حنوکاہ
حنوکاہ، חֲנֻכָּה، Hanukah (عید تجدید):
حنوکاہ کا کیا مطلب ہے؟
حنوکاہ، חֲנֻכָּה ،عبرانی لفظ ہے جسکا مطلب ہے "مقدس ، تقدیس، نذر یا وقف کرنا”۔ ویسے تو حنوکاہ کو "خنوکاہ ” بھی لکھا اور بولا جاسکتا ہے مگر زیادہ تر "خ ” کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔ چونکہ پرانے عہد نامے میں ، اردو کلام میں، اسکے لئے لفظ تقدیس استعمال ہوا ہے اسلئے میں بھی یہی لفظ استعمال کرونگی جہاں ضرورت پڑے گی ویسے کچھ جگہوں پر اسے "مخصوص” بھی لکھا گیا ہے۔
حنوکاہ کی کہانی:
حنوکاہ آٹھ دن کا تہوار ہے جسکو نئے عہد نامے میں عید تجدید پکارا گیا ہے۔ آٹھواں دن کلام میں نئی شروعات یا نئی زندگی سے جڑا ہے۔ کلام میں واعظ 1:9 میں لکھا ہے؛
جو ہوا ہے وہی پھر ہوگا اور جو چیز بن چکی ہے وہی ہے جو بنائی جائیگی اور دنیا میں کوئی چیز نئی نہیں۔
جو ہوا ہے وہی پھر ہوگا۔۔۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ کیا ہے جو پہلے ہو چکا ہے اور پھر ہوگا۔ عبرانی لفظ "حنوکاہ” کلام میں آٹھ بار ظاہر ہوا ہے۔ مگر اس تہوار کو منانے کی کہانی ، ہماری اپنی بائبل یا پھر یہودیوں کی بائبل جسے آپ پرانے عہد نامے سے جانتے ہیں، اس میں نہیں ملے گی۔ حیرانگی کی بات ہے کہ یہودی اور میسیانک یہودی لوگ اسکو بڑھ چڑھ کر مناتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ اسکی کہانی تاریخی کتابوں میں ملتی ہے یا پھر رومن بائبل کی "تاریخی کتابوں” میں شامل ہے مگر تناخ کا حصہ نہیں ہے۔ جی! رومن کیتھولک بائبل میں اسکی کہانی "مکابیین کی کتاب ” میں درج ہے۔ میں نے جیسے پہلے ذکر کیا کہ لفظ حنوکاہ، عبرانی کلام (پرانا عہد نامہ) میں آٹھ بار استعمال ہوا ہے۔ آپ ان آیات میں اردو کے الفاظ "تقدیس یا مخصوص” دیکھیں ۔آئیں ان آیتوں کو دیکھتے ہیں جہاں اسکا ذکر ہے۔
گنتی 7:10 اور 11 اور 84 اور 88 آیات؛
اور جس دن مذبح مسح کیا گیا اس دن وہ رئیس اسکی تقدیس کے لئے ہدئےلائے اور اپنے ہدیوں کو وہ رئیس مذبح کے آگے لے جانے لگے۔
تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ مذبح کی تقدیس کے لئے ایک ایک رئیس ایک ایک دن اپنا ہدیہ گذرانے۔
مذبح کے ممسوح ہونے کے دن جو ہدئے اسکی تقدیس کے لئے اسرائیلی رئیسوں کی طرف سے گذرانے گئے وہ یہی تھے یعنی چاندی کے بارہ طباق۔ چاندی کے بارہ کٹورے۔ سونے کے بارہ چمچ۔
اور سلامتی کی قربانی کے لئے کُل چوبیس بیل۔ ساٹھ مینڈھے۔ ساٹھ بکرے ساٹھ نر یکسالہ برےتھے۔ مذبح کی تقدیس کے لئے جب وہ ممسوح ہوا اتنا ہدیہ گذرانا گیا۔
2 تواریخ 7:9
اور آٹھویں دن انکا مقدس مجمع فراہم ہوا کیونکہ وہ سات دن مذبح کے مخصوص کرنے میں اور سات دن عید منانے میں لگے رہے۔
زبور 30:1
داود کا مزمور۔ ہیکل کی تقدیس کے وقت کا گیت۔ ائے خداوند! میں تیری تمجید کرونگا کیونکہ تو نے مجھے سرفراز کیا ہے اور میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش ہونے نہ دیا۔
نحمیاہ 12:27
اور یروشلیم کی شہر پناہ کی تقدیس کے وقت انہوں نے لاویوں کو انکی سب جگہوں سے ڈھونڈ نکالا کہ انکو یروشلیم میں لائیں تاکہ وہ خوشی خوشی جھانجھ اور ستار اور بربط کے ساتھ شکرگذاری کرکے اور گا کر تقدیس کریں۔
