احبار 9 باب
آپ کلام مقدس سے خود احبار 9 باب کو مکمل
پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات درج کرونگی جن کی ضرورت سمجھونگی۔
احبار 9 باب "آٹھویں دن” سے شروع ہوتا ہے جو کہ تخصیص کے ان سات دنوں سے اگلا دن بنتا ہے جس کے بارے میں ہم نے احبار 8 میں پڑھا تھا۔ آٹھویں دن موسیٰ نبی نے ہارون اور اسکے بیٹوں کو اور بنی اسرائیل کے بزرگوں کو بلایا اور بزرگ ہارون سے کہا کہ وہ اپنے لئے خطا کی قربانی کے لئے بے عیب بچھڑا اور سوختنی قربانی کے لئےبے عیب مینڈھا لے کر خداوند کے حضور قربان کریں۔ خطا کی قربانی کے بارے میں ہم نے پڑھا تھا کہ سردار کاہن ایسی خطا کرے جس سے قوم مجرم ٹھہرتی ہو۔۔۔۔۔ تو ہم جانتے ہیں کہ ہارون نے بنی اسرائیل کے کہنے پر سونے کا بچھڑا بنایا تھا۔ خطا کی قربانی کے لئے بے عیب بچھڑا اُسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کچھ اشارہ اصل عبرانی کلام سے بھی ملتا ہے۔ ویسے تو تخصیص کے سات دنوں میں روزانہ قربانیاں خداوند کے حضور میں لائی گئیں مگر آٹھویں دن تخصیص کا عمل پورا ہوا۔ سوائے جُرم کی قربانی کے باقی تمام قربانیاں چڑھائی گئیں۔ گو کہ تمام قربانیوں کے اپنے اپنے اصول ہیں مگر میں قربانی چڑھانے کا مختصر خلاصہ پیش کر رہی ہوں ۔ یہ وہ اصول ہیں جو تمام قربانیوں میں تقریباً یکساں ہیں گو کہ قمریاں اور کبوتر کے بچوں یعنی پرندوں کی قربانی کا طریقہ کار بہت فرق ہے جس کا ذکر ہمیں اس باب میں نہیں نظر آئیگا۔ میں اس کا طریقہ کار بیان نہیں کر رہی۔ نیچے درج 11 اقدامات چوپایوں کی قربانی کے ہیں۔ میں عبرانی الفاظ کو درج کر رہی ہوں تاکہ آپ ان الفاظ کو جان پائیں۔
- حا وا، הבא، Hava’a یعنی "لانا” قربانی لانا۔ اگر آپ قربانی چڑھانے لگے ہیں تو پہلا قدم قربانی لانے کا ہے جو کہ مسکن کے احاطے میں لائی جاتی تھی۔
- سمی-خا، סמיכה، Semicha سے مراد ہاتھوں کا رکھنا ہے جو کہ پاک چوپائے کے سر پر رکھے جاتے تھے۔
- ودوئی, ודוי، Viduy سے مراد اقرار کرنا ہے۔ ودوئی ، خاص طور پر یوم کفارہ کے دن آج بھی بولی جاتی ہیں۔
- شخیتا، שחיטה، Shechita سے مراد ذبح کرنا ہے۔ لازمی نہیں کہ کاہن ہی چوپائے کو ذبح کرے۔ عام انسان ذبح کر سکتا تھا مگر شخیتا کے اصول کے مطابق جو کہ میں نہیں درج کر رہی۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ میں ان تمام اقدامات کو بیان کرتے ہوئے سمتوں کو بھی بیان نہیں کر رہی جو کہ معنی رکھتی ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان تمام باتوں کے معنی کو گہرائی میں جاننا چاہیں گے۔
- قابلاط ہا –دام، קבלת דם , Kabalat Ha’dam سے مراد خون کو جمع کرنا ہے۔ چوپائے کو ذبح کرتے وقت بہتے خون کو خاص برتن میں جمع کیا جاتا ہے۔
- حالاخا، הלכה , Halakha سے مراد چال ہے۔ کاہن اس برتن کو جس میں خون ہوتا ہے لیکر مذبح گاہ کی طرف چلتے ہیں۔
- ذریکا، זריקא , Zerika سے مراد چھڑکنا ہے کیونکہ کاہن کچھ خون کو مذبح پر چھڑکتے تھے۔
- شیف خات شیرایم، שפיכות שאירים , Shefichat Sherayim سے مراد بچے ہوئے کو انڈیلنا ہے۔ بچے ہوئے خون کو کاہن مذبح کے پایہ پر انڈیل دیتے تھے۔ سمت معنی رکھتی ہے۔
- حاف شیطا وے نیتوآخ، הפשטה ונתוח , Hafshata VaNitu’ach سے مراد کھال جدا کرنا اور کاٹنا کیونکہ ذبح کئے چوپائے کی کھال جدا کر کے اسکے ٹکڑے کاٹے جاتے تھے۔
- حاداخا הדחה , Hadacha سے مراد دھونا یا کھنگالنا ہے۔ قربانی کے ٹکڑوں کو دھویا جاتا تھا۔
- ملیخا وے حاکتراہ، מליחה הקטר , Melacha VeHaktara سے مراد نمک لگانا اور جلانا ہے۔ قربانی کے ٹکڑوں کو دھو کر ان پر نمک لگایا جاتا تھا اور پھر تین بار پانی میں کھنگالا جاتا تھا۔ کلام مقدس میں اس کو عہد کے نمک سے پکارا گیا ہے (احبار 2:13)
چونکہ اس باب میں ہم جرم کی قربانی کے علاوہ تمام قربانیوں
کا پڑھتے ہیں اسلئے میں نے اسی باب میں ان اقدامات کو بیان کیا ہے۔ اب اگر آپ احبار 9 باب کو ایک بار پھر سے پڑھیں
گے تو آپ کو کچھ بہتر سمجھ آئے گی۔ ہارون کو اپنے لئے تو خطا کی قربانی کے لئے
بچھڑا استعمال کرنا پڑا مگر بنی اسرائیل کی خطا کی قربانی کے لئے بکرا استعمال کیا
گیا۔ کاہن اگر گناہ کرے تو اسکا گناہ عام
انسان کے گناہ سے بڑھ کر ہے۔ بے شک خدا کی نظر میں گناہ ، گناہ ہی ہے مگر اس میں
بھی کوئی شک نہیں کہ کچھ گناہ بڑھ کر ہوتے
ہیں جو کہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
بزرگ ہارون نے جماعت کی طرف ہاتھ بڑھا کر انھیں برکت دی ۔ ہم احبار 9:22 میں پھر سے پڑھتے ہیں ؛
اور موسیٰ اور ہارون خیمہ اجتماع میں داخل ہوئے اور باہر
نکل کر لوگوں کو برکت دی۔ تب سب لوگوں پر خداوند کا جلال نمودار ہوا۔
یہودی دانشوروں کے مطابق پہلی برکت کی دعا وہی تھی جس کا ذکر ہم گنتی 6:22 سے 27 میں پڑھتے
ہیں۔ گنتی 6:24 سے 26 میں یوں لکھا ہے؛
خداوند تجھے برکت دے اور تجھے محفوظ رکھے۔ خداوند اپنا چہرہ
تجھ پر جلوہ گر فرمائے اور تجھ پر مہربان رہے۔ خداوند اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ
کرے اور تجھے سلامتی بخشے۔
دوسری بار برکت کی
دعا کے بعد خداوند کا جلال سب لوگوں پر نمودار ہوا۔ اسکے بعد ہم احبار 9:24 میں
پڑھتے ہیں کہ خداوند کے حضور سے آگ نکلی اور سوختنی قربانی اور چربی کو مذبح کے
اوپر بھسم کر دیا۔ جس کے سبب سے لوگوں نے نعرے مارے اور سرنگوں ہوئے۔ پہلے سات
دنوں تک جو قربانیاں چڑھائی گئیں ان پر خداوند کے حضور سے آگ نہیں نکلی مگر آٹھویں
دن نکلی۔
خداوند کے کام میں جلدی کا کوئی کام نہیں ہر ایک کام کا ایک
وقت مقرر ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو میں ابھی بھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اتنا جان
کر بھی اب بھی خداوند سے بہت سی باتوں کے
لئے دعا رہتی ہے کہ دعا جلدی پوری ہو
جائے۔ میں ان دعاوں کا جواب خداوند کے
مقررہ وقت سے کم اپنے وقت پر چاہتی ہوں۔ کلام کی ایسی ہی آیات مجھے بار بار یاد دلاتی
ہیں کہ مجھے صبر سے خداوند کا انتظار کرنا ہے کیونکہ خداوند کا مقرر کردہ وقت ہی
صحیح وقت ہے۔ امید ہے آپ بھی اس پر غور کریں گے۔
خداوند خدا آپ کے ساتھ ہوں۔ آمین ۔ ہم اگلی بار احبار 10
باب کا مطالعہ کریں گے۔