پیدائش 6 باب (پہلا حصہ)
پیدائش 6 باب آپ پورا کلام میں خود پڑھیں۔
پیدائش کے مطالعے کے تیسرے باب میں ہم نے سانپ یا شیطان کے بارے میں بات کی تھی۔ ایوب 38:4 سے 7 میں تھوڑا حوالہ ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے فرشتوں کو انسان سے پہلے بنایا۔ ربیوں کی کہاوتوں اور تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ دس مختلف قسم کے فرشتے ہیں۔ جن میں سے چار کے بارے میں ہماری بائبل میں بھی بیان ہے۔ پیدائش کے پہلے باب میں ہم نے کروبیوں کے بارے میں پڑھا اور انکا ذکر آپ کو حزقی ایل میں بھی ملے گا۔ یسعیاہ کے چھٹے باب میں ہم سرافیم کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ ہمیں کچھ ان فرشتوں کے بارے میں بھی پتہ ہے جو خدا کے حضور میں کھڑے رہتے ہیں جن میں سے جبرائیل کا آپ کو اچھی طرح پتہ ہے اور میکائیل مقرب فرشتے کا ذکر دانی ایل میں ہے۔ اور انکے علاوہ بہت سے اور فرشتے بھی ہیں جن کے ذمے مختلف کام ہیں۔
یہوداہ کے عام خط کا صرف ایک باب ہے جس میں اس نے ان فرشتوں کا ذکر کیا جنہوں نے اپنے مقام کو چھوڑ دیا اور اسی کی 14 آیت میں حنوک کا ذکر ہے جو کہ آدم سے ساتویں پشت میں تھا۔ یہوداہ نے کہا کہ انکے بارے میں حنوک نے پیشن گوئی کی تھی۔ کبھی آپ نے میری طرح سوچا ہے کہ آخر یہوداہ کو کیسے پتہ تھا کہ حنوک نے کیا پیشن گوئی کی تھی؟ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہو گا جس کا اسکو علم تھا۔ میں نے یہ سوال خدا سے تب کیا تھا جب خدا نے مجھے اپنے چھوٹے بیٹے کا نام عنوک رکھنے کو کہا تھا۔ عنوک انگریزی میں اور اردو میں حنوک۔ علما نے حنوک کی کتاب دریافت کی جو کے کچھ فرشتوں کا بیان کرتی ہے اور اس میں وہی آیت بھی درج ہے جو کہ یہوداہ نے لکھی۔ اسکی دریافت کی کہانی بھی کچھ دلچسپ ہے جسکے بارے میں پھر کبھی ذکر کروں گی۔ جو علما پیشن گوئیوں کو حل کرنے کی کھوج میں ہیں وہ اس کتاب کو بھی پڑھتے ہیں اور اسکی باتوں پر بھی دھیان دیتے ہیں۔ رومن کیتھولک بائبل میں کچھ اور کتابیں بھی ہیں جو کہ ہماری بائبل کا حصہ نہیں مگر ان میں سے کچھ کتابیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح سے یوسیفس کی کتاب بھی جتنی یہودیوں کے لیے اہم ہے اتنی ہی مسحیوں کے لیے بھی اہم ہے۔ تلمود کا ذکر آپ نے میرے سے پہلے بھی سنا ہوگا۔ ان تمام کتابوں سے کچھ ایسی تفصیلات ملتی ہیں جن کی بنا پر ہم جان سکتے ہیں کہ ہر فرشتے کا کام پیغام دینا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے کلام میں اگر کچھ جگہوں ہر خدا کے بیٹوں کا ذکر ہے تو کہیں اور کروبیوں کا ذکر ہے یا پھر سرافیم کا کیونکہ یہ فرشتوں میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ میں نے اپنے ایک اور آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت تھی زمین پر آنے کی؟”میں بھی اس باب کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں درج خدا کے بیٹوں کا ایک نظریہ اس آرٹیکل میں پیش ہے دوسرے پر پھر کبھی بات ہوگی۔
پیدائش کے چھٹے باب کے مطابق جب زمین پر آدمی بڑھنے لگے تو تب خدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیوں سے شادی کی۔ عبرانی کلام میں خدا کے بیٹوں کو "بنائی ہاالوہیم، בניהאלהים” لکھا گیا ہے۔ جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ خدا کے بیٹے کہنے کو تو آسمانی مخلوق تھے مگر ہر کوئی اچھا نہیں تھا جیسا کہ یہوداہ کے خط کی 6 آیت میں لکھا ہے؛
اور جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا انکو اس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روز عظیم کی عدالت تک رکھا ہے۔
کچھ فرشتوں نے خدا کی حکومت چھیننے کا فیصلہ کیا جن میں لوسیفر بھی شامل تھا۔ خدا نے ان فرشتوں کو آسمان سے زمین پر گرا دیا تھا۔ شیطان /سانپ نہیں بھولا تھا کہ خدا نے عورت کی نسل سے مسیحا کو پیدا کرنا ہے جو کہ سانپ کا سر کچلیگا۔ اسلیے ان گرائے گئے فرشتوں نے آدمی کی بیٹیوں سے شادی کی تاکہ آدمی کی نسل خالص انسان کی نسل نہ رہے اور نہ ہی مسیحا پیدا ہو سکے۔ پیدائش 6:4 میں لفظ "جبار” عبرانی لفظ "نفیلیم، נְפִילִים، Nephilim” ہے جو کہ عبرانی لفظ "نیفال، nephal” کی جمع ہے اور اسکا مطلب "گرائے گئے” ہے۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ جیسے کچھ سکھاتے ہیں کہ یہ قائن کی نسل ہے وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ پیدائش 6:2 صاف بیان کر رہی ہے کہ یہ آسمانی مخلوق ہے نا کہ آدم کی اولاد۔ پیدائش 6:4 کہتی ہے کہ انکی اولاد قدیم زمانہ کے سورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے اور اسی وجہ سے انسان نے واحد خدا کو ماننا چھوڑ دیا کیونکہ انھوں نے ان سورما کو ماننا شروع کر دیا تھا۔ سوائے نوح کی نسل کے جو کہ ابھی بھی خدا کی نظر میں راستباز اور بے عیب تھا۔ نفیلیم کا ذکر کلام میں آگے اور مختلف ناموں سے بھی ہوا ہے جن کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے۔
پیدائش 6:9 میں درج ہے؛
نوح کا نسب نامہ یہ ہے۔ نوح مرد راستباز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
حنوک کے بارے میں بھی پیدائش 5:24 میں اسی قسم کے الفاظ ہیں کہ حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔ میں اکثر اپنے بارے میں سوچتی ہوں کہ میں خدا کی نظر میں کیسی ہوں؟ آپ نے کبھی اپنے بارے میں یہ سوچا ہے؟ ہم انسانوں کو ہمیشہ خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس خدا کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ سب سے افضل ہے۔
پیدائش 6:11 اور 12 میں لکھا ہے؛
پر زمین خدا کے آگے ناراست ہوگئی تھی اور وہ ظلم سے بھری تھی۔ اور خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہوگئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا۔
خدا نے شیطان کو الزام نہیں دیا بلکہ ہر بشر کا کہا۔ "یتزر –ہ-را” ہر انسان کو خدا نے اپنی مرضی دی ہے۔ کچھ نئے عہد نامے کی آیات اور کچھ پرانے عہد نامے کی آیات جیسے کہ یسعیاہ 45:7 کو لے کر لوگ خدا کو ہی تمام برائی کی وجہ ٹھہراتے ہیں۔جو ایک عام سوچ ہے کہ تبھی خدا نے انسان کی عمر گھٹا کر 120 برس کر دی ایسا اصل میں نہیں ہے کیونکہ اس پانی کے طوفان کے بعد ہمیں ابرہام کی عمر کا بھی پتہ ہے جو 175 برس جیا۔ خدا نے نوح کو جب کشتی بنانے کا کہا تو اس نے ان لوگوں کو جو کہ نوح کے وقت میں تھے 120 برس دئے کہ توبہ کر سکیں۔
یسعیاہ 45:7 میں لکھا ہے؛
میں ہی روشنی کا موجد اور تاریکی کا خالق ہوں۔ میں سلامتی کا بانی اور بلا کو پیدا کرنے والا ہوں۔ میں ہی خداوند یہ سب کچھ کرنے والا ہوں۔
خدا اگر روشنی اور تاریکی کا خالق ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ نہ تو حوا اور آدم کو خدا نے مجبور کیا تھا اور نہ ہی نوح کے زمانہ کے لوگوں کو۔ ہر انسان نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا ۔
متی 24:37 اور لوقا 17:26 میں یشوعا نے کہا؛
جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہو گا۔
نوح کے دنوں میں ہر بشر نے خدا کے راستوں کو چھوڑ کر اپنے طریقے اپنا لیے۔ ان میں سے خدا خوفی بالکل ختم ہو گئی ۔ جیسا کہ یشوعا نے کہا کہ جیسے کے طوفان کے آنے سے پہلے تک لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا۔ اور جب تک طوفان آکر ان سب کو بہا نہ لے گیا انکو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کا آنا ہو گا۔اب آپ جان گئے ہیں کہ نوح کے زمانے میں کیا ہوا۔ کیا آج جب آس پاس لوگوں کو دیکھتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے؟ کیا لوگوں میں خدا خوفی ختم ہو رہی ہے؟ 2 تیمتھیس 3:1 سے 5 میں پولس نے کہا؛
لیکن یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں برے دن آئینگے۔ کیونکہ آدمی خود غرض۔ زردوست۔ شیخی باز۔ مغرور۔ بدگو۔ ماں باپ کے نافرمان۔ ناشکر۔ ناپاک۔ طبعی محبت سے خالی۔ سنگدل۔ تہمت لگانے والے۔ بے ضبط۔ تند مزاج۔ نیکی کے دشمن۔ دغا باز۔ ڈھیٹھ۔ گھمنڈ کرنے والے۔ خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہونگے۔ وہ دینداری کی وضع تو رکھینگے مگر اسکے اثر کو قبول نہ کرینگے ایسوں سے بھی کنارہ کرنا۔
میں کلام کی باتوں کو اپنے دل میں رکھ کر خدا میں رہنا چاہتی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ میں بھی باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ فنا ہو جاوں کیونکہ یشوعا جلد آنے والا ہے۔ میں یشوعا میں ابدی زندگی چاہتی ہوں آپ کو اپنے لیے کیا چاہیے اسکا فیصلہ آپ کو اپنے لیے خود کرنا ہے۔
خدا نے چاہا تو میں پیدائش کے چھٹے باب کا باقی مطالعہ ہم اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔ خدا باپ آپ کو صحیح راہ پر رکھے اور ابدی زندگی یشوعا ہا مشیاخ میں عطا کرے۔ آمین۔