اسکے علاوہ کلام میں ارامی زبان میں حنوکاہ سے ملتے جلتے لفظ کا بھی چار بار استعمال ہوا ہے۔ دو بار یہ خدا کے گھر کی تقدیس سے جڑا ہے اور دو ہی بار مورت کی تقدیس سے۔
عزرا 6:16 اور 17
اور بنی اسرائیل اور کاہنوں اور لاویوں اور اسیری کے باقی لوگوں نے خوشی کے ساتھ خدا کے اس گھر کی تقدیس کی۔
اور انھوں نے خدا کے اس گھر کی تقدیس کے موقع پر سو بیل اور دو سو مینڈھے اور چار سو برے اور سارے اسرائیل کی خطا کی قربانی کے لئے اسرائیل کے قبیلے کے شمار کے مطابق بارہ بکرے چڑھائے۔
دانی ایل 3:2 اور 3
تب نبوکد نضر بادشاہ نے لوگوں کو بھیجا کہ ناظموں اور حاکموں اور سرداروں اور قاضیوں اور خزانچیوں اور مشیروں اور مفتیوں اور تمام صوبوں کے منصب داروں کو جمع کریں تاکہ وہ اس مورت کی تقدیس پر حاضر ہوں جس کو نبوکد نضر بادشاہ نے نصب کیا تھا۔
تب ناظم اور حاکم اور سردار اور قاضی اور خزانچی اور مُشیر اور مُفتی اور صوبوں کے تمام منصبدار اُس مورت کی تقدیس کے لئے جسے نبولد نضر بادشاہ نے نصب جمع ہوئے اور وہ اس مورت کے سامنے جسکو نبوکد نضر نے نصب کیا تھا کھڑے ہوئے۔
جب سلیمان بادشاہ نے ہیکل میں دعا ختم کی تو 2 تواریخ 7:1سے 3 میں لکھا ہے کہ خداوند کے جلال سے ہیکل معمور ہوگئی؛
اور جب سلیمان بادشاہ دعا کر چکا تو آسمان پر سے آگ اتری اور سوختنی قربانی اور ذبیحوں کو بھسم کر دیا اور مسکن خداوند کے جلال سے معمور ہوگیا۔ اور کاہن خداوند کے گھر گھر میں داخل نہ ہوسکے اسلئے کہ خداوند کا گھر خداوند کے جلال سے معمور تھا۔ اور جب آگ نازل ہوئی تو خداوند کا جلال اس گھر پر چھا گیا تو سب بنی اسرائیل دیکھ رہے تھے۔ سو انہوں نے وہیں فرش پر منہ کے بل زمین تک جھک کر سجدہ کیا اور خداوند کا شکر ادا کیا کہ وہ بھلا ہے کیونکہ اسکی رحمت ابدی ہے۔
ہماری بائبل میں پرانے عہد نامے کی آخری کتاب ملاکی ہے مگر یہودیوں کی بائبل میں آخری کتاب تواریخ ہے۔ ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ ملاکی کی آخری کتاب کے بعد سے نئے عہد نامےتک 400 سال تک خداوند خاموش تھے ۔ مگر حقیقت اسکے برعکس ہے جیسا کہ اسکا کلام کہتا ہے کہ وہ ہم سے ہرگز دست بردار نہ ہوگا نہ کبھی ہمیں چھوڑے گا (استثنا 31:8، عبرانیوں 13:5)۔ خدا اپنے لوگوں کو اس مصیبت سے بچانے میں مصروف تھے جسکی بابت دانی ایل نبی کی کتاب میں لکھا تھا۔ دانی ایل نبی کی کتاب کے دوسرے اور آٹھویں باب میں ایک اس سلطنت کا ذکر ہے جسکے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خدا کے مقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقات اور شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا۔ دانی ایل 9:27 میں اجاڑنے والی مکروہات کا بھی ذکر ہے۔
یہ اجاڑنے والی مکروہات کیا تھی؟ اور کون تھا جس نے خدا کے مقدسوں کو تنگ کرنے کی کوشش کی اور مقررہ اوقات اور شریعت کو بدلنے کی کوشش کی؟ یہ وہ کہانی ہے جسکو پڑھنے کے لئے آپ رومن کیتھولک بائبل میں مکابیین کی کتاب پڑھیں گے۔ میں اسکا تھوڑا سا ذکر کر دیتی ہوں۔
سکندر بن فیلبوس مقدونی کے بارے میں کون نہیں جانتا اس نے کتنے ہی ملکوں میں اپنی سلطنت قائم کی تھی ۔ جب اسے معلوم پڑا کہ اسکی موت کے دن قریب ہیں تو اس نے اپنے منصب داروں کو بلوایا اور جیتے جی اپنی مملکت انھیں بانٹ دی۔ ان منصب داروں نے اپنے اپنے مقررہ علاقوں پر حکومت کی ان میں سے ایک انطاکس بادشاہ کا بیٹا انطاکس ایپفینس نے مصر اور اسرائیل سے بھی جنگ کی کہ ان پر اپنی حکومت جمائے۔ وہ تکبر سے مِقدس میں داخل ہوا اور ہیکل کی تمام چیزوں کو لے گیا۔ اس نے یہ فرمان جاری کیا کہ سب لوگ ایک ہی قوم بن جائیں اور ہر ایک اپنے دستور چھوڑ کر ان کے دستور اپنائے۔ اس نے حکم جاری کیا کہ لوگ مقدس میں قربانیاں گذراننے سے باز آئیں اور سبت اور دیگر عیدوں کا منانا بند کریں۔ اس نے دیگر حرام جانوروں کی قربانیاں چڑھانے کو کہا اور شریعت اور تمام روایتوں کو ترک کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس نے شریعت کے تمام طوماروں کو پھاڑنے یا جلا دینا کا بھی کہا۔ جو بھی کوئی شریعت پر عمل کرتا ہوا پایا گیا یا پھراگر اسکے پاس سے پرانا عہد نامہ موجود ملتا تو اسکو قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس نے ان گھرانوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا جو اپنے بچوں کا ختنہ کرواتے تھے تاکہ غیر یہودیوں اور یہودیوں میں کوئ فرق نہ رہے۔ انطاکس نے مقِدس میں یونان کے سب سے بڑے دیوتا "زیوس، Zeus” کا بھی مجسمہ کھڑا کیا۔
ان تمام باتوں کے باوجود وہ یہودی بھی تھے جو کہ انطاکس کے آگے جھکنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک حاسدیم (یہودی حسیدیوں)کا گروہ تھا اور ساتھ ہی میں متت یاہ اور اسکا گھرانہ جو کہ خدا کی شریعت کی غیرت رکھتے تھے، جو خدا کے حکموں کو کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ جب متت یاہ کو کہا گیا کہ وہ بھی شاہی فرمان کے مطابق قربانی چڑھائے تو اس نے کہا کہ وہ اپنے خدا کے حکم کو ترک نہ کریں گے اور بادشاہ کی بات پر عمل نہیں کریں گے۔ جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو ایک یہودی مذبح گاہ پر حرام جانور کی قربانی چڑھانے آیا۔ متت یاہ کو غیرت آئی اور اس نے اسے مذبح گاہ پر ہی قتل کر دیا اور ساتھ ہی میں بادشاہ کے منصب دار کو بھی قتل کر دیا۔ اس نے پھر بلند آواز میں کہا کہ "ہر وہ شخص جسے شریعت کی غیرت ہے اور جو عہد پر قائم ہے میرے پیچھے ہولے۔” پھر وہ اپنے بیٹوں سمیت پہاڑوں کو بھاگ گیا۔ حسیدیوں کی جماعت بھی اسکے بیٹوں کے ساتھ مل گئی اور انھوں نے لڑائیاں لڑی ان کو مکابیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔اور انھوں نے بالآخر فتح حاصل کی جیسا کہ دانی ایل 11:32 میں لکھا ہے۔
اور وہ عہد مقدس کے خلاف شرارت کرنے والوں کو خوشامد کر کے برگشتہ کرے گا لیکن اپنے خدا کو پہچاننے والے تقویت پا کر کچھ کر دکھائیں گے۔
جب انھوں نے مقدس کا اختیار واپس لیا تو جیسا کہ پرانے عہد نامے میں بارہا خدا کے گھر کی تقدیس کا ذکر ہے انھوں نے بھی ویسا ہی کیا۔ انھیں خدا کے گھر کی تقدیس کے لیے دن رات شمع دان میں تیل ڈال کر آگ جلائے رکھنا تھی مگر خدا کے حکم کے مطابق جس قسم کا تیل درکار تھا اسکے بنانے کے لئے وقت چاہئے تھا مگر جو تیل انھیں ملا تھا وہ صرف ایک دن کے لئے کافی تھا (خروج 27:20 سے 21)۔ یہ وہ کہانی ہے جسکا ذکر مکابیین کی کتاب میں نہیں ہے مگر کہاوت ہے کہ معجزانہ طور پر یہ تیل آٹھ دن تک جلتا رہا۔ اور اسی کی یادگاری میں ہر سال عبرانی کیلنڈر کے مطابق 25 کیسلیو کو حنوکاہ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ ویسے تو ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ تیل کے معجزے کی بنا پر یہ تہوار منایا جاتا ہے مگر حنوکاہ کے دنوں میں یہودی جو خاص دعائیں پڑھتے ہیں وہ تیل کے معجزے کو نہیں بلکہ کچھ اور وجہ بیان کرتا ہے۔
