مسیحیوں کو توریت پر کیوں عمل کرنا چاہیے؟

میرے سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میری ویب سائٹ "بیک ٹو ٹورہ” جسکا معنی "واپس توریت کی طرف” بنتا ہے،  سے میری مراد کیا ہے؟ کیا میں مسیحیوں کو  "فضل” سے ہٹا کر پھر سے "شریعت کے ماتحت ہونے کا کہہ رہی ہوں؟ کچھ مجھے سمجھاتے ہیں کہ توریت یہودیوں کے لیے تھی اور اناجیل  (نیا عہد نامہ) مسیحیوں کے لیے ہے۔  آپ میں سے کچھ کا سوال تھا کہ میں نے اپنے  فیس بک کے بہت سے کمنٹس میں یہ کہا "مسیحی وہی غلطی کر رہے ہیں جو یہودیوں نے کی!”  آخر وہ غلطیاں کیا ہیں؟ چونکہ مجھے اس قسم کے بہت سے سوالات سے متعلق ای میلز آ رہی تھیں تو میں نے سوچا کہ اس سوال کا جواب لکھوں کہ کیا مسیحیوں کو توریت پر عمل کرنا چاہیے؟  اس کے لیے ہمیں کچھ باتوں پر غور کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ آپ ان باتوں کو تفصیل میں پڑھ سکیں، خدا سے یہ دعا مانگیں کہ وہ اس حقیقت کو جاننے میں آپ کی مدد اپنے کلام کی زبانی اور روح القدس کے وسیلہ سے  کرے تاکہ آپ ان باتوں کی سچائی کو  جان کر خوشی خوشی اسے  قبول کر سکیں اور آپ صحیح طور پر اسکے احکام کے مطابق چل سکیں۔

مسیحی کون ہیں؟

 پہلے تو ہم یہ بات سمجھ لیں کہ آخر مسیحی کون ہیں؟ مسیحی وہ ہے جو کہ یسوع ناصری (یشوعا) کی زندگی اور تعلیم  کے مطابق ابرہام ، اضحاق اور یعقوب کے واحد خدا کی پیروی کرتا ہے۔  اگر آپ مسیحی ہیں تو یہ بات تو آپ اچھی طرح سے ہی جانتے ہونگے۔  اگر یشوعا (یسوع) یہودی تھا اور اسکو قبول کرنے سے ہم خدا کے فرزند قرار دیئے گئے ہیں تو کیا فرزند اب یہودیوں میں شامل ہوتا ہے یا نہیں؟(میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ اپنے آپ کو یہودی کہلانا شروع کر دیں ۔ یہودی  یشوعا کو مسیحا نہیں مانتے  کچھ خاص باتوں کی وجہ سے جو کہ ہم دوسرے آرٹیکل میں بات کریں گے۔ آپ مسیح کو ماننے والوں میں سے ہیں اور مسیحی ہی کہلائیں گے چاہنے میری طرح میسیانک یہودی یا پھر خالی مسیحی)   اگر آپ ابرہام، اضحاق اور یعقوب کے خدا کو  مانتے ہیں تو  آپ اس میں پیوست ہوئے ہیں یسوع آپ میں نہیں ۔ رومیوں کے نام پولس رسول کا خط ان باتوں کا ثبوت ہے کیونکہ رومیوں 11 باب میں لکھا ہےکہ ہم جو جنگلی زیتون ہیں  زیتون کی روغن دار جڑ میں شریک ہوئےہیں  ۔   ۔۔  اور جڑ ہمیں سنبھالتی ہے ہم جڑ کو نہیں سنبھالتے۔ (آپ کلام میں سے خود رومیوں 11 باب پڑھیں) توریت کو کلام میں حیات کا درخت پکارا گیا ہے(امثال 3:18) ( اسی طرح یوحنا 15 باب میں بھی یشوعا کی تعلیم کے مطابق اگر ہم اس میں قائم رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکی باتوں پر عمل کرنا ہے جیسا کہ اس نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا۔ (آپ کلام  میں سے یوحنا 15 باب پڑھیں)  یوحنا 15:10 میں یشوعا نے کہا ہے؛

اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اسکی محبت میں قائم ہوں۔

 کیا آپ اسکے ان احکامات پر چلتے ہیں جو خدا  باپ نے دیے تھے؟ کیا آپ کو  ان احکامات کا پتہ ہے؟  سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ یشوعا  اور اسکے شاگردوں کے پاس نیا عہد نامہ نہیں تھا جیسے کہ ہمارے پاس ہے بلکہ وہ پرانے عہد نامے کی تعلیم کے مطابق چل رہے تھے۔ یوحنا 1 باب کے مطابق یشوعا کلام ہے جو مجسم ہوا   ۔ اور کلام  یوحنا کے زمانے میں کونسا تھا؟۔۔۔۔ وہی جسے ہم پرانا عہد نامہ کہتے ہیں۔

یشوعا پرانے عہد نامے میں دئے خدا کے احکامات پر عمل کرتا تھا اور اس نے کلام  (پرانے عہد نامے ) کے مطابق ہی تعلیم دی تھی۔  یشوعا نے شاگردوں کو اپنے پیچھے ہو لینے کو کہا تھا ۔ مگر مسیحی جن باتوں پر آج چل رہے ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم یشوعا کو اپنے پیچھے چلا  رہے ہیں نہ کہ ہم اسکے پیچھے چل رہے ہیں۔

شریعت منسوخ ہوئی ہے یا پوری؟

ہمیں چرچوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ یشوعا نے شریعت پوری کی اسلیے ہمیں اب شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے کبھی متی 5:17 کی اس آیت پر غور کیا ہے جس میں یشوعا نے کہا؛

یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔

یشوعا کی تعلیم کے برعکس  "یہ نہ سمجھو”۔۔۔ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ چونکہ یشوعا نے پرانا عہد نامہ پورا کردیا ہے اسلیے اب وہ باطل ہے۔ پولس نے رومیوں 9:6 میں بھی کہا؛

لیکن یہ بات نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہوگیا ۔۔۔۔۔

چلیں ان علما کی باتوں کو مان لیا کہ یشوعا نے پرانا عہد نامہ پورا کیا ۔۔۔۔۔ مگر کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس نے پرانے عہد نامے میں سے کیا کیا پورا کیا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ پھر دوبارہ آئے گا؟ کونسی باتیں پوری ہوئیں ہیں اور کونسی باتیں نہیں!؟

پرانے عہد نامے، جس کو  عبرانی میں تناخ کہتے ہیں؛ میں خدا نے احبار 23 میں اپنی عیدیں بنی اسرائیل کو دیں کہ وہ یہ عیدیں پشت در پشت منائیں۔ مسیحی علما کی تعلیم کے مطابق یہ عیدیں یشوعا نے پوری کر دیں تھیں۔ اگر آپ یہ عیدیں مناتے ہی نہیں تو آپ کو کس طرح سے علم ہے کہ کونسی عیدیں ان میں سے یشوعا نے پوری کر دیں ہیں؟ علما کرام سے ان عیدوں کے بارے میں پوچھیں تو وہ جواب دیں گے کہ تین عیدیں یشوعا کی پہلی آمد پر پوری ہوئیں اور باقی دوسری آمد پر  پوری ہونگی۔ اگر ایسا ہے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یشوعا نے شریعت پوری کر دی ہے؟

خیر ان عیدوں کو بھی ایک طرف کر دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ یشوعا نے ان کو پورا کر دیا ہے مگر یشوعا کے کہنے کے مطابق اسے  انبیا کی کتابوں میں سے بھی  سب کچھ پورا  کرنا ہے۔ وہ کونسی نبوتیں ہیں جو اس نے پہلے آمد میں پوری کر دیں ہیں اور کونسی ہیں جو ابھی پوری ہونا باقی ہیں؟ میں ان سب باتوں کی تفصیل اس چھوٹے سے آرٹیکل میں نہیں پیش کر سکتی۔ مگر میں یہ تمام باتیں سوچنے کا کام آپ پر چھوڑتی ہوں کہ اپنے پادریوں سے پوچھیں کہ کون سی باتیں یشوعا نے پوری کیں ہیں اور کون سی باتیں پوری ہونا باقی ہیں۔ اگر تمام باتیں پوری نہیں ہوئیں تو کیا ہم پرانے عہد نامے کے احکامات کو اپنی سمجھ کے مطابق باطل کر سکتے ہیں؟

