پیدائش 1 باب (تیسرا حصہ)
کل ہم نے "روشنی ” کی بات کی تھی۔ روشنی کا الٹ اندھیرا /تاریکی ہے۔ زبور 27:1 میں لکھا ہے؛
خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟
زبور 119:105 ؛
تیرا کلام میرے قدموں کے لیے چراغ اور میری راہ کے لیے روشنی ہے۔
زبور 119:130؛
تیری باتوں کی تشریح نور بخشتی ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے۔
امثال 6:23؛
کیونکہ فرمان چراغ ہے اور تعلیم نور اور تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے۔
امثال کی اس آیت کو اگر آپ عبرانی میں دیکھیں گے تو وہاں "تعلیم” کے لیے "توریت” کا لفظ لکھا ہے۔ مطلب کہ توریت نور ہے۔
اب ان اوپر دی گئی آیات کو ذہن میں رکھ کر یوحنا 1 باب پڑھیں اور خدا سے کہیں کہ وہ آپ کو اپنا کلام سمجھنے میں مدد کرے۔ یشوعا نے کہا متی 5:14 میں؛
تم دنیا کے نور ہو ۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔
اگر آپ خدا میں ہیں تو آپ نور میں ہیں جو زندگی بخشتا ہے۔ آپ اپنے اندر کلام کی روشنی کو چھپا نہیں سکتے۔ یہ روشنی نہ صرف آپ کی رہنمائی کرتی ہے بلکہ آپ کے آس پاس دوسروں کو بھی راہ دکھاتی ہے۔ اگر آپ نے کل کا آرٹیکل پڑھا ہے تو میں نے لکھا تھا کہ "تو-ہو-و-و-ہو” کا مطلب بدنظمی اور افراتفری بھی بنتا ہے۔ اوپر دی گئی آیتوں کے مطابق روشنی اس بدنظمی کو دور کرتی ہے۔ تاریکی کے لئے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "حوشیخ، חֹשֶׁךְ، Choshek”یہ وہ اندھیرا/تاریکی ہے جسے محسوس کیا جا سکے۔ اسی کا ذکر خروج 10:21 میں ہے جب خدا نے مصر پر تاریکی بھیجی تھی۔ اندھیرے کے لئے عبرانی میں ایک اور لفظ بھی ہے جس کو "ارافیل، ערפל Araphel,” کہتے ہیں۔ کلام کی کچھ عبرانی آیات اس لفظ "ارافیل” کا استعمال کرتی ہیں جب خدا ظاہر ہوا جیسے کہ خروج 20:21 ، زبور 97:2 ۔ مکاشفہ 21 اور 22 باب میں جو روشنی کا ذکر ہے وہ یہی روشنی ہو گی جس کو خدا نے پہلے دن بنایا گو کہ اس پر اور بھی بحث ہو سکتی ہے مگر ہم اسکی اور گہرائی میں ابھی نہیں جائیں گے۔
خدا نے دوسرے دن فضا کو بنا یا اور اسے پانی سے جدا کیا۔ تیسرے دن خدا نے پانی کو ایک جگہ جمع کیا اور خشک جگہ کو زمین کہا۔ خدا نے گھاس اور بیج دار بوٹیوں اور پھلدار درختوں کو اپنی اپنی جنس کے مطابق پیدا کیا۔ خدا نے سورج، چاند اور ستارے چوتھے دن بنائے۔ اور اس پیدائش 1:14 کا ہم عبرانی میں مطالعہ ضرور کریں گے۔
ויאמר אלהים יהי מארת ברקיע השמים להבדיל בין היום ובין הלילה והיו לאתת ולמועדים ולימים ושנים׃
מארת، ماروت” اسکا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا۔ اردو کے کلام میں اسکا ترجمہ "نیر” ہے۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ سورج، چاند اور ستاروں کے بنانے سے پہلے ہی خدا نے رات اور دن مقرر کیے۔ عبرانی کیلنڈر ہمارے کیلنڈر سے مختلف ہے۔ عبرانی کیلنڈر سورج اور چاند دونوں کی گردش پر بنیاد ہے۔ جسکی وجہ سے ہر کچھ عرصے کے بعد عبرانی کیلنڈر میں تیرہواں مہینہ ڈالا جاتا ہے کیونکہ ورنہ اسکے مطابق سال کے 354 دن بنتے ہیں۔ لہذا آخری مہینے کو ادار 1اور ادار 2 کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے خدا کی مقرر کردہ عیدیں اپنے وقت یعنی بہار اور خزاں میں ہی رہتی ہیں ہم اسکی تفصیل دوسرے آرٹیکل میں پڑھیں گے۔
מועדים، عبرانی لفظ "مویدیم” ہے جسکا مطلب "میٹنگ” ہے۔ آپ اگر کام کرتے ہیں تو آپ کو اچھی طرح سے علم ہوگا کہ” میٹنگ” کے لیے پہلے سے ہی وقت مقرر کیا جاتا ہے، چاہے ایمرجنسی میٹنگ ہی کیوں نہ بلوانی پڑے۔ "موید” واحد ہے "مویدیم” کی اور اسکے یہ مطلب بھی ہو سکتے ہیں” مقرر کردہ وقت، اپانٹمنٹ ، تہوار یا عیدیں”۔ خدا نے سورج، چاند اور ستارے نشانیوں کے لیے اور خدا کی عیدوں کے لیے بنائے تھے۔ جی زمانوں اور دنوں اور برسوں کے لیے بھی تاکہ ہم جان سکیں کہ کب ہمیں خدا کی عیدوں کی تیاری کرنی ہے کونسی عید سال کے کس دن پڑے گی۔ اسکے علاوہ اگر آپ کو یاد ہو تو یشوعا کی پیدائش کے بارے میں مجوسی ستارے کو دیکھ کر اسکو سجدہ کرنے آئے تھے، سجدہ تو انسان صرف خدا کو کرتا ہے! خدا نے یہ ستاروں کا علم آپ کو اپنا مستقبل دیکھنے کے لیے نہیں رکھا گو کہ لوگ اس علم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں مگر خدا ثابت کرتا ہے کہ اسکے اختیار میں سب کچھ ہے۔ اگر آپ نے کبھی پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کا ستارہ آپ کے بارے میں کیا کہتا ہے تو آپ خدا کے حضور میں گناہ کر رہیں ہیں کیونکہ استثنا 18:9 سے12 میں لکھا ہےکہ یہ خدا کے نزدیک مکروہ ہیں۔ آپ کو خدا سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے ۔
خدا کے مقرر کردہ تہوار بہار اور خزاں میں پڑتے ہیں۔ عید فسح، بےخمیری روٹی کی عید اور پہلے پھلوں کی عید ہے جو کہ بہار کی عیدیں ہیں، عید پنتیکوست بھی۔ یوم تیروعہ، یوم کفارہ اور عید خیام خزاں کی عیدیں ہیں۔ اسکے علاوہ کچھ اور بھی عیدیں ہیں مگر یہ عیدیں ہم پر لازم ہیں۔ انکے بارے میں تفصیل سے ہم پھر کبھی پڑھیں گے۔ اب بات کرتے ہیں پانچویں اور چھٹے دن کی۔ خدا نے پانچویں دن دریائی جانوروں اور پرندوں کو بنایا؛ ہر قسم کے جانوروں کو خدا نے اچھا کہا۔ چھٹے دن خدا نے پہلے زمین کے جانور بنائے اور خدا نے کہا اچھا ہے (ویسے مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ چھپکلیاں کیسے اچھی ہیں یا مگر مچھ وغیرہ۔۔۔ ھا ھاھا۔ خدا انکو بھی زمین کو صاف رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔) اور پھر آخر میں خدا نے کہا کہ
"ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اسکو پیدا کیا۔ نر و ناری انکو پیدا کیا۔”
میں نے ایک آرٹیکل میں پہلے بھی کہا تھا کہ خدا نے ہمیں اپنی صورت پر اپنی شبیہ پر بنایا ہے مطلب جسم، جان اور روح۔ اسلیے” الوہیم” لفظ جو خدا کے لیے استعمال ہوا ہے جمع ہونے کے باوجود واحد خدا کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے جسم اور جان اور روح کو تین کہتے ہیں تو پھر آپ خدا کو بھی تین کہہ سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ نہ تو ہم اپنے لیے "ہم” کا لفظ استعمال کرتے ہیں اورنہ ہی تین خدا ہیں۔ ایک اور بات جو سوچ کے قابل ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس قدر بلند نہ سمجھیں کہ خدا نے آدم کو سب سے آخر میں بنایا بلکہ یہ سوچیں کہ خدا نے حقیر کیڑے کو بھی آدم سے پہلے بنایا۔ گو کہ خدا انسان کو پیار کرتا ہے مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم گھمنڈی بن جائیں ۔ جب خدا نے انکو نر و ناری بنایا تو خدا نے انھیں کل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اسکا بیج دار پھل تھا کھانے کو دیا۔ انسان شروع سےہی گوشت نہیں کھاتا آیا تھا۔
ہم پیدائش کے پہلے باب کا مطالعہ یہیں ختم کرتے ہیں اگلے ہفتے ہم پیدائش کے دوسرے باب کا مطالعہ کریں گے۔ شبات شلوم۔