احبار 27 باب
آپ کلام مقدس سے احبار 27 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں ہمیشہ کی طرح صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔
اس باب میں ہم خداوند کے نام میں قسم/منت اٹھانے کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اب تو لوگ عموماً خداوند کے نام میں قسم کھانے یا منت ماننے میں خوف نہیں رکھتے مگر جس وقت یہ احکامات دئیے گئے تھے اس وقت یہ ایک سنجیدہ عمل تھا۔ استثنا 23:21 سے24 میں ہم یوں لکھا پڑھتے ہیں؛
جب تو خداوند اپنے خدا کی خاطر منت مانے تو اسکے پورا کرنے میں دیر نہ کرنا اسلئے کہ خداوند تیرا خدا ضرور اسکو تجھ سے طلب کریگا تب تو گنہگار ٹھہرے گا۔ لیکن اگر تو منت نہ مانے تو تیرا کوئی گناہ نہیں۔ جو کچھ تیرے منہ سے نکلے اسے دھیان کر کے پورا کرنا اور جیسی منت تو نے خداوند اپنے خدا کے لئے مانی ہو اسکے مطابق رضا کی قربانی جس کا وعدہ تیری زبان سے ہوا گذراننا۔
ایسا ہی کچھ ہم واعظ 5:2 سے 7 میں بھی پڑھ سکتے ہیں؛
بولنے میں جلد بازی نہ کر اور تیرا دل جلدبازی سے خدا کے حضور کچھ نہ کہے کیونکہ خدا آسمان پر ہے اور تو زمین پر۔ اسلئے تیری باتیں مختصر ہوں۔ کیونکہ کام کی کثرت کے باعث سے خواب دیکھا جاتا ہے اور احمق کی آواز باتوں کی کثرت سے ہوتی ہے۔ جب تو خدا کے لئے منت مانے تو اسکے ادا کرنے میں دیر نہ کر کیونکہ وہ احمقوں سے خوش نہیں ہے۔ تو اپنی منت کو پورا کر۔ تیرا منت نہ ماننا اس سے بہتر ہے کہ تو منت مانے اور ادا نہ کرے۔ تیرا منہ تیرے جسم کو گنہگار نہ بنائے اور فرشتہ کے حضور مت کہہ کہ بھول چوک تھی۔ خدا تیری آواز سے کیوں بیزار ہو اور تیرے ہاتھوں کا کام برباد کرے۔ کیونکہ خوابوں کی زیادتی اور بطالت اور باتوں کی کثرت سے ایسا ہوتا ہے لیکن تو خدا سے ڈر۔
کچھ منتیں یا قسمیں خداوند کے نام میں پورے تو کئے جا سکتے ہیں مگر انکا کیا بنے جو انسان بے سوچے سمجھے کرتا ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جذبات میں آ کر بغیر سوچے سمجھے منت مانگتا ہے مگر بعد میں جب منت کو پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو تب اسے خیال آتا ہے کہ وہ کچھ بڑا کہہ گیا ہے جسے اب اسکے لئے پورا کرنا مشکل ہے۔ خداوند کا کلام حکم دیتا ہے کہ وہ انسان کاہن کے حضور جائے اورفدیہ کے طور پر ٹھہری ہوئی قیمت ادا کرکے اپنے آپ کو یا اپنی کہی منت کو چھڑا لے۔ مرد کے لئے ٹھہری ہوئی قیمت عورت سے زیادہ ہے اور لڑکے کے لئے لڑکی سے زیادہ مگر جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے یعنی ساٹھ برس سے اوپر کی ہو تو عورت کے لئے ٹھہرائی گئی قیمت مرد کی قیمت کے قریب قریب آجاتی ہے۔ کاہن کو اختیار ہے کہ وہ قیمت ٹھہرائے۔ ایسا نہیں کہ کلام عورت کو برابر ی کا حق نہیں دیتا بلکہ ایسا اسلئے ہے کہ زیادہ تر مرد اختیار کے سبب سے منت مانگتے تھے۔
ایک خاص بات کو نوٹ کریں کہ جو چیز پہلے سے ہی خداوند کے لئے مخصوص ہے اسکا کوئی فدیہ نہیں ہے۔ ہر ایک مخصوص چیز خداوند کے لئے نہایت پاک ہے (احبار 27:28سے 33)۔
مسیحیوں کی سوچ یہی رہی ہے کہ یشوعا نے چونکہ شریعت کو پورا کر دیا اسلئے انہیں اب شریعت (توریت) پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اب جب بھی کبھی نئے عہد نامے کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس کی تمام تعلیم توریت کے مطابق نظر آتی ہے۔ قسموں کے حوالے سے یشوعا نے متی 5:33 سے 37 آیات میں یوں کہا؛
پھر تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کے لئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا۔ نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اسکے پاؤں کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی قسم کھان کیونکہ تو ایک بال کو بھی سفید یا کالا نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔
نوٹ کریں کہ متی 5:33 میں "جھوٹی قسم ” لکھا ہے۔ یشوعا کی تعلیم پرانے عہد نامے کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جھوٹی قسم کھانے سے بہتر ہے کہ قسم کھاؤ ہی مت کیونکہ تمہارا اپنا کیا ہے؟ نہ آسمان نہ زمین اور نہ ہی یروشلیم شہر۔ اور اگر اختیار کے حوالے سے سوچا جائے تو تب بھی تمہار ا اپنا کچھ اختیار نہیں کیونکہ تمام اختیار خداوند کے پاس ہے۔ بابلی تلمود کا ایک حصہ جو کہ خاص قسموں/وعدوں/عہد پر ہے جسے نیدریم، נדרים Nedarim, کہتے ہیں، بھی کچھ ایسی ہی تعلیم دیتا ہے کہ بہتر ہے کہ قسم نہ اٹھاؤ کیونکہ تم انہیں پورا نہیں کر پاؤگے۔ یشوعا اور انکے زمانے سے پہلے اور بعد کے یہودی دانشوروں کی تعلیم ہمیں یعقوب کے خط میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے یعقوب 5:12 میں یوں لکھا؛
مگر ائے میرے بھائیو! سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ قسم نہ کھاؤ۔ نہ آسمان کی نہ زمین کی۔ نہ کسی اور چیز کی بلکہ ہاں کی جگہ ہاں کرو اور نہیں کی جگہ نہیں تاکہ سزا کے لائق نہ ٹھہرو۔
یہودی دانشور العیزر کے مطابق "نا بھی قسم ہے اور ہاں بھی قسم ہے (شعوعوت 36a)”۔ ایسے ہی روت رباہ 7:6 کے مطابق "صادق کی ہاں، ہاں ہے اور صادق کی نا، نا ہے”۔
وعدوں اور قسموں کو آسان نہ لیں کہ زبان سے پھسل گیا ہے تو کیا ہوا کیونکہ یشوعا نے متی 12:36سے 37 میں یوں فرمایا ہے؛
اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اس کا حساب دیں گے۔ کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔
میں اپنے احبار کی کتاب کے آخری باب کے مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ خداوند کا خوف ہمیں ہمیشہ اس بات کا احساس دلائے کہ ہمیں اپنے لفظوں کا صحیح چناؤ کرنا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین