(پیدائش 26 باب (پہلا حصہ
پیدائش 26 باب آپ کلام میں سے پورا پڑھیں۔
ابرہام کے دور میں بھی ملک میں کال پڑا تھا اور اب اضحاق کے دور میں پھر سے کال پڑا۔ خدا نے اضحاق کو مصر جانے سے روکا اسلئے اضحاق جرار میں رہنے لگ گیا۔ خدا نے اضحاق کو کہا (پیدائش 26:2 سے 5 ):
اور خداوند نے اس پر ظاہر ہو کر کہا کہ مصر کو نہ جا بلکہ جو ملک میں تجھے بتاؤں اس میں رہ۔ تو اسی ملک میں قیام رکھ اور میں تیرے ساتھ رہونگا اور تجھے برکت بخشونگا کیونکہ میں تجھے اور تیری نسل کو یہ سب ملک دونگا اور میں اس قسم کو جو میں نے تیرے باپ ابرہام سے کھائی پورا کرونگا۔ اور میں تیری اولاد کو بڑھا کر آسمان کے تاروں کی مانند کردونگا اور یہ سب ملک تیری نسل کو دونگا اور زمین کی سب قومیں تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔ اسلئے کہ ابرہام نے میری بات مانی اور میری نصیحت اور میرے حکموں اور قوانین و آئین پر عمل کیا۔
اوپر دی ہوئی آیت میں "سب قومیں تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔” عبرانی لفظ "نسل” واحد کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ نسلوں کو ۔ یہاں یہ مسیحا کے لیے لکھا گیا ہے۔ وہی وعدہ جو خدا نے ابرہام سے کیا اب اضحاق سے کر رہا ہے۔
ابرہام کے ایمان کا خدا نے امتحان لیا تھا اور اب اضحاق بھی امتحان سے گزر رہا تھا۔ اگر فرعون مصرکے بادشاہ کا خطاب ہے تو ابی ملک فلستیوں کے بادشاہ کا خطاب ہے۔ یہ ابی ملک وہ نہیں ہے جو ابرہام کے وقت میں تھا۔ اس سے پیشتر کے اضحاق مصر کو جاتا خدا نے اسکو روک دیا لہذا اضحاق ، فلستیوں کے ملک رہنے لگ گیا۔ جرار میں ہی ابی ملک رہتا تھا اسلئے خوارک کا ذخیرہ موجود تھا۔ ۔ اضحاق نے خدا کی بات مانی۔ کال پڑنے کے باوجود اسکی نگاہ اور بھروسہ خدا پر تھا کہ جو خدا نے کہا ہے کہ وہ اسکے ساتھ ہوگا ، تو وہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔
بعض اوقات جن حالات میں انسان ہوتا ہے ان میں خدا ثابت کرتا ہے کہ وہ ساتھ ہے۔ وہ ہر بار انسان کو مشکل حالات اور تکلیفوں سے باہر نہیں نکال لاتا۔ وہ کہتا ہے "میرے پر بھروسہ رکھو” ویسے ہی جیسے کہ خدا نے اضحاق کو اسی ملک میں جہاں کال پڑ رہا تھا رہنے کو کہا اور اسے ادھر ہی برکت دینے کا بھی کہا۔ اس قسم کے حالات سے جب انسان گزرتا ہے اور وہ خدا کو اپنی زندگی میں کام کرتا دیکھتا ہے تو اس سے اسکا ایمان خدا پر اور بڑھتا ہے۔ اضحاق کو اسی مشکل حالات میں رہ کر ثابت کرنا تھا کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے۔ شاید ابھی آپ کے اپنے حالات بھی ایسے ہی ہیں آپ ان حالات سے باہر ہونے کی سوچ رہے ہیں اور خدا کہہ رہا ہے میں تمہیں ان حالات سے گذار کر دوسرے پار لے جاؤں گا کیونکہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ بعض اوقات مشکلات کا سامنا کرنا ہی مشکل کا حل ہے نہ کہ آنکھ بند کر کے اسکو نظر انداز کرنا۔اگر آپ کا خدا پر ایمان ہے تو اپنی مشکلات کا مقابلہ کریں خدا آپ کو انھی مشکلات میں برکت بھی دے گا۔ آپ اگر 23 زبور پڑھتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اس آیت پر دھیان دیا ہے جس میں لکھا ہے (زبور 23:4):
بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی سے میرا گذر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈرونگا کیونکہ تو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔
"خواہ”!!! مطلب یہ کہ آپ کا گذر ہوسکتا ہے "موت کے سایہ کی وادی سے” اگر آپ ابھی مشکل حالات میں نہیں ہیں تو۔ اور اگر آپ ابھی اس قسم کی وادی سے گذر رہے ہیں تو آپ داود بادشاہ کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ "تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔”
اضحاق سے جرار کے لوگوں نے اسکی بیوی کے بارے میں پوچھا اور اس نے وہی حرکت کی جو کہ اسکے باپ نے کی تھی۔ اضحاق نے ابرہام کی طرح جھوٹ بولا کہ وہ اسکی بہن ہے تاکہ لوگ اسکو ربقہ کے سبب قتل نہ کر ڈالیں۔ جھوٹ زیادہ دیر قائم نہیں رہتا کبھی نہ کبھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ اضحاق کا جھوٹ بھی جلد ہی ابی ملک کے سامنے آگیا کیونکہ اس نے اضحاق کو اپنی بیوی سے پیار کرتے دیکھ لیا جس پر ابی ملک نے اسے بلا کر پوچھا کہ تو نے یہ کیوں کیا کوئی بھی تیری بیوی کے ساتھ صحبت کر لیتا اور پھر تو ہمیں الزام دیتا۔ اضحاق نے اسے بتایا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا تاکہ وہ اسکے سبب مارا نہ جائے۔ ابی ملک نے اپنے سب لوگوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی اضحاق کو یا اسکی بیوی کو چھوئے گا تو مار ڈالا جائےگا۔ شاید ابی ملک کو علم تھا کہ خدا نے ابرہام اور اسکی اولاد کو برکت دینے والوں کے لیے برکت کا کہا تھا اور لعنت بھیجنے والوں کے لیے لعنت کا ورنہ وہ اتنی کڑی سزا اپنے لوگوں کے لیے کیوں چنتا۔ گو کہ خدا کا بھی اس میں ہاتھ تھا مگر کوئی وجہ تھی جس کی بنا پر ابی ملک نے ایسا کیا۔
خدا نے نہ تو ابرہام کو زیادہ دیر جھوٹ کے گناہ میں جینے دیا اور نہ ہی اضحاق کو۔ ان دونوں کو ہی تھوڑی سی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی کہ انھوں نے جھوٹ بولا تھا مگر سچ قبول کرنے پر خدا نے ان پر اپنی برکت ڈال دی۔ ہم، جو خدا کے فرزند ہیں ، ہماری اپنی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جہاں ہم گناہ کی دلدل میں پڑتے ہیں خدا ہمیں ہمارے کیے کی کچھ سزا تو دیتا ہے مگر ہمارے توبہ کرنے پراور سچائی کو قبول کرنے پر اپنی برکت ڈال دیتا ہے۔
پیدائش 26:8 میں ایسے لکھا ہے؛
جب اسے وہاں رہتے بہت دن ہوگئے تو فلستیوں کے بادشاہ ابی ملک نے کھڑکی سے جھانک کر نظر کی اور دیکھا کہ اضحاق اپنی بیوی ربقہ سے ہنسی کھیل کر رہا ہے۔
عبرانی کلام میں” ہنسی کھیل "کے لیے اضحاق کے نام سے ملتا جلتا لفظ "מְצַחֵֽק، مضحاق، Mazhaq” استعمال ہوا ہے یہی لفظ کلام میں پیدائش 21:9 میں بھی استعمال ہوا ہے جہاں پر لکھا ہے کہ ؛
اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اسکے ابرہام سے ہوا تھا ٹھٹھے مارتا ہے۔
اس اوپر دی ہوئی آیت میں جہاں لفظ "ٹھٹھے مارتا” لکھا ہے وہ عبرانی میں "مضحک” ہے ۔ آپ کے خیال میں کس قسم کا ہنسی کھیل اضحاق اپنی بیوی کے ساتھ کر رہا تھا جس سے ابی ملک کو علم ہوا کہ اضحاق اور ربقہ میاں بیوی ہیں کیونکہ سارہ نے بھی اسمعیل کو ویسی ہی حرکت اضحاق سے کرتے دیکھا جس کی بنا پر اس نے ابرہام کو کہا کہ وہ اسمعیل کو گھر سے نکال ڈالے۔ سارہ شاید اسمعیل کو گھر سے نکالنے کا نہ کہتی اگر اس نے یہ نہ دیکھا ہوتا کہ اسمعیل اضحاق کے ساتھ عام ٹھٹھے نہیں مار رہا بلکہ الٹی حرکت کر رہا تھا جو کہ مناسب نہیں تھی۔
ہم پیدائش 26 کا باقی مطالعہ آئندہ بار کریں گے۔ میری آپ کے لیے یہی دعا ہے کہ آپ جس بھی گناہ کی دلدل میں ہیں خدا آپ کو اس سے جلد باہر نکال کھڑا کرے اور آپ کو ہمت دے کہ آپ اسکے حضور اپنے گناہ کو قبول کر سکیں اس سے پیشتر کہ یہ آپ کے لیے شرمندگی کا باعث بن جائے۔ آمین.