(پیدائش 22 باب (دوسرا حصہ

پچھلے حصے میں ہم نے پیدائش 22:2 آیت پر بات کی تھی ۔ خدا نے ابرہام کو موریاہ کے ملک کے  پہاڑوں میں سے ایک  پہاڑ پر اپنے بیٹے اضحاق کی سوختنی قربانی چڑھانی تھی۔  یہودیوں کا ایمان ہے کہ موریاہ کے اس پہاڑ پر ہیکل تھی  کیونکہ 2 تواریخ 3:1 میں لکھا ہے ۔اور ایک بار پھر دوبارہ سے ہیکل  کھڑی ہو گی تاہم زیادہ تر مسیحی علما کا خیال ہے کہ موریاہ کا پہاڑ وہ ہے جہاں یشوعا کو رومن نے صلیب پر چڑھایا تھا۔    خدا نے ابرہام کو موریاہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر قربانی کا کہا تھا یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کونسا پہاڑ تھا۔

اضحاق کی عمر اتنی چھوٹی نہیں تھی  جتنا کہ عام طور پر تصویروں اور فلموں میں دیکھایا جاتا ہے۔ یہودیوں کے مطابق  وہ تقریباً 37 سال کا تھا جب ابرہام اس کو لے کر موریاہ کے پہاڑ پر گیا اور اس بات کا اندازہ ہم پچھلے چند باب اور پیدائش 23 باب سے لگا سکتے ہیں۔ ابرہام کو جب خدا نے قربانی چڑھانے کا کہا تو اس نے  صبح سویرے اپنے بیٹے اور دو جوانوں کو ساتھ لیا اور سوختنی قربانی کے لیے لکڑیاں چیریں اور ساتھ لیں۔ تین دن بعد جب ابرہام نے اس جگہ کو دور سے دیکھااور اس نے جوانوں سے کہا (پیدائش 22:5)

تب ابرہام نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہیں گدھے کےپاس ٹھہرو۔ میں اور یہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئینگے۔

لڑکا!  اس سے مراد یہ تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے یہ نہیں کہ وہ چھوٹا بچہ ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ابرہام کو پہلے سے ہی یقین تھا کہ خدا ابرہام کو اپنا اکلوتا بیٹا قربان نہ کرنے دیگا اور اگر اسکو کچھ ہوا بھی تو وہ اضحاق کو زندہ کر دے گا  کیونکہ خدا نے اسکو پیدائش 21:12 میں کہا تھا کہ اضحاق سے اسکی نسل کا نام چلیگا۔ تبھی وہ ان جوانوں کو کہہ رہا تھا کہ ہم تمہارے پاس واپس لوٹ آئینگے۔ ابرہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں اضحاق پر رکھیں اور آگ اور چھری اپنے ہاتھ میں لیں۔ راستے میں اضحاق نے اپنے باپ ابرہام سے پوچھا کہ آگ اور لکڑیا ں تو  ہیں مگر سوختنی قربانی کے لیے برہ کہاں ہے؟ اور ابرہام نے اسے جواب دیا (پیدائش 22:8)

ابرہام نے کہا ائے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لیے برہ مہیا کرلیگا۔ سو وہ دونوں آگے چلتے گئے۔

ایک بار پھر سے ابرہام سے اپنی باتوں سے ظاہر کیا کہ اسے یقین تھا کہ خدا خود ہی  سوختنی قربانی کے لیے برہ مہیا کرے گا۔  جب وہ دونوں وہاں پہنچے جہاں خدا نے ابرہام کو قربانی چڑھانے کے لیے کہا تھا تو ابرہام نے  وہاں قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے مگر تب خدا نے اسے آسمان سے پکار کر کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سےکچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا ہوں کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اسلئے تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا بیٹا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ ابرہام نے نگاہ کی اور اس نے ایک مینڈھا دیکھا جسکے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ ابرہام نے جا کر اسکو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا۔ ابرہام نے اس مقام کا نام یہواہ یری رکھا جس کا مطلب ہے "خداوند مہیا کرتا ہے”

خداوند کے فرشتے نے دوبارہ ابرہام کو پکارا اور کہا کہ چونکہ تو نے یہ کام کیا اور اپنے بیٹے کو میرے سے دریغ نہ رکھا اسلئے میں نے قسم کھائی ہے کہ تجھے برکت دونگا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دوں گا اور تیری نسل اپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تیری نسل کے وسیلہ سے سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی۔ تب ابرہام واپس اپنے جوانوں کے پاس گیا اور وہ واپس بیرسبع کو گئے  اور ابرہام بیرسبع رہا۔ بعد میں اسکو خبر ملی کہ اسکے بھائی کی بھی اولاد ہوئی ہے۔

ابرہام نے خدا کے حکم کو اس لیے مانا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خدا اپنے وعدوں کا پکا خدا ہے ۔اسے اضحاق کی پیدائش کے بعد یہ  سو فیصد  پتہ چل چکا تھا کہ خدا کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں اور جو وہ کہتا ہے وہ لازمی اسے پورا کرتا ہے اسلیے اسے خدا پر کسی قسم کا شک نہیں تھا بلکہ یقین تھا کہ اضحاق سے ہی اسکی نسل کا نام چلے گا۔ اسکا اعتماد تھا کہ خدا خود سوختنی قربانی کے لیے برہ مہیا کرے گا اور خدا نے اسکے ایمان کے مطابق کیا۔  کلام میں لکھا ہے کہ بغیر ایمان کے خدا کو پسند آنا ناممکن ہے (عبرانیوں 11:6) ابرہام کا ہر عمل اس بات کا ثبوت دیتا تھا اور خدا نے اسکے ایمان کے وسیلہ سے ویسا ہی کیا بھی۔

اضحاق کی یہ کہانی یشوعا کی قربانی نما ہے دونوں نے اپنے باپ کی فرمانبرداری کی اور  جیسے ابرہام نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے سے دریغ نہ کیا ویسے ہی خدا  باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے کوہمارے لیے  قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا 3:16)۔ اضحاق لکڑیاں اٹھا کر قربان گاہ کی طرف چلا اور یشوعا اپنی لکڑی کی صلیب اٹھا کر قربان ہونے کو چلا (یوحنا 19:17) ۔ اضحاق نے اپنے باپ کو پکارا اور یشوعا نے اپنے آسمانی باپ کو (متی 27:46 اور مرقس 15:34)۔  اضحاق نے قربانی کا سفر تین دن میں کیا اور تیسرے دن اسکو  زندگی ملی۔ یشوعا تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا۔(متی 16:21، مرقس 16 2 سے 4، لوقا 9:22) ابرہام نے کہا کہ خدا قربانی کے لیے برہ مہیا کرے گا۔ خدا نے یشوعا کو برہ کے طور پر قربانی کے لیے مہیا کیا (یوحنا 1:29) موریاہ کے پہاڑ پر چاہے ہیکل یا کہ پھر یشوعا کے صلیب کی جگہ(جو زیادہ تر کا مسیحیوں کا خیال ہے)  دونوں ہی قربانی کی جگہ ہیں ۔  میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ یشوعا کلام ہے جو مجسم ہوا۔ یشوعا نے یوحنا 8:56 میں کہا؛

تمہارا باپ ابرہام میرا دن دیکھنے کی امید پر بہت خوش تھا چناچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا۔

خدا اپنے کہے کے خلاف نہیں جاتا۔ اس نے خون نہ کرنے کے لیے کہا ہے اسلئے اس نے ابرہام کو اضحاق کا خون نہیں بہانے دیا۔ اب ان باتوں سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں جیسے کہ مسلمان لوگ قربانی کرتے ہیں قربانی چڑھانی چاہیے تو اسکا جواب ہے نہیں۔ ہوسیع 6:6 میں خدا نے کہا؛

کیونکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور خدا شناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں۔

خدا نے جو قربانیاں اسرائیلیوں کو چڑھانے کے لیے کہا تھا وہی  ہم پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ ابرہام کو بھی علم تھا کہ سوختنی قربانی کیا ہوتی ہے تبھی وہ خدا کے حضور سوختنی قربانی پیش کر رہا تھا۔ ابھی یہودی اور مسیحی قربانیا ں نہیں چڑھا سکتے کیونکہ قربانیا ں ہیکل میں لائی جاتی تھیں۔  شریعت آیندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے۔ (عبرانیوں 10:1) یشوعا نے بہت سی ان چیزوں کو پورا کر دیا ہے مگر اسکی دوسری آمد پر باقی چیزیں پوری ہونگیں۔ حزقی ایل  کی کتاب میں  تیسری ہیکل اور اس میں قربانیوں کا ذکر ہے۔ ہم ان تمام باتوں کی  گہرائی میں ابھی نہیں جا سکتے جب تک کہ کلام کی کچھ بنیادی ضروری باتوں کو نہ سمجھ لیں۔ یشوعا نے ہمارے لیے  قربانی دی اور اس نے خود بھی متی 9:13 میں یہی کہا؛

مگر تم جا کر اسکے معنی دریافت کرو کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں کیونکہ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں۔

میری خدا سے آپ کے لیے یہی دعا ہے کہ آپ یہ گہرائی میں  جان سکیں کہ یشوعا کی قربانی آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے اور کس طرح سے آپ خدا شناسی سے واقف ہوسکتے ہیں تاکہ اسکے راستباز لوگوں میں شمار ہو سکیں۔ آمین