مسیحی وہی غلطی  کر رہے ہیں جو یہودیوں نے کی؛

میرے سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی  اس بات سے کیا مراد ہے؟  بہت سی باتیں ہیں مگر میں صرف چند اہم باتوں کا ذکر کروں گی۔

یسعیاہ 58:13 میں خدا یعقوب کے گھرانے سے اپنی ناراضگی میں کہہ رہا ہے؛

اگر تو سبت کے روز اپنا پاؤں روک رکھے اور میرے مقدس دن میں اپنی خوشی کا طالب نہ ہو اور سبت کو راحت اور خداوند کا مقدس اور معظم کہے اور اسکی تعظیم کرے۔ اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دست بردار رہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے چرچوں میں زیادہ تر مسیحیوں کو یہ علم بھی نہیں کہ سبت کا دن اتوار ہے یا کہ پھر ہفتہ۔ میں نے اس پر بھی ایک آرٹیکل لکھا تھا جو کہ میں جلد ہی ویب سائٹ پر بھی لگاؤنگی تاکہ آپ اسے پڑھ کر خود کلام کے مطابق جان سکیں کہ کونسا دن سبت کا دن  ہے۔ اگر آپ اتوار کو سبت کا دن پاک مان رہیں ہیں تو آپ غلطی کر رہیں ہیں کیونکہ نئے عہد نامہ میں کہیں پر بھی نہیں لکھا کہ اب ہفتہ نہیں بلکہ اتوار سبت کا دن ہوگیا ہے۔  آپ خدا کے حکم کو توڑ رہے ہیں۔

شاید آپ سبت کا دن ہفتے کو ہی پاک مانتے ہیں مگر کرسمس منانے کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے یرمیاہ 10:2 سے4  میں لکھا ہے؛

خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم دیگر اقوام کی روش نہ سیکھو اور آسمانی علامات سے ہراسان نہ ہو اگرچہ دیگر اقوام ان سے ہراسان ہوتی ہیں۔ کیونکہ انکے آئین بطالت ہیں چنانچہ کوئی جنگل میں کلہاڑی سے درخت کاٹتا ہے جو بڑھئی کے ہاتھ کا کام ہے۔ وہ اسے چاندی اور سونے سے آراستہ کرتے ہیں اور اس میں ہتھوڑوں سے میخیں لگا کر اسے مضبوط کرتے ہیں تاکہ قائم رہے۔

مسیحیوں نے دوسری قوموں کی روش اپنائی ہے کہ سرو کے درخت کو ہر سال آراستہ کرتے ہیں جبکہ خدا اپنے لوگوں کو دوسری قوموں کی روش اپنانے سے منع کر رہا ہے۔ جی صحیح یہ تو خدا  نے یہودیوں سے کہا تھا۔ انھوں نے یہ غلطی کی تھی اور اب مسیحی کر رہے ہیں۔  اس رسم کا مسیح کی پیدائش سے کیا لینا دینا ہے؟ اب تو رومن کیتھولک چرچ نے بھی کہہ دیا ہے کہ 25 دسمبر یشوعا کی پیدائش کی تاریخ نہیں ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے؟

یرمیاہ کے 7 باب میں آسمان کی ملکہ کا ذکر ہے (آپ یرمیاہ 7 باب خود پڑھیں) رومن کیتھولک چرچوں میں مریم کو "آسمان کی ملکہ” کہا جاتا ہے  اور  مریم کے ماں اور باپ کا نام یوعقیم اور عینا  بتایا جاتا ہے۔ خدا اپنے لوگوں (یہودیوں) سے ناراض تھا  کہ وہ آسمان کی ملکہ کی عبادت کر رہے ہیں۔ آپ شاید رومن کیتھولک نہ ہوں اسلیے شاید آپ پر یہ بات نہیں لاگو ہوتی مگر رومن کیتھولک بہن بھائیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ کلام کے مطابق  مریم کے باپ کا نام کیا تھا؟

حزقی ایل  8 باب میں خدا یہودیوں سے ناراض ہے کیونکہ وہ اسکی ہیکل میں بیٹھ کر تموز کے لیے روزے رکھ رہے ہیں  اور اسکا نوحہ کر رہے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ 40 روزے کیا واقعی میں یشوعا کے لیے رکھتے ہیں یا پھر تموز کے لیے۔آپ کو تو شاید یہ علم بھی نہ ہو کہ تموز کون تھا۔  اگرآپ روزے  یشوعا کے لئےرکھ رہے ہیں  تو اتوار کو روزہ رکھنا کیوں منع ہے؟ کلام میں ایسا کہاں لکھا ہے؟

یشوعا نئے عہد نامے میں بار بار اپنے لوگوں (یہودیوں/فریسیوں/فقیہوں) کو اپنی روایات کی بنا پر خدا کے احکامات توڑنے  پر ناراضگی دکھا رہا تھا۔ (متی 15:3 اور 6، مرقس 7:3 سے 9) کیا وہ روایات یہودیوں کی اپنی تھیں یہ کہ پھر خدا کے حکموں کے مطابق تھیں؟ یشوعا کے کہنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ روایات انکے بزرگوں کے مطابق تھیں نہ کہ کلام کے مطابق۔

یہودیوں کا یہ ماننا ہے کہ خدا نے موسٰی کو دو طرح کی توریت دی تھیں۔ ایک کو تحریری توریت کہتے ہیں اور دوسری کو  زبانی توریت۔ تحریری توریت پرانے عہد نامے میں پہلے پانچ کتابیں ہیں اور زبانی توریت وہ ہے جسکو یہودی تلمود کہتے ہیں۔ تلمود میں بہت سی رسمیں قلمبند ہیں جو کہ یہودی بزرگوں کے مطابق خدا کے احکامات کی انکی اپنی تشریح  ہیں نہ کہ خدا کے کلام کے مطابق اسکے احکامات۔ یہی بات یشوعا سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ تلمود میں دی ہوئی رسمیں خدا کے کلام سے بڑھ کر نہیں۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ رسمیں اچھی چیز ہیں مگر جب بھی کبھی رسمیں خدا کے احکامات پر حاوی ہو جائیں تو صرف رسم رہ جاتی ہے اور خدا کی عبادت ختم ہو جاتی ہے۔

یشوعا یہودیوں سے رسموں کو خدا کے احکامات سے زیادہ نبھانے پر ناراض تھا۔ مسیحی بھی تو خدا کےاحکامات کی بجائے چرچ کی تعلیم کے مطابق  رسموں کو نبھانے میں مصروف ہیں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ کلام میں کہاں ایسٹر اور کرسمس منانے کا حکم ہے؟ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ یشوعا کے شاگردوں نے نئے عہد نامے میں کرسمس اور ایسٹر منایا تھا جس کی بنا پر ہمارے لیے آج کرسمس اور ایسٹر کی خدا کی مقرر کردہ عیدوں سے زیادہ اہمیت ہے؟

میں اکثر اپنے چرچ کے بائبل سٹڈی گروپ میں کہتی ہوں کہ اگر میں کرسمس اور ایسٹر نہیں مناؤں گی تو خدا میرے سے ناراض نہیں ہوسکتا کیونکہ کلام انھیں منانے کا نہیں کہتا  اور اگر مجھے خدا کی عیدیں نہیں منانی چاہیے تھیں مگر میں نے پھر بھی منائی تو خدا پھر بھی  میرے سے ناراض نہیں ہوسکتا کیونکہ کلام میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ اب اگر میں نے یہ سب کچھ کیا تو  وہ مجھے آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہونے دے گا۔

میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ خدا آپ کو سچائی دکھائے۔ آمین