گنتی کی کتاب، 1 باب

 آپ کلام مقدس سے گنتی 1 باب کو خود پڑھیں۔ میں ہمیشہ کی طرح صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی ضرورت سمجھوں گی۔

ہمیں گنتی 1:1سے3  میں یوں لکھا ملتا ہے؛

بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل آنےکے دوسرے برس کے دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو سینا کے بیابان میں خداوند نے خیمہ اجتماع میں موسیٰ سے کہا کہ تم ایک ایک مرد کا نام لے لے کر گنو اور ان کے ناموں کی تعداد سے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کی مردم شماری کا حساب ان کے قبیلوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق کرو۔ بیس برس اور اس سے اوپر اوپر کی عمر کے جتنے اسرائیلی جنگ کرنے کے قابل ہوں ان سبھوں کے الگ الگ دلوں کو تو اور ہارون دونوں مل کر گن ڈالو۔

خداوند نے موسیٰ نبی اور بزرگ ہارون کو مردم شماری کرنے کا حکم دیا۔ یہ گنتی کی کتاب میں درج پہلی مردم شماری ہے اس سے پہلے ہم خروج 30 باب میں مردم شماری کا پڑھتے ہیں جس کا اصل حساب ہمیں خروج 38 میں ملتا ہے۔  گنتی کی اس مردم شماری میں لاوی کا قبیلہ نہیں شمار کیا گیا کیونکہ ہم گنتی 1:47 میں پڑھتے ہیں

پر لاوی اپنے آبائی قبیلہ کے مطابق انکے ساتھ گنے نہیں گئے۔

اوپر درج پہلی آیت میں نوٹ کریں کہ بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل آنے کے دوسرے برس کے دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو سینا کے بیابان میں خداوند نے خیمہ اجتماع میں مردم شماری کرنے کا حکم دیا۔ میں ایک بار پھر سے یاد دلاتی چلوں کہ کلام کا کیلنڈر ہمارے رومن کیلنڈر سے فرق ہے۔ اسلئے یہاں فروری کے مہینے کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ ملک مصر سے بنی اسرائیل نیسان کے مہینے میں نکلے تھے، تیرہ13, مہینے ہو چلے اور وہ ابھی بھی بیابان میں ہیں۔ ایار کا مہینہ کلام کے مہینوں کے مطابق دوسرا مہینہ ہے۔ خداوند نے مردم شماری کا حکم خیمہ اجتماع سے دیا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خیمہ اجتماع جس کے بنانے کا حکم خروج کی کتاب میں ہے، بن کر کھڑا ہو چکا تھا۔

خروج 30:12 میں خداوند نے کہا؛

جب تو بنی اسرائیل کا شمار کرے تو جتنوں کا شمار ہوا ہو وہ فی مرد شمار کے وقت اپنی جان کا فدیہ خداوند کے لئے دیں تاکہ جب تو ان کا شمار کر رہا ہو اس وقت کوئی وبا ان میں پھیلنے نہ پائے۔

میں نے پہلے بھی کہیں کہا تھا کہ گنتی کی اوپر درج آیت میں "الگ الگ دلوں” کا ذکر اردو کلام میں ملتا ہے مگر کسی اور ترجمے کا مجھے علم نہیں ہے جہاں دلوں کو گننے کا ذکر ہو۔ عبرانی کلام میں "گولگولیت، ‏גֻּלְגֹּלֶת،  Gulgolet  ” لکھا ہے جسکے معنی سر یا (پھر نئے عہد کے حوالے سے آپ یاد رکھ سکیں ) کھوپڑی ہے۔ یہودی کبھی بھی سروں کو نہیں گنتے۔ مشناہ میں یوما میں درج حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ کاہنوں کو جب ہیکل میں مختلف کاموں کے لئے چنا جاتا تھا تو قرعہ اندازی کے وقت کاہن اپنے ہاتھ کی جتنی انگلیاں اٹھاتے تھے انکو گنا جاتا تھا۔ سر نہیں گنے جاتے تھے۔ شاید میں کبھی اصل وجہ ڈھونڈ پاوؐں کہ کیوں اردو کلام میں "دلوں” لکھا ہے مگر اندازہ یہی لگا سکتی ہوں کہ مطلب ڈائریکٹ گننا نہیں تھا۔ جب ایسا خداوند کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو وبا پھوٹ پڑتی ہے۔

میں بہت دفعہ پہلے بھی بیان کر چکی ہوں کہ ہمیں عبرانی کلام میں درج بہت سے لفظوں کا صحیح نہیں پتہ چل پاتا کیونکہ ہم ترجمہ پڑھتے ہیں۔ ترجمہ غلط نہیں مگر جو عبرانی لفظ بیان کرنا چاہتا ہے وہ ہم اکثر ترجمے کی بنا پر سمجھ نہیں پاتے۔ توراہ پرشاہ بمیدبار (میرے پرشاہ پر لکھے آرٹیکل کو پڑھیں)، میں "گنو” اور مردم "شماری” کے لئے دو عبرانی لفظوں کا بار بار استعمال ہوا ہے۔  ایک لفظ ہے "پکاد، פקד Pakad,”  اس کے کئی معنی ہیں میں چند لکھ رہی ہوں” ملاقات کرنا، حساب کرنا، مقرر یا تعینات کرنا، فراہم کرنا یا ذمہ داری دینا”۔ اور دوسرا "ناسا، נשא، Nasa ”  یعنی سرفراز کرنا، بلند کرنا یا اٹھانا۔  گنتی 1 باب میں عبرانی لفظ "پکاد” بار بار آیا ہے۔ اردو کلام میں جہاں "گنا، گنے” لکھا ہے وہ عبرانی میں پکاد ہے۔ زبور 8:3-4 میں یوں لکھا ہے؛

جب میں تیرے آسمان پر جو تیری دست کاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تو نے مقرر کیا غور کرتا ہوں۔ تو پھر انسان کیا ہے کہ تو اسے یاد رکھے اور آدم زاد کیا ہے کہ تو اس کی خبر لے؟

اوپر آیت میں جہاں پر اردو کلام میں لفظ "خبر” ہے وہ عبرانی میں "پکاد” ہے۔  آخر خداوند کو بار بار اسرائیلیوں کو گننے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ ہم نے خروج میں بھی مردم شماری کا پڑھا تھا مگر وہ ہیکل کی تعمیر کے ساتھ بھی جڑی تھی اور یہاں پر درج مردم شماری انکے لئے جو جنگ کرنے کے قابل ہیں۔ یہودی دانشور رشی کی نظر میں چونکہ خداوند کے لوگ خداوند کو پیارے ہیں اسلئے وہ انھیں بار بار گنتے ہیں۔ خداوند اپنے لوگوں کی خبر رکھتے ہیں۔ ایک عام انسان کی نگاہ میں دوسرے انسان کی عموماً کوئی اہمیت نہیں مگر خداوند کی نظر میں ہر ایک بشر جسے خداوند نے بنایا ہے اہمیت رکھتا ہے اور خداوند انھیں یاد رکھتے ہیں۔ آپ کو شاید لگے کہ خداوند کو آپ کی ذرا پرواہ نہیں مگر ایسا نہیں ہے تبھی خداوند نے آپ کو ابھی تک روٹی پانی سے محروم نہیں کیا ہے۔ اگر وہ آج آپ کو آپکے دن کی روٹی پانی نصیب کر رہے ہیں تو کل وہ کیوں نہیں کریں گے۔ خداوند پر توکل رکھنا سیکھیں۔ میں جانتی ہوں کہ مشکل گھڑی میں توکل کرنا آسان نہیں مگر یہی ایمان کی تعریف بنتی ہے کہ ہم ان دیکھے پر ایمان رکھیں۔

خداوند نے پیدایش 15:5 میں ابراہام سے وعدہ کیا "۔۔۔۔اگر تو ستاروں کو گن سکتا ہے تو گن اور اس سے کہا کہ تیری اولاد ایسی ہی ہوگی۔” یہ وعدہ ابھی بھی پورا ہورہا ہے۔ یہودی ابھی بھی تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔  مگر خداوند نے جو وعدہ پیدایش 12:2 میں کیا کہ وہ ابراہام کو ایک بڑی قوم بنائے گا۔۔۔ وہ ضرور پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

ایک بڑا سوال جو اکثر اس باب سے اٹھایا جاتا ہے وہ ہے ۔۔۔"اور ان سبھوں کا شمار چھ لاکھ تین ہزار پانچسو پچاس تھا۔” خروج 38 میں بھی اتنا ہی شمار بیان کیا گیا ہے، آخر کیسے؟   لاویوں کو خروج کی مردم شماری میں گنا گیا تھا مگر گنتی میں نہیں۔ یہودی دانشور اس کا سادہ سا جواب دیتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس دوران کچھ نہیں بدلا۔ ان چند مہیںوں میں بنی اسرائیل کے بہت سے مرد بیس سال کے ہوئے ہونگے جو کہ شاید پچھلی مردم شماری کے وقت انیس سال کے تھے۔

ایک اور خاص بات جو میں شئیر کرنا چاہتی ہوں  کہ آپ کو چھ لاکھ کا نمبرتوریت میں بار بار نظر آئے گا۔ زوہر ہاداش شِیر ہا شِیریم 74d کے مطابق ہرایک اسرائیلی کی جان توریت کے چھ لاکھ حروف میں سے ایک حرف ہے۔ میرا ترجمہ بہت خوب نہیں ہے۔ ویسے تو عبرانی توریت کے تین لاکھ چار ہزار آٹھ سو کچھ حروف بنتے ہیں مگر آپ کو یہ سننے کو ملے گا کہ چھ لاکھ حروف ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کچھ دانشوروں کے مطابق عبرانی توریت کے چھ لاکھ حروف خالی جگہوں (Space)کو ملا کر بنتے ہیں۔ جبکہ کچھ کے مطابق عبرانی اعراب یعنی نیقودوت کو ملا کر جو کہ توریت کے طومار میں لکھے نہیں ملتے انکو ملا کر بنتے ہیں۔  مگر بہت سوں کے مطابق چرمی کاغذ پر کالی سیاہی ہے۔ کالا لکھا نظر تو آتا ہے مگر معکوس (عکس) جو کہ سفید کاغذ پر ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ میں کچھ ایسا پہلے بیان کر چکی ہوئی ہوں کہ ہم مادی جسمانی دنیا میں رہتے ہیں جو دیکھتے ہیں اس پر یقین کرتے ہیں مگر روحانی دنیا کا تصور بھی مختلف مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ ہم بھی روحانی دنیا پر یقین رکھتے ہیں۔ بولتے یا کرتے اس جسمانی دنیا میں ہیں مگر اسکا اثر روحانی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ کالی سیاہی سفید چرمی کاغذ پر، اسکو بھی آپ ایسا ہی سوچ سکتے ہیں۔ یہودیوں کے مطابق چھ لاکھ یہودی عوام کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہر ایک حرف ایک یہودی کو۔ خداوند انکو قوم کے طور پر ملک مصر سے نکال لائے۔ وہ بیابان میں انکو ایک قوم کی حثیت کا احساس دلا رہے ہیں۔

مجھے ایسے ہی خیال آرہا تھا کہ Holocaust ہولوکاسٹ (لفظی مطلب مکمل تباہی) میں چھ لاکھ یہودیوں کو ہٹلر نے قتل کر ڈالا۔ اسکا ارداہ تمام یہودی قوم کو نیست و نابود کرنے کا تھا۔ مرنے والوں کی تعداد شاید اس سے کچھ زیادہ ہو مگر چھ لاکھ یہودی نظریے کے مطابق یہودی قوم ہے۔ ہٹلر خود تو نہیں رہا مگر یہودی قوم کو اس سانحے کے بعد ایک بار پھر سے اسرائیل کی سر زمین یعنی خداوند کے طرف سے انکو وعدے کی سرزمین نصیب ہوگئی۔ مئی 1948 میں ایک بار پھر سے اسرائیل کو آزادی ملی۔ یسعیاہ 66:8 میں یوں لکھا ہے؛

ایسی بات کس نے سنی؟ ایسی چیزیں کس نے دیکھیں؟ کیا ایک دن میں کوئی ملک پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا یکبارگی ایک قوم پیدا ہو جائے گی؟ کیونکہ صیون کو درد لگے ہی تھے کہ اسکی اولاد پیدا ہو گئی۔

اسرائیل ملک کا وجود ختم ہو گیا تھا مگر یہودی قوم کا نہیں۔ قوم بغیر زمین کے قوم نہیں رہ پاتی مگر یہودی قوم کے طور پر رہے اور پھر خداوند نے یسعیاہ نبی کی معرفت جو انکے لئے اوپر دی آیت میں پیشن گوئی کی تھی، وہ پوری کر دی، اسرائیل وجود میں آگیا۔

ان تمام باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کلام کی سچائی سے واقف ہوں سکیں۔ خداوند کی توریت سچی ہے اسکا کلام سچا ہے۔۔۔۔ "اور تم سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔ (یوحنا 8:32)”

میں اپنے اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی دفعہ ہم گنتی کے دوسرے باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کی مدد کریں اور آپ کو سچائی سے واقف کرائیں تاکہ آپ خداوند میں آزادی کی زندگی گذار سکیں۔ آمین