(آستر کی کتاب (پہلا حصہ
اب ہم آسترکی کتاب کا مطالعہ کریں گے اس میں یہودیوں کے ایک تہوار "پوریم” کے منانے کا قصہ قلمبند ہے۔ پوریم وہ تہوار ہے جو یہودیوں کو انکی موت سے معجزانہ نجات کی یاد دلاتی ہے۔ یہ وہ تہوار ہے جسکا خدا نے منانے کا حکم نہیں دیا ہے مگر کلام کے مطابق مردکی نے سال بسال اسے منانے کی تاکید کی تھی (آستر9) اس سال (2014 میں) پوریم 15 سے 16 مارچ کو منایا جائے گا۔ آئیں اسکی کہانی آستر کی کتاب میں سنتے اور سیکھتے ہیں۔
آستر اور روت کی کتاب؛ کلام کی دو کتابیں ایسی ہیں جن کا نام عورتوں کے نام پر مشتمل ہے۔ آستر کی کتاب کے واقعات اخسویرس بادشاہ کی بادشاہت کے دوران پیش آئے۔ گو کہ کوئی نہیں جانتا کہ اصل میں کس نے آستر کی کتاب لکھی ہے مگر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ شاید عزرا یا مردکی نے لکھی ہو۔ کچھ لوگ جب آستر کی کتاب پڑھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شاید یہ صرف ایک کہانی ہے جسکی کوئی سچائی نہیں مگر کتاب کے بیانات اس پر زور دیتے ہیں کہ یہ واقعات حقیقتاً میں پیش آئے (آستر 10:2 اور 2:23 پڑھیں)۔
آستر کی کتاب میں کہیں پر بھی خدا کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ خدا کا نام نہ موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کہانی میں خدا کا ہاتھ نہیں۔ کلام کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں خدا کا پیغام نہ ہو۔ آپ آستر کی کتاب کلام میں خود پڑھیں گے میں صرف وہی آیتیں لکھوں گی جسکے لکھنے کی ضرورت سمجھوں گی۔
آپ کلام سے آستر 1 پورا پڑھیں ۔
آستر کی کہانی ان دنوں کی ہے جب اسرائیل کو خدا نے بابل دربدر کر دیا تھا۔ اخسویرس بادشاہ کی سلطنت ہندوستان سے کوش تک بیان کی جاتی ہے۔ اس نے اپنی سلطنت کے تیسرے سال میں ایک سو اسی دنوں تک اپنے حاکموں اور خادموں کی ضیافت کی اپنی سلطنت اور عظمت دکھانے کے لیے مگر اسکے بعد بھی اپنی سلطنت اور اپنی عظمت دکھانے کے لیے اخسویرس نے قصر سوسن کے اپنے شاہی محل میں سات دن تک ضیافت کی۔ آستر 1 باب کی پہلی 9 آیتیں بادشاہ کی سلطنت اور شاہانہ ضیافت کو بیان کرتی ہیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اپنی سلطنت اور عظمت پر گھمنڈ تھا۔ تارٰک کے مطابق آثار قدیمہ کے ماہرین کو کچھ ایسے نقش بھی ملے ہیں جن کے مطابق اخسویرس نے اپنے آپ کو "عظیم بادشاہ، بادشاہوں کا بادشاہ، اس زمین کا عظیم بادشاہ” کہا ہے۔ اس نے اپنے مہمانوں کو مے کثرت سے پلانے کا حکم دیا تھا۔ ملکہ وشتی نے بھی عورتوں کی ضیافت علیحدہ سے دی ہوئی تھی۔ آستر 1:10 میں لکھا ہے کہ ساتویں دن جب بادشاہ کا دل مے سے مسرور تھا تو اسن نے اپنے خواجہ کو حکم دیا کہ وشتی ملکہ کو شاہی تاج پہنا کر بادشاہ کے حضور لائیں تاکہ وہ اسکا جمال لوگوں اور امرا کو دکھائے کیونکہ وہ دیکھنے میں خوبصورت تھی۔
اپنی سلطنت کے تکبر میں اخسویرس بادشاہ نے اپنی سلطنت کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کی نمائش کرنا برحق سمجھا۔ امثال 11:2 میں لکھا ہے؛
تکبر کے ہمراہ رسوائی آتی ہے لیکن خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔
ملکہ وشتی نے بادشاہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ہر پادری کی اس بارے میں اپنی رائے ہے۔ گو کہ کلام کچھ خاص بیان نہیں کرتا کہ کیوں ملکہ وشتی نے انکار کیا۔ کچھ پادری کہتے ہیں کہ اس نے اپنے شوہر کی دوسروں کے سامنے عزت نہیں رکھی، اسکا فرض بنتا تھا اپنے شوہر کی بات ماننے کا۔ اس سے پہلے کہ آپ دوسروں کی طرح اپنے نتیجے پر پہنچیں میں چاہوں گی کہ آپ ان باتوں کو بھی دھیان میں رکھیں جو میں بیان کرنے لگی ہوں۔
آستر کا پہلا باب بیان کرتا ہے کہ عورتوں کی ضیافت وشتی نے دی تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ کی ضیافت میں صرف مرد تھے۔ بادشاہ اور اسکے مہمان نشے میں تھے اور اسی نشے میں بادشاہ نے ملکہ کے حسن کا جمال اپنے مہمانوں کو دکھانا چاہا۔ گو کہ ہمیں یہ علم نہیں کہ انکے رواج مغربی ملکوں کی طرح تھے یا مشرقی ملکوں کی طرح کیونکہ سلطنت کافی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا وجہ تھی کہ عورتوں کی ضیافت علیحدہ تھی؟ کیا ملکہ وشتی نے اس لیے انکار کیا تھا کہ اتنے مردوں میں اس نے اکیلے سامنے پیش ہونا تھا جس سے اسکی اپنی توہین ہوتی یا وہ نشے میں ڈوبے لوگوں لے لیے دل لگی کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی، یا پھر اسکو غصہ تھا کہ بادشاہ کی دی ہوئی ضیافت میں عورتوں کو نہیں بلایا گیا تھا اور اسلیے اس نے علیحدہ سے ضیافت دی تھی؟ اور یا پھر یہ کہ وہ عورتوں کی ضیافت سے نکلنے کا وقت نہیں برباد کرنا چاہتی تھی۔ وجہ چاہے جو بھی تھی بادشاہ کی لوگوں کے سامنے رسوائی کا باعث تھی۔ وہ ان لوگوں کو اپنی عظمت دکھا رہا تھا مگراسے اپنی بیوی کی وجہ سے لوگوں میں ذلیل ہونا پڑا۔
نتیجہ یہ کہ بعد میں بادشاہ کو قانون دانوں اور ان لوگوں سے جنکو وقتوں کا امتیاز تھا رائے لینی پڑی کہ قانون کے مطابق ملکہ وشتی کے ساتھ کیا کیا جائے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ چونکہ ملکہ وشتی کی اس حرکت سے دوسری عورتوں کو بھی حوصلہ افزائی مل سکتی ہے کہ مستقبل میں وہ اپنے شویروں کی بات کا انکار کرسکیں لہذا ملکہ وشتی آئندہ پھر کبھی اخسویرس بادشاہ کے حضور نہ آئے اور اسکا رتبہ کسی اور کو عنایت کیا جائے۔ بادشاہ نے ہر صوبے میں خط بھیج دئے کہ ہر مرد اپنے گھر میں حکومت کرے اور اپنی قوم کی زبان میں اسکا چرچا کرے۔
اس سے اگلے باب کا ہم کل مطالعہ کریں گے مگر ختم کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ کیا آپ نے کبھی اپنی مغروریت میں کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے آپ کی رسوائی دوسروں کے سامنے ہوئی ہو یا کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو خدا سے بڑھ کر بلند کرنے کی کوشش کی ہے؟ امثال 29:23 میں لکھا ہے؛
آدمی کا غرور اسکو پست کرے گا لیکن جو دل سے فروتن ہے عزت حاصل کرے گا۔
گلتیوں 6:3 میں لکھا ہے؛
کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔
سب سے افضل اور عظیم ذات صرف خدا کی ہے وہ امثال 27:2 میں کہتا ہے؛
غیر تیری ستائیش کرے نہ کہ تیرا ہی منہ بیگانہ کرے نہ کہ تیرے ہی لب۔
آپ کلام سے کونسی ایسی آیت ڈھونڈ کے لکھ سکتے ہیں جو بیان کرے کہ ہمیں مغروریت کو چھوڑ کر کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ خدا آپ کو عقل وسمجھ دے تاکہ آپ گھمنڈ میں نہ پڑیں۔ آمین۔