(آسترکی کتاب (دوسرا حصہ

پہلے حصہ میں ہم نے یہ سیکھا کہ کیسے اخسویرس بادشاہ کا تکبر اپنی بیوی کی وجہ سے لوگوں میں خاک میں مل گیا۔۔ ہمیں علم نہیں کہ کیا وشتی  اچھی بیوی تھی اور کیا وہ  بادشاہ کی بات مان لیتی  اگر اسے اپنے شوہرکی عزت کاخیال ہوتا۔  صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ اسے قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا تبھی اس نے قانون کے مطابق چلنا پسند کیا اور شاید یہ بات وشتی کو بھی معلوم تھی کہ بادشاہ اس کا کچھ ایسے نہیں بگاڑ سکتا تھا۔  بادشاہ نے اپنے دانشمندوں سے پوچھا تھا کہ قانون کیا کہتا ہے کہ ملکہ کے ساتھ کیا کیا جائےجواب میں مموکان (بادشاہ کا خواجہ) نے مشورہ دیا کہ بادشاہ شاہی فرمان بھیجے کہ وشتی پھر کبھی بادشاہ کے حضور میں نہ آئے گی اور اسکا رتبہ کسی اور کو جو اس سے بہتر ہو عنایت کیا جائے گا۔  یہ مموکان کا مشورہ تھا نہ کہ قانون ملکہ سے اس طرح سے پیش آنے کو کہہ رہا تھا۔ بادشاہ کا شاہی فرمان ایسا تھا کہ بدلا نہیں جا سکتا تھا (آستر 1:19) اور یہی بات ہمیں دانی ایل کے 6، 8 اور 12 باب میں بھی نظر آتی ہے۔ بادشاہ نے تمام صوبوں میں فرمان جاری کیا  جس کے مطابق تمام مرد اپنے گھر پرحکومت کرے اور عورتیں اپنے شوہروں کی ہر بات کی عزت کریں ۔  کلام بیویوں کو اپنے شوہر کے تابع رہنے کا ہی حکم دیتا ہے (افسیوں 5:22) مگر خدا نے ساتھ میں عورت کو مرد کا مددگار بھی   بنایا ہے(پیدائش 2:18)۔ اس مضمون کے بارے میں ہم پھر کبھی مطالعہ کریں گے۔ اب آستر کے 2 باب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

کچھ عرصے کے بعد (کتنا عرصہ یہ معلوم نہیں کیوں کے لکھا ہے کہ آستر اسکے سامنے اسکی بادشاہت کے ساتویں سال کے دسویں مہینے میں پیش کی گئی۔ آستر 2:16۔ تاریخ کی کتابیں بیان کرتیں ہے کہ بادشاہ اخسویرس نے ملک گریس پر حملہ کرکے قبضہ کرنا چاہا مگر ناکام رہا، شاید یہ اسکے بعد کا عرصہ ہے۔)؛  جب بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسکے ملازموں نے مشورہ دیا کہ بادشاہ کے لیے جوان خوبصورت کنواریاں ڈھونڈی جائیں اور ہیجا کے سپرد کی جائیں تاکہ وہ انکو بادشاہ کے سامنے پیش کرنے سے پہلے پاکیزہ کر سکے، ایک طرح سے بیوٹی کورس کہہ لیں۔

دوسرے باب میں مردکی جو بنیمینی (ساول کے گھرانے سے) تھا اسکا ذکر ہے کہ کیسے اس نے اپنے چچا کی بیٹی ہدساہ یعنی آستر کو پالا تھا کیونکہ اسکے ماں باپ نہ تھے۔ اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ مردکی کی شادی ہوگئی ہوئی تھی یا نہیں۔ آستر 2:6 بیان کرتی ہے کہ قیس (مردکی کے باپ دادا) یروشلیم سے بابل (سوسن ) نبوکدنظر کے دور میں گیا تھا (2سلاطین 24:15)۔ وہی وقت جب دانی ایل بابل لے جایا گیا تھا۔

 آستر کا اصلی نام "ہدساہ” تھا نہ کہ آستر۔ ہدساہ عبرانی لفظ "ہدس” سے اخذ ہوا ہے جو کہ "سدا بہار خشبودار درخت” ہے اور آستر کا مطلب ہے "چھپا ہوا” ایک اور مطلب "ستارہ” بھی ہے مگر اگر آپ اسکے نام کا مطلب "چھپا ہوا” سوچیں گے تو کہانی زیادہ معنی خیز دکھائی دے گی کیونکہ یہودی لوگ بچوں کا نام انکے حالات کے مطابق دیتے تھے۔ اور آستر کے دونوں نام اسکے کردار کے مطابق معنی خیز ہی ہیں۔

بادشاہ کے فرمان کے مطابق جب بہت سی کنواریاں ہیجا کے سپرد کی گئیں تو ان میں آستر بھی تھی۔ مردکی نے اسکو اپنا خاندان اور قوم کو ظاہر کرنے سے منع کیا تھا۔ یہ سب کی سب عام عورتیں تھیں اور ہیجا کا کام تھا کہ انکو محل کےدستور کے مطابق سامان مہیا کرے۔ ان تمام کنواری عورتوں کی زندگی ایک طرح سے یہیں ختم ہو گئی کیونکہ بادشاہ چاہے انکو اپنی ملکہ بنائے یا نہ بنائے وہ اسکے محل میں داشتہ کی طرح ساری عمر گزارنے کے لیے چن لی گئیں تھیں۔ یہ معلوم نہیں کہ آستر کو کون لایا تھا تاہم کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ یہودی ہے۔ جب بادشاہ کا دل چاہتا وہ ان پہلے پیش کی گئی عورتوں کو نام سے بلاتا مگر بیوی کے طور نہیں بلکہ صرف دل بہلانے کے لیے۔ لکھا ہے کہ ہیجا کو آستر پسند آئی اور اس نے اس پر مہربانی کی اور اسے ایسی سات سہیلیاں جو اسکے لائق تھیں اسے دیں اور اسے سب سے اچھی جگہ رکھا۔ مردکی  ہر روز دریافت کرتا کہ آستر کیسی ہے اور اسکا کیا حال ہوگا۔  جب خدا انسان پر مہربان ہوتا ہے تو وہ برے حالات میں بھی اسکے لیے اچھی چیزیں مہیا کر دیتا ہے۔ کہنے کو تو ہیجا آستر پر مہربان تھا مگر اگر خدا آستر کو اسکی نظر میں اعلی نہ ٹھہراتا،  وہ آستر پر مہربان نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر آپ ابھی کسی ایسی مشکل سے گزر رہے ہیں جس میں آپ مجبور ہیں تو خدا سے اپنے لیے دعا مانگیں کہ وہ آپ پر مہربانی کی نظر کرے اور دوسروں کو آپ پر مہربانی دکھانے میں تیار کرے جو آپ کو اچھا مہیا کر سکیں۔

آستر جب ہیجا کے سپرد تھی تو اس نے کچھ بھی نہیں مانگا سوائے اسکے جو ہیجا نے تجویز کیا۔ اردو کے ترجمہ کی 15 آیت میں تھوڑا سا مختلف بیان ہے مگر اصل ترجمہ یہی دکھاتا ہے کہ وہ ہیجا کے مشورہ کے مطابق چلتی تھی۔ اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ وہ فرمانبردار لڑکی تھی اسی وجہ سے ہر کوئی اسکو پسند کرتا تھا ( 15آیت)۔

جب آستر کی باری آئی بادشاہ کے سامنے حاضر ہونے کی تو وہ بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے اسکے سر پر شاہی تاج رکھا اور وشتی کی جگہ ملکہ بنایا۔ اس نے بڑی ضیافت دی۔ لکھا ہے کہ آستر، مردکی کا حکم ایسے ہی مانتی تھی جیسے اس وقت جب وہ اسکے ہاں پرورش پا رہی تھی۔شاید وہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہی چنی گئی تھی۔

جب دوسری بار کنواریاں اکٹھی کی گئیں تو مردکی  ان دنوں بادشاہ کے پھاٹک پر بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ کے خواجہ سراؤں میں سے دو نے جو دروازے پر پہرا دیتے تھے بادشاہ کو مارنے کی سازش کی مگر یہ بات مردکی کو معلوم ہوئی تو اس نے آستر کو بتائی۔ آستر نے بادشاہ کو مردکی کا نام لیکر اس بات کی خبر دی اور جب بادشاہ نے اس بات کی تحقیق کی تو بات سچ ثابت ہوئی اور ان دونوں کو درخت پر لٹکا دیا گیا۔ آخری آیت میں لکھا ہے کہ یہ بات بادشاہ کے سامنے تورایخ کی کتاب میں لکھ لی گئی۔

آپ کا بادشاہ خدا ہے کیا آپ اپنے بادشاہ کے فرمانبردار ہیں؟  آپ نے آج اس باب سے کیا سیکھا ہے؟ جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتی ہوں تو اکثر سوچتی ہوں کہ خدا میری زندگی کے ہر قدم پر مجھ پر کتنا مہربان تھا اور اب بھی ہے۔ آپ آج اسکی کس مہربانی کے شکرگزار ہیں؟

خدا مجھے اورآپ کواسکی فرمانبردار اولاد ٹھہرائے۔ آمین۔