(آستر کی کتاب (چھٹا حصہ

پچھلے مطالعے میں ہم نے پڑھا کہ ہامان نے اپنی بیوی اور دوستوں کے کہنے پر مردکی کے لیے سولی بنوائی۔ سولی پر کسی کو چڑھانا ہمیشہ سے بے حرمتی کا نشان رہا ہے۔ مسیح کے سولی پر مصلوب ہونے کے بعد سے صلیب مسیحیوں کی پہچان بن گئی ہے مگر امریکہ  اور بہت سے مغربی ملکوں میں بہت سے لوگ بڑی بڑی صلیبیں اپنے گلے میں پہنتے ہیں مگر وہ لوگ بزات خود مسیحی نہیں۔ صلیب کے مختلف ڈیزائن آپ کو مختلف ثقافتوں/تہزیبوں میں نظر آئیں گے۔ کچھ ڈیزائن زمانہ قدیم کے دیوتاوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج کے مسیحی لوگ صلیب کی تاریخ جانے بغیر خوشی خوشی صلیب اسلیے پہنتے ہیں کہ یہ مسیح کے سولی پر مصلوب ہونے کا نشان ہے اور ہماری نجات کی علامت ہے۔ بلاشبہ یہ ہماری نجات کی علامت ہے مگر جب بھی کبھی کوئی  چیز خدا سے برتر ہو جائے تو بہتر ہے کہ اس کو ختم کر دیا جائے کیونکہ یہی خدا کا حکم بھی ہے خروج 20باب کی 3 سے6 آیت میں جو کہتا ہے؛

میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تو انکے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ انکی عبادت کرنا کیونکہ میں تیرا خدا غیور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں انکی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں۔ اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔

خدا سے محبت رکھنا اور اسکے حکموں کو ماننا، صلیب کو گلے میں لٹکانے سے زیادہ افضل ہے۔  اگر آپ گوگل google, پر صلیب کی مختلف شکلیں دیکھیں گے تو آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ انجانے میں غیر معبودوں کی سولی کے نشانات آپکے اپنے گھروں یا جاننے والوں میں بھی موجود ہیں۔ میں نے بھی صلیب اور داود بادشاہ کا ستارہ  (سٹار آف ڈیوڈ) اپنے گلے میں پہنا ہوا ہے ،  میرے لیے انکی اہمیت کلام کی بنیاد پر ہے صرف یاددہانی کے طور اسکی اہمیت گلے کے زیور سے زیادہ نہیں ۔

آستر 6 میں لکھا ہے کہ اس رات بادشاہ کو نیند نہ آئی سو اس نے تورایخ کی کتابوں کے لانے کا حکم دیا اور وہ بادشاہ کے حضور پڑھی گئیں۔ وہ بھی پڑھا گیا کہ کیسے مردکی نے دربانوں میں سے بادشاہ کے دو خواجہ سراؤں بگتانا اور ترش کی مخبری کی تھی جو بادشاہ اخسویرس کی جان لینا چاہتے تھے (آستر 2)۔ بادشاہ نے اپنے ملازموں سے پوچھا کہ مردکی کو اسکا صلہ کیسے دیا گیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ جب مردکی نے بادشاہ کی جان بچائی تھی تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسکو اسی وقت صلہ دیا جاتا مگر کسی بنا پر ایسا ہو نہیں پایا۔  بادشاہ نے پوچھا کہ بارگاہ میں کون موجود ہے؟ ادھر ہامان آیا ہوا تھا کہ بادشاہ سے عرض کرے کہ مردکی کو سولی پر چڑھایا جائے لہذا ملازموں نے کہا کہ ہامان ہے۔ بادشاہ نے کہا اسے اندر آنے دو۔ جب وہ اندر آیا تو اس سے پیشتر کہ وہ عرض کرسکتا بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ "جسکی بادشاہ تعظیم کرنا چاہتا ہے اس شخص سے کیا کیا جائے؟” ہامان نے دل میں سوچا کہ بادشاہ شاید اسکو تعظیم دینا چاہتا ہے لہذا اس نے اپنے دل کی خواہش کے مطابق صلاح دی کہ اس شخص کے لیے جسکی بادشاہ تعظیم کرنا چاہتا ہے بادشاہ کا شاہانہ لباس پہنا کر اس گھوڑے پر جس پر بادشاہ سواری کرتا ہے اور شاہی تاج پہنا کر، گھوڑے پر سوار کر کے شہر کے شارع عام میں پھرایا جائے اور امرا میں سے ایک اسکے آگے آگے منادی کرے کہ جس شخص کی بادشاہ تعظیم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا۔ تب بادشاہ نے اسے کہا جلدی سے اپنے کہے کے مطابق وہ یہودی مردکی سے جو بادشاہ کے پھاٹک پر بیٹھا ہے ایسا ہی کرے اور اس میں کچھ کمی نہ ہونے دے۔ مرتا کیا نہ کرتا ہامان کو مجبوراً بادشاہ کا حکم ماننا پڑا۔

