تمہارا خیال ہے۔

یوسف کے پاس ہماری طرح خدا کا کلام پڑھنے کے لیے تو موجود نہیں تھا مگر اسکے پاس ضرور اپنے باپ کے گھرانے کی تعلیم ہوگی۔ یوسف کے باپ نے بھی محنت مشقت کی تھی اور خدا نے اسے دولت بخشی تھی۔ یوسف کو اپنے باپ کی کہانی کا تو علم ہو گا ہی اور ساتھ میں اس کے باپ کی  ہدایات جب وہ لوگ سکم چھوڑ کر بیت ایل کی طرف چلے تھے۔  یوسف کو علم تھا کہ خدا ہی اسے عزت بخشے گا اور خدا نے اسے عزت بخشی بھی۔ مگر جہاں خدا کام کر رہا ہوتا ہے وہیں خدا کے لوگوں کے خلاف شیطان سر اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔

مجھے کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ مردوں کا حسین اور خوبصورت ہونابھی مصیبت کا باعث ہو سکتا ہے مگر یوسف کی کہانی پڑھ کر یقین آسکتا ہے کہ  ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ یوسف خوبصورت تھا اسلئے فوطیفار کی بیوی اسکو چاہنے لگ گئی تھی کہ وہ اسکے ساتھ ہم بستر ہو مگر یوسف کا جواب یہ تھا (پیدائش 39:8 سے 9):

لیکن اس نے انکار کیا اور اپنے آقا کی بیوی سے کہا کہ دیکھ میرے آقا کو خبر بھی نہیں کہ اس گھر میں میرے پاس کیا کیا ہے اور اس نے اپنا سب کچھ میرے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔ اس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور اس نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تو اسکی بیوی ہے سو بھلا میں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟

یوسف جانتا تھا کہ وہ امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ اسکے مالک نے اسے تمام گھر کا مختار تو بنایا ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ ناجائز حرکتیں شروع کر دے۔ یوسف جانتا تھا کہ اگر وہ فوطیفار کی بیوی کے ساتھ ہم بستر ہو بھی جاتا ہے تو کوئی اور ملازم اسکو کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ باقی تمام ملازم اسکے نیچے کام کرتے تھے مگر فوطیفار کی بیوی کے ساتھ ایسا گناہ کرنا اسے مناسب نہیں لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو نہ صرف وہ اپنے آقا کا گنہگار ٹھہرے گا بلکہ خدا کا بھی۔  اس نے تو فوطیفار کی بیوی کو سمجھا کر باز رکھنے کی کوشش کی تھی مگر فوطیفار کی بیوی باز آنے والوں میں سے نہیں تھی کیونکہ اسکو صرف بدی کا پتہ تھا اور  خدا خوفی اسکے دل میں ذرا بھی نہیں تھی۔ اس نے بار بار یوسف کو مجبور کیا  مگر یوسف نے ہر بار ایسا کرنے سے انکار کیا۔ کلام میں لکھا ہے  (یعقوب 4:7)؛

پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔

یوسف خدا کے تابع تو تھا بگر وہ اس ابلیس سے بھاگ کر کدھر جاسکتا تھا؟ وہ تو اس ابلیس کے گھر میں غلامی میں تھا۔  ابلیس باربار اسکو گناہ پر اکسا رہا تھا۔ یشوعا نے بھی ابلیس کا سامنا کیا تھا۔ ایک دن جب گھر پر کوئی نہیں تھا اور یوسف کو کام سے گھر کے اندر جانا پڑا تو فوطیفار کی بیوی نے اسکا پیراہن پکڑ لیا اور اسکو کہا کہ وہ اسکے ساتھ ہم بستر ہو۔ مگر یوسف  اپنا پیراہن چھوڑ کر بھاگ گیا۔  کلام میں 2 تمیتھیس 2:22 سے 24 میں لکھا ہے "جوانی کی خواہشوں سے بھاگ۔۔۔” کہنے کو یوسف جوان تھا اور خوبصورت بھی  اور اگر وہ چاہتا تو اس بات کا کسی کو بھی پتہ نہ چلتا  مگر وہ گناہ کو پہچانتا تھا وہ   ابلیس کو تو نہ بھگا سکا مگر خود اس گناہ   سے دوربھاگ گیا۔  فوطیفار کی بیوی کو ضرور اپنی بے عزتی محسوس ہوئی ہو گی کہ جس کو وہ چاہتی ہے وہ اسکو    ٹھکرا رہا ہے ۔ اس نے فوراً یوسف سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ تبھی اسے نے گھر کے آدمیوں کو بلایا اور الٹا یوسف پر الزام لگا دیا  کہ یہ عبری  غلام اسکے پاس اندر گھس آیا اور  اسکا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا مگر جب وہ چیخی چلائی تو وہ اپنا پیراہن چھوڑ کر بھاگ گیا۔  جب فوطیفار گھر آیا تو اسکی بیوی نے یہی بات اسکو بھی بتائی اور غصے میں اس نے یوسف کو قید خانہ میں ڈال دیا جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے۔  یوسف بے قصور ہوتے ہوئے بھی سزا وار ٹھہرایا گیا۔

یشوعا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ وہ بے قصور تھا مگر پھر بھی قصور وار ٹھہرایا گیا۔ بُرے حالات کا یہ مطلب نہیں کہ خدا ساتھ نہیں۔ خدا یوسف کے ساتھ تب بھی تھا اسلئے وہ قید خانہ میں ہو کر بھی قید خانہ کے درواغہ کی نظر میں مقبول ٹھہرا اور اس نے ان سب قیدیوں کو جو کہ قید خانہ میں تھے یوسف کے ہاتھ میں سونپا۔ خداوند نے ایک بار پھر سے اسے اقبالمندی بخشی۔  یوسف کو ایک بار پھر سے ایسا لگا ہوگا کہ اسکی زندگی میں کوئی سُکھ نہیں رہا مگر خدا کے ارادے اسکے لیے نیک تھے جو کہ اسکو شاید اپنے ان برے حالات میں نظر نہیں آ رہے ہونگے۔

 میں بھی کبھی اپنی زندگی میں مڑ کر دیکھتی ہوں تو  سوچتی ہوں کہ کتنی دفعہ مجھے بھی لگا تھا کہ  خدا بھی شاید میرے ساتھ نہیں؛ پتہ نہیں خدا میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہا ہے مگر اب میں جانتی ہوں کہ چونکہ خدا کی سوچ میرے لئے اچھائی کی تھی اسلئے میں بھی کچھ بُرے حالات میں سے گذری تھی ۔ کہنے کو تو حالات بُرے تھے مگر خدا نہیں وہ تب بھی میرے ساتھ تھا اور آج بھی میرے ساتھ ہے۔ اگر آپ کے حالات اس وقت اچھے نہیں ہیں تو نا امید نہ ہوں کیونکہ خدا نے آپ کو نہیں چھوڑا ہے جیسے وہ یوسف کے ساتھ تھا ویسے ہی وہ آپ کے ساتھ بھی ہے اور جیسے اس نے یوسف کو اقبالمندی بخشی وہ آپ کو بھی بخشے گا۔ یہی میری آپ کے لیے دعا ہے۔

ہم اگلی دفعہ پیدائش 40 باب کا مطالعہ کریں گے۔