(دعائے ربانی (بارہواں حصہ
پچھلی بار ہم نے آزمائش اور امتحان کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا آپ نے کبھی خدا سے گلا کیا ہے کہ آخر کوئی برائی کا خاتما کرنے کے لیے کیوں نہیں کچھ کرتا یا کیا آپ نے کبھی کسی کو تنگی میں دیکھ کر یہ سوچا ہے کہ کوئی اس انسان کی مدد کرے۔ میں نے امتحان پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ خدا کو ابرہام اور اسکے دوسرے انبیا کی طرح کہہ سکتے ہیں "میں حاضر ہوں۔” کیوں کہ اس نے آپ کو اسی مقصد کے لیے چنا ہے کہ جو کام آپ سوچتے ہیں کہ دوسرا کرے وہ آپ کے ذمے ہے۔ اگر میں اور آپ یہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو پھر کون اٹھائے گا؟ اور اگر ابھی نہیں تو پھر کب؟ آپ اور میں ہر اایک انسان کی مدد نہیں کر سکتے مگر کسی ایک کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ خدا نے جو کام آپ کو سونپا ہے اسکو پورا کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔
آج ہم بات کرتے ہیں "بلکہ ہمیں برائی سے بچا۔”
لوقا کی انجیل میں یہ جملہ نہیں ہے مگر متی کی انجیل میں یہ موجود ہے۔ آخر یشوعا نے کس قسم کی برائی سے بچانے کی دعا سکھائی؟ اپنی جسمانی خواہشات کی برائی یا کہ پھر شیطان سے؟ میری طرح آپ بھی یہی سمجھتے آئیں ہونگے کہ اس میں صرف شیطان سے بچانے کی بات ہو رہی ہے۔
عبرانی زبان میں برائی کے لیے ” רע، را، Ra ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور یہ لفظ کلام میں سب سے پہلے پیدائش 2:9 میں نیک وبد کی پہچان کے درخت میں نظر آتا ہے۔ اور ہمیں علم ہے کہ اسی درخت کا پھل آدم اور حوا نے کھایا تھا۔ عبرانی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسکو "یتزر ھ را، יצר הרע، Yetzer HaRa ” کہتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے "برائی کی طرف رحجان یا جھکاؤ” اسی کا الٹ ہے "یتزر ھا توو، יצר הטוב Yetzer HaTov, ” اسکا مطلب ہے "اچھائی کی طرف رجحان یا جھکاؤ”۔
پیدائش 6:5 میں لکھا ہے
اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اسکے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔
اور یرمیاہ 17:9 میں کہا گیا ہے کہ ؛
دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لا علاج ہے۔ اسکو کون دریافت کرسکتا ہے۔
آپ نے سنا ہی ہو گا کہ لوگ کہتے ہیں کہ” دل کی بات سنو” مگر خدا کی نظر میں ہمارا دل لاعلاج ہے کیونکہ ہمارے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا کچھ پیغام آپ کو زبور 14 اور رومیوں 3 میں بھی نظر آئے گا جس کے مطابق کوئی راستباز یا نیکو کار نہیں، کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں، کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ مگر آخر کیوں؟ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے (سچ ہے!) لوگ اسکے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور چونکہ اس نے ہمیں چنا ہے اس لیے چاہے اگر کوئی برائی بھی کرتا ہے تو وہ انسان خدا کی مرضی سے کرتا ہے!!
مجھے ابھی بھی یاد ہے کافی سال پہلے مجھے کسی نے کہا کہ "دیکھو جی یہوداہ اسکریوتی کو خدا نے چنا تھا کہ یشوعا کو پکڑوائے تو آپ یہ کیوں کہہ رہی ہیں کہ وہ صحیح انسان نہیں تھا، آخر اس نے وہی کیا جو کلام میں کہا گیا تھاَ؟” آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ جو گناہ کرتے ہیں وہ خدا آپ سے کرواتا ہے یا آپ کی اپنی دلی خواہش ہے۔ "یتزر ھ را”
کو ہم یہوداہ اسکریوتی کی مثال میں ہی دیکھ لیتے ہیں کہ آخر اس نے جو یشوعا کو پکڑوایا کیا وہ اسلیے تھا کہ چونکہ خدا نے پیشن گوئی کی تھی اور اسکی یہوداہ کے لیے یہی مرضی تھی اور اسی مرضی کی بنا پر چاہے جو کچھ بھی ہو جائے یہوداہ اسکریوتی پھر بھی آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوگا؟ جیسا کہ کچھ سوچتے ہیں۔
یوحنا 12 باب میں بیان ہے کہ جب مریم نے یشوعا کے پاوں پر قیمتی عطر انڈیلا تو یہوداہ اسکریوتی نے کہا یہ عطر بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا۔ اسکے بعد لکھا ہے ؛
اس نے یہ اسلئے نہ کہا کہ اسکو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اسلیے کہ چور تھا اور چونکہ اسکے پاس انکی تھیلی رہتی تھی اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ (یوحنا 12:6 )
یہوداہ کہنے کو تو یشوعا کا شاگرد تھا مگر اسکو ہمیشہ پیسوں کا لالچ رہتا تھا تبھی شیطان نے اسکو اکسایا کہ یشوعا کو پکڑوائے۔(یوحنا 13) شیطان جب ہم سےبات چیت شروع کرتا ہے تو وہ ہمیں ہماری دل کی خواہش کے مطابق اکسا کر گناہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ حوا کا حوالہ یاد ہے جس کے بارے میں ہم نے کچھ دن پہلے بات کی تھی؟ شیطان تب تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ ہم اسکو اپنا ہاتھ نہ دیں۔ یہوداہ کے اسی لالچ نے اسکو یشوعا کو پکڑوانے پر مجبور کر دیا ۔ یوحنا 13:27 میں لکھا ہے کہ شیطان اس میں سما گیا جب کہ اسی باب کی 2 آیت میں لکھا ہے کہ ابلیس یہوداہ اسکر یوتی کے دل میں ڈال چکا تھا کہ اسے پکڑوائے۔
مجھ سے جو بحث اس بارے میں کر رہے تھے وہ اعمال 1:16 کی آیت کو لے کر بات کر رہے تھے۔ اگر آپ نے میرے آرٹیکل آزمائش کے بارے میں پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ شیطان کو بھی کلام کا علم ہے مگر یشوعا نے شیطان کی ہر بات کا جواب کلام سے ہی دیا تھا۔ اسی طرح سے گو کہ کلام میں لکھا ہے کہ یہوداہ کے بارے میں "نوشتہ کا پورا ہونا ضرور تھا۔۔۔” مگر ساتھ ہی میں پرانے عہد نامے میں خروج 20:13 میں لکھا ہے؛
” تو خون نہ کرنا۔”
یہوداہ نے یہ تو قبول کر لیا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور اس نے پیسے واپس بھی مقدس میں پھینک دیئے مگر اس نے اپنے آپ کو پھانسی دے ڈالی۔(متی 27:5) یتزر ھ را؛ اسکا اپنا برائی کی طرف رجحان آخر میں اسکی موت بن گیا۔ خدا نے قائن کو کہا تھا ؛
پیدائش 4:6 اور 7
اگر تو بھلا کرے تو کیا مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تو اس پر غالب آ۔
ایسی ہی آیت رومیوں 6:14 میں ہے؛
اسلئے کہ گناہ کا تم پر اختیار نہ ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔
گناہ آپ کا اور میرا مشتاق ہے مگر ہمیں اسکو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا ہے کیونکہ اگر ہم نے یہوداہ اسکریوتی کی طرح گناہ کو اپنا اختیار دے دیا تو شیطان ہم میں سما جائے گا۔
میں اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اسکے بارے میں میں مزید اگلے آرٹیکل میں بیان کروں گی۔ خدا آپ کو برائی سے بچائے۔ آمین۔