پیدائش 1 باب (دوسرا حصہ)

آپ کلام مقدس سے پیدایش کے پہلے باب کو خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔

پچھلی دفعہ ہم نے پیدایش کی پہلی آیت کے بارے میں بات کی تھی۔ اب بات کرتے ہیں لفظ "ایلوہیم، אלהים، Elohim” کی۔  "ایلوہیم” ، ہمارے خدا کا نام نہیں  بلکہ خداوند  کو "خدا” عزت سے کہنے کے لیے استعمال ہوا ہے، ویسے ہی جیسے کہ اردو زبان میں کسی کو تو یا تم کہنے کی بجائے "آپ” کا لفظ استعمال کیا جائے۔ الوہیم سے مراد کوئی بھی خدا ہو سکتا ہے۔ مگر پیدائش 1:1 میں اسکے استعمال کا یہ مطلب نہیں کہ واحد ازلی خداوند نے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، انھوں نے آسمان اور زمین کو نہیں پیدا کیا بلکہ کسی اور خدا نے پیدا کیا ہے۔ ایلوہیم، خداوند کے "جج” اور خالق ہونے کی صفت کو بیان کرتا ہے۔  "ایلوہیم، אֱלֹהִים” عبرانی لفظ  "الوہا، Eloha ، אלוה” کی جمع ہے۔  پرانے عہد نامے میں "ایلوہیم” لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ تقریباً 250 بار یہی لفظ فرشتوں اور غیر معبودوں کے لیے استعمال ہوا ہے  اور بعض اوقات انسان کے لیے بھی۔  مثال کے طور پر خداوند نے بزرگ موسٰی کو یہ خروج 7:1 میں کہا؛

ויאמר יהוה אל־משה ראה נתתיך אלהים לפרעה ואהרן אחיך יהיה נביאך

پھر خداوند نے موسٰی سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لیے گویا خدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارون تیرا پیغمبر ہوگا۔

خداوند کو "الوہیم” کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تین خداؤں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بارے میں ہم آگے اور بھی پڑھیں گے۔

یسعیاہ 44:6 میں لکھا ہے؛

خداوند اسرائیل کا بادشاہ اور اسکا فدیہ دینے والا رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ میں ہی اول اور میں ہی آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں۔

اور یسعیاہ 41:4 میں بھی ایسے لکھا ہے؛

یہ کس نے کیا اور ابتدائی پشتوں کو طلب کرکے انجام دیا؟ میں خداوند نے جو اول و آخر ہوں۔ وہ میں ہی ہوں۔

علما کے مطابق عبرانی کلام کی پیدائش 1:1 یہ ظاہر کرتی ہے کہ خداوند نے آسمانوں کو پہلے بنایا اور پھر زمین کو۔ اردو کلام میں خالی "آسمان ” لکھا ہے مگر عبرانی کلام میں "آسمانوں” لکھا ہے۔ تیسرے آسمان کا ذکر تو ہمیں 2 کرنتھیوں 12:2 میں بھی ملتا ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک آسمان نہیں بلکہ کئی آسمان ہیں۔ آپ ان آیتوں کا موازنہ کریں۔

یسعیاہ 44:24 میں ایسے لکھا ہے؛

خداوند تیرا فدیہ دینے والا جس نے رحم ہی سے تجھے بنایا یوں فرماتا ہے کہ میں خداوند سب کا خالق ہوں۔ میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں کون میرا شریک ہے۔

زبور 33:6 میں بھی کچھ ایسا ہی لکھا ہے

آسمان خداوند کے کلام سے اور اسکا سارا لشکر اسکے منہ کے دم سے بنا۔

نحمیاہ 9:6 میں لکھا ہے؛

تو ہی اکیلا خداوند ہے۔ تو نے آسمان اور آسمانوں کے آسمان کو اور انکے سارے لشکرکو اور زمین کو اور جو کچھ اس پر ہے اور سمندروں کو اور جو کچھ ان میں ہے بنایا  اور تو ان سبھوں کا پروردگار ہے اور آسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔

اب ہم  پیدائش  1 کے باقی باب پر نظر ڈالتے ہیں۔ جہاں پر  لکھا ہے کہ زمین ویران اور سنسان تھی وہ لفظ عبرانی زبان میں  "تَو – ہو – و – و- ہو،  תֹ֙הוּ֙ וָבֹ֔הוּ، Tohu VaVohu” ہےمیں شاید اسکا اچھا  تلفظ نہیں کر پا رہی 🙂 ۔ اسکا مطلب بد نظمی یا افراتفری بھی بنتا ہے۔ ایسے ہی اسکو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں آرہا تھا کہ میں بھی بچوں کے ساتھ، گھر کے کام میں اور پھر  آرٹیکلز لکھنے میں ہمیشہ افراتفری میں رہتی ہوں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میں نے خود بد نظمی اپنی زندگی میں پیدا کی ہوئی ہے۔ مگر خداوند کا شکر ہے کہ چاہے جیسے زمین کتنی ہی ویران اور سنسان تھی، چاہے کتنا ہی اندھیرا تھا ، خدا کی روح جیسے پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی ویسے ہی وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ جیسے انھوں نے زمین کو شکل وصورت دے کر اسے خوبصورت بنا دیا وہ ابھی بھی ویسے ہی اپنے لوگوں کی زندگیوں میں کام کرتے ہیں اور  انکی زندگی  میں روشنی لاتے  ہیں اور ان کو تاریکی سے  جدا کرتے ہیں۔

پیدائش 1:2 سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سیارہ زمین  کی کوئی صورت نہیں تھی  اس میں کچھ بھی موجود نہ تھا اسکو شکل و صورت دینے والے خداوند ہیں۔ 2 پطرس 3:5 میں لکھا ہے؛

وہ تو جان کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے زریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے۔

بہت سی قدیم داستانیں  کہ دنیا کیسے بنی، پانی کا  ذکر کرتی ہیں کہ  پانی زریعہ تھا  اور انھی سے  غیر معبود  ابھرے ہیں۔ مگر کلام کہتا ہے کہ خداوند کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی ۔ ہمارے خداوند پانی سے نہیں ابھرے۔ اسی طرح سے سائنس کا بھی اپنا ہی نظریہ ہے۔  یرمیاہ 4:23 میں بھی یہ لفظ "تو-ہو- و- و ہو” استعمال ہوا ہے؛

میں نے زمین پر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوںکہ ویران اور سنسان ہے۔ افلاک کو بھی بے نور پایا۔

پیدائش  پہلے باب کی تیسری آیت سے پتہ چلتا ہے کہ خداوند نے روشنی کو پہلے بنایا اور جب بنایا تو انھوں نے روشنی کو اچھا کہا نہ کہ تاریکی کو۔ خداوند کو صرف کہنے کی ضرورت پڑی اور "وہ” پیدا ہو گئی۔  پہلا دن کلام کے مطابق پیدائش 1:5 میں درج ہے جسکے مطابق اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔ سو پہلا دن ہوا۔  حالانکہ ہماری اپنی رائے کے مطابق  خدا نے سورج اور چاند ستاروں کو دنوں اور برسوں کے امتیاز کے لئے رکھا ہے۔ ابن عزرا، یہودی دانشور جو کہ قبالاح کے علم میں ماہر تھے  انھوں نے صاف کہا کہ ایک دن  حلقے کی گردش پر ہے۔ ویسے ہی جیسے کہ سائنس بتاتی ہے۔ نوٹ کریں کہ کلام کے مطابق ایک دن کا آغاز شام سے شروع ہوا۔

دوسرے دن کی تخلیق کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ نیچے کا پانی اوپر کے سے جدا ہو۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر خداوند نے پانی کو کب بنایا؟ ویسے تو یہودی دانشوروں کی بہت سی کمنٹریاں سننے پڑھنے کو موجود ہیں مگر میں فی الحال کے لئے ایک خاص پوائنٹ شئیر کر رہی ہوں۔ ربیوں کے مطابق چونکہ کلام میں آسمان پہلے لکھا ہے (اردو کلام میں نہیں بلکہ عبرانی میں) تو عبرانی آسمان میں درج لفظ پانی کی تخلیق کو بھی بیان کرتا ہے۔ عبرانی سٹوڈنٹس یا عبرانی پڑھنے بولنے والے اس بات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ عبرانی کلام میں آسمان کے لئے لفظ ہاشمائیم، HaShamayim הַשָּׁמַיִם” استعمال ہوا ہے۔ عبرانی میں پانی کے لئے لفظ ہے "مائیم، מַיִם, Mayim״۔ اب اگر آپ لفظوں کو میچ کر پا رہے ہیں تو شاید آپ سمجھ گئے ہیں کہ وہ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں۔

