(آستر کی کتاب (چوتھا حصہ
پچھلی بار ہم نے پڑھا تھا کہ کیسے عمالیقیوں کی قوم پہلی قوم تھی جنھوں نے اسرائیلیوں پر حملہ کیا تھا جب خدا انھیں مصر سے نکال کر لایا تھا، تھکے ماندہ لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے۔ جب بھی ہم مشکل میں ہوتے ہیں تبھی شیطانی عمالیقی روح ہم پر حملہ کرتی ہے۔ اگر آج آپ پر عمالیقی روح نے حملہ کیا ہے تو اسکو یشوعا کے نام میں بھگا دیں۔
آج ہم آستر کی کہانی کا آگے مطالعہ کریں گے۔
آستر کو ملکہ بنے کتنے سال ہوگئے تھے مگر بادشاہ کو پھر بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ یہودی ہے۔ جب مردکی کے بارے میں ہامان کو پتہ چلا کہ وہ یہودی ہے تو ہامان نے سال بھر لگایا تاکہ وہ تمام یہودیوں کو جو اخسویرس بادشاہ کی سلطنت میں رہ رہے تھے ہمیشہ کے لیے ہلاک کر سکے۔ اس نے بادشاہ کے سامنے عرض کی کہ ایک قوم ایسی ہے جو بادشاہ کے قوانین نہیں مانتے اسلیے انکا زندہ رہنا بادشاہ کے لیے فائدہ مند نہیں۔ بادشاہ نے اسے چاندی (پیسہ) مہیا کیا تاکہ وہ لوگوں کو ہلاک کرنے کا حکم پورا کر سکے۔ بادشاہ نے ہامان کو اپنی انگوٹھی دی تاکہ ہامان اسکے نام کی مہر لگا کر یہودیوں کو ہلاک کرنے کا فرمان جاری کر سکے۔ ہامان نے بغیر وقت ضائع کیے ہر صوبہ کے حاکموں اور ہر قوم کے سرداروں کو پہلے مہینے (نسان کا مہینہ) تیرھویں تاریخ کو (نسان 14کو عید فسح منائی جاتی ہے، احبار 23) حکم کیا کہ بارھویں مہینے یعنی ادار کےمہینے کی تیرھویں تاریخ کو سب یہودیوں کو، جوان، بچے، بوڑھے اور عورتوں سمیت ایک ہی دن میں قتل کر کے انکا مال لوٹ لیں۔
مردکی کو جب معلوم پڑا تو وہ ٹاٹ پہن کر اور سر پر راکھ ڈال کر شہر کے بیچ چلا گیا اور بادشاہ کے پھاٹک کے سامنے بھی آیا، تمام یہودیوں نے بھی ٹاٹ پہنا اور راکھ سر پر ڈال کر روزہ رکھا۔ مردکی کو ایسا دیکھ کر آستر نے ہتاک، بادشاہ کے خواجہ کو مردکی کے پاس بھیجا پوچھنے کے لیے کہ وہ کیوں پشیمان ہے۔ مردکی نے سارا ماجرا بیان کیا اور فرمان کے نقل کی تحریر اسے دے کر کہا کہ اگر آستر بادشاہ کے حضور جا کر اسکے حضور اپنی قوم کے لیے درخواست کرے۔ ویسا ہی ہتاک نے آستر سے بیان کیا۔ آستر نے ہتاک کو کہا کہ مردکی کو بتائے کہ کوئی بھی بن بلائے بادشاہ کی بارگاہ میں نہیں جا سکتا کیونکہ قانون ہے کہ وہ ماردیا جائے سوائے اس شخص کےجس پر بادشاہ اپنے سونے کا عصا اٹھائے کہ زندہ چھوڑ دیا جائے اور بادشاہ نے آستر کو 30 دنوں سے نہیں بلایا ہے۔ ہتاک نے جب مردکی کو آستر کا پیغام دیا تو مردکی نے کہا کہ آستر کو یہ کہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ بچی رہے گی کیونکہ وہ محل میں ہے۔ اگر اس وقت وہ خاموشی اختیار کرے گی تو یہودیوں کے لیے نجات کسی اور جگہ سے آئے گی پر وہ اپنے باپ کے خاندان سمیت ہلاک ہو جائے گی اور کیا جانے کہ وہ ایسے وقت کے لیے ہی سلطنت میں پہنچی ہے۔ تب آستر نے مردکی کے پاس یہ جواب بھیجا کہ سوسن کے تمام یہودی اکٹھے ہو کر تین روز دن اور رات روزہ رکھیں اور تیسرے دن وہ بادشاہ کے حضور جائے گی۔ اگر وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق ہلاک کر دی گئی تو وہ تیار ہے۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آج آپ جس حالت میں ہیں شاید خدا نے آپ کو کسی بڑے کام کے لیے تیار کیا ہے یا کر رہا ہے؟ آستر نے مردکی کو باقی تمام یہودیوں کے ساتھ مل کر آستر کے لیے روزہ رکھنے کو کہا تھا تاکہ خدا اسکی ہمت باندھے اور وہ اپنا کام انجام دے سکے چاہے اسکا نتیجہ اسکی موت ہی کیوں نہ ہو۔
ٹاٹ پہن کر سر پر راکھ ڈالنا آپ کو کلام میں جہاں کہیں بھی نظر آئے گا وہ ماتم کرنے، توبہ کرنے اور اپنے آپ کو خدا کی نظر میں عاجز ٹھہرا کر خدا کے رحم کی نظر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ روزہ رکھنا بھی اس قسم کی ہی علامت ہے کہ ہم دنیاوی باتوں کو ترک کرکے خدا کی طرف روحانیت میں قبول کر لیے جائیں۔ کیا آج آپ کسی بڑی مشکل میں ہیں؟ کیا آپ کسی سے کہہ سکتے ہیں اگر وہ آپ کے ساتھ عظیم بادشاہ یشوعا کے سامنے حاضر ہو کر آپ کے لیے فریاد کر سکے، اگر آپ خود فریاد نہیں کر سکتے؟ مجھے علم ہے کہ خدا اپنے لوگوں/اپنی بھیڑ کو نام بنام جانتا ہے اور اگر آپ اسکے سامنے حاضر ہونگے تو وہ آپکی فریاد کو ضرور سنے گا مگر میں اس بات کی اہمیت کو بھی نہیں جھٹلا سکتی کہ جب مصیبت بڑی ہے تو ہمیں اپنے ساتھ اور روحانی لوگوں کی ضرورت ہے جو ہماری حوصلہ افزائی کرسکیں۔ یشوعا نے متی 18:20 میں کہا؛
جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہونگے وہاں میں انکے بیچ میں ہوں۔
واعظ کے 4 باب کی 9، 10 اور 12 آیات میں لکھا ہے؛
ایک سے دو بہتر ہیں کیونکہ انکی محنت سے انکو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ گریں تو ایک اپنے ساتھی کو اٹھائےگا لیکن اس پر افسوس جو اکیلا ہے جب وہ گرتا ہے کیونکہ کوئی دوسرا نہیں جو اسے اٹھا کھڑا کرے۔
اور اگر کوئی ایک پر غالب ہو تو دو اسکا سامنا کرسکتے ہیں اور تہری ڈوری جلد نہیں ٹوٹتی۔
جب آپ چرچ جاتے ہیں تو آپ اپنے ایمان کے لوگوں سے ملتے ہیں جو آپ کا دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔ کیونکہ عبرانی 10 باب 24 اور 25 میں لکھا ہے؛
اور محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لیے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اسی قدر زیادہ کیا کرو۔
گو کہ اردو کی آیت میں "نصیحت” لکھا ہے مگر یونانی میں جو لفظ استعمال ہوا ہے اسکا مطلب ہے "حوصلہ دینا، تسلی دینا۔” اگر آپ چرچ نہیں جا سکتے تو کیا کوئی آپ کا ایسا ملنے والا ہے جو آپ کو حوصلہ دیتا رہے جب جب آپ کو ضرورت پڑے؟ اگرنہیں تو خدا سے دعا مانگیں خدا آپ کی ملاقات کسی ایسے سے کروائے گا جو آپ کو حوصلہ دے سکے یا پھر شاید آپ اسی آرٹیکل کی طرح کا کچھ ایسا پڑھ پائیں گے جو خدا کی طرف سے آپ کے حوصلے کا باعث بن سکے گا۔
آستر کی کتاب کا باقی اہم مطالعہ ہم اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