کیا مسیحیوں کو حنوکاہ منانا چاہیے؟
نئے عہد نامے میں یوحنا 10:22 سے 23میں لکھا ہے؛
یروشلیم میں عید تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدہ میں ٹہل رہا تھا۔
یہ جو عید تجدید کا لفظ یہاں یونانی زبان استعمال ہوا ہے وہ اردو میں لفظ "تقدیس” ہے۔ یشوعا/یسوع عید تقدیس پر ہیکل میں تھا۔
جیسا کہ میں نے اس آرٹیکل کے شروع میں واعظ 1:9 کی آیت لکھی تھی کہ جو ہوا ہے وہی پھر ہوگا۔۔۔ یشوعا نے بھی آخری دنوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک بار پھر سے دانی ایل نبی کی معرفت لکھی بات کو دھرایا تھا۔ متی 24:15 سے 16؛
پس جب تم اس اجاڑنے والی مکرو چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا۔ مقدس مقام پر کھڑا ہوا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے)۔ تو جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔
دانی ایل نبی کی معرفت جو کہا گیا تھا وہ ایک بار ہو چکا ہے اور پھر ہونا باقی ہے۔ گو کہ حنوکاہ "عید تجدید” کے منانے کا حکم کلام میں نہیں ہے ویسے ہی جیسے کہ پوریم کا تہوار جسکا ذکر ہمیں آستر کی کتاب میں ملتا ہے، منانا لازم نہیں ہے مگر یہ تہوار اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ خدا کے مقدس لوگوں کو ختم کرنے کی سازش کی گئی مگرکوئی بھی اس میں کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ خداوند انکے ساتھ تھے۔
حنوکاہ ، روشنی/نور کا تہوار ہے۔ یشوعا نے یوحنا کی انجیل میں کہا کہ
جب تک میں دنیا میں ہوں دنیا کا نور ہوں (یوحنا 9:5)۔
اسی طرح سے اس نے یوحنا 12:46 میں کہا؛
میں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔
یشوعا نے متی 5:14 سے 16 میں ہمارے لئے کہا؛
تم دنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔ اور چراغ جلا کر پیمانہ کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تو اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔
حنوکاہ منانے کے لیے ایک خاص نو شاخوں والی شمعدان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ درمیان والی شاخ کی موم بتی کو باقی موم بتیوں کو جلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حنوکاہ کے پہلے دن شمعدان میں درمیان والی موم بتی اور دائیں طرف حنوکاہ کے پہلے دن کی پہلی موم بتی جلائی جاتی ہے۔ دوسرے دن درمیان والی موم بتی کے ساتھ دو موم بتیوں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ درمیان والی موم بتی سے پہلے نئے دن کی شمع روشن کرتے ہیں اور پھر اس سے پچھلے دنوں کی شمع کو روشن کیا جاتا ہے۔ تیسرے دن تین، چوتھے دن چار، پانچویں دن پانچ، چھٹے دن چھ، ساتویں دن سات اور آٹھویں دن تمام آٹھ موم بتیاں بمع درمیان والی موم بتی کے ہمراہ جلائیں جاتی ہیں ۔ جیسا میں نے ذکر کیا کہ باقی تمام موم بتیوں کو جلانے کے لئے درمیان والی موم بتی کو استعمال کیا جاتا ہے ، اس موم بتی کو عبرانی میں "شماش، שמש، Shamash” کہتے ہیں جسکا مطلب "خادم” بنتا ہے۔ یشوعا نے اپنے بارے میں کہا (متی 20:28)؛
چنانچہ ابن آدم اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔
یشوعا ہے جس سے ہم نور میں آتے ہیں، جس سے ہم روشنی پاتے ہیں۔ حنوکاہ کے شمعدان کو گھر میں کھڑکی کے پاس یا پھر ایسی جگہ رکھا جاتا ہے باہر آنے جانے والوں کو روشنی نظر آسکے۔ یشوعا نے پہلے اپنے آپ کو نور کہا اور پھر ہمیں۔ ہمیں اب کلام کا نور دوسروں پر بھی چمکانا ہے۔
کلام کی آیات سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ماں مریم، حنوکاہ کے تہوار کے دوران حاملہ ہوئیں اور یشوعا سکوت کے تہوار کے موقع پر پیدا ہوئے۔ اور آٹھویں دن انکا شریعت کے مطابق ختنہ ہوا جو کہ "شمینی اریتز” کا دن بنتا ہے۔ ویسے تو یہ تھیوری کچھ اور لوگ نہیں مانتے کیونکہ وہ نئے عہد نامے کی رو سے دکھانے کی کوشش کریں گے کہ یشوعا نیسان کے مہینے میں پیدا ہوئے نہ کہ تشری میں۔ ایک وقت تھا جب مجھے بھی یہ جاننا ضروری تھا کہ مسیح کی پیدائش آخر کب ہوئی۔ دھیرے دھیرے سمجھ آئی کہ کلام شروع سے ہی پیدائش کو منانے کی یوں پیروی نہیں کرتا آیا جس طرح سے مسیحیوں کا ماننا ہے۔ کلام خداوند کی عیدوں کو منانے کا حکم دیتا ہے نہ کہ جنم دن کا۔
یوحنا 1:4 اور 5 اور 9 اور 14 میں یشوعا کے بارے میں یوں لکھا ہے؛
اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔
اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اسے قبول نہ کیا۔
حقیقی نور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔
اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔
یشوعا نے اپنی زمینی زندگی ایسے گزاری کہ وہ نور کی مانند تاریکی میں چمکے۔ کلام انکی زندگی میں ایسا رچ گیا تھا کہ وہ زندہ کلام بنے اور ہمیں بھی یشوعا کی مانند بننا ہے۔ ہمیں حنوکاہ کی شمع کو روشن کرنا ہے اور اسے ٹوکری کے نیچے نہیں چھپانا۔ جب سبت کی شمع کو روشن کیا جاتا ہے تو وہ گھر کے اندر عموماً کھانے کی میز پر ہوتی ہے۔ جیسا میں نے اوپر بیان کیا کہ جب حنوکیاہ (خاص نو شاخوں کا شمعدان) کو روشن کیا جاتا ہے تو اسے کھڑکی کے پاس رکھتے ہیں تاکہ باہر سے گذرنے والے اس روشنی کو دیکھ سکیں۔ یہی نور کی گواہی ہے۔ حنوکاہ کو منا کر نور کی گواہی دیں۔ یہاں امریکہ میں اب بہت سے مسیحی حنوکاہ کی اہمیت کو سمجھ کر اسے کرسمس کے ساتھ ساتھ منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ بھی تو مسیح کے پیچھے چلنے والوں میں سے ہیں تو اگر مسیح نے عید تجدید منائی تو آپ کیوں نہیں منا سکتے؟
حنوکاہ کی مبارک آپ عبرانی میں "حنوکاہ سمیاخ” (حنوکاہ مبارک ہو) یا پھر "خگ اوریم سمیاخ” (روشنی کا تہوار مبارک ہو) کہہ کر دے سکتے ہیں۔ عبرانی میں خگ سے مراد "عید” ہے اور اوریم عبرانی لفظ "اور” کی جمع ہے جس سے مراد ہے "روشنی”۔
اس آرٹیکل میں تو میں نے سادہ سی حنوکاہ کی کہانی پیش کی ہے۔ کوشش ہے کہ اگلی دفعہ حنوکاہ کو مزید گہرائی میں بیان کر سکوں۔ امید ہے کہ وہ باتیں جو میں آپ کو سمجھا نہیں پا رہی ہوں وہ خداوند کا کلام آپ کو سمجھائے گا۔ ان اوپر دیئے حوالوں کو خود پڑھیں اور خداوند سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اپنے کلام کی سچائی بتائیں۔