احبار 10 باب

آپ کلام مقدس سے احبار 
10 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

ہم نے پچھلے باب میں مسکن کی تخصیص کا پڑھا کہ کیسے آٹھویں
دن ہارون اور اسکے بیٹوں  نے تخصیص کے اس
عمل کو پورا کرنا تھا۔ ابھی تخصیص کی تقریب چل ہی رہی تھی کہ ہارون کے بیٹوں نے
اپنے اپنے بخور دان کو لیکر اس میں آگ بھری 
اور اوپری آگ جسکا حکم خداوند نے انکو نہیں دیا تھا خداوند کے حضور گذرانی۔
خداوند کے حضور سے آگ نکلی اور ان دونوں کو کھا گئی اور وہ خداوند کے حضور میں مر
گئے۔



ہم نے خروج کی کتاب میں مسکن کے بننے کی ہدایات کو پڑھا۔
بنی اسرائیل نے اتنی محنت کی اور خداوند کے مسکن کو کھڑا گیا ۔  مسکن کی تخصیص کے ان لمحوں میں جب وہ ابھی خوشی
ہی منا رہے تو یہ سانحہ پیش آیا۔ سوچیں کہ ان تمام باتوں کے سبب سے ہارون اور انکے
بیٹوں پر کیا گزری ہوگی؟ بنی اسرائیل پر کیا گزری ہوگی؟  یہودی دانشوروں کی بہت سی تشریحات کو میں نے
پڑھا کہ جان سکوں کہ آخر کیوں خداوند کے حضور سے نکلی آگ میں وہ دونوں مارے گئے۔
مجھے علم ہے کہ زیادہ تر مسیحی یہی کہیں گے کہ انھوں نے وہ کام کیا جسکا خداوند نے
انکو حکم نہیں دیا تھا اسلئے انکے ساتھ ایسا ہوا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ وجہ بھی
ہے  مگر باب کے درمیان میں یعنی احبار 10:8
سے 10میں میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں ؛

 اور خداوند نے
ہارون سے کہا کہ۔ تو اور تیرے بیٹے مے یا شراب پی کر کبھی خیمہ اجتماع کے اندر
داخل نہ ہوں تاکہ تم مر نہ جاؤ یہ 
تمہارے  لئے  نسل در نسل ہمیشہ تک ایک قانون رہیگا۔ تاکہ
تم مقدس اور عام اشیا میں اور پاک اور ناپاک میں تمیز کر سکو۔

کچھ یہودی دانشوروں کی نظر میں  ندب اور 
ابہیو کے مرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خداوند کے حضور میں شراب  کے نشے میں گئے تھے اسلئے انکے ساتھ ایسا ہوا
اور اسی بنا پر خداوند نے ہارون کو  انکے
اور انکے بیٹوں کے لئے یہ حکم دیا کہ وہ مے یا شراب پی کر کبھی خداوند کی  خدمت  میں داخل نہ ہوں تاکہ وہ مر نہ جائیں۔

اب ذرا احبار 10:3 پر دھیان دیں؛

اور موسیٰ نے ہارون سے کہا یہ وہی بات ہے جو خداوند نے
کہی تھی کہ جو میرے نزدیک آئیں ضرور ہے کہ وہ مجھے مقدس جانیں اور سب لوگوں کے آگے
میری تمجید کریں اور ہارون چپ رہا۔

اس تیسری آیت کو 
اور دسویں آیت کو پھر سے پڑھیں۔ پہلے موسیٰ نبی نے بزرگ ہارون سے کہا  "کہ یہ وہی بات ہے جو خداوند نے کہی کہ جو
میرے نزدیک آئیں ضرور ہے کہ وہ مجھے مقدس جانیں اور سب لوگوں کے آگے میری تمجید
کریں”، پھر دسویں آیت میں خداوند بزرگ ہارون کو کہہ رہے ہیں کہ  "تاکہ تم مقدس اور عام اشیا میں  اور پاک اور ناپاک میں تمیز کر سکو”۔ اور
اسکے بعد ہی وہ سب آئین کو بنی اسرائیل کو سکھا سکیں جو خداوند نے موسیٰ نبی معرفت
انکو دئے تھے۔

کاہن  کا فرض شروع
سے ہی یہی تھا کہ وہ چونکہ خداوند کے نزدیک تھے 
لہذا انکو خداوند کو مقدس جاننا تھا۔ انکو اس بات کو پہچاننا تھا کہ خداوند
پاک ہیں اور انھیں خداوند کی اس پاکیزگی کا خیال رکھنا ہے اور سیکھنا ہے کہ مقدس
اور عام اشیا میں کیا فرق ہے۔ پاک اور ناپاک کیا ہے۔  میں نے احبار کے مطالعے کے تعارف میں بھی اس
بات پر زور دیا تھا کہ اگر آپ اپنے آپ کو خداوند کے مقدس یعنی الگ کئے گئے لوگوں
میں شمار کرتے ہیں تو جیسا کہ نئے عہد نامے میں حکم ہے کہ "پاک ہو کیونکہ وہ
(خدا) پاک ہے” تو پاکیزگی کے یہ احکامات ہمیں  تناخ میں ملتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر  مسیحی یہ سوچتے ہیں کہ وہ  خداوند کے احکامات کے مطابق پاکیزگی کو پہچان
چکے ہیں حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ نہ تو انھیں آج تک مقدس اور عام اشیا کا فرق
معلوم ہے اور نہ ہی وہ خود پاک ہیں اور نہ ہی وہ دوسروں کو اس پاکیزگی کی تعلیم
دیتے ہیں۔ میں نے جب سے  یہودیت کے دائرے
میں رہ کر خداوند کے کلام کو سیکھنا شروع کیا اتنا ہی مجھے رونا آتا تھا کہ ہم
پاکیزگی کے ان احکامات سے بہت بہت دور ہیں۔ میں نے جتنا  مقدس اور عام میں فرق کو پہچاننا شروع کیا اتنے
ہی میرے ذہن میں پاکیزگی سے متعلق سوالات اٹھے ۔ یہودیت کی تعلیم کو جب کھودا تو
جانا کہ میرے وہ سوالات، میرے وہ شک درست تھے۔ اب میرا حال یہ ہے کہ کھانے پینے
کی  اور دوسری چیزوں کو خریدنے سے پہلے ان
پر لگے لیبل کو پڑھتی ہوں۔  خداوند کی
عیدوں پر استعمال کرنے والے برتنوں کو عام روزمرہ کے برتنوں  سے الگ رکھتی ہوں۔  بہت سی اشیا گھر میں خود تیار کرتی ہوں۔ مجھ میں
تبدیلی آئی ہے جو کہ یکدم نہیں تھی۔ مگر میں خداوند کا شکر کرتی ہوں کہ خداوند نے
مجھے اپنے کلام سے، مقدس اور عام اشیا سے واقف کروایا۔ ابھی بھی سیکھ رہی ہوں اور
بہت سی باتوں کو آہستہ آہستہ اپنا رہی ہوں۔

مجھے علم ہے کہ آپ میں سے بہت سے میرے بارے میں  کچھ اور 
سوچ رہے ہونگے کہ میں مسیح کے فضل کو پہچان نہیں پا رہی  اور یہ کہ چونکہ ہم فضل تلے ہیں اسلئے ہمیں یہ
سب کرنے کی ضرورت نہیں اسلئے میں جو کر رہی ہوں وہ فضول ہے۔ یہ آپ  سوچ سکتے ہیں  جبکہ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ یشوعا کا یہ فضل
مجھ پر اسلئے ہوا کہ مجھے ایک موقع مل سکے کہ میں، جو کہ خداوند کے نزدیک آئی
ہوں  ، مقدس اور عام کا فرق پہچان
سکوں۔  میں پاک ہونے کی پوری پوری کوشش
کروں جیسے میرے خداوند پاک ہیں۔ اور میں ایسا ہی کر رہی ہوں۔

 ندب اور ابیہو کی غلط فہمی شاید یہی تھی کہ وہ  عام لوگوں سے زیادہ خداوند کے قریب ہیں اور اگر  وہ خداوند کے حضور میں بخور جلا رہے ہیں جسکا خداوند نے حکم نہیں دیا  تو بھی خداوند اسکو قبول کریں گے۔  میرے خیال میں ٹھوکر انسان کو تبھی پڑتی ہے جب وہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ میں اتنی اونچائی پر ہوں جہاں کوئی مجھے چھو نہیں سکتا۔ میں جو بھی کرونگا/کرونگی قابل قبول  ہو گا۔  پولس رسول افسیوں 5:15 سے 17 میں یوں کہہ رہے ہیں؛

پس  غور سے دیکھو کہ
کس طرح چلتے ہو۔ نادانوں کی طرح نہیں بلکہ داناؤں کی مانند چلو۔ اور وقت کو غنیمت
جانو کیونکہ دن برے ہیں۔ اس سبب سے نادان نہ بنو بلکہ خداوند کی مرضی کو سمجھو کہ
کیا ہے۔

میں نے حزقی ایل 44:23 کا حوالہ احبار کے پچھلے مطالعوں میں دیا تھا کہ کاہن کا فرض  ہے کہ وہ لوگوں کو مقدس اور عام اشیا کا فرق بتائیں جیسے کہ ہم احبار کے اس باب میں بھی پڑھ رہے ہیں کہ خداوند کے یہ  الفاظ واضح  ہیں۔ کاہن سیکھیں، کریں اور سیکھائیں۔  خداوند کل اور آج اور ابد تک یکساں ہیں، یہ بات تو سب ہی مانتے ہیں تو پھر پاکیزگی کے وہ احکامات کیوں کلیسیا سے ختم ہوگئے ہیں جو ابھی بھی قائم ہیں؟  کیا یشوعا کے بعد خداوند کی پاکیزگی ویسی ہی  یکساں نہیں رہی ؟ حزقی ایل 22:26 میں یوں لکھا ہے؛

اسکے کاہنوں نے میری شریعت کو توڑا اور میری مقدس چیزوں کو
ناپاک کیا ہے۔ انھوں نے  مقدس اور عام میں
کچھ فرق نہیں رکھا اور نجس و طاہر میں امتیاز کی تعلیم نہیں دی اور میرے سبتوں کو
نگاہ میں نہیں رکھا اور میں ان میں بے عزت ہوا۔

امید ہے کہ  آپ کسی
ایسے چرچ سے وابستہ نہیں جہاں کلام کی تعلیم دینے والوں نے خداوند کی شریعت کو
توڑا ہے اور خداوند کی مقدس چیزوں کو ناپاک کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کے چرچ کے معلم
ان میں سے نہیں جنہوں نے آپ کو نجس وطاہر میں امتیاز کی تعلیم نہیں دی ااور خداوند
کی سبتوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگر آپ ایسے چرچ سے وابستہ ہیں جہاں کلام کی تعلیم
دینے والے اس اوپر درج آیت کے مطابق ہی کر رہے ہیں تو یقین مانیں انکے ساتھ ساتھ
آپ نے بھی خداوند کی عزت قائم نہیں رکھی۔ آپ بجائے خداوند کی تمجید کے   خداوند کی بے عزتی کا سبب ہیں۔

میرے لئے ان تمام باتوں کو بیان کرنا لازمی تھا تاکہ آپ میں
خداوند کا خوف پیدا کر سکوں کہ آپ خداوند کی تمجید کا سبب بن سکیں۔  اگر آپ مقدس اور عام کا فرق نہیں جانتے تو
خداوند سے التجا کریں کہ وہ آپ کو اسکی تعلیم دے سکیں۔  اور یہی میری آپ کے لئے دعا رہے گی کہ آپ
خداوند کو غیر قوموں میں پاک دکھا سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین

 ہم اگلی دفعہ احبار
11 باب کا مطالعہ کریں گے۔