 ہامان نے شاہی لباس اور گھوڑا لیا اور مردکی کو گھوڑے پر بیٹھا کر اسکے آگے آگے منادی کرتا گیا کہ جس شخص کی بادشاہ تعظیم کرنا چاہتا ہے اسکے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا۔ مردکی واپس پھاٹک پر لوٹا اور افسردہ ہامان سر ڈھانک کر گھر لوٹا اپنی بیوی زرش اور دوستوں کو بتانے کے لیے کہ اسکے ساتھ کیا ہوا۔ تب اسکے دانشمندوں اور بیوی نے کہا کہ اگر مردکی یہودی نسل سے ہے تو تو اس پر غالب نہ ہو سکے گا بلکہ ضرور اسکے آگے پست ہوجائے گا۔ جب وہ یہ بات کر ہی رہے تھے تو بادشاہ کے خواجہ سرا آئے ہامان کو آستر کی تیار کردہ ضیافت پر لے کر جانے کے لیے۔

ایک رات پہلے ہامان منصوبے باندھ رہا تھا کہ وہ کیسے بادشاہ سے عرض کرکے اپنے خاندان کے عرصہ دراز دشمن کو نیچا دکھائے گا اور بلاخر ختم کر دے گا۔ ہامان کے گھر کے باہر 75 فٹ کی سولی تھی جس پر اسکے ارادے کے مطابق مردکی کو ہونا چاہیے تھا مگر اسکی بجائے وہ بادشاہ کے گھوڑے پر بیٹھ کر تمام عوام کے سامنے سربلند ہوا اور اسکا دشمن اسکے آگے آگے اسکی عزت میں منادی کرتا پھر رہا تھا۔ خدا کا کلام سچا ہے جو کہتا ہے (امثال 29:23)

 آدمی کا غرور اسکو پست کرے گا اور جو دل سے فروتن ہے عزت حاصل کرے گا۔

مردکی کو اگر بادشاہ اسی دن صلہ دے دیتا تو شاید آج کے دن اسکی اس طرح سے عزت افزائی نہیں ہونی تھی، شاید اسکو بادشاہ کوئی معمولی تحفہ دے کر فارغ کر دیتا مگر مردکی کے پیچھے چونکہ خدا کا ہاتھ تھا اسلیے مردکی کے صبر کے بدلے میں خدا نے اسکو تب سب کے سامنے عزت دی جب اسکا دشمن اسکی عزت خاک میں ملانا چاہتا تھا۔ کیا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ آپ نے کسی کے ساتھ نیکی ہو اور کسی نے اس نیکی کی شاباش آپ کو ابھی تک نہیں دی؟ کیا آپ کے دشمن ہیں جو آج آپ کی عزت خاک میں ملانے کے موقعے ڈھونڈ رہے ہیں؟ آپ اس کہانی سے تسلی پا سکتے ہیں کہ خدا آپ کی کی ہوئی نیکی کا صلہ رائیگا نہیں جانے دے گا اور تب جب آپ کے دشمن آپ کو ختم کرنے کی سوچ رہے ہونگے وہ ان سے آپ کی عزت کے چرچے کروائے گا۔ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں وفادار ہے؛ کیا آپ اسکا حکم ماننے میں وفادار ہیں؟ مردکی کو جب تمام امید کی کرنیں ختم ہوتی دکھائی دے رہیں تھیں خدا نے اسکی امید کو پھر سے اجاگر کیا۔ جب مردکی کو ایسا لگ رہاتھا کہ کوئی بھی نہیں اس پر غور کر رہا خدا نے اسکو دکھایا کہ وہ اسکے تمام اچھے اعمال کو بھولا نہیں۔ دوسری طرف اگر ہامان کے حساب سے سوچا جائے تو جب اسے سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا ایسا نہیں تھا اسکا گھمنڈ اسکے خلاف کام کر رہا تھا۔ اگر آپ کو پیدائش 12 میں خدا کا ابراہام سے کیا گا وعدہ یاد ہے تو یہ بات اس پر ٹھیک بیٹھ رہی تھی کیونکہ جیسا میں نے کہا کہ خدا اپنے وعدے پورا کرنے میں وفادار ہے۔ پیدائش 12:2 اور 3 میں خدا نے ابراہام کو کہا تھا؛

اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناونگا اور برکت دونگا اور تیرا نام سرفراز کرونگا۔ سو تو باعث برکت ہو! جو تجھے مبارک کہیں انکو میں برکت دونگا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلہ تیرے وسیلہ سے برکت پائینگے۔

ہامان کی بیوی زرش اور اسکے دانشمندوں کے آخری الفاظ سے لگتا ہے کہ انھیں اس بات کا علم تھا تبھی وہ اسکو کہہ رہے تھے کہ ہامان، مردکی پر غالب نہ آ سکے گا۔

کیا آج آپ بہت سے مسیحیوں کی طرح یہودیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں؟ ذرا سوچیں یشوعا بھی یہودی تھا آپ صرف یہودیوں کو نہیں بلکہ اسے بھی ساتھ میں ملا رہے ہیں۔  اور کیا آپ کے دشمن جانتے ہیں کہ وہ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے خدا سے پنگا لے رہے ہیں؟ خدا آپکی خاطر ضرور ان سے لڑے گا اور انکو نیچا کر دکھائے گا۔ آستر کی کہانی کا باقی مطالعہ ہم اگلی بار کریں گے۔