(پیدائش 15 باب (پہلاحصہ
آپ کلام میں سے پیدائش 15 باب پڑھیں۔
ان باتوں کے بعد خداوند کا کلام رویا میں ابرام پر نازل ہوا۔ لوط کو چھڑانے کے بعد کچھ ہی عرصے کے بعد خدا نے رویا میں ابرام سے بات کی، خدا نے ابرام سے کہا
۔۔۔ائے ابرام تو مت ڈر۔ میں تیری سپر اور تیرا بہت بڑا اجر ہوں۔
ہم نے پچھلی بار پڑھا تھا کہ ابرام نے سدوم کے بادشاہ سے دولت لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ملک صدق نے ابرام کو خدا تعالےٰ کے نام میں جو برکت دی تھی وہ ابرام نے قبول کی تھی ۔ میری ایک دعا اپنے لیے یہ بھی رہی ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی "مجھے کچھ ایسا نہیں چاہیے جس میں خدا کی برکت نہیں اور ہر وہ چیز چاہیے جس میں میرے لیے خدا کی برکت ہے”۔ خدا نے ابرام کو کہا کہ وہ اسکا اجر ہے۔ آپ کس قسم کا اجر اپنے لیے چاہتے ہیں؟
خدا نے ابرام کو کہا "ڈر مت۔۔” کونسی ایسی بات تھی جس سے ابرام کو ڈر تھا۔ ابرام کی ابھی تک اولاد نہیں ہوئی تھی۔ خدا نے اسے پہلے بھی کہا تھا کہ ابرام کی نسل خاک کے ذروں کی مانند ہو گی ۔ ابرام نے خدا سے کہا ائے خداوند تو مجھے کیا دیگا؟ کیونکہ میں تو بے اولاد جاتا ہوں اور میرے گھر کا مختار میرا خادم الیعزر ہے وہی میرا وارث ہوگا اور یہی بات ابرام کے لیے ڈر کا باعث تھی۔ خدا نے اسے کہا کہ نہیں وہ نہیں تیرا وارث ہوگا بلکہ وہ جو تجھ سے پیدا ہوگا۔ پھر خدا نے اسکو باہر لے جا کر کہا کہ آسمان کی طرف نگاہ کر اور اگر تو ستاروں کو گن سکتا ہے تو گن کیونکہ تیری اولاد ایسی ہی ہو گی۔ پیدائش 15:6 میں لکھا ہے؛
اور وہ خداوند پر ایمان لایا اور اسے اس نے اسکے حق میں راستبازی شمار کیا۔
ابرام نے اپنے دل کا ڈر اور شاید شک خدا کے سامنے پیش کیا۔ وہی برکتیں جو خدا نے ابرام کو دینے کو کہا تھا وہ اس نے آپ کے لیے بھی رکھی ہیں کیونکہ آپ ابرام کی نسل میں سے ہیں۔ کیا آپ کے دل میں کسی قسم کا شک ہے کہ شاید آپ اپنی ان برکتوں کو نہ دیکھ سکیں گے؟ خدا نے جب ابرام کو باہر لا کر آسمان کے ستارے دکھا کر پھر سے کہا تھا کہ اسکی اتنی اولاد ہو گی تو لکھا ہے کہ وہ خدا پر ایمان لایا۔ ہم میں سے اکثر یہ کہتے ہیں "پہلے دکھاؤ تو پھر مانو۔۔۔ اب تک تو کچھ کیا نہیں پتہ نہیں کہ آگے بھی کچھ کرنا ہے یا نہیں؟۔۔۔” ابرام نے ایک بار پھر کچھ حاصل کیے بغیر خدا کی بات کا یقین کیا اور خدا نے اسکو راستباز ٹھہرایا۔ آپ کو اپنے خدا کی باتوں اور وعدوں پر کتنا بھروسہ ہے؟
خدا حقیقت میں اسکی سپر تھا تبھی اس نے اپنے 318 لوگوں کے ساتھ چار بادشاہوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔خدا ابرام کا اجر تھا مگر ابرام کو اجر کے طور پر خدا نہیں اولاد چاہیے تھی۔ ابرام کے بارے میں کیا کہوں کتنی ہی بار میں خود بھی ایسی ہی باتیں کرتی ہوں کہ لگتا ہے کہ میںخدا کو اپنا اجر نہیں بنانا چاہتی۔
مجھے علم ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ خدا پرانے وقتوں میں تو لوگوں سے بات کرتا تھا مگر اب نہیں کرتا۔ مجھے لوگوں سے نہیں ثبوت چاہیے کلام میں لکھا ہے کہ خدا نہیں بدلتا (ملاکی 3:6 ) وہ کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں 13:8)۔ اسلیے مجھے پرواہ نہیں کہ آپ میری ان باتوں سے کیا سوچیں جو میں اب لکھنے لگی ہوں۔ آپ میں سے زیادہ تر کو شاید یہ نہیں پتہ کہ میری جڑواں بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک باقی تمام بچوں کی طرح نارمل نہیں۔ کہنے کو تو وہ اس سال 15 سال کی ہو جائے گی مگر اسکے دماغ پر اندرونی چوٹ کی بنا پر وہ ابھی تک دو سال سے کم عمر بچوں کی طرح ہے۔ ڈاکٹروں نے مجھے شروع میں کہا تھا کہ اگر اسکے دماغ کا وہ حصہ جو دباو پڑنے کی بنا پر نارمل بڑھ نہیں پایا تھا، عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ پایا تو وہ باقی تمام بچوں کی طرح ہی ہو گی۔ یہ 2001 کی بات ہے میں نے اسکے لیے بہت دعائیں مانگی تھیں مگر 2004 یا 2005 میں ڈاکٹر نے کہا اسکے دماغ کا وہ حصہ جو وہ سوچ رہے تھے کہ بڑھ پائے گا نہیں بڑھ رہا بلکہ ایک طرح سے ختم ہوتا جا رہا ہے اسلیے میری بیٹی کے نارمل چلنے اور باتیں کرنے کی امید کم ہے۔ کوئی بھی جو اتنے سالوں سے دعا کر رہا ہو اگر اسکو ایسے جواب ملے تو شاید وہ دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مگر میں نے گھر آ کر خدا کو کہا کہ میرا بھروسہ ابھی بھی اس پر ہی ہے۔ وہ میرے ایمان کا امتحان تھا۔ 2010 میں جب ڈاکٹر نے ایک بار پھر اسکے دماغ کی سکرینگ کا کہا تو میں نے اپنے دعائیہ گروپ میں عورتوں کو خاص کہا کہ میری بیٹی کے لیے دعا مانگیں کہ اب کی بار جب میں ڈاکٹر کے پاس جاوں تو وہ کہے کہ اسکے دماغ کا وہ حصہ پھر سے بڑھ رہا ہے۔ جب عورتیں میرے ساتھ دعا مانگ رہیں تھیں تو خدا نے مجھے کہا "شازیہ ! میں نے تیری یہ دعا سن لی ہے اور پہلے سے ہی قبول کر لی ہے۔” بیٹی میں کوئی تبدیلی نہ دیکھتے ہوئے بھی میں نے خدا کی بات کا یقین کیا اور ان تمام عورتوں کو جو موجود تھیں کہا کہ خدا نے میری یہ دعا سن لی ہوئی ہے۔ تقریباً سات مہینے کے بعد جب میں ڈاکٹر کے پاس اپنی بیٹی کو پھر لے کر گئی ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر کہا ” یہ کہنا کہ میری بیٹی کا دماغ گھٹتا جا رہا ہے، ہنسی مذاق کی بات نہیں تھی مگر حیرانگی اس بات کی ہے کہ اسکے دماغ کا وہ حصہ پھر سے بڑھ رہا ہے۔” خدا کی تعریف ہو جو اپنی باتوں اور وعدوں کا پکا ہے۔ میرے سے خدا نے کچھ عرصے کے بعد پوچھا کہ میں اپنی بیٹی کے لیے کیا چاہتی ہوں معجزہ یا کہ پھر خدا کی برکتیں ! میں خدا کے حضور میں تھی وہ میرے دل کی ہر بات کو ویسے ہی سن سکتا تھا ااس سے کیا چھپاتی ۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا تھا کہ اگر میں نے بیٹی کے لیے معجزہ مانگا اور خدا نے معجزہ اسکی زندگی میں کر بھی دیا تو چلنا پھرنا اور باتیں کرنا تو وہ ابھی شروع کر ہی دے گی مگر خدانخواستہ اگر بعد میں اس کو کوئی اور مہلک بیماری ہو گئی تو پھر، یا پھر اگر اسکے ساتھ کوئی اور حادثہ ہو گیا تو پھر۔۔۔۔ پھر میرے ذہن میں خدا کی برکتوں سے متعلق آیات کا خیال آیا جسکے مطابق خدا کی برکتیں انسان کو صحت اور تندرستی دیتی ہیں، خدا کی برکتیں انسان کو خوشیاں دیتی ہیں، انکی زندگی میں سکون ہوتا ہے، انکو کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی، اور ۔۔۔۔۔ میں نے خدا سے اپنی بیٹی کے لیے ایک وقت کے معجزے کی بجائے عمر بھر کی برکتیں مانگ لیں۔
ابرام کی طرح کبھی کبھی مجھے بھی زندگی کی اتنی برکتیں نصیب ہونے کے باوجود شکایت رہتی ہے کہ خدا نے میری بیٹی کو مکمل برکتیں ابھی تک نہیں دی۔ میری بیٹی اب وہیل چیر نہیں استعمال کرتی بلکہ اپنی والکر کے سہارے چلتی ہے۔ کبھی کبھی وہ بغیر سہارے کے کھڑی بھی ہو جاتی ہے۔ اس نے کافی لفظ بولنا سیکھ لیے ہیں اتنا دیکھنے کے بعد بھی پھر بھی کبھی کبھی میں خدا سے یہی کہنا چاہتی ہوں "۔۔تو مجھے کیا دیگا؟”
ابرام کا وارث کے بغیر مرنے کا مطلب تھا کہ اسکی نسل ختم، مگر خدا نے اسے کہا کہ الیعزر اسکا وارث نہیں ہوگا بلکہ اسکی اپنی اولاد ہو گی۔ آپ کو خدا نے کونسی نعمت دی ہوئی ہے؟ اگر آج آپ خدا کی دی ہوئی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کے شکرگذار نہیں تو کیا آپ اس سے بڑی نعمتوں کی توقع کر سکتے ہیں؟
خدا نے ابرام سے کہا "میں تجھے کسدیوں کے ملک سے نکال کر لایا کہ تجھ کو یہ ملک میراث میں دوں۔ مگر ابرام نے کہا "خداوند خدا! میں کیونکر جانوں کہ میں اسکا وارث ہونگا۔ خدا نے ابرام سے قربانی لانے کو کہا، پاک جانوروں کی قربانی۔ ابرام اس ملک میں تھا مگر ابھی بھی اسکو میری طرح شاید کچھ شک تھا کہ وہ کیسے اس ملک کا وارث بنے گا جواب میں خدا نے اس سے قربانی مانگی۔
ایک وقت تھا جب میں اپنی بیٹی کے لیے، اپنے شوہر ، بچوں اور اپنے لیے دعائیں لکھنا شروع کیں تھیں۔ مجھے اچھا لگتا تھا گھنٹوں گھنٹے بیٹھ کر کلام میں سے آیتوں کو چننا اور اپنی ذاتی دعا بنانا۔ مگر پھر خدا نے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے دعا کا کہنا شروع کر دیا۔ میرے ذہن میں یہ خیال آتا تھا مگر خداوند خدا تو نے ابھی تک میری دعاوں کا جواب نہیں دیا، میری اپنی ضرورتیں ہیں جن کے بارے میں مجھے پہلے دعا مانگنی ہے۔۔۔ دوسروں کے لیے دعاوں میں اتنا وقت کیوں صرف کروں؟ آخر کلام میں لکھا ہے "مانگو تو تمکو دیا جائے گا۔۔تمہیں ملتا نہیں کیونکہ تم مانگتے نہیں۔۔۔” اناجیل میں یشوعا نے دعا سے متعلق کتنی ہی اچھی باتیں سکھائیں ہیں اور ان میں سے ایک جو میں نے دوسروں کے لیے دعائیں مانگتے ہوئے خاص سیکھی وہ یہ ہے کہ جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ویسا ہی تم انکے ساتھ کرو (متی 7:12 اور لوقا 6:31) خدا چاہتا تھا کہ میں اپنی تکلیفیں اسکے ہاتھ میں دے دوں اور دوسروں کی تکلیفوں اور ضروریات کی دعا کروں کیونکہ انکی دعاوں کے جواب میں میری دعاوں کا جواب تھا۔ آپ خدا کے لیے کس قسم کی قربانی چڑھا سکتے ہیں؟ خدا نے آپ سے کس بات کی قربانی مانگی ہے؟
ابرام خدا کے لیے قربانی لایا اور بڑے جانوروں کو بیچ میں سے کاٹ کر خدا کا انتظار کرنے لگ گیا مگر شکاری پرندے قربانی کے ان ٹکڑوں پر جھپٹنے لگے پر ابرام انکو ہنکاتا رہا۔ شیطان بھی جب دیکھتا ہے کہ کوئی خدا کے حضور قربانی چڑھا رہا ہے تو وہ اس قربانی کو ان سے چھیننا چاہتا ہے تاکہ خدا تک قربانی نہ پہنچے کیونکہ اسے علم ہے کہ لگتی تو یہ قربانی ہے مگر ایک طرح سے خدا سے تحفے کی وصولی ہے۔ جتنی بار بھی ابرام نے خدا کے لیے قربان گاہ بنائی خدا نے اسے اور نعمتوں سے نوازا۔ اس قربانی کا مطلب بھی یہی تھا کہ ابرام کو خدا برکت دے۔ ابرام چاہتا تو پرندوں کو قربانی کے ٹکڑے لے جانے دیتا مگر نہیں اس نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ اس میں سے ایک حصہ بھی نہ چرا سکیں۔ قربانیاں ہمیں خدا میں اور مضبوط بنا دیتی ہیں۔ یہی بڑا سبق میں نے قربانیوں سے سیکھا ہے کہ خدا کے حضور قربانی چڑھانا میرے اپنے لیے فائدہ مند ہیں چاہے وہ میرے وقت کی قربانی ہو یا مال کی۔
گو کہ میں اس باب کے مطالعہ کو آج ہی ختم کرنا چاہتی تھی مگر میرے خیال میں بہتر ہے کہ ہم اگلی دفعہ اسکی باقی تفصیل میں جائیں۔ میری آپ کے لیے یہی دعا ہے کہ خدا آپ کا اجر بنے اور آپ کی ڈھال ہو تاکہ آپ کو کسی قسم کی کمی نہ ہو۔ خدا آپ کو اپنے کلام سے اور بھی برکت دے۔ آمین۔