دوسرے دن کی تخلیق میں ہم یہ نہیں پڑھتے کہ اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔۔۔۔ آخر کیوں؟ اوپر اور نیچے کے پانی میں جدائی، درمیان میں فضا۔ خداوند کو اپنے لوگوں سے دوری پسند نہیں۔ تیسرے دن جب خداوند نے جب گھاس، بوٹیوں اور پھل دار درختوں کو پیدا کیا تو بھی خداوند نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ ہر دن کے لئے نوٹ کریں کہ شام ہوئی اور صبح ہوئی اور ۔۔۔دن ہوا۔

 خدا نے سورج، چاند اور ستارے چوتھے دن بنائے۔  اور اس پیدائش 1:14 کا ہم عبرانی میں مطالعہ ضرور کریں گے۔

ויאמר אלהים יהי מארת ברקיע השמים להבדיל בין היום ובין הלילה והיו לאתת ולמועדים ולימים ושנים׃

מארת، ماروت”، اسکا اردو کے کلام میں اسکا ترجمہ "نیر” ہے۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ سورج، چاند اور ستاروں کے بنانے سے پہلے ہی خداوند نے رات اور دن مقرر کیے اور روشنی بھی انکے وجود سے پہلے بنائی گئی۔ عبرانی کیلنڈر ہمارے رومن کیلنڈر سے مختلف ہے۔ عبرانی کیلنڈر  سورج اور چاند دونوں کی گردش پر  بنیاد ہے۔  جسکی وجہ سے ہر کچھ عرصے کے بعد عبرانی کیلنڈر میں تیرہواں مہینہ ڈالا جاتا ہے کیونکہ ورنہ  اسکے مطابق سال کے 354 دن بنتے ہیں۔ لہذا  آخری مہینے کو ادار 1اور ادار 2 کہا جاتا ہے۔  ایسا کرنے سے  خدا کی مقرر کردہ عیدیں اپنے وقت یعنی بہار اور خزاں میں ہی رہتی ہیں ہم اسکی تفصیل دوسرے آرٹیکل میں پڑھیں گے۔

מועדים، عبرانی لفظ "مویدیم” ہے جسکا مطلب "میٹنگ” ہے۔ آپ  اگر کام کرتے ہیں تو آپ کو اچھی طرح سے علم ہوگا کہ” میٹنگ” کے لیے پہلے سے ہی وقت مقرر کیا جاتا ہے، چاہے ایمرجنسی میٹنگ ہی کیوں نہ بلوانی پڑے۔  "موید”  واحد ہے "مویدیم” کی اور اسکے یہ مطلب بھی ہو سکتے ہیں” مقرر کردہ وقت، اپانٹمنٹ ، تہوار یا عیدیں”۔  خداوند نے سورج، چاند اور ستارے نشانیوں کے لیے اور خداوند کی عیدوں کے لیے بنائے تھے۔ جی زمانوں اور دنوں اور برسوں کے لیے بھی تاکہ ہم جان سکیں کہ کب ہمیں خداوند کی عیدوں کی تیاری کرنی ہے کونسی عید سال کے کس دن پڑے گی۔ خداوند نے یہ ستاروں کا علم آپ کو اپنا مستقبل دیکھنے کے لیے نہیں رکھا کہ آپ اس پر اپنے مستقبل کا بھروسہ کریں گو کہ لوگ اس علم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں مگر خداوند ثابت کرتے ہیں کہ انکے اختیار میں سب کچھ ہے۔ خداوند کے مقرر کردہ تہوار بہار اور خزاں میں پڑتے ہیں۔  عید فسح، بےخمیری روٹی کی عید اور  پہلے پھلوں کی عید ہے جو کہ بہار کی عیدیں ہیں، عید پنتیکوست گرمیوں میں پڑتی ہے۔ یوم تیروعہ، یوم کفارہ اور عید خیام خزاں کی عیدیں ہیں۔ اسکے علاوہ  کچھ اور بھی عیدیں ہیں یہ عیدیں ہم پر لازم ہیں۔ انکے بارے میں تفصیل سے ہم پھر کبھی پڑھیں گے۔

میں اس آرٹیکل کو ابھی یہیں ختم کرتی ہوں ہم کل باقی باب کو دیکھیں گے۔  خداوند آپ کو برکت دیں اور آپ کے علم میں اور بھی اضافہ کریں۔ آمین