(دعائے ربانی  (نواں حصہ

"اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔”

اس مطالعے میں ہم صرف "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر بات کریں گے۔

خدا ہمیں خود نہیں آزماتا کیونکہ یعقوب 1:13 سے 15 میں لکھا ہے؛

"جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔”

یشوعا کو علم تھا کہ ہم پر آزمائشیں آئینگی اسلیے اس نے  اس طرح دعا مانگنے کو کہا تاکہ خدا ہمیں آزمائش سے بچا سکے۔ آزمائش ہماری اپنی جسمانی خواہشات سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم اپنی بلاوجہ کی جسمانی خواہشات کو قابو میں نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور کر دے گی اور وہی گناہ ہماری موت کا باعث بن سکتا ہے۔ یعقوب  1:2 سے 4 میں یعقوب نے کہا؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

جب ہم اپنی دنیاوہ خواہشات کو قابو پانا سیکھ لیتے ہیں تو ہم روحانیت میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں ۔

آپ کو علم ہوگا کہ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کو ابلیس نے آزمایا وہ بھی تب جب اسکو بھوک لگی۔ اگر میری طرح کبھی آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا ہے کہ آخر کار جب ہم یشوعا کو خدا کہتے ہیں اور کلام کہتا ہے کہ خدا بدی سے  آزمایا نہیں جا سکتا تو کیونکر یشوعا کو ابلیس نے آزمایا۔ اگر آپ نے میرا آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی زمین پر آنے کی؟” نہیں پڑھا تو اسکو فیس بک کے اس پیج پر تلاش کرکے ضرور پڑھیں۔ اب ہم بات کرتے ہیں کہ آخر یشوعا کیوں آزمایا گیا تھا۔ میں ابھی اس آرٹیکل میں ان چالیس دنوں کی بات نہیں کروں گی بلکہ صرف ابلیس کا یشوعا کو آزمانا بیان کروں گی۔  اگر آپ رومیوں کا 5 باب اور اکرنتھیوں 15  پڑھیں تو آپ جانیں گے کہ پولس (اسکا اصلی نام عبرانی میں شاؤل ہے۔) نے یشوعا کو دوسرا یا  پچھلا آدم کہا ہے۔ پولس نے ذکر کیا کہ آدم کے گناہ کے سبب سے موت آئی اور پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔

 یوحنا  2:16 آیت میں  تین قسم کی دنیاوی  خواہشات کا بیان ہے؛

کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خوہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے۔

یوحنا اس آیت میں واضح کر رہا ہے کہ جسمانی خواہش،  زندگی کی شیخی اور آنکھوں کی خواہش وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔ جیسے شیطان نے عورت کو ورغلایا  تھا  کچھ اسی قسم کی آزمائشات وہ  یشوعا پر بھی  لایا۔ ہم ان تین آزمائشوں کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں مگر اس سے پہلے میں پیدائش 3:6بھی دکھاتی چلوں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں؛

عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اسکے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔

1-      جسم کی خواہش؛

(متی 4:3) اور آزمانے والے نے پاس آکر اس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔

جب سانپ نے عورت کو بہکایا تھا تو اس نے اس سےشکی انداز میں پوچھا "۔۔۔کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ (پیدائش 3:1) اوپر دی آیت میں بھی شیطان جانتے بوجھتے یشوعا کو کہہ رہا ہے "اگر تو خدا کا بیٹا ہے۔” یشوعا بیابان میں تھا جہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا  شیطان اسلئے یشوعا کو جانتے بوجھتے اپنی قوت کا استعمال کرکے پتھر کو روٹیاں بنانے کو کہہ رہا تھا کیونکہ وہ بھوکا تھا۔ حوا کو بھی جب اس نے بہکایا تو "عورت نے دیکھا کہ درخت کھانے کے لیے اچھا ہے۔” پہلے آدم نے اپنی جسمانی خواہش کو قابو میں نہ کیا اس نے اپنے آپ کو خدا کا حکم یاد نہ دلایا مگر یشوعا نے فوراً کلام کا حوالہ دیا اور کہا "لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہ جیتا رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ نکلتی ہے۔(متی 4:4) پرانے عہد نامے میں یہ حوالہ استثنا 8:3 سے ہے۔

2-      زندگی کی شیخی؛

پیدائش کے 3 باب میں جب شیطان نے عورت کو بہکایا تو اس نے کہا "تم ہرگز نہ مرو گے۔بلکہ خدا جانتا ہےکہ جس دن تم اسے کھاوگے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤگے۔

شیطان نے جب یشوعا کو ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے آزمایا تو اس نے کہا "اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔(متی4:6)

 شیطان کو خدا کی باتوں کا علم مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے۔  اس نے جب عورت کو خدا کی مانند بننے کا ذکر کیا  تو وہ تھوڑا بہت سچ ہی کہہ رہا تھا  (پیدائش 3:22)اور ا سلئےحوا نے جب دیکھا کہ عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس نے پھل میں سے لیا۔ جب شیطان نے جانا کہ یشوعا اسکا مقابلہ کلام کی باتوں سے کر رہا ہے تو اس نے کلام(زبور 91) کا استعمال کرکے اسکو پھر سے آزمانا چاہا مگرساتھ ہی پھر سے یشوعا نے اسکو کلام کا ایک اور حوالہ دیا (استثنا 6:16) جس میں کہا  گیا ہے "تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔”  پہلا آدم خدا کے حکموں کو بھلا کر خدا کی مانند بننے کی سوچ رہا تھا مگر یشوعا جانتا تھا کہ خدا نے تو انسان کو اپنی صورت پر ہی بنایا تھا۔

3-      آنکھوں کی خواہش؛

شیطان نے آخر میں یشوعا کو ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں اور انکی شان و شوکت دکھا کر کہا اگر تو مجھے جھک کر سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دونگا۔ (متی 4:8 سے 9)مگر یشوعا نے کہا ائے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے (استثنا 6:13)کہ تو  خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔

حوا نے دیکھ کر کہ پھل خوشنما ہے ؛ گناہ کرنے کا سوچ لیا مگر یشوعا نے جان کر کہ شیطان کیا چاہتا ہے اسکو اپنے سے دور ہونے کا حکم دیا۔  شیطان کا ارادہ شروع سے ہی خدا کے تخت کو چھیننے کا تھا اور یہ جان کر کہ اب یشوعا  زمین پر اپنا اختیار لینے واپس آیا ہے جو خدا نے آدم کو دی تھی؛  اسکو  تمام شان وشوکت  دکھا کر ویسا ہی کرنا چاہا جو اس نے آدم کے ساتھ کیا تھا۔ مگر شکر یہواہ کا کہ یشوعا  شیطان کی چال میں نہیں آیا۔

شیطان جب ہمیں  خدا میں بڑھتا دیکھتا ہے تو ہمیں  گناہ کرنے پر اکساتا ہے۔ وہ ہماری جسمانی خواہشات کو مدنظر رکھ کر ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم گناہ کریں اور خدا سے دور ہو جائیں۔ ہم شیطان پر ویسے ہی قابو پا سکتے ہیں جیسے یشوعا نے کیا مطلب ہر آزمائش کا مقابلہ کلام سے کریں جو ہمیں صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ کلام کا مطالعہ کریں تاکہ آپ آزمائش میں نہ پڑیں۔

 ہم دعائے ربانی کا باقی مطالعہ اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔ خدا مجھے اور آپ کو ہر قسم کی دنیاوی آزمائشوں سے بچا کر رکھے۔